مشرقی اتر پردیش میں کانگریس کے لئے کیا امکانات ہیں؟

مشرقی اتر پردیش میں شناخت کی سیاست سب سے زیادہ تلخ ہے۔ پٹیل، کرمی، راج بھر، چوہان، نشاد، کرمی- کشواہا وغیرہ کی اپنی پارٹیاں بن چکی ہیں اور ان کی اپنی کمیونٹی پر گرفت بےحد مضبوط ہے۔ کانگریس کو ان سب کے درمیان اپنے لئے کم سے کم 20 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کرنا ہوگا تبھی وہ یوپی میں باعزت مقام پا سکتی ہے۔

مشرقی اتر پردیش میں شناخت  کی سیاست سب سے زیادہ تلخ  ہے۔ پٹیل، کرمی، راج بھر، چوہان، نشاد، کرمی- کشواہا وغیرہ کی اپنی پارٹیاں بن چکی ہیں اور ان کی اپنی کمیونٹی  پر گرفت بےحد مضبوط ہے۔ کانگریس کو ان سب کے درمیان اپنے لئے کم سے کم 20 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل  کرنا ہوگا تبھی وہ یوپی میں باعزت مقام پا سکتی ہے۔

گجرات کے گاندھی نگر میں ہوئی ایک میٹنگ میں کانگریس جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی (فوٹو : پی ٹی آئی)

گجرات کے گاندھی نگر میں ہوئی ایک میٹنگ میں کانگریس جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی (فوٹو : پی ٹی آئی)

پرینکا گاندھی کی سیاست میں انٹری، ایک ہفتے میں اتر پردیش کی 27 سیٹوں پر امیدوار کا اعلان اور بھیم آرمی کے رہنما چندرشیکھر راون سے ملاقات – گویا کانگریس نے یوپی کی سیاست میں قرینے سے بازی کی  شروعات  کر دی ہے۔اب کانگریس یوپی میں پرینکا گاندھی کے دھواں دھار دوروں کے ذریعے انتخابی ماحول کو پوری طرح بدل دینے کی تیاری میں لگی ہے۔ان سب کے باوجود لاکھ ٹکے کا سوال بنا ہوا ہے کہ 2019 کے انتخاب میں کانگریس کتنا آگے بڑھ پائے‌گی۔ کیا وہ سال 2009 کے اپنے مظاہرہ کو دوہرا پائے‌گی؟

23 جنوری 2019 کو جب پرینکا گاندھی کی سیاست میں انٹری اور ان کو مشرقی اتر پردیش کے کمان کا اعلان ہوا تو سب کے سامنے واضح ہو گیا کہ اتر پردیش میں لمبے عرصے سے حاشیے پر رہ رہی پارٹی کو نئے سرے سے کھڑا کرنے کے لئے کانگریس نے اپنا آخری ہتھیار کو چلا دیا ہے۔2019 کا انتخاب جنگ عظیم کی طرح ہے۔ جنگ عظیم میں ہر جماعت اپنے تمام ہتھیارکا استعمال کرے‌گا کیونکہ سب کا وجود داؤ‌ پر لگا ہوا ہے۔ اس جنگ عظیم میں کوئی بھی جماعت اپنے ناقابل خطا حملہ کرنے والے ہتھیار کو پویلین میں نہیں بٹھا سکتا۔

پرینکا گاندھی کو میدان میں اتارنے کا فیصلہ، اسی حکمت عملی کا حصہ تھا کیونکہ اگر اس انتخاب میں کانگریس یوپی میں اچھا مظاہرہ نہیں کر پاتی ہے تو اس کا سیدھا مطلب ہوگا کہ دیگر ریاستوں میں اچھے مظاہرہ کے باوجود مرکز کی سیاست میں اس کی واپسی نہ صرف مشکل ہوگی بلکہ علاقائی جماعتوں کے پیچھے اس کو چلنا پڑے‌گا۔سال 1989 کے بعد سے کانگریس یوپی میں میں اسٹریم سیاست  سے حاشیے پر چلی گئی۔ سال 2009 کے لوک سبھا انتخاب کو چھوڑ‌کر کسی بھی اسمبلی یا لوک سبھا انتخاب میں اس کا مظاہرہ ٹھیک نہیں رہا۔

سال 2014 کی لوک سبھا اور 2017 کے اسمبلی انتخاب نے تو اس کے وجود کو تقریباً ختم کر دیا۔ لوک سبھا میں اس کو صرف رائے بریلی اور امیٹھی کی سیٹ آئی جبکہ اسمبلی میں اس کو صرف سات سیٹیں ملیں۔ان تین دہائیوں میں کانگریس نے اپنی واپسی کے لئے ہر کوشش کی۔ یہاں تک کہ ایس پی  سے اتحاد بھی کیا لیکن اس کا ساتھ بھی کام نہیں آیا۔ بار بار ریاستی صدر اور انچارج بدلے گئے۔ راہل گاندھی نے لمبی کسان یاترا کی پھر بھی پارٹی میں جان نہیں آ سکی۔

پوری پارٹی میں مایوسی کا ماحول بن گیا۔ تمام بڑے رہنما پارٹی کا ساتھ کر چھوڑ بی جے پی اور دیگر جماعتوں میں چلے گئے۔ لیکن حال کے کچھ مہینوں سے حالات بدلے ہیں۔کرناٹک میں جنتا دل سیکولرکے ساتھ حکومت بنانا اور پھر مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، راجستھان میں جیت نے کانگریسیوں کے حوصلے کو ساتویں آسمان پر پہنچا دیا ہے۔ ان کو لگتا ہے کہ کانگریس کی واپسی ہو رہی ہے اور 2019 کا انتخاب ان کو پھر سے مرکز کے اقتدار میں پہنچا دے‌گا۔مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، راجستھان کی جیت‌کے بعد کانگریسی یہ بھی کہنے لگے کہ یوپی میں کسی پارٹی کے ساتھ اتحاد کی ضرورت نہیں ہے۔ پارٹی اپنے بل بوتے بھی اچھا مظاہرہ کر سکتی ہے۔

ایس پی  اور بی ایس پی کا اتحاد ہونے اور اتحاد میں جگہ نہ دیے جانے سے کانگریس کے پاس اس کے سوا کوئی چارا بھی نہیں تھا کہ وہ اکیلے انتخاب میں اترے۔ اب جب کانگریس اکیلے انتخاب میں اتر گئی ہے تو اس کے سامنے اکھلیش-مایاوتی اور مودی-یوگی سے مقابلہ کرنے لائق پارٹی تنظیم کھڑا کرنے اور یوپی کے لئے بڑے چہرے کی ضرورت ہے۔پرینکا گاندھی کو میدان میں اتارکر  چہرے کی کمی کو دور کر لیا گیا ہے لیکن پارٹی کی تنظیمی کمزوری برقرار ہے اور عین انتخاب کے وقت اس میں زیادہ کچھ کیا بھی نہیں جا سکتا۔ سوائے اس کے کہ کارکن پرجوش رہیں اور اپنی پوری قوت انتخاب میں لگا دیں۔

پرینکا گاندھی کو مشرقی اتر پردیش کی ذمہ داری  دینے   کا فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر لیا گیا ہے۔یوں تو مشرقی اتر پردیش میں 24 اضلاع وارانسی، سون بھدر، سلطان پور، سدھارتھ نگر، سنت کبیرنگر، مرزاپور، مئو، مہراج گنج، کوشی نگر، جون پور، گونڈا، گورکھ پور، دیوریا، چندولی، بھدوہی، بستی، بہرائچ، بلرام پور، بلیا، اعظم گڑھ، امبیڈکرنگر، امیٹھی آتے ہیں، لیکن پرینکا گاندھی ریاست کی 80 لوک سبھا سیٹوں میں سے آدھی یعنی کی 40 سیٹوں پر پارٹی کی ذمہ داری سنبھال رہی ہیں۔

اس میں وسط یوپی کے اضلاع بھی شامل ہیں۔ یہ فیصلہ اس لئے کیا گیا ہے کہ سال 2009 میں پارٹی نے جو 21 سیٹیں جیتی تھیں، ان میں 90 فیصدی مشرقی اتر پردیش کی ہی تھیں۔سال 2009 میں پارٹی کو مرادآباد، بریلی، کھیری، دھورہرا، اناؤ، رائے بریلی، امیٹھی، سلطان پور، پرتاپ گڑھ، فرخ آباد، کانپور، اکبرپور، جھانسی، بارہ بنکی، فیض آباد، بہرائچ، شراوستی، گونڈا، ڈمریاگنج، مہراجگنج، کوشی نگر کی سیٹ پر جیت ملی تھی۔سال 2014 میں مودی لہر‌کے باوجود ان میں سے کئی سیٹوں پر کانگریس مضبوطی سے لڑی تھی اور دوسرا مقام حاصل کیا تھا۔ اس میں کوشی نگر، بارہ بنکی، کانپور کی سیٹ اہم ہے۔ ان مقامات پر ہار کا فرق بھی ایک لاکھ کے اندر تھا۔


یہ بھی پڑھیں: کیا پرینکا اکیلے مودی اور یوگی کو روک پائیں گی ؟


یہاں ایک اور پہلو غور طلب ہے کہ پارٹی کو بھلے 7.5 فیصدی ووٹ اور دو سیٹیں ملی تھیں لیکن وہ 15 اسمبلی سیٹوں پر سب سے آگے رہی تھی جبکہ بی ایس پی  19.6 فیصدی ووٹ حاصل کر صرف 9 اسمبلی سیٹوں پر آگے تھی اور وہ کوئی لوک سبھا سیٹ بھی نہیں جیت پائی تھی۔مشرقی اتر پردیش میں کانگریس کا دوسرا مضبوط پہلو یہ ہے کہ اس کے پاس بھلے تنظیم نہ ہو لیکن قد آور رہنماؤں کی بڑی جماعت موجود ہے۔ یہ رہنما کافی وسائل والے  ہیں اور خود کا نیٹ ورک اور وجود رکھتے ہیں۔ اپنے-اپنے علاقے میں ان کی موجودگی برابر رہتی ہے۔

ان رہنماؤں میں ڈاکٹر سنجے سنگھ (سلطان پور)، پی ایل پنیا (بارہ بنکی)، جتن پرساد (دھورہرا)، سلمان خورشید (فرخ آباد)، جناب پرکاش جیسوال (کانپور)، انو ٹنڈن (اناؤ)، نرمل کھتری (فیض آباد)، ونئے کمار (شراوستی)، آر پی این سنگھ (کشی نگر)، اکھلیش پرتاپ سنگھ (دیوریا) اہم ہیں۔ان رہنماؤں کو بھروسہ ہے کہ پرینکا گاندھی کے طور پر مقبول عام چہرہ  مل جانے سے وہ اپنی سیٹ آسانی سے جیت سکتے ہیں۔ پارٹی نے خود کو احیائےنو کرنے کی کوششوں میں حال کے سالوں میں سب سے زیادہ فوکس مشرقی اتر پردیش میں ہی کیا ہے۔

راہل گاندھی کی کسان یاترا انہی علاقوں میں ہوئی۔ کانگریسی  رہنما اجئے کمار للو مشرقی اتر پردیش کے کوشی نگر ضلع کے تمکوہی سے آتے ہیں۔ یوتھ کانگریس کے صدر کیشو چندر مشرقی اتر پردیش کے ہی دیوریا ضلع کے رہنے والے ہیں۔کانگریس کی حمایت میں ایک اور بات ہوگی وہ یہ کہ اس کے پاس امیدواروں کی کمی نہیں ہوگی۔ ایس پی –بی ایس پی کا اتحاد ہونے کی وجہ سے ان جماعتوں سے انتخاب لڑنے والے امیدواروں کے لئے کانگریس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ بی جے پی کی بس خالی نہیں ہے۔

ایس پی –بی ایس پی اتحاد میں جگہ نہ ملنے کی وجہ سے چھوٹی جماعتوں کی بھی پسند کانگریس بنی ہوئی ہے۔ یہ صورت حال  کانگریس کے لئے نفع بخش ہے۔ اس کو ہر سیٹ پر عوامی چہرے مل سکتے ہیں۔ اس میں دلت اور او بی سی ذاتوں کے رہنماؤں کی تعداد زیادہ ہے۔لیکن دوسری جماعتوں سے آئے رہنماؤں کو ٹکٹ دینے میں کانگریس احتیاط برت رہی ہے۔ اس کی سوچ ہے کہ کہیں اس سے تنظیم کی تعمیر حاشیے پر نہ چلا جائے۔ دوسری جماعتوں سے آئے رہنما انتخابی موسم جاتے ہی پھر اپنا راستہ پکڑ سکتے ہیں۔ پھر بھی کانگریس کو جتاؤ امیدواروں کی ضرورت ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس پہلو پر بھی زور ہے کہ ریاست میں پارٹی اپنے پیر پر مضبوطی سے کھڑی ہو جائے۔

اس کے علاوہ کانگریس دلت، برہمن، مسلمان کے اپنے پرانے ووٹ بینک کو پانا چاہتی ہے۔ اس بار کا انتخاب اس کو اس ووٹ بینک کو اپنے پاس لانے کے لیے سب سے فائدےمند لگ رہا ہے کیونکہ نیچے کی سطح پر بھی یہ اشارہ جا رہا ہے کہ بی جے پی اپنی چمک کھو رہی ہے اور کانگریس کی واپسی ہو سکتی ہے۔یہ تینوں ووٹ بینک اپنی اپنی وجہوں سے بی جے پی سے کافی ناراض ہیں۔ مسلمانوں میں اب بی جے پی کے تئیں کچھ بھی ہمدردی نہیں بچی ہے۔ مرکز اور ریاست میں اقتدار میں آنے کے بعد مسلمانوں اور ان کے ذریعہ معاش پر جس طرح سے حملے بڑھے ہیں، اس سے مسلمان حکمتِ عملی کے طور پر بی جے پی کو ہرانے کے لئے اور زیادہ پرعزم ہیں۔

روہت ویمولہ کی خودکشی، چندرشیکھر راون کی گرفتاری، پھولن دیوی کے قتل کے ملزم شیر سنگھ رانا کو اقتدار کی طرف سے  تحفظ، اونا میں دلتوں کی پٹائی، اشرافیہ  کو اقتصادی بنیاد پر ریزرویشن دینے، ایس سی/ایس ٹی ایکٹ کو کمزور کرنے کی کوشش، 13 پوائنٹ روسٹر وغیرہ نے دلتوں کو بی جے پی سے دور کر دیا ہے۔دلتوں میں بی ایس پی  کی گرفت اب بھی بنی ہوئی ہے لیکن مرکزی اقتدار میں بی ایس پی  کی کمزور دعوےداری، دلت سوالوں پر جدو جہد کے بجائے صرف بیان بازی تک محدود رہنے، ٹکٹ تقسیم میں فیک  امیدواروں کو توجہ دینے کی وجہ سے دلتوں کا اس سے دل ٹوٹ رہا ہے۔

کانگریس صدر راہل گاندھی اور جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی (فوٹو : پی ٹی آئی)

کانگریس صدر راہل گاندھی اور جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی (فوٹو : پی ٹی آئی)

سب سے دلچسپ ہے برہمنوں کے سیاسی عمل میں تبدیلی۔ سال 2014 کی لوک سبھا اور 2017 کی اسمبلی انتخاب میں برہمنوں نے بی جے پی کو بھرپور حمایت دی۔ بی جے پی نے بھی برہمنوں کو ٹکٹ دینے میں فیاضی دکھائی لیکن یوگی آدتیہ ناتھ کے وزیراعلیٰ بننے سے ان کو زور کا جھٹکا لگا۔اس کے بعد ایس سی/ایس ٹی ایکٹ پر سپریم کورٹ کے فیصلے کو مرکزی حکومت کے ذریعے پلٹنے سے یوپی کے برہمن سب سے زیادہ ناراض ہیں۔ان کو مودی حکومت سے یہ امید نہیں تھی۔ ایس سی/ایس ٹی ایکٹ کو لےکے اشرافیہ  میں سب سے زیادہ جارحانہ برہمن ہی رہے ہیں۔

برہمنوں کا یوپی کی بی جے پی حکومت سے ناراضگی لکھنؤ میں ایپل کمپنی کے مینیجر کا پولیس کے ذریعے قتل کے واقعہ میں بہت صاف طور پر دکھی۔ یہ ناراضگی صرف اس معاملے  پر نہیں تھی بلکہ یوگی حکومت کے خلاف برہمنوں کا جمع غصہ تھا جو اس  کے بہانے ظاہر ہوا۔برہمنوں کو لگتا ہے کہ یوگی آدتیہ ناتھ کے وزیراعلیٰ بننے سے تنظیم اور اقتدار میں راجپوتوں کا تسلط بڑھا ہے اور ان کی دعوےداری کمزور ہوئی ہے۔ایس پی –بی ایس پی اتحاد میں بھی برہمن اپنے کو نہیں دیکھ  پا رہے ہیں۔

ایسے میں برہمنوں کی کانگریس کے تئیں پرانی محبت جاگ سکتی ہے۔ ویسے بھی برہمن اقتدار کے ساتھ جڑتے ہیں اور اپنی حامی پارٹی کے لئے ماحول بنانے میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ ماضی میں بی ایس پی کے ہاتھی کے لئے وہ کافی کچھ کر چکے ہیں۔ان سب حالات کے باوجود پرینکا گاندھی کے لئے سب کچھ  آسان نہیں ہے۔ سماجی بنیاد کے طور پر کانگریس کے پاس اپنا کوئی ووٹ بینک نہیں ہے۔ایس پی –بی ایس پی  کے اتحاد سے پچھڑے اور دلت ووٹ بینک میں پھوٹ لگانا آسان نہیں ہے۔ اشرافیہ  میں ناراضگی کے باوجود بی جے پی سے الگ کسی جماعت کا دامن تھامنے کی گنجائش کم ہی دکھتی ہے۔

مشرقی اتر پردیش ہی وہ علاقہ ہے جہاں شناخت کی سیاست سب سے زیادہ تلخ ہے۔ پٹیل، کرمی، راج بھر، چوہان، نشاد، کرمی-کشواہا وغیرہ  کی اپنی-اپنی پارٹیاں بن چکی ہیں اور ان کی اپنی کمیونٹی  پر گرفت بےحد مضبوط ہے۔کانگریس کو ان سب کے ووٹ بینک کو منتشر کر اپنے لئے کم سے کم 20 فیصدی سے زیادہ ووٹ حاصل  کرنا ہوگا تبھی وہ یوپی میں باعزت مقام پا سکتی ہے۔

(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں اور گورکھپور فلم فیسٹیول کے آرگنائزر ہیں۔یہ مضمون بنیادی طور پر گورکھپور نیوز لائن ڈاٹ کام پر شائع ہوا ہے۔)

Next Article

اسرائیل کا جوہری پروگرام: پردہ اٹھانے کی ضرورت

اگرچہ اسرائیل نے سخت رازداری قائم رکھی ہے، تاہم جوہری ماہرین کے درمیان اس بات پر اتفاق ہو چکا ہے کہ اسرائیل ایک جوہری طاقت ہے۔ مگر شفافیت نہ ہونے کی وجہ سے اس کی صلاحیتیں، حکمت عملیاں اور خطرے کی حدود اب بھی اندھیرے میں چھپی ہیں۔یہ ابہام ایک طرف دشمنوں کو باز رکھنے کا ذریعہ ہے، تو دوسری طرف کھلے اعتراف سے بچنے کا طریقہ ہے۔

علامتی تصویر، بہ شکریہ ایکس: @TheFlagOfIsrae

پوکھرن میں جوہری تجربات کے چار ماہ بعد وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کو خطاب کرنے کے لیے ستمبر  1998کو نیو یارک آپہنچے تھے۔ منموہن سنگھ اور موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی کے برعکس ان کے کام کا طریقہ نہایت آسان، سست مگر چست ہوتا تھا۔ وہ صرف کام اور کام پر یقین نہیں رکھتے تھے۔

بالعموم وہ شام کو کوئی اپائنٹمنٹ نہیں رکھتے تھے اور دن میں بھی لنچ کے بعد وہ وزیر اعظم ہاؤس کے احاطہ میں موجود رہائشی بنگلہ میں قیلولہ کرنے چلے جاتے تھے۔ اس لیے بیرون ملک ان کے سرکاری دورے تین دن کے بجائے پانچ دن کے رکھے جاتے تھے۔ ان کے ساتھ میڈیا ٹیم کے مزے ہوتے تھے۔

ایک تو وہ خود بھی ملنا جلنا پسند کرتے تھے۔ پھر چونکہ ان کی تین یا چار سے زیادہ اپائنٹمنٹ نہیں ہوتی تھیں، اس لیے میڈیا ٹیم کو اس شہر کو دیکھنے اور خریداری کرنے کے بھر پور مواقع فراہم ہوتے تھے۔

یہ عیاشیاں سنگھ کے دور میں نہیں ہوسکتی تھی،کیونکہ ان کے کام کاج کا اسٹائل ہی اذیت بھرا ہوتا تھا۔ مودی نے ویسے تو میڈیا ٹیم کو ساتھ لینا ہی بندکردیا، مگر ان کا بھی ورک اسٹائل منموہن سنگھ جیسا خود گزیدہ ہے۔

خیر نیو یارک کے اس دورہ کے دوران ان کی اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو سے ملاقات طے تھی۔ نیتن یاہو بھی پہلی بار 1996 میں وزیر اعظم کی کرسی پر فائز ہو گئے تھے۔ میڈیا ٹیم کو بتایا گیا کہ وزیر اعظم کی ملاقاتوں کے حوالے سے دوپہر کو بریفنگ ہوگی اور تب تک ہندوستانی سفارت خانے نے ان کے لیے شہر گردی کا پروگرام رکھا  ہواہے۔

ایک ہندی اخبار کے ایڈیٹر کا اپنا کوئی پروگرام تھا، اس لیے انہوں نے اس ٹیم میں شمولیت نہیں کی۔ اسی ہوٹل کے ایک سیوٹ میں نیتن یاہوکو وزیر اعظم واجپائی کا استقبال کرنا تھا۔ جب یہ ایڈیٹر باہر جانے کے لیے لابی میں آئے، تو واجپائی دروازے سے اندر آرہے تھے۔ چونکہ وہ خاصے یار باش شخص تھے اور ایڈیٹر صاحب کو ایک عرصے سے جانتے تھے انہوں نے ان کا حال چال پوچھا اور ہاتھ پکڑ کر سیوٹ میں اپنے ساتھ لے گئے، جہاں نیتن یاہو ان کا انتظار کر رہے تھے۔

 اسرائیلی وزیر اعظم نے واجپائی کا استقبال کرتے اور ان کو گلے لگاتے ہوئے کہا؛

مسٹر پرائم منسٹر، اب آپ نیوکلیر ہیں، ہم نیوکلیر ہیں، کیوں نہ ہم اس طرح (گلے لگتے ہوئے) پاکستان کو کرش کریں۔

ہندوستانی وزارت خارجہ کے افسران کے پسینے چھوٹ رہے تھے۔ اسرائیلی وزیر اعظم پہلی بار نیوکلیر ہونے کا اعلان ایک صحافی کے سامنے کر رہے تھے۔ واجپائی ابھی بھی ایڈیٹر صاحب کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے اور ان کو اپنے پاس ہی بٹھایا ہوا تھا۔

خیر سفارت خانے کے کسی افسر کی دماغ کی بتی جل گئی، انہوں نے ایڈیٹر صاحب سے کہا کہ باہر ریسیپشن پر آپ کا فون آیا ہے۔ ان کو باہر لےجاکر دروازہ بند کروادیا۔ ان کو تاکید کی گئی کہ جو کچھ انہوں نے دیکھا اور سنا، اس کی تشہیر نہیں ہونی چاہیے اور سرگوشیوں میں بھی کبھی یہ سننے میں نہیں آنا چاہیے، ورنہ ان کو نتائج بھگتنا پڑیں گے۔

ایڈیٹر صاحب اور میڈیا ٹیم میں جن افراد کو بھنک مل گئی تھی، نے بھی اس کی کسی کو ہوا لگنے دی نہ کبھی اس کو اخبارات کی زینت بنادیا۔

خیر جس طرح خاص طور پر مغربی دنیا  ابھی ایران اور شمالی کوریا اور ماضی میں پاکستان اور ہندوستان کے ایٹمی پروگرام پر نظریں جمائے ہوئے بیٹھی تھی، اب وقت آگیا ہے کہ ان کو اسرائیل کے مبہم اور غیر اعلانیہ ایٹمی ذخیرہ کا بھی نوٹس لینا چاہیے۔ کیونکہ جس طرح کے غیرذ مہ دار لیڈران اس وقت تل ابیب میں برسر اقتدار ہیں، وہ کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔

اسی ایٹمی ذخیرہ کی سیکورٹی اور اس کے غلط استعمال کو روکنا بین الاقوامی سفارت کاری کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔

ویسکونسن پروجیکٹ آن نیوکلئیر آرمز کنٹرول کے مطابق اسرائیل کے پاس ایٹمی ہتھیار موجود ہیں۔ ان کے ذخیرے کا اندازہ 90 سے لے کر 400 وار ہیڈز تک لگایا جاتا ہے، اور کہا جاتا ہے کہ اسرائیل نے ایک مکمل ایٹمی سہ جہتی نظام (ٹریایڈ) تیار کر لیا ہے: ایف-15 اور ایف-16 لڑاکا طیاروں سے بم گرانے کی صلاحیت، ڈولفن کلاس آبدوزوں سے کروز میزائل داغنے کی صلاحیت، اور بین البرِاعظمی مار کرنے والی ‘یریکو’ میزائل سیریزان کی اسلحہ انوینٹری میں شامل ہے۔

بتایا جاتا ہے کہ اسرائیل نے اپنا پہلا قابلِ استعمال ایٹمی ہتھیار 1966 کے آخر یا 1967 کے اوائل میں تیار کر لیا تھا، جو اسے دنیا کی آٹھویں ایٹمی قوت بناتا ہے۔ اس کے باوجود اسرائیل نے ‘مبہم پالیسی’ اختیار کر رکھی ہے—نہ کبھی تصدیق نہ انکار کیا۔

اس مبہم پالیسی کو حالیہ دنوں میں ایران پر اسرائیل کے بڑے پیمانے پر فضائی حملوں کے بعد ایک بار پھر توجہ ملی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق، یہ نہ صرف تہران بلکہ پورے خطے کو اسرائیل کی روایتی اور ممکنہ ایٹمی صلاحیتوں کا پیغام تھے۔

جوہری امور کی ماہر سوزی سنائیڈر نے اس حوالے سے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ دنیا اسرائیل کے ایٹمی پروگرام پر بھی بات کرے، جو خطے کے لیے ایک خطرہ ہے۔عالمی شفافیت کے مطالبوں کے باوجود، اسرائیل نے آج تک ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے (این پی ٹی) پر دستخط نہیں کیے۔

اس کا موقف ہے کہ علاقائی امن اور باہمی اسلحہ کنٹرول کے معاہدے اس سے پہلے ہونا چاہیے۔ یہی موقف اسے بین الاقوامی معائنے کے نظام سے باہر رکھتا ہے۔ستم ظریفی یہ ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام کی بین الاقوامی اٹامک انرجی ایجنسی مسلسل مانیٹرنگ کرتی ہے، مگر اسرائیلی جوہری پروگرام تک اس کی رسائی ہے نہ ہی اس کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔

حالیہ برسوں میں اسرائیلی حکام کے بیانات سے اس کی صلاحیتوں کو زیادہ واضح طور پر تسلیم کرنے کے اشارے ملے ہیں۔ 2023 میں اُس وقت کے وزیرامیحائی ایلیاہو،  نے غزہ پر ایٹم بم استعمال کرنے کی تجویز  دی تھی، جس پر انہیں وزیرِاعظم نیتن یاہو نے معطل کر دیا۔

اگرچہ اس بیان کی سرکاری طور پر تردید کی گئی، مگر اس نے اسرائیل کے ایٹمی ارادوں اور تیاریوں کے بارے میں شکوک و شبہات کو مزید تقویت دی۔

اسرائیل کے ایٹمی پروگرام کی تاریخ  1948 میں اس کے قیام کے ساتھ ہی شروع ہوگئی تھی۔ فرانس کی مضبوط پشت پناہی اور خفیہ ذرائع سے ضروری مواد اور ٹکنالوجی حاصل کر کے، اسرائیل نے ‘دیمونا’ میں نیگیو نیوکلئیر ریسرچ سینٹر تعمیر کیا۔1986 میں ایک وسل بلور خائی وانونو کے انکشافات نے اس پروگرام کی پہلی جھلک دنیا کے سامنے رکھی، جس میں ایڈوانس ہتھیاروں کے ڈیزائن، بشمول تھرمو نیوکلئیر وار ہیڈز کی تصاویر شامل تھیں۔

وانونو کو بعد میں اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد نے روم سے اغوا کر کے اسرائیل لا کر غداری کے الزام میں سزا دلوادی۔نامور مؤرخ ایوینر کوہن کے مطابق، اسرائیل نے 1966 میں باضابطہ طور پر اپنی ایٹمی پالیسی تشکیل دی۔ اس کی نیوکلیر ڈاکٹرائن میں چار ریڈ لائنز متعین کی گئیں۔ان میں  اسرائیل کی 1967 سے پہلے کی سرحدوں میں فوجی مداخلت، اسرائیلی فضائیہ کی مکمل تباہی؛ اسرائیلی شہروں پر زہریلی گیس یا حیاتیاتی ہتھیاروں سے مہلک فضائی حملے؛ اور اسرائیلی سرزمین پر ایٹمی حملہ شامل ہیں۔

معروف صحافی سیمور ہرش نے اپنی کتاب ‘دی سیمسن آپشن’ میں دعویٰ کیا کہ اسرائیل  1973 کی یوم کپور جنگ کے دوران ایٹم بم کو استعمال کرنے کے قریب پہنچ گیا تھا۔ 8 اکتوبر کو، جنگ کے چند دن بعد، وزیرِاعظم گولڈا مئیر اور ان کے مشیروں نے مبینہ طور پر آٹھ جوہری ہتھیاروں سے لیس ایف-4 فینٹم طیاروں کو ‘تل نوف’ ائیر بیس پر ہمہ وقت الرٹ پر رکھاہوا تھا۔ اسی دوران ‘سدوت میخا’ بیس پر جوہری میزائل لانچرز بھی فعال کیے گئے تھے۔

ہرش کے مطابق، اسرائیل کے ابتدائی اہداف میں قاہرہ اور دمشق میں مصری اور شامی فوجی ہیڈکوارٹر شامل تھے۔ یہ الرٹ محض دفاعی نہیں تھا بلکہ سوویت یونین کے لیے پیغام تھا کہ وہ اپنے عرب اتحادیوں کو لگام دے، اور امریکہ پر دباؤ ڈالنا تھا تاکہ وہ اسرائیل کی بکھری ہوئی فوج کے لیے بھاری فوجی امداد فراہم کرے۔

بتایا جاتا ہے کہ ایک سوویت انٹلی جنس افسر نے مصر کے فوجی سربراہ کو اسرائیلی ایٹمی تیاریوں سے آگاہ کیا تھا۔ ادھر امریکی قومی سلامتی کے مشیر ہنری کسنجر کے قریبی افراد نے بعد میں تسلیم کیا کہ جوہری خطرے کے خدشے نے واشنگٹن کو فوجی امداد کے جلد آغاز پر مجبور کردیا۔

کسنجر کے سوانح نگار مارٹن انڈک کے مطابق اسرائیل کی ناقابل تسخیریت کے بھر م کو توڑنے کے لیے اس جنگ کے ابتدائی دنوں میں امریکہ نے مداخلت سے گریز کیا تھااو ر مصر کو پوری آزادی دی۔ اسرائیل کے دماغ میں دوبارہ بٹھایا گیا کہ اس کا وجود امریکہ کے مرہون منت ہے۔

ہرش کا مزید کہنا ہے کہ سیٹلائٹ نگرانی کی صلاحیت حاصل کرنے سے پہلے، اسرائیل نے سوویت اہداف کی معلوما ت امریکہ کی خفیہ ایجنسیوں کی جاسوسی کرکے حاصل کی تھی۔ 1991 کی خلیجی جنگ میں جب عراق نے اسرائیل پر اسکڈ میزائل داغے، اسرائیل نے مکمل ایٹمی الرٹ نافذ کردیا تھا۔ ممکنہ کیمیائی یا حیاتیاتی حملے کے خدشے کے تحت جوہری صلاحیت والے موبائل میزائل لانچرز تعینات کیے گئے۔ اگرچہ اسرائیل نے امریکی دباؤ کے تحت جوابی کارروائی سے گریز کیا، لیکن یہ لمحہ بھی ایک سنجیدہ جوہری غور و فکر کی مثال بن گیا۔

اسی طرح 2003  میں بھی امریکی صدر جارج بش کو اسرائیلی وزیرِاعظم ایرئیل شیرون نے خبردار کیا تھا کہ اگر اسرائیل کو بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہوا، تو اسرائیل ایٹمی اسلحہ کا استعمال کر سکتا ہے۔

فوجی تجزیہ کار اور منصوبہ ساز تسلیم کرتے ہیں کہ اگرچہ اسرائیل کی جوہری پالیسی کبھی باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کی گئی، لیکن یہ قومی سلامتی کے اصولوں کا بنیادی جزو بن چکی ہے۔

لوئس رینی بیرس، جو ‘پروجیکٹ ڈینیئل’ کے نمایاں رکن ہیں، نے اس پالیسی کو مزید مضبوط بنانے کی وکالت کی ہے۔ ان کے مطابق، اسرائیل کو اپنی حکمت عملی امریکی پنٹاگون کی ‘ڈاکٹرائن فار جوائنٹ نیوکلئیر آپریشنز ‘کے مطابق رکھنی چاہیے، جو پیشگی حملے پر زور دیتی ہے۔اسرائیل کی جوہری صلاحیتوں کے بارے میں دانستہ ابہام اب بھی ایک مؤثر سفارتی ڈھال کا کام دے رہا ہے۔

مگر مشرقِ وسطیٰ کی بدلتی ہوئی صورتِ حال میں، جہاں غیر روایتی خطرات اور ہائبرڈ جنگوں کا خطرہ بڑھ رہا ہے، ماہرین کا خیال ہے کہ پرانی ‘ریڈ لائنز”بھی بدل سکتی ہیں۔ ان کے ساتھ ایٹمی استعمال کے خطرہ بھی حقیقت بن چکا ہے۔

اسرائیل کے رہنماؤں نے متواتر ایٹمی ہتھیاروں کو قومی بقا کا آخری سہارا قرار دیا ہے، اور اکثر ہولوکاسٹ کے ساتھ اس کو نتھی کیا جاتا ہے۔  ‘سیمسن آپشن’یعنی بڑے خطرے کی صورت میں زبردست جوابی کارروائی اسی سوچ کی نمائندگی کرتا ہے۔

اسی طرح 1980 کی دہائی میں بنائی گئی ‘بیگن ڈاکٹرائن’کے تحت اسرائیل کسی بھی دشمن ریاست کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ اسی اصول کے تحت عراق کا ‘اوسیرک’ ری ایکٹر 1981 میں، شام کی ممکنہ جوہری تنصیب 2007 میں، اور ایران کے ‘نطنز’ پلانٹ پر ‘سٹکس نیٹ’ سائبر حملہ 2010 میں کیا گیا۔ اب حال میں ایران پر حملوں کا جواز بھی یہی ڈاکٹرائن فراہم کرتی ہے۔

اسرائیل مسلسل اپنے جوہری پروگرام کو بین الاقوامی جانچ سے بچاتا رہا ہے۔ اقوامِ متحدہ اور انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کی قراردادوں میں، عرب ممالک اور دیگر غیر وابستہ ریاستیں مسلسل اسرائیل پر زور دیتی رہی ہیں کہ وہ این پی ٹی  یعنی جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے میں شامل ہو کر اپنے جوہری اثاثے عالمی معائنے کے لیے کھول دے۔ مگر اسرائیل امریکہ کی پشت پناہی کے باعث ڈٹا ہوا ہے۔امریکہ کے ساتھ ایک غیر اعلانیہ مفاہمت کے تحت،  اسرائیل جوہری ہتھیا کا تجرنہ کرتا ہے، نہ اس کا اعلان کرتا ہے۔

اس کے باوجود اسرائیل کے ایٹمی ‘ڈیلیوری سسٹمز’  ایک خطرناک سہ جہتی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ماہرین کے مطابق، یریکو-III میزائل بیک وقت کئی اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اور بین البرِاعظمی مار کر سکتے ہیں۔

اسرائیلی فضائیہ کے ترمیم شدہ ایف-15I اور ایف-16I طیارے دور دراز اہداف پر حملہ کر سکتے ہیں، جیسا کہ عراق، شام اور اب ایران میں میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ جرمن ساختہ ڈولفن کلاس آبدوزیں جوہری صلاحیت والے کروز میزائل سے لیس ہیں، جو ‘سیکنڈ اسٹرائیک’ کی صلاحیت فراہم کرتی ہیں۔ جہاں واشنگٹن ایران پر تو سختی کرتا ہے مگر اسرائیل کی طرف آنکھیں بند رکھتا ہے۔

اب یہ دوہرا معیار نہیں تو کیا ہے۔ 2009 میں سابق امریکی صدر جمی کارٹر نے اندازہ لگایا تھا کہ اسرائیل کے پاس 300 سے زائد وار ہیڈز ہو سکتے ہیں۔ ‘بلٹن آف اٹامک سائنٹسٹس’کے حالیہ جائزے میں اس تعداد کو تقریباً 80 بتایا گیا ہے، مگر مزید ہتھیار بنانے کی مکمل صلاحیت موجود ہے۔

اسرائیلی پروگرام کو ابتدائی طور پر غیر ملکی مدد سے فروغ ملا۔ فرانس نے دیمونا ری ایکٹر کی تعمیر اور ری پروسیسنگ ٹیکنالوجی فراہم کی۔ برطانیہ اور ناروے نے خفیہ یا بالواسطہ طریقوں سے بھاری پانی اور یورینیم مہیا کیا۔ جنوبی افریقہ سے بھی 1970 کی دہائی میں جوہری تعاون کے شواہد موجود ہیں۔

اگرچہ اسرائیل نے سخت رازداری قائم رکھی ہے، تاہم جوہری ماہرین کے درمیان اس بات پر اتفاق ہو چکا ہے کہ اسرائیل ایک جوہری طاقت ہے۔ مگر شفافیت نہ ہونے کی وجہ سے اس کی صلاحیتیں، حکمت عملیاں اور خطرے کی حدود اب بھی اندھیرے میں چھپی ہیں۔یہ ابہام ایک طرف دشمنوں کو باز رکھنے کا ذریعہ ہے، تو دوسری طرف کھلے اعتراف سے بچنے کا طریقہ ہے۔

لیکن ناقدین کے مطابق، یہ خطے میں اسلحہ کنٹرول کی کوششوں کو نقصان پہنچاتا ہے اور خاص طور  پڑوسی ممالک میں عدم تحفظ کو فروغ دیتا ہے۔ جہاں ایران کا 60 فیصد یورینیم افزودہ کرنا پابندیوں اور دھمکیوں کا سبب بنتا ہے، وہاں اسرائیل کے درجنوں یا سینکڑوں جوہری ہتھیار سفارتی سطح پر سوال سے بھی بچے رہتے ہیں۔

لیکن جیسے جیسے مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی بڑھ رہی ہے اور سیاسی بیانیے میں ایٹمی خطرات دوبارہ ابھر رہے ہیں، اسرائیل کے ایٹمی پروگرام پر دہائیوں سے چھایا ہوا سکوت اب برقرار رکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

مشرقِ وسطیٰ کی بدلتی ہوئی تزویراتی زمین، ایران کے ساتھ  کشیدگی کا عروج، اور عالمی سطح پر جوہری خطرات کے دوبارہ سر اٹھانے کے بعد، یہ تقاضا شدت اختیار کرتا جا رہا ہے کہ جوہری مساوات میں دوہرا معیار ختم ہونا چاہیے۔

اگر ایران، شمالی کوریا  یاکسی اور ملک کی ایٹمی سرگرمی پر دنیا کی نظریں فوری طور پر مرکوز ہو جاتی ہیں، تو اسرائیل جیسے غیر اعلانیہ جوہری طاقت کو مسلسل استثنیٰ دینا نہ صرف علاقائی استحکام کے لیے خطرہ ہے بلکہ عالمی اصولوں کی ساکھ کے لیے بھی ایک تازیانہ ہے۔

اب وقت آ گیا ہے کہ اسرائیل کی جوہری حقیقتوں پر سے بھی وہ پردہ ہٹایا جائے جس نے ایک خاموش مگر مہلک خطرے کو برسوں سے عالمی نظروں سے چھپائے رکھا ہے۔

Next Article

اسرائیلی حملوں کے درمیان ایران میں پھنسے ہندوستانی طلباء  نے سنائی دہشت کی کہانی

ایران میں زیر تعلیم ہندوستانی طلباء نے بتایا کہ ایران پر اسرائیل کے حملوں کے بعد تہران میں لوگ اپنا گھر بار چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں۔ طلبہ نے بتایا کہ اس کشیدہ ماحول میں ہندوستانی سفارت خانے  نے طلبہ کی بہت مدد کی۔

ایران  کے تہران میں سنیچر کومبینہ اسرائیلی حملے کے بعد تیل ذخیرہ کرنے کے مرکز سے اٹھتادھواں ۔ (تصویر: اے پی/پی ٹی آئی)

نئی دہلی: 25 سالہ ثانیہ مہدی 14 جون کی رات اپنے اپارٹمنٹ میں تھیں، جب انہوں نے دور سے زور دار آوازیں سنیں۔ انہوں نے کہا،’میں نے سوچا کہ شاید یہ پٹاخے ہیں۔’ انہیں ایسا اس لیے لگا کہ تہران میں ایک تہوار کی شروعات  ہوئی تھی۔

انہوں نے یاد کرتے ہوئے کہا،’لیکن پھر آوازیں تیز ہوتی چلی گئیں، اور آسمان پر بجلی جیسی چمکدارروشنی نمودار ہونے لگی ۔’

ایران یونیورسٹی آف میڈیکل سائنس میں زیر تعلیم ہندوستانی طالبہ ثانیہ کے مطابق، انہوں نے گزشتہ چار سالوں میں یہ آوازیں کبھی نہیں سنی تھیں۔

قابل ذکر ہے کہ 1500سے زیادہ ہندوستانی طلباء ایران میں میڈیکل کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں، کیونکہ یہاں تعلیم نسبتاً سستی ہے اور اس کے نصاب کو حکومت ہند سے منظوری حاصل ہے۔ اس کی وجہ سے طلباء ایف ایم جی ای کا امتحان پاس کر کے ہندوستان میں پریکٹس کر سکتے ہیں۔ طلباء کے مطابق، یہ ہندوستان یا بنگلہ دیش کے پرائیویٹ کالجوں کے مقابلے کافی سستا ہے۔

تہران پر حملہ ہوا ہے

جب آوازیں بڑھنے لگیں تو ثانیہ نے کھڑکی سے باہر دیکھا کہ یہ پٹاخے کی آوازنہیں آسمان پر چمکنے والی کوئی اور چیز تھی۔ ثانیہ نے بتایا، ‘وہ مسلسل آ رہی تھیں اور رک نہیں رہی تھیں۔ ہم نے فوراً ایکس پر دیکھا، پھر ہمیں معلوم ہوا کہ تہران پر اسرائیل کی جانب سےحملہ ہو رہا ہے۔’

ثانیہ کے مطابق، دوسری رات اس سے بھی زیادہ خوفناک تھی۔ ایسی اطلاعات تھیں کہ اسرائیلی فضائی حملے تیز ہو گئے ہیں اور وہ عام لوگوں کی بستیوں، یونیورسٹیوں اور ہسپتالوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ انہوں نے سنا کہ تہران یونیورسٹی کے دو طالبعلموں کو معمولی چوٹیں آئیں اور انہیں فوری طور پر محفوظ مقام پر لے جایا گیا۔

پڑوسی بھاگ گئے

تہران یونیورسٹی آف میڈیکل سائنس (آئی یو ایم ایس) میں فائنل ایئر کی طالبہ شاکرہ منظور نے بتایا، ‘تہران میں حالات بے حد خراب ہیں۔ ہم شہر کے وسط میں رہتے ہیں، ہم تین دن تک سو نہیں پائے، رات کو حالات مزید خراب ہو جاتے تھے۔ ہم نے زور دار دھماکوں کی آوازیں سنیں اور ڈرون  اپارٹمنٹ کے او پر سے اڑتے نظر آتے تھے۔’

منظور نے کہا کہ طالبات کو پہلے دن حملے کی سنگینی کا احساس نہیں ہوا تھا۔ وہ کہتی ہیں، ‘دن میں حالات کچھ پرسکون رہتےتھے، لیکن 16 جون کو دن کے وقت بھی شدید بمباری ہوئی۔ عام لوگوں کی عمارتیں اور کئی سرکاری عمارتیں مکمل طور پر تباہ ہوگئیں۔’

تہران کی آبادی ایک کروڑ سے زیادہ ہے اور دہلی کی طرح یہ بھی تارکین وطن کا شہر ہے۔ جیسےہی حملوں میں اضافہ ہوا، اسرائیلی دھمکیوں اور امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی وارننگ کے بعد لوگوں نے بڑی تعداد میں شہر چھوڑنا شروع کردیا۔ منظور نے دیکھا کہ ان کا محلہ خالی ہوتا جا رہا ہے۔ انہوں نےبتایا، ‘ہمارے سامنے والے ایرانی پڑوسی ہمیں تسلی دے رہے تھے کہ سب ٹھیک ہو گا، لیکن پھر وہ ہمیں بتائے بغیر اپنے گھرچھوڑ کر چلے گئے۔’

انہوں نے سنا کہ شہر سے باہر جانے والی سڑکیں گاڑیوں سے بھری پڑی تھیں۔ جب ان سے ان کے ایرانی دوستوں کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ‘وہ بہت غصے میں ہیں، لیکن اس سے زیادہ وہ خوفزدہ ہیں کیونکہ تباہی بڑے پیمانے پر ہو رہی ہے۔’

ہندوستانی سفارت خانے نے بہت مدد کی

حملوں کے پہلے ہی دن آئی یو ایم ایس کے طلباء ہندوستانی سفارت خانے پہنچے۔ ‘پہلے دو دن سفارت خانے کے اہلکاروں نے ہمیں پرسکون رہنے کو کہا۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ صورتحال جلد معمول پر آجائے گی۔’ ایک طالبعلم نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا۔

ثانیہ نے کہا، ‘لیکن پھر ہمیں سفارت خانے سے پیغام ملا کہ ہم جلد ہی تہران چھوڑنے کے لیے تیار ہو جائیں۔’

منظورنے بتایا، ‘ہندوستانی سفارت خانے نے بہت مدد کی۔ انہوں نے ہمارے لیے بس، رہائش اور کھانے کا انتظام کیا۔’

ثانیہ نے کہا کہ آئی یو ایم ایس اور آزاد یونیورسٹی کے سینکڑوں ہندوستانی طلباء کو ایئر کنڈیشنڈ بسوں میں قم شہر لایا گیا، جہاں انہیں ہوٹلوں میں رکھا گیا ہے۔ وہ خود سفارت خانے کے کرائے پر لیے گئے ہوٹل میں 30 طالبعلموں کے ساتھ رہ رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ طلباء کو مشہد لے جانے کے لیے 20 بسوں کا انتظام کیا گیا ہے۔

‘پہلے بیچ کی 10 بسیں روانہ ہو چکی ہیں۔ ہم اب تک تقریباً 200 کلومیٹر (پورے سفر کا پانچواں حصہ) طے کر چکے ہیں۔’

کرمان یونیورسٹی کے ایک طالبعلم فیضان نے کہا، ‘ہمیں انڈین ایمبیسی کو کریڈٹ دینا چاہیے کیونکہ یہ پہلے دن سے بہت فعال ہے۔ دوسری جانب پاکستان اور نائیجیریا جیسے ممالک کے طلبا کو اپنے طور پر واپس آنے کے لیے کہا گیا ہے لیکن ہندوستانی سفارت خانے نے تمام انتظامات کیے ہیں۔’

انہوں نے کہا کہ طلباء کو ایئر لفٹ کرنے کا کوئی آپشن نہیں ہے اور زمینی سفر بھی محفوظ نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘تہران سے براہ راست سرحد تک جانا ممکن نہیں ہے، لیکن جہاں بھی ممکن ہوا وہاں طلباء کی مدد کی گئی ہے۔’

انہوں نے بتایا کہ ارمیا میڈیکل یونیورسٹی کے طلباء کو آرمینیا لے جایا گیا اور وہاں سے وہ دوحہ کے راستے ہندوستان واپس آئیں گے۔

جموں و کشمیر اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کے کنوینر ناصر نے کہا، ‘ارمیا میڈیکل یونیورسٹی کے 110 ہندوستانی طلبہ (90 طلبہ وادی کشمیر سے ہیں) منگل کو بحفاظت آرمینیا پہنچ گئے۔ ہم نے ان طلباء سے بات کی ہے جو دارالحکومت یریوان میں اپنے اپنے ہوٹلوں میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔’

انہوں نے یہ بھی کہا کہ وزارت خارجہ نے طلباء کو مطلع کیا ہے کہ ‘تمام ٹکٹ حکومت ہند کی طرف سے مفت فراہم کیے گئے ہیں۔’

(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔)

Next Article

ہندوستان بھول گیا ایران کا احسان؟

سفارتی احسان فراموشی کی اس سے بدتر مثال کیا ہوسکتی ہے، جب ایران نے نازک وقت میں ہندوستان کو عالمی رسوائی سے بچایا اور بدلے میں نئی دہلی نے اس کو بے یار و مدد گار چھوڑ کر مغربی طاقتوں اور اسرائیل کا دامن پکڑا۔

علامتی تصویر، فوٹو: وکی پیڈیا

حال ہی میں ہندوستان نے ایک بار پھر شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) میں ایران کے خلاف اسرائیلی جارحیت کی مذمت پر مبنی قرارداد سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔ اس سے قبل بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے ) میں بھی ہندوستان نے ایران کے خلاف ووٹ دیا تھا۔

یہ پالیسی دہلی کے واشنگٹن اور تل ابیب کے ساتھ گہرے ہوتے اسٹریٹجک تعلقات کی عکاس ضرور ہے، لیکن دہلی شاید وہ سفارتی باب فراموش کر چکی ہے، جس میں ایران نے خاموشی سے ہندوستان کو اقوامِ متحدہ کی سخت پابندیوں اور عالمی ذلت سے بچایا تھا۔ اور جب ایران خود عالمی دباؤ اور تنہائی کا شکار ہوا، تو دہلی نے یا تو خاموشی اختیار کی یا اکثر مغربی طاقتوں کے شانہ بشانہ کھڑا دکھائی دیا۔

سال 1994:ایک خفیہ سفارتی محاذ

مارچ 1994 میں اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن (جسے اب انسانی حقوق کونسل کہا جاتا ہے) میں اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) ایک قرارداد پیش کرنے جا رہی تھی، جس میں کشمیر میں مبینہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر ہندوستان کی مذمت کی جانی تھی۔ اس قرارداد کی منظوری کی صورت میں، اسے سلامتی کونسل میں لے جانے کا منصوبہ تھا، جہاں امریکہ سمیت کئی مغربی ممالک ہندوستان پر اقتصادی پابندیاں لگانے کے لیے منتظر تھے۔

برخلاف مسئلہ فلسطین، مغربی ممالک کشمیر پر نسبتاً نرم رویہ رکھتے تھے، کیونکہ ہندوستان اب تک سویت یونین کی سوشلسٹ لابی کا حصہ سمجھا جاتا تھا۔ مگر اب سوویت یونین بکھر چکا تھا، اور اس کا جانشین روس مغرب سے معاشی امداد کی آس میں تھا۔ ایسے میں ہندوستان کے لیے سلامتی کونسل میں کسی قرارداد کو ویٹو کروانا تقریباً ناممکن ہو چکا تھا۔

جنیوا میں قرارداد پر غور و خوض جاری تھا، اور دہلی میں وزیراعظم پی وی نرسمہا راؤ کو اس کے ممکنہ نتائج کا بخوبی ادراک تھا۔ انہوں نے ایک خفیہ، مگر فیصلہ کن سفارتی چال چلنے کا فیصلہ کیا۔

اسپتال سے تہران تک — دنیش سنگھ کا مشن

ان دنوں ہندوستانی وزیرِ خارجہ دنیش سنگھ شدید علیل تھے اور دہلی کے آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (ایمس) میں انتہائی نگہداشت میں زیرِ علاج تھے۔ جنیوا اجلاس سے چند روز قبل، رات کے وقت وزیراعظم راؤ اسپتال پہنچے۔ بظاہر وہ وزیرِ خارجہ کی خیریت دریافت کرنے آئے تھے، مگر اصل میں ایک خفیہ مشن کا آغاز ہو رہا تھا۔

اگلے ہی روز دنیش سنگھ ایک ہندوستانی فضائیہ کے طیارے میں سوار ہو کر تہران روانہ ہوئے۔ ان کے ہمراہ ایک ڈاکٹر اور تین معاونین تھے۔ ان کے پاس وزیراعظم راؤ کا ایرانی صدر علی اکبر ہاشمی رفسنجانی کے لیے ایک ذاتی اور خفیہ خط تھا۔

اسی دوران اعلان کیا گیا کہ جنیوا میں ہندوستانی وفد کی قیادت اپوزیشن لیڈر اٹل بہاری واجپائی کریں گے، جن کے ساتھ وزیرِ مملکت برائے خارجہ سلمان خورشید اور سابق وزیراعلیٰ جموں و کشمیر ڈاکٹر فاروق عبداللہ بھی ہوں گے۔ یہ اعلان اصل مشن سے توجہ ہٹانے کی چال تھی۔

مارچ کی ایک سرد صبح، جب ہندوستانی طیارہ تہران ایئرپورٹ پر اترا، تو دنیش سنگھ وہیل چیئر پر تھے۔ ایرانی وزیرِ خارجہ ڈاکٹر علی اکبر ولایتی پروٹوکول توڑ کر ان کا استقبال کرنے خود ایئرپورٹ پہنچے۔ انہوں نے حیرانی سے پوچھا؛

‘ایسی کیا افتاد آ گئی ہے کہ آپ اس حال میں تہران آئے ہیں؟’

سنگھ نے مسکرا کر وزیراعظم کا خط ان کے حوالے کر دیا۔

اسی روز دنیش سنگھ نے ایرانی صدر، وزیرِ خارجہ اور اسپیکر ناطق نوری سے ملاقاتیں کیں، اور کشمیر پر ہندوستانی موقف پیش کیا۔ صدر رفسنجانی نے نہ صرف ان کی بات غور سے سنی، بلکہ وزیراعظم راؤ کے لیے یہ پیغام بھی دیا کہ ایران ہندوستان کو ہر ممکن سفارتی تحفظ فراہم کرے گا۔

جنیوا میں ایران کا یوٹرن

تین دن بعد جنیوا میں جب پاکستانی وفد نے قرارداد کو آگے بڑھانے کی کوشش کی، تو ایران کے نمائندے نے — تہران کی براہِ راست ہدایت پر — اس کی حمایت سے انکار کر دیا۔ ایران نے موقف اختیار کیا کہ وہ ہندوستان اور پاکستان دونوں کا دوست ہے، اور یہ مسئلہ نوآبادیاتی طاقتوں کی مداخلت کے بغیر حل ہونا چاہیے۔

یوں یہ قرارداد وہیں دم توڑ گئی، اور اقوامِ متحدہ میں کشمیر پر پاکستان کی سب سے سنجیدہ سفارتی کوشش ناکام ہو گئی۔

تہران مشن سے ایک ہفتہ قبل نئی دہلی میں ایرانی سفیر علی شیخ رضا عطار نے کشمیری حریت رہنماؤں سید علی گیلانی اور عبدالغنی لون کے اعزاز میں عشائیہ دیا تھا۔ دو دن بعد وہ دوبارہ گیلانی صاحب سے ملاقات کے لیے آئے اور یقین دہانی کروائی کہ کشمیر ایرانی خارجہ پالیسی کا مستقل جز ہے۔

مگر جیسے ہی جنیوا میں ایرانی موقف بدلا، دہلی میں پاکستانی سفیر ریاض کھوکھر اور حریت رہنما گم سم رہ گئے۔ سفیر عطار بھی حیرت زدہ تھے، لیکن اتنا ضرور کہہ رہے تھے؛

‘ہندوستان نے ایک بڑی پیشکش کی ہے، جسے رد کرنا ایران کے لیے ممکن نہیں۔’

اسی کے بعد ایران-پاکستان-ہندوستان گیس پائپ لائن کا منصوبہ سامنے آیا، جسے ‘امن کی پائپ لائن’ کہا گیا۔ چند ماہ بعد وزیراعظم راؤ نے برکینا فاسو میں غیر وابستہ تحریک(این اے ایم) کی سربراہی کانفرنس میں کہا کہ کشمیر پر ‘آزادی سے کم کسی آپشن پر بات ہو سکتی ہے’۔ ان کا جملہ؛

“Sky is the limit for Kashmir”

خاصا مشہور ہوا — مگر جیسے ہی عالمی دباؤ ختم ہوا، نہ پائپ لائن رہی، نہ کشمیری آپشن۔

وہ احسان جو یاد نہ رکھا گیا

جنیوا میں ایرانی موقف کی تبدیلی کا کریڈٹ واجپائی اور فاروق عبداللہ لیتے رہے، جبکہ اصل کارنامہ دنیش سنگھ کا تھا، جو تہران مشن کے بعد کچھ ہی عرصے میں اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ ان کا یہ سفارتی مشن دہلی کے سفارتی حلقوں میں کئی دہائیوں بعد بھی ایک ‘ٹاپ سیکرٹ آپریشن’ کے طور پر یاد رکھا جاتا ہے۔

بدقسمتی سے ایران کی اس احسان مندی کا ہندوستان نے کبھی باضابطہ اعتراف نہیں کیا۔ جب ایران پر جوہری پروگرام کے باعث مغربی پابندیاں لگیں، یا جب امریکہ نے اس کی تیل برآمدات پر دباؤ ڈالا، تو ہندوستان  نے نہ صرف ایرانی تیل کی درآمدات کم کر دیں، بلکہ تل ابیب اور واشنگٹن سے تعلقات مزید گہرے کیے۔

وہ برف پوش تہران، جس نے ہندوستان کو عالمی رسوائی سے بچایا، آج سفارتی تاریخ کے اوراق میں کہیں گم ہو چکا ہے — مگر تہران شاید آج بھی وہ لمحہ یاد رکھے۔

اس خطے میں، جہاں یادداشت، وعدے اور احسان کی اپنی سیاست ہے، ایران کا یہ ‘احسانِ خاموش’ جنوبی ایشیا کے ان کہے سفارتی قصوں میں ہمیشہ زندہ رہے گا — اور ہندوستان کی طرف سے ملی بےحسی بھی۔

Next Article

مہاتما گاندھی کا مودی کو خط: تم غزہ پر چُپ کیوں رہے؟

اگر آج مہاتما گاندھی زندہ ہوتے، تو فلسطین جیسی مظلوم قوم کے تئیں ہندوستان کی خاموشی پر کیا کہتے؟ یہاں راجیہ سبھاممبرمنوج کمار جھا گویا  گاندھی کی روح کو لفظوں کا پیرہن عطا کر رہے ہیں۔

وزیر اعظم نریندر مودی۔تصویر بہ شکری:پی آئی بی/السٹریشن: پری پلب چکرورتی/دی وائر

مہاتما گاندھی کو رخصت ہوئےعرصہ بیت چکا ہے، لیکن ہندوستان کی سیاست میں ان کی اہمیت روز افزوں ہے۔ ان کی تعلیمات عالمی سیاست کے تناظر میں آج بھی صدگونہ اہمیت کی حامل ہیں۔ راجیہ سبھا ممبر منوج کمار جھا نے مہاتما گاندھی کےنظریے سے یہ خط وزیر اعظم نریندر مودی کے نام لکھتے ہوئے پوچھا ہے کہ ‘اجتماعی درد اور اذیت  کے سامنے کیا خاموشی کبھی غیر جانبدار ہو سکتی ہے؟’

عزت مآب جناب نریندر مودی جی،

میں آپ کو کسی تاریخی شخصیت کے طور پر نہیں اور نہ ہی مہاتما کے طور پر یہ خط لکھ رہا ہوں ۔ امید ہے کہ آپ میرے الفاظ کو اخلاقی ضمیر کی آواز کے طور پر پڑھیں گے، جس نے جدوجہد، قربانی اور خود شناسی کے دور میں  طویل عرصے تک ہمارے ملک کی رہنمائی کی۔ سچائی، عدم تشدد، رحمدلی اور انصاف کے ساتھ ہندوستان کا رشتہ تاریخ کی یادگار محض نہیں ہے۔ یہ اقدار ہماری تہذیب و ثقافت کے  لازمی اور زندہ اخلاقی کردار (ایتھوس) ہیں۔ یہ دنیا کے ساتھ ہمارے معاملات میں تہذیبی رہنما ہیں۔

میرا اور آپ کا ملک، جس نے عدم تشدد اور اخلاقی مزاحمت کے دم پر اپنی آزادی حاصل کی تھی، آج مظلوموں کی تکلیف پر تذبذب کا شکار ہے اور خاموش ہے۔ میں انتہائی تشویش کے ساتھ فلسطین کے سوال پر ہندوستان کے موقف میں قابل ذکر تبدیلی دیکھ رہا ہوں۔ سچ کہوں تو بہت پریشان بھی ہوں۔ فلسطینی کاز کے لیے ہندوستان کی تاریخی حمایت کبھی بھی خارجہ پالیسی کی سہولت کا معاملہ نہیں تھا۔

تاریخی طور پر ہندوستان ہمیشہ مظلوموں کے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ جنگ کا نہیں، بلکہ امن کا حامی  رہا ہے۔

اقوام متحدہ کی جنگ بندی کی قرارداد پر ووٹ نہ دینے کا فیصلہ، جیسا کہ گزشتہ 12 جون کو اسرائیل-فلسطین تنازعہ کے تناظر میں دیکھا گیا، ہندوستان کے دیرینہ تہذیبی اخلاق اور تاریخی سفارتی موقف سے کافی الگ تھا۔ یہ ایک ایسے وقت میں اخلاقی خاموشی ہے جب دنیا انصاف کے لیے آواز اٹھانے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ میرے خیال میں، آپ کے پیش رو وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے ہندوستان کی خارجہ پالیسی کو عدم تشدد، نوآبادیاتی قوم کے ساتھ یکجہتی اور فلسطین کی جائز خواہشات کی مستحکم حمایت پر استوار کرنے کی کوشش کی۔

بارہ جون 2025 کو جنگ بندی کی قرارداد پر ووٹ نہ دینے کا فیصلہ نہ صرف ہمیں عدم تشدد اور انصاف کی تہذیبی اقدار سے دور کرتا ہے بلکہ اقوام کے درمیان اخلاقی رہنما کے طور پر ہماری ساکھ کو بھی مجروح کرتا ہے۔ یہ ہماری تہذیبی ذمہ داری ہے کہ نفع و نقصان کے ترازو کو ایک جانب رکھتے ہوئے ان کے ساتھ کھڑے ہوں جو اب بھی اپنی بقا کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ تزویراتی اتحاد یا معاشی فوائد کے حصول کے لیے اس روایت سے دور جانا یہ بھول جانا ہے کہ ہم بحیثیت فرد کون ہیں اورایک قوم کے طور پر ہماری تاریخ نے ہمارے کندھوں پر کس طرح  کی ذمہ داری ڈالی ہے۔

حال ہی میں میری زندگی کے آخری سالوں کے تناظر میں مانس فراق بھٹاچارجی (گاندھی:دی اینڈ آف نان  وائلنس) کی ایک کتاب شائع ہوئی ہے جس میں انہوں نے دکھایا ہے کہ ہم سچائی، عدم تشدد اور صوابدیدکی بنیاد پر کس طرح بڑے سے بڑے بحران کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ میرا ہمیشہ یہ خیال رہا ہے کہ سیاسی طاقت پر اخلاقی جرأت غالب آنی چاہیے تاکہ ہماری پالیسیاں خواہ وہ ملکی معاملات ہوں یا خارجہ پالیسی اس ملک کی تہذیب اور آئین کے مطابق طے کی جانی چاہیے۔

برا نہ مانیےگا، لیکن آپ کو خودسے پوچھنا چاہیے؛ کیا اجتماعی درد اور اذیت کےسامنے خاموشی کبھی غیر جانبدار ہوسکتی ہے؟

میں آپ کو عاجزی کے ساتھ لیکن مضبوطی سے یاد دلانا چاہتا ہوں کہ آزادی سے بہت پہلے میں نے اس عقیدے کا اظہار کیا تھا کہ ‘فلسطین اسی طرح عربوں کا ہے جس طرح انگلستان انگریزوں کا یا فرانس فرانسیسیوں کا ہے’۔ میرے الفاظ کسی برادری کے خلاف دشمنی سے نہیں بلکہ انصاف کے لیے غیرمتزلزل وابستگی  متاثر تھے۔

آپ اور آپ کے وزیر خارجہ جئے شنکر جی یہ دلیل پیش کر سکتے ہیں کہ وقت بدل گیا ہے۔ لیکن میں پوچھنا چاہتا ہوں – کیا سچ بدل گیا ہے؟ کیا ہمدردی غیر متعلق ہو گئی ہے؟ کیا ہندوستان کی اخلاقی آواز اور اس سے پیدا ہونے والی اخلاقی قوت پر بات چیت کا امکان ختم ہو گیا ہے؟

فلسطینی عوام کی مظلومیت – ہزاروں کی تعداد میں ہلاکت، اپنے ہی گھر سے بے دخل ہونا، دن رات آسمان و زمین سے برستی آگ ، ان کے گھروں اور خوابوں کی تباہی – غیر جانبداری نہیں بلکہ اخلاقی وضاحت کا تقاضہ کرتی ہے۔

آپ اکثر اپنے غیر ملکی دوروں پر کہتے ہیں کہ میں یدھ (جنگ) سے نہیں بدھ کی سرزمین سے آیا ہوں۔ اس لیے میں آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ ایک بار سنجیدگی سے جائزہ لیں کہ گزشتہ دنوں میں ہماری خارجہ پالیسی کا حاصل کیا رہا ہے۔ ایک ایسی قوم جو ‘ وسودھیو کٹمبکم ‘ کے راستے پر چلنے کا دعویٰ کرتی ہے، جب اس عالمی خاندان کا ایک حصہ زنجیروں میں جکڑا ہوا ہو اور روزانہ تشدد کا شکار ہو تو وہ کیسے آنکھیں بند کر سکتی ہے؟

جارح اسرائیلی حکومت کے خلاف مضبوط اخلاقی موقف اختیار کرنے میں ناکامی نہ صرف فلسطینی بحران کو مزید گہرا کرے گی بلکہ پورے علاقائی توازن کو بھی بگاڑ دے گی۔ جب ایشیا اور عرب دنیا کے ممالک اپنی تہذیبی ذمہ داری سے منہ موڑ لیتے ہیں تو وہ انجانے میں مغربی طاقتوں کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی بن جاتے ہیں۔ عالمی جنوب کی آزاد آواز دب جاتی ہے اور وہ ایک بار پھر انہی سامراجی قوتوں کی مرضی پر ناچنے پر مجبور ہوجاتا،جن سے ہم نے کبھی آزادی حاصل کی تھی۔

میں آپ سے اپیل کرتا ہوں کہ مسئلہ فلسطین پر ہندوستان کے موقف کو ایک بار پھر اس کے تہذیبی کردار سے جوڑیں – ایک ایسا کردار جو طاقتور کے ساتھ نہیں بلکہ لاچاروں کے ساتھ کھڑا ہو۔ قبضہ کرنے والوں کے ساتھ نہیں، مظلوموں کے ساتھ کھڑا ہو۔ تاریخ نہ صرف یہ یاد رکھے گی کہ ہندوستان دنیا میں کس طرح نمایاں ہوا بلکہ یہ بھی یاد رکھے گی جب انصاف کی پکار ہوئی  توہندوستان کیسے کھڑا ہوا۔

میں اس قوم کی ابدی روح میں ہمیشہ امید کے ساتھ رہوں گا۔

آپ کا،

موہن داس کرم چند گاندھی

جون 2025

منوج کمار جھا راشٹریہ جنتا دل کے راجیہ سبھا ممبر ہیں۔

Next Article

شہریت کا ثبوت دینے کے باوجود بنگلہ دیش بھیجے گئے چار ہندوستانی، مغربی بنگال پولیس انہیں  واپس لے کر آئی

مغربی بنگال سے تعلق رکھنے والے چار افراد کو مہاراشٹر پولیس نے ہندوستانی شہری ہونے کے باوجود غیر قانونی بنگلہ دیشی ہونے کے شبہ میں حراست میں لیتے ہوئے  بی ایس ایف کے حوالے کر دیا تھا، جس نے انہیں بنگلہ دیش بھیج دیا تھا۔ بنگال پولیس نے بتایا کہ انہیں مطلع  کیےبغیر ہندوستانی شہریوں کوبنگلہ دیش بھیج دیا گیا تھا۔

مرشد آباد کے جن لوگوں کو بنگلہ دیش میں دھکیل دیا گیا تھا، انہیں مغربی بنگال پولیس واپس لے آئی۔ (تصویر: مغربی بنگال پولیس)

نئی دہلی: مغربی بنگال پولیس سوموار(16 جون) کو چار افراد کو واپس لے آئی ہے، جنہیں ہندوستانی حکام نے اس حقیقت کے باوجود کہ وہ ہندوستانی شہری ہیں، بنگلہ دیش  بھیج دیا تھا ۔ ان میں مرشد آباد ضلع کے تین مستقل باشندے اور بردھمان کے ایک رہائشی شامل ہیں۔

ان افراد کو حال ہی میں مہاراشٹر پولیس نے غیر قانونی بنگلہ دیشی ہونے کے شبہ میں حراست میں لیا تھا اور بعد میں انہیں بارڈر سیکورٹی فورس (بی ایس ایف) کے حوالے کر دیا گیا تھا، جس نے انہیں سرحد پار بنگلہ دیش بھیج دیا تھا۔

سوموار کو مرشد آباد پولیس نے ایک بیان میں کہا کہ انہوں نے ان افراد کی ہندوستانی شہریت کے تعین کے لیے مقامی تحقیقات کیں۔ تصدیق کے بعد متعلقہ دستاویز اور شہریت کا ثبوت بی ایس ایف کے حوالے کر دیا گیا۔

مرشد آباد پولیس نے ایک بیان میں کہا،’بی ایس ایف نے بی جی بی (بارڈر گارڈ بنگلہ دیش) کے ساتھ ایک فوری فلیگ میٹنگ کی اور آخر کار چاروں افراد کو بنگلہ دیش سے لایا اور چند گھنٹے قبل انہیں ہندوستانی سرحد پر کوچ بہار پولیس کے حوالے کر دیا۔ انہیں واپس لانے کے لیے مرشد آباد ضلع پولیس کی ایک ٹیم پہلے ہی روانہ کر دی گئی ہے۔ امید ہے کہ چاروں افراد بحفاظت وطن واپس لوٹ آئیں گے۔’

جن چار افراد کو واپس لایا گیا ہے ان کی شناخت- محبوب شیخ، ناظم الدین منڈل، منارالشیخ اور مصطفیٰ کمال شیخ کے طور پر ہوئی ہے۔

اس سے قبل انڈین ایکسپریس نے اطلاع دی تھی کہ مغربی بنگال پولیس اور مائیگرنٹ ویلفیئر بورڈنے چار میں سے ایک – 36 سالہ محبوب شیخ – کی شہریت کا ثبوت پیش  کیا تھا، اس  کے باوجود اسے مہاراشٹر پولیس کے حوالے کرنے کے بعد بی ایس ایف نے بنگلہ دیش کی سرحد کے پار بھیج دیا تھا۔

شیخ کی  بیوی اور تین بچے ہیں، جو مغربی بنگال کے مرشد آباد ضلع کے بھاگابنگولا کے مہیستھلی گرام پنچایت علاقے کے حسین نگر گاؤں میں رہتے ہیں۔

انہوں نے مغربی بنگال حکومت کو مطلع کرنے کی زحمت تک گوارہ نہیں کی

مغربی بنگال مائیگرنٹ ویلفیئر بورڈ کے چیئرمین سمیر الاسلام نے کہا، ‘شیخ کے اہل خانہ نے ہم سے رابطہ کیا، جس کے بعد ہم نے مہاراشٹرا پولیس سے رابطہ کیا۔ تمام (مطلوبہ) دستاویزات انہیں بھیجے گئے۔ انہوں نے مغربی بنگال حکومت کو مطلع کرنے کی زحمت تک نہیں کی اور شیخ کو بی ایس ایف نے بنگلہ دیش بھیج دیا۔’

شیخ کے بھائی مجیب نے اخبار کو بتایا کہ وہ گزشتہ دو سالوں سے مہاراشٹر میں کام کر رہے تھے۔ مجیب نے کہا، ‘جب وہ چائے پی رہے تھے،  توپولیس نے اسے بنگلہ دیشی ہونے کے شبے میں اٹھالیا اور کنکیہ پولیس اسٹیشن لے گئی۔’

خاندان کے لوگوں نے بتایا کہ انہوں نے تمام دستاویزات بشمول شیخ کا ووٹر شناختی کارڈ، آدھار کارڈ، راشن کارڈ اور اس کے خاندانی شجرہ نسب کو، جن کی تصدیق پنچایت نے نسلوں سے کی ہے، مہاراشٹر پولیس کو بھیج دی ہے۔

سنیچر (14 جون) کو شیخ نے اپنے اہل خانہ کو فون کیا اور انہیں بتایا کہ بی ایس ایف نے انہیں صبح 3.30 بجے بنگلہ دیش بھیج دیا ۔

ان کے بھائی مجیب نے بتایا،’اس نے کہا کہ اسے بی ایس ایف نےسنیچر کی صبح تقریباً 3.30 بجے بنگلہ دیش بھیجا تھا۔ انہوں نے ایک گاؤں میں پناہ لی جہاں سے انہوں  نے فون کیا تھا۔ وہ رو رہے تھے۔’

مہاراشٹر پولیس نے اپنا دفاع کیا

اپنی کارروائی کا دفاع کرتے ہوئے مہاراشٹر پولیس نے کہا کہ شیخ اپنی قومیت ثابت کرنے کے لیے دستاویز پیش کرنے میں ‘ناکام’ رہے تھے، انہوں نے مزید کہا کہ وہ شہریت ثابت کرنے کے لیے آدھار اور پین کارڈ پر بھروسہ نہیں کرتے ہیں۔

قابل ذکر ہے کہ پہلگام دہشت گردانہ حملے کے بعد ہندوستان کی ‘پش بیک’ پالیسی کے تحت سینکڑوں مشتبہ غیر قانونی تارکین وطن کو مشرقی سرحد کے راستے بنگلہ دیش بھیجا گیا ہے۔ ملک بھر میں پولیس غیر قانونی تارکین کی شناخت کے لیے مہم چلا رہی ہے۔

وہیں، بنگلہ دیش کی وزارت خارجہ نے اس سے پہلے 8 مئی کو ہندوستان کو ایک خط بھیجا تھا ، جس میں ‘لوگوں کو ملک میں ایسے دھکیلنے پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا اور ہندوستانی حکومت سے ملک بدری کے طے شدہ طریقہ کار پر عمل کرنے کی اپیل کی گئی تھی۔’