اسٹرینڈیڈ ورکرس ایکشن نیٹ ورک کے سروے کے مطابق لاک ڈاؤن کے دوران گھر پہنچے مزدوروں میں سے 62 فیصدی نے سفر کے لیے 1500 روپے سےزیادہ خرچ کیے۔
نئی دہلی: کو رونا کے مد نظر لاک ڈاؤن کے دوران 85 فیصدی سے زیادی مہاجر مزدوروں نے گھر لوٹنے کے لیے خود اپنےا ٹکٹ کے لیے پیسہ دیا ہے۔ٹائمس آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق، اسٹرینڈیڈ ورکرس ایکشن نیٹ ورک کا کہنا ہے کہ 85 فیصدی سے زیادہ مزدوروں کو گھر لوٹنے کے لیے اپنے سفر کا خرچ خود برداشت کرنا پڑا ہے۔
اس سروے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مزدوروں کی گھر واپسی کے خرچ کو لےکر28 مئی کو سپریم کورٹ کی دی گئی ہدایت تاخیر سےآئی تھی۔ سپریم کورٹ نے 28 مئی کو کہا تھا کہ ریاستی حکومتیں مزدوروں کی گھر واپسی کا خرچ اٹھائیں گی۔‘ٹو لیو اور ناٹ ٹو لیو لاک ڈاؤن، مائگرینٹ ورکرس اینڈ دیئر جرنیز ہوم’ نام کی رپورٹ جمعہ کو جاری ہوئی تھی۔ یہ سروے مئی کے آخری ہفتہ اور جون کے پہلے ہفتے میں کیا گیا تھا۔
تنظیم کے اس فون سروے میں 1963 مہاجر مزدور شامل تھے۔ سروے کے ذریعے پتہ چلا کہ 33 فیصدی مزدور اپنی ریاست جانے میں کامیاب ہوئے جبکہ 67 فیصدی مزدور گھر کے لیے روانہ نہیں ہوئے۔لاک ڈاؤن کے دوران گھر کے لیے روانہ ہوئے مزدوروں میں سے 85 فیصدی نے گھر پہنچنے کے لیے خود اپنے کرایے کی ادائیگی کی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران گھر پہنچے مزدوروں میں سے 62 فیصدی نے سفر کے لیے 1500 روپے سے زیادہ خرچ کیے تھے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ مہاجر مزدوروں کے گھرجانے کی اہم وجوہات میں سے ایک بے روزگاری ہے۔ گھر جانے کا فیصلہ صرف جذباتی نہیں تھا۔ ابھی بھی شہروں میں پھنسے 75 فیصدی مزدور بےروزگاری سے جوجھ رہے ہیں۔تنظیم کی انندتا ادھیکاری کا کہنا ہے، ‘ہمیں پتہ چلا کہ صرف وبا کا ڈر اور گھر والوں کے ساتھ رہنے کی خواہش نے ہی انہیں گھر لوٹنے کو مجبور نہیں کیا بلکہ جن شہروں میں وہ کام کر رہے تھے، وہاں روزگار، آمدنی اور کھانے کی کمی نے انہیں گھر لوٹنے کو مجبور کیا۔’
سروے رپورٹ میں کہا گیا کہ 44 فیصدی مزدور جو گھر جانے کے لیے نکلے تھے، ان میں سے 39 فیصدی لوگوں کو شرمک ٹرینیں ملی تھیں۔ 11 فیصدی ٹرک، لاری اور دوسرے ذرائع سے گھر پہنچے جبکہ چھ فیصدی مزدور پیدل ہی گھر لوٹے۔وہیں، شہروں میں پھنسے 55 فیصدی مزدور فوراً اپنے گھر جانا چاہتے ہیں۔ رپورٹ میں گھر پہنچے 5911 مزدوروں پر ایک اور سروے کیا گیا ہے، جس سے پتہ چلا ہے کہ ان میں سے 821 مزدوروں نے 15 مئی سے ایک جون تک ڈسٹریس کال کی تھی۔
یہ بھی پتہ چلا ہے کہ جن لوگوں پر سروے کیا گیا، ان میں سے 80 فیصدی لوگوں کو سرکار کے ذریعے مہیا کرایا گیا راشن نہیں ملا۔ لگ بھگ 63 فیصدی مزدوروں کے پاس 100 روپے سے بھی کم پیسے تھے جبکہ لگ بھگ 57 فیصدی مزدوروں نے ایس اوایس کال کرکے کہا کہ ان کے پاس پیسے، راشن کچھ نہیں ہیں اور انہوں نے کئی دنوں سے کھانا نہیں کھایا ہے۔