گزشتہ ہفتے ملک بھر سے 600 سے زیادہ وکلاء نے سی جے آئی ڈی وائی چندرچوڑ کو ایک خط لکھا تھا،جس میں ‘عدلیہ کی سالمیت’ کو لاحق خطرے پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔ اب آل انڈیا لائرز یونین کا کہنا ہے کہ یہ خط ان ذمہ دار وکلاء اور وکیلوں کے فورم کے خلاف ایک بے بنیاد بیان ہے جو عدلیہ کی آزادی کے تحفظ کے لیے مسلسل جدوجہد کر رہے ہیں۔
نئی دہلی: سپریم کورٹ کے سینئر وکیل ہریش سالوے اور آدیش اگروال سمیت دیگر وکلاء کے ایک گروپ نے حال ہی میں چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندر چوڑ کو خط لکھا تھا جس میں ایک مخصوص گروپ پر ‘مفاد پرستی کے تحت عدلیہ پر دباؤ’ بنانے کی کوشش کا الزام لگایا گیا تھا، اب آل انڈیا لائرز یونین (اے آئی ایل یو) نے بھی ایک بیان جاری کیا ہے۔
دی ہندو کی خبرکے مطابق، اے آئی ایل یو کا کہنا ہے کہ یہ خط الیکٹورل بانڈ اسکیم پر عدالت عظمیٰ کے فیصلے سے اجاگر ہونے والی بدعنوانی کا براہ راست نتیجہ ہے۔
واضح ہو کہ گزشتہ ہفتے ملک بھر سے 600 سے زائد وکلاء نے سی جے آئی ڈی وائی چندرچوڑ کو خط لکھ کر ‘عدلیہ کی سالمیت’ کو لاحق خطرے پر تشویش کا اظہار کیا تھا ۔ خط پر دستخط کرنے والوں میں، سینئر وکیل ہریش سالوے اور بار کونسل آف انڈیا کے صدر منن کمار مشرا سمیت ملک بھر کے 600 سے زیادہ وکلاء نے ‘عدالتی عمل میں ہیرا پھیری، عدالتی فیصلوں پر اثر انداز ہونے اور بے بنیاد الزامات اور سیاسی ایجنڈوں کے ساتھ عدلیہ کی ساکھ کو داغدار کرنے کی کوشش’ کرنے والے ‘مفاد پرست گروپ’ کی مذمت کی تھی۔
اس کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی سوشل میڈیا پر اس خط کو شیئر کرتے ہوئے کانگریس کو نشانہ بنایا تھا اور ایکس پر لکھا تھاکہ ‘دوسروں کو ڈرانا—دھمکانا کانگریس کا پرانا کلچر ہے۔
اب آل انڈیا لائرز یونین کے لیڈر، سینئر ایڈوکیٹ اور راجیہ سبھا ایم پی وکاس رنجن بھٹاچاریہ اور سینئر ایڈوکیٹ پی وی سریندر ناتھ نے کہا کہ یہ خط ذمہ دار وکلاء اور وکلاء فورم، جو عدلیہ کی آزادی اور تحفظ اور ہندوستانی آئین کے بنیادی ڈھانچے کی حفاظت کے لیے مسلسل جد وجہد کر رہے ہیں، ان کے خلاف صرف بے بنیاد باتیں ہیں۔
اے آئی ایل یو نے کہا کہ خط لکھنے والے وکلاء کا یہ گروپ ماضی میں اس وقت خاموش رہا جب مرکز کی موجودہ حکومت عدلیہ کی آزادی اور آئین کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف حملے کر رہی تھی۔ ذمہ دار عہدوں پر فائز لوگوں نے پارلیامنٹ کی بالادستی کے نام پر ‘جوڈیشل ریویو’ اور ‘بنیادی ڈھانچے’ پر حملہ کیا اور ججوں کے انتخاب میں ایگزیکٹو کے کردار کا تعین کرنے کی مانگ کی۔
اے آئی ایل یو نے دعویٰ کیا کہ ہائی کورٹ کے ججوں کے تبادلے کے معاملے میں موجودہ حکومت نے براہ راست مداخلت کی۔
یونین نے مزید کہا کہ نریندر مودی حکومت ‘عدلیہ کی آزادی پر اثر انداز ہونے اور مداخلت کرنے’ کے لیے ججوں کی سبکدوشی کے بعد کی تقرریوں میں مصروف ہے۔ اس کے ساتھ کئی مواقع پر ججوں کی تقرریوں اور تبادلوں سے متعلق کالجیم کے فیصلوں کی بھی توہین کی گئی ہے۔
وکلاء نے کہا کہ سابق چیف جسٹس رنجن گگوئی کو ان کی ریٹائرمنٹ پر مودی حکومت نے راجیہ سبھا کے لیے نامزد کیا تھا۔ جسٹس عبدالنذیر کی سپریم کورٹ کے جج کی حیثیت سے ریٹائرمنٹ کے چھ ہفتوں کے اندر اندر انہیں آندھرا پردیش کا گورنر مقرر کیا گیا۔
اے آئی ایل یو کے مطابق، الیکٹورل بانڈ اور پریس انفارمیشن بیورو کے ‘غیر جمہوری فیکٹ چیک یونٹ’ معاملے میں سپریم کورٹ کے فیصلے نے وکلاء کے اس ‘گروپ’ کو پریشان کر دیا ہے۔ خط میں لگائے گئے بے بنیاد الزامات اور افواہیں ملک بھر کے وکلاء اور قانونی برادری کی رائے نہیں ہے۔ ‘وکلاء کا یہ گروپ’ ہندوستان میں وکلاء اور قانونی برادری کی نمائندگی نہیں کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ عدلیہ کے تحفظ کے نام پر گروپ کی کوششیں عدلیہ کے خلاف صرف ایک چھلاوہ اور درپردہ دھمکی ہے کیونکہ یہ عدلیہ کی آزادی اور جوابدہی کے لیے عدالتی جائزہ کے اختیارات کو استعمال کرتی ہیں۔ یہ خود کو عدلیہ کے محافظ کے طور پر پیش کرنے والی جھوٹی کہانی سے لوگوں کو گمراہ کرنے کی بھی کوشش ہے۔