لالو پرساد یادو—گوپال گنج ٹو رائے سینا

لالو پرساد یادو اپنی کتاب میں بتاتے ہیں؛ بہار کی تعمیر میں میں نے مہاتما گاندھی کی اہنسا کے ساتھ منڈیلا، کنگ اور امبیڈکر کے بتائے راستوں کو اختیار کیا۔ جیسی کہ امید تھی میری راہ کانٹوں سے بھری تھی اور یقیناً یہ آسان نہیں تھی۔ لیکن میں اپنے راستے سےمنحرف نہیں ہوا۔

لالو پرساد یادو اپنی کتاب میں بتاتے ہیں؛ بہار کی تعمیر میں ،میں نے مہاتما گاندھی کی اہنسا کے ساتھ منڈیلا، کنگ اور امبیڈکر کے بتائے راستوں کو اختیار کیا۔ جیسی کہ امید تھی میری راہ کانٹوں سے بھری تھی اور یقیناً یہ آسان نہیں تھی۔ لیکن میں اپنے راستے سےمنحرف نہیں ہوا۔

917c5NF0BNL

 لالو پرساد یادو فی الحال رانچی کی برسا منڈا جیل میں وقت کاٹتے ہوئے خود کو نیلسن منڈیلا، مارٹن لوتھر کنگ جونیر، بھیم راؤ رام جی امبیڈکر اور مہاتما گاندھی کی صف میں محسوس کر رہے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ یہ لوگ اپنے مشن میں ناکام رہے اور تاریخ انہیں ولن کی شکل میں یاد رکھے گی۔حال ہی آئی ان کی کتاب “گوپال گنج ٹو رائے سینا – مائی پولیٹیکل جرنی”کو سیاستدانوں کے سیاستداں کی کتاب کہا جا سکتا ہے۔ انگریزی کی اس کتاب کے معاون مصنف، سینئر صحافی و ادیب نلن ورما ہیں۔ کتاب کا بیانیہ دلچسپ ہے، جو قاری کو ایسے اپنی گرفت میں لے لیتا ہے، مانو وہ لالو جی کی مخصوص اسلوب والی زبان سے ہی سب کچھ سن رہا ہو۔ اس کے 229 صفحات لالو کے فطری مزاح اور ان کی چہل سے بھرے ہیں۔

مذکورہ بالا عظیم شخصیات کے بارے میں لالو جی کا کہنا ہے کہ “متعصبی، نسل پرست اور ذات پات کی بنیاد پر بھید بھاؤکرنے والے ذہنوں کے لیے یہ لوگ ولن ہی ہیں۔” بہار کے سابق وزیر اعلیٰ “لالوازم” کی بات اس طرح کرتے ہیں، “حاکم اور حکمراں طبقہ معاشرے کو ہمیشہ حاکم اور محکوم میں بدل دیتا ہے اور کمزور طبقے سے کوئی فرد جب کبھی اس حاکمیت و ناانصافی کے خلاف آواز اٹھاتا ہے تو وہ سب مل کر اسے ستانے میں لگ جاتے ہیں۔”

لالو کا ماننا ہے کہ ان کی یہ بات وہ لوگ نہیں مانیں گے جنہوں نے ان کے بارے میں متعصبانہ ٹی وی رپورٹس دیکھ کر کوئی رائے قائم کر لی ہے۔ راشٹریہ جنتا دل سپریمو 1990 میں ہوئے مشہور چارہ گھوٹالے معاملے میں اس وقت جیل کاٹ رہے ہیں۔وہ اپنے آپ کو نیلسن منڈیلا، مارٹن لوتھر کنگ جونیر، بھیم راو رام جی آمبیڈکر اور مہاتما گاندھی سے متاثر بتاتے ہیں کہ یہ لوگ 70 کی دہائی میں سیاست میں ان کی آمد کے وقت سے ہی ان کے رول ماڈل رہے ہیں۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ میں نے بھید بھاؤ اور نا انصافی کے خلاف ان پانچوں عظیم شخصیات کی معاشرتی و سیاسی سوچ کے مطابق، ان کے اصولوں پر چلنے کی کوشش کی۔

اپنی کتاب میں انہوں نے نیلسن منڈیلا کا تفصیل سے ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ “انہوں نے (منڈیلا نے) نسلی عصبیت کے خلاف جنگ کی۔ عصبیت کی یہ پالیسی سفید فام لوگوں کے تسلط، بھید بھاؤ اور نا انصافی پر مبنی تھی۔ انہوں نے سیاہ فام لوگوں کے ساتھ نسل پرستانہ برتاؤ کے خلاف آواز اٹھائی، جس پر ان کے خلاف بغاوت کے مقدمے قائم کر دیے گئے۔ لیکن تمام مشکلات سے جوجھتے ہوئے منڈیلا نے اپنی جنگ جاری رکھی اور ساؤتھ افریقہ میں جاری سفید فام لوگوں کے تسلط، تعصب اوربھید بھاؤ سے سیاہ فام لوگوں کو آزادی دلانے میں کامیابی حاصل کی۔” اس تذکرے کے دوران لالو نے بہار میں پچھڑے طبقات کی فلاح کے لیے کام کرتے ہوئے خود کی بھی تعریف کر ڈالی ہے۔

مارٹن لوتھر کنگ کے بارے میں انہوں نے بتایا ہے کہ 1955 میں مانٹ گمری، البامہ میں ایک عورت کو اس لیے گرفتار کر لیا تھا کہ سٹی بس میں اس نے اپنی سیٹ ایک گورے کے لیے چھوڑنے سے انکار کر دیا تھا۔ “اس پر کنگ جونیر نے مانٹ گمری بسوں کا بائیکاٹ کر دیا، جو 385 دنوں تک چلا۔ انہیں بڑی جیت ملی جب ایک عدالت نے امریکہ کی ساری بسوں میں نسل پرستانہ تفریق ختم کر دی۔ اس سے ناراض نسل پرستوں نے تحفظ حقوق کے اس علم بردار کے گھر بم مار دیا۔” لالو کہتے ہیں کہ اس کے کئی سالوں بعد 1968 میں مارٹن لوتھر کنگ جونیر کا قتل کر دیا گیا، لیکن تب تک نسل پرستی و ناانصافی کے خلاف کبھی نہ رکنے والے احتجاج کی لہر پھیل چکی تھی۔ “ان کی اس جدوجہد کا نتیجہ 2008 میں نظر آیا، جب ایک نا ممکن سا نظر آنے والا کام ہو گیا۔ امریکہ کا صدر ایک سیاہ فام شخص (براک اوبامہ) بنا، وہ بھی ایک نہیں لگاتار دو مدت کار کے لیے۔”

اس کے بعد بابا صاحب امبیڈکر کا ذکر کرتے ہوئے لالو بتاتے ہیں کہ نچلی مانی جانے والی ‘مہار’ ذات میں پیدا ہونے پر بابا صاحب کے ساتھ برہمنوں اور منووادی سوچ کے حامل لوگوں نے کیسے چھواچھوت برتی۔ انہیں ان لوگوں کے ذلت آمیز رویہ اور نفرت کا سامنا کرنا پڑا۔ بابا صاحب اور دیگر اچھوت طلبہ کو دوران تعلیم پانی کے برتن تک چھونے کی اجازت نہیں تھی۔ پیاس لگنے پر وہ دونوں ہاتھ جوڑ کر اوک بنا لیتے، جس میں اونچی ذات کا کوئی فرد اونچائی سے پانی ڈال دیتا۔ لالو کہتے ہیں امبیڈکر کی جدوجہد، پختہ عزم اور ذہانت و لیاقت نے کانگریس کو مجبور کر دیا کہ آئین ترتیب دینے کے لیے بنائی گئی کمیٹی کا انہیں چیئرمین بنائے۔ اسے لے کر اپنا فطری طنز وہ یوں پیش کرتے ہیں،”ان کی موت کے 60 سال بعد بھی؛ ہر کوئی، یہاں تک کہ ذات پات کے نظام پر عمل کرنے والی منووادی طاقتیں بھی بابا صاحب کی وراثت قبول کرنے کو ایک پیر پر تیار رہتی ہیں۔”

خود کو گاندھی سے جوڑتے رہنے والے لالو انہیں ون مین آرمی قرار دیتے ہیں۔ ایسا آہنی شخص جو تقسیم کے زہریلے فرقہ پرستانہ ماحول کے بیچ بھی آپسی اتحاد کے لیے سینہ سپر رہا۔ لالو نے اپنے مخصوص اسلوب میں گاندھی جی کے لیے لکھا، “انہوں نے مغربی بنگال کے نواکھالی جانا طے کیا، جو ان دنوں فرقہ پرستی کی آگ میں بری طرح جل رہا تھا اور جہاں بڑے پیمانے پر مارکاٹ مچی تھی۔ انہوں نے آمرن انشن شروع کر دیا اور اسے تبھی ختم کیا، جب مقامی لیڈران نے یقین دلا دیا کہ وہ امن قائم کریں گے اور متاثرین بھی لوٹ آئیں گے۔ ملک کے کئی حصوں میں فرقہ وارانہ تشدد پھوٹ پڑا تھا، جس پر قابو پانے کے وسائل محدود تھے۔ جگہ جگہ فورسیز بھیجی گئیں۔ اس بیچ گاندھی مشرقی ہند میں قیام امن کے لیے اکیلے قلعہ لڑاتے رہے۔ ہندو و مسلمانوں دونوں کے اس مسیحا کو فرقہ پرستی کی نفرت میں ڈوبے ایک منووادی نے قتل کر دیا۔”وہ لکھتے ہیں؛

میری زندگی کا سفر بھی انہیں عظیم لوگوں کی طرح رہا، حالانکہ ان کے قریب تک پہنچنے کا بھی میرا کوئی دعویٰ نہیں ہے؛ ایسا کرنا حماقت ہوگی۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ اپنے پورے سیاسی سفر میں دلتوں، پچھڑوں اور اقلیتوں کے حقوق کی جدوجہد میں ان شخصیات کے اصول و طور طریقے میرے بڑے کام آئے۔ بہار کی تعمیر میں میں نے مہاتما گاندھی کی اہنسا کے ساتھ منڈیلا، کنگ اور امبیڈکر کے بتائے راستوں کو اختیار کیا۔ جیسی کہ امید تھی میری راہ کانٹوں سے بھری تھی اور یقیناً یہ آسان نہیں تھی۔ لیکن میں اپنے راستے سےمنحرف نہیں ہوا۔”

اپنے بارے میں بات کرتے ہوئے لالو دعویٰ کرتے ہیں کہ عوام الناس تک رسائی کے ان کے انداز اور لوگوں کی ان کے تئیں مخلصانہ محبت سے آر ایس ایس و سنگھ پریوار والے گھبرا گئے تھے۔ “وہ میرے خلاف ہیں، کیونکہ میں جبریہ بندشوں میں رہ کر جدوجہد کر رہے لوگوں کی آواز بن گیا تھا… سنگھ پریوار کے گستاخ کارندوں نے میرے خلاف اپنی مہم اورتیز کر دی، خاص طور سے 1990 میں لال کرشن اڈوانی کی تباہ کن رتھ یاترا بہار میں روکنے اور انہیں حراست میں لیے جانے کے بعد۔ تب سے وہ ان کو مہیا ہر وسیلے سے میرے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا کرنے اور میری منفی شبیہ پیش کرنے میں لگے ہیں۔” اپنی بات مکمل کرنے کے لیے وہ مشہور شاعر فیض احمد فیض کا سہارا لیتے ہیں؛

جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا، وہ شان سلامت رہتی ہے

یہ جان تو آنی جانی ہے، اس جاں کی تو کوئی بات نہیں

Next Article

مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے والے پیغامات فارورڈ کرنے پر غیر معینہ مدت تک جیل میں نہیں رکھ سکتے: عدالت

مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے پہلگام دہشت گردانہ حملے کو لے کر وہاٹس ایپ پیغامات فارورڈ کرنے کے الزام میں گرفتار سرکاری کالج کی گیسٹ فیکلٹی کو ضمانت دیتے ہوئے کہا کہ مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے والے ویڈیو کو فارورڈ کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کسی کو غیر معینہ مدت تک جیل میں رکھا جا سکتا ہے۔

علامتی تصویر بہ شکریہ: پکسابے

نئی دہلی: مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے والے ویڈیو کو فارورڈ کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کسی شخص کو غیر معینہ مدت تک جیل میں رکھا جا سکتا ہے۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، عدالت نے ڈنڈوری کے گورنمنٹ ماڈل کالج کی گیسٹ فیکلٹی ڈاکٹر نسیم بانو کو ضمانت دیتے ہوئے یہ تبصرہ کیا۔ انہیں پہلگام دہشت گردانہ حملے کے بارے میں مبینہ طور پر وہاٹس ایپ پیغامات اور ایک ویڈیو فارورڈ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔

جسٹس اویندر کمار سنگھ نے 13 جون کے اپنے آرڈر میں کہا، ‘پہلی نظر میں یہ بہت محفوظ طریقے سے کہا جا سکتا ہے کہ کالج میں گیسٹ فیکلٹی کے عہدے پر فائز ایک پڑھے لکھے شخص پر وہاٹس ایپ پیغامات فارورڈ کرتے ہوئے زیادہ ذمہ داری عائدہوتی ہے۔ لیکن محض پیغامات اور ویڈیوز کو فارورڈ کرنے کی بنیاد پر، جس سے کسی کمیونٹی کے مذہبی جذبات مجروح ہوسکتے ہیں، کسی شخص کو غیر معینہ مدت تک جیل میں نہیں رکھا جا سکتا۔’

معلوم ہو کہ ڈاکٹر بانو کو 28 اپریل کو ڈنڈوری پولیس اسٹیشن میں دیپیندر جوگی نامی شخص کی شکایت کے بعد گرفتار کیا گیا تھا۔ ان کے خلاف بھارتیہ  نیائےسنہتا(بی این ایس) 2023 کی دفعہ 196، 299 اور 353 (2) کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔

اس میں الزام لگایا گیا ہے کہ پروفیسر نے ایک وہاٹس ایپ گروپ میں کچھ پوسٹ ڈالے تھے، جن کا مقصد ایک کمیونٹی کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانا ہے، ساتھ ہی ‘نیا راون’ کے عنوان سے ایک ویڈیو بھی نشر  کیا تھا ہے۔

ایڈوکیٹ ایشان دت اور سینئر ایڈوکیٹ منیش دت نے ڈاکٹر بانو کی طرف سے پیش ہوتے ہوئے دلیل دی کہ وہ ایک پڑھی لکھی خاتون ہیں اور ان کا کسی کمیونٹی کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا کوئی ارادہ نہیں  تھا۔

ضمانت کی مخالفت کرتے ہوئے سرکاری وکیل رویندر شکلا نے دعویٰ کیا کہ درخواست گزار نے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے لیے جان بوجھ کر وہاٹس ایپ پیغام اور ویڈیو کو آگے بڑھایا تھا۔

تاہم، انہوں نے بتایاکہ پروفیسر کے خلاف کوئی اور جرم درج نہیں ہے۔ دونوں فریقوں کو سننے اور کیس ڈائری کا جائزہ لینے کے بعد جسٹس سنگھ نے حقائق اور حالات کو دیکھتے ہوئے ضمانت دینا مناسب سمجھا۔

Next Article

جلد شرم محسوس کریں گے انگریزی بولنے والے: کیوں خطرناک ہے امت شاہ کا یہ بیان؟

مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا ہےکہ ہندوستان میں انگریزی بولنے والے لوگ جلد ہی شرم محسوس کریں گے۔ یہ بیان ثقافتی ہی نہیں بلکہ سیاسی بھی ہے – جو زبان، تعلیم، پہچان اور عالمی مسابقت سے متعلق سوالوں کو جنم دیتا ہے۔ یہ خیال معاشرے میں تفرقہ پیدا کرتا ہے اور عدم مساوات کو وسیع کرتا ہے۔

مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ (فوٹوبہ شکریہ: فیس بک/امت شاہ)

نئی دہلی: مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے جمعرات (19 جون، 2025) کو کہا کہ ہندوستان میں انگریزی بولنے والے لوگ جلد ہی شرم محسوس کریں گے، اور ایسا معاشرہ بننے میں اب زیادہ دیر نہیں ہے۔

شاہ نے یہ تبصرہ سابق آئی اے ایس افسر آشوتوش اگنی ہوتری کی کتاب ‘میں بوند سویم، خود ساگر ہوں’ کی تقریب رونمائی کے دوران کیا۔ اس پروگرام میں کی گئی ان کی تقریر کا ویڈیو نیوز ایجنسی اے این آئی نے اپنے ایکس ہینڈل پر شیئر کیا تھا، لیکن بعد میں اسے ہٹا لیا گیا۔ یہی نہیں، اے این آئی نے اپنی ویب سائٹ سے امت شاہ کے تبصرے کی بنیاد پر شائع ہونے والی خبر کو بھی حذف کر دیا۔

تاہم، ہندوستانی سیاست میں اس طرح کی باتیں پہلے بھی سننے کو ملتی رہی ہیں، لیکن امت شاہ کا یہ بیان اس لیے زیادہ اہمیت اختیار کر جاتا ہے کہ وہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) میں دوسرے اہم لیڈر مانے جاتے ہیں اور مرکزی حکومت کے وزیر داخلہ بھی ہیں۔ یعنی ان کے بیان کو محض ذاتی رائے کے طور پر نہیں دیکھا جا رہا ہے بلکہ حکمران جماعت کے پالیسی اشارے کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔

اس بیان کو ہندوتوا کے دیرینہ نظریہ – ‘ہندی، ہندو، ہندوستان’ کے پس منظر میں دیکھا جائے تو یہ صرف ایک ثقافتی تبصرہ نہیں  رہ جاتا۔ اس کا اثر بہت گہرا اور وسیع ہے، جس میں قومی شناخت، سماجی ترقی، دانشوری اور ہندوستان کی بین الاقوامی امیج جیسے پہلوؤں کی جھلک ملتی ہے۔

جہاں شاہ کا بیان ایک طرف ملک میں انگریزی زبان کے بارے میں عام تاثر کو چیلنج کرتا ہے، وہیں اس سے یہ بحث بھی چھڑ جاتی ہے کہ کیا ہندوستان میں کسی زبان کا استعمال اب ثقافتی برتری بمقابلہ شرم کا معاملہ بن گیا ہے۔ یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب عالمی سطح پر ہندوستان کی کثیر لسانی شناخت کو ایک طاقت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے – لیکن اندر سے اس شناخت کو ‘ایک زبان، ایک ثقافت’ کے ڈھانچے میں ڈھالنے کی کوششیں بھی تیز ہوتی نظر آ رہی ہیں۔

امت شاہ کے بیان کے پانچ اہم پہلو یہ ہوسکتے ہیں؛

لسانی برتری اور تقسیم

ہندوستان کی اصل طاقت اس کے لسانی تنوع میں مضمر ہے۔ یہاں کوئی ایک قومی زبان نہیں ہے، لیکن آئین کے آٹھویں شیڈول میں 22 تسلیم شدہ زبانیں ہیں۔ ایسے میں انگریزی کو ‘غیر ملکی تسلط’ کہنے اور اسے ‘شرم’ سے جوڑنے کی سوچ لسانی برتری کو فروغ دیتی ہے۔

ہندوستان میں، انگریزی زبان اکثر ایک پل کا کام کرتی ہے – خاص طور پر اعلیٰ تعلیم، کاروبار اور بین ریاستی مواصلات میں۔ امت شاہ کے بیان کو ملک کے ان حصوں میں جہاں ہندی نہیں بولی جاتی ہے (خاص طور پر جنوبی ہندوستان، شمال مشرق اور مشرقی ہندوستان میں) ہندوتوا سیاست کی ہندی تھوپنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ اس سے علاقائی عدم اطمینان اور تقسیم کے گہرا ہونے کا خطرہ ہے۔

نوآبادیاتی وراثت کے بہانے ہندوتوا کو فروغ دینے کی کوشش

امت شاہ کا بیان ہندی کو ہندوستانی شناخت کے مرکز میں قائم کرنے کی بی جے پی کی پرانی سیاسی حکمت عملی سے میل کھاتا ہے۔ انگریزی کو ‘نوآبادیاتی میراث’ اور ‘شرم’ کی علامت قرار دے کر، وہ قوم پرست جذبات سے فائدہ اٹھانے اور پارٹی کے حامیوں کو مضبوط بنیاد فراہم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

ان کی یہ زبان اس خیال کو فروغ دیتی ہے کہ سچا محب وطن وہ ہے جو ہندوستانی زبانوں کو اپناتا ہے (بنیادی طور پر بی جے پی کی نظر میں ہندی)۔

یہ درست ہے کہ نوآبادیاتی ذہنیت سے نکلنے کی ضرورت ہے، لیکن انگریزی اب عالمی رابطے کی زبان بن چکی ہے۔ بین الاقوامی سطح پر جڑنے کا یہ ایک اہم ذریعہ ہے۔ ایسے میں انگریزی کو ‘شرم’ کے ساتھ جوڑنا ایک حساس معاملے کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال کرنے کے مترادف ہے۔

یہ نقطہ نظر عوام کی توجہ حقیقی مسائل جیسے کہ عوامی تعلیم کے معیار سے ہٹا سکتا ہے۔

ہندوستان کی عالمی مسابقت کو خطرے میں ڈالنے والا خیال

انفارمیشن ٹکنالوجی (آئی ٹی) اور خدمات کے شعبے میں ہندوستان کی تیزی سے بڑھتی ہوئی طاقت اس کے انگریزی بولنے والے نوجوانوں کے ذریعہ چل رہی ہے۔ یہ لسانی برتری ہندوستان کو چین جیسے ممالک سے الگ کرتا ہے اور اسے عالمی سرمایہ کاروں کے لیے پرکشش بناتا ہے۔

لیکن جب امت شاہ جیسے سینئر لیڈر انگریزی کو شرم کا باعث قرار دیتے ہیں، تو اس سے پوری دنیا میں یہ پیغام جاتا ہے کہ ہندوستان ایک تنگ نظر، ماضی میں الجھا ہواملک بن  رہا ہے، جو اپنی طاقت کو کمزور کرنے پر تلا ہوا ہے۔

اس طرح کا رویہ نوجوانوں کو ان مہارتوں سے محروم کر سکتا ہے جو انہیں عالمی مسابقت میں برتری فراہم کرتی ہیں – ہندوستان کے معاشی مستقبل کو متاثر کرتی ہے۔

اگر شاہ کے بیان کو ہندوتوا حکومت کی پالیسی کے طور پر دیکھا جاتا ہے، تو یہ ایک کھلے، جدید اور عالمی سطح پر جڑے ہوئے ملک کے طور پر ہندوستان کی شبیہ کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔

سماجی تحرک اور تعلیم پر اثرات

ہندوستان میں انگریزی کو اکثر بہتر تعلیم، ملازمتوں اور اعلیٰ سماجی حیثیت کے لیے ایک گیٹ وے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ امت شاہ کا انگریزی کو شرم کے ساتھ جوڑنے سے لاکھوں لوگوں کی حوصلہ شکنی ہو سکتی ہے جو عملی وجوہات کی بنا پر یہ زبان سیکھنا چاہتے ہیں۔

اس بیان کے تعلیمی پالیسی پر بھی اثرات پڑ سکتے ہیں – خاص طور پر زبان سے متعلق فیصلوں میں۔ اگر انگریزی کو تعلیم سے ہٹا دیا جاتا ہے، تو غیر مراعات یافتہ طلباء کے لیے عالمی مواقع تک رسائی مشکل ہو سکتی ہے۔

اس سے شہری اور دیہی تقسیم اور انگلش میڈیم بمقابلہ مقامی میڈیم اسکولوں کے درمیان فرق مزید بڑھ سکتا ہے، جس سے معاشرے میں عدم مساوات بڑھنے کا خطرہ ہے۔

دانشوری  کی مخالفت اور ثقافتی پسماندگی کا فروغ

انگریزی بولنے کو ‘شرم’ سے جوڑنا دانشوری کی شدید مخالف کی علامت ہے۔ امت شاہ کا بیان ان لوگوں کو حاشیے پر ڈالتا ہے، جو انگریزی میں بے ساختگی سے بات چیت کرسکتے ہیں – اور اکثر وہی لوگ ہوتے ہیں جو بہتر تعلیم یافتہ، عالمی سطح پر جڑے ہوئے اور ہندوستان کے نمائندہ چہرے ہیں۔

اس سے یہ پیغام جاتاہے کہ  کھلا، عالمی نقطہ نظر ہندوستانی نہیں ہے۔ اس طرح کی سوچ ہندوستان کو دنیا سے جوڑنے کے بجائے اندر کی طرف موڑ دیتی ہے، جو سماجی اور ثقافتی تنگ نظری کو  فروغ دیتاہے۔

Next Article

ایران پر اسرائیلی حملے اور ٹرمپ کی دھمکی سے بے نقاب ہوا عالمی سیاست کا حقیقی چہرہ

اسرائیل نے ایران پر یہ کہتے ہوئے حملہ کیا کہ یہ اس کے وجود کے لیے خطرہ ہے۔ ایک  ملک جس کے پاس ایٹم بم ہے، ایک پڑوسی ملک پر یہ کہہ کر حملہ کرتا ہے کہ وہ ایٹم بم بنانے کے قریب ہے۔

بائیں سے- آیت اللہ علی خامنہ ای، ڈونالڈ ٹرمپ اور بنجمن نیتن یاہو (تصویر بہ شکریہ: سوشل میڈیا)

پوری دنیا کے لوگ ایک ناقابل یقین منظر دیکھ رہے ہیں۔ یا اصل حقیقت اب بے نقاب ہو گئی ہے۔ یعنی دنیا میں ڈپلومیسی نام کی کوئی شےنہیں ہے۔ جو ہے وہ غنڈہ گردی یا مسلح قوت ہے۔ بین الاقوامی اصول، قوانین اور ضابطوں کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ اگر کچھ طاقتور غنڈے، جنہیں قوم کے نام سے قابل فخر سمجھا جاتا ہے، ساتھ آ جائیں تووہ  کسی کو بھی گھیر کر مار ڈال سکتے ہیں۔

یہ بھی ایک ناقابل یقین منظر ہے کہ دنیا کے سب سے طاقتور مانے جانے والے ملک امریکہ کے سربراہ کو اسرائیل نے نکیل ڈال رکھی ہے اور اپنی مرضی سے اسے نچا رہا ہے۔ جیسا کہ بہت سے امریکی ماہرین ایک عرصے سے کہہ رہے ہیں کہ یہ اسرائیل ہے جو امریکہ کی بین الاقوامی پالیسی کا فیصلہ کرتا ہے، امریکہ نہیں۔

اسرائیل نے ایران پر اچانک حملہ کر دیا ہے۔ تزویراتی طور پر اہم اہداف پر حملہ کرنے کے ساتھ ساتھ اس نے ایران کی فوج کے رہنماؤں کو نشانہ بنا کر ہلاک کیا ہے۔


اسرائیل نے فوج اور حکومت میں خامنہ ای کے تمام قریبی لوگوں کو نشانہ بنا کر ہلاک کر دیا ہے۔ اب یہ دھمکی دے رہا ہے کہ وہ ایران کے لیڈر خامنہ ای کو بھی نشانہ بنا سکتا ہے۔ یہ ایران میں بغاوت کی بات کر رہا ہے۔ نیتن یاہو ایران کے عوام سے اپیل کر رہے ہیں کہ وہ اپنی حکومت کو معزول کر دیں۔ اور خود کو اس کے نجات دہندہ کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ یعنی ایران میں جو تباہی برپا کر رہا ہے اس کے مطابق وہ ایران کی بھلائی کے لیے ہے۔


وہ یہ سوچ بھی پا رہا ہے کہ جو ایرانی عوام اس کی بمباری سے ہلاک اور تباہ ہو رہے ہیں وہ اسے اپنا نجات دہندہ سمجھ کر اس کو خوش آمدید بھی کہیں گے۔

امریکہ اب تک اپنے پٹھے اسرائیل کے ساتھ براہ راست میدان میں نظر نہیں آ رہا۔ نیتن یاہو پہلے دن سے ہی اپنے سرپرست سے کہہ رہاہے کہ اسے میدان میں اترنا ہی پڑے گا۔ امریکی صدر کو اکسانے کے لیے وہ کھلے عام کہہ رہاہے کہ ایران ٹرمپ کا قتل کر سکتا ہے۔ نیتن یاہو ٹی وی پر کہہ رہا ہے کہ ٹرمپ ایران کا پہلا ہدف ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ٹرمپ خود کو بچانا چاہتے ہیں تو وہ ایران پر اسرائیلی حملے میں شامل ہو جائیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ تنہا ایران کو شکست نہیں دے سکتا۔

اسرائیل یورپ اور امریکہ کو سمجھا رہا ہے کہ وہ دراصل انہیں بچانے کے لیے ایران پر حملہ کر رہا ہے۔ اور وہ سن رہے ہیں۔


اسرائیل میں امریکی سفیر ٹرمپ کو ایک بے ڈھنگا  خط بھیجتا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ ٹرمپ کو اسے خدا نے کچھ ایسے کام کو انجام دینے کے لیے بھیجا ہے جو کوئی دوسرا صدر نہیں کر سکتا۔ وہ کہتا ہے کہ 1945 کے ٹرومین کے بعد وہ دوسرا صدر ہے جسے خدا نے اپنا کام کرنے کے لیے چنا ہے۔ سب کو یاد ہے کہ ٹرومین نے 1945 میں کیا کیا تھا۔ اس نے ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرا یا تھا۔ سفیر صدر کو ایران کے ساتھ ٹرومین جیسا کچھ کرنے پر اکسا رہا ہے۔ اور صدر اس خط کو پبلک بھی کر دیتا ہے۔


جب  اسرائیل بغیر کسی اشتعال کے ایران پر بمباری کر رہا ہو اور پورے علاقے میں تباہی کا منظر ہو، اس وقت ٹرمپ نے کہا تھا کہ ایران کے ساتھ بات چیت بہت اچھی چل رہی ہے۔ ایران کی طرف سے جو امریکہ سے بات چیت کر رہے تھے ، ان ایرانی اہلکار کو اسرائیل نے مار ڈالا اورامریکی صدرتالی بجا رہا ہے۔ کہہ رہا ہے؛ وہ مارا گیا۔

امریکہ ایک خودمختار قوم کو دھمکی دے رہا ہے کہ وہ اس کے سربراہ مملکت کو مار سکتا ہے لیکن ابھی ایسا نہیں کرے گا۔ ایران ہتھیار ڈال دے ورنہ…!

اسرائیل نے ایران پر یہ کہتے ہوئے حملہ کیا کہ یہ اس کے وجود کے لیے خطرہ ہے۔ ایک  ملک جس کے پاس ایٹم بم ہے، ایک پڑوسی ملک پر یہ کہہ کر حملہ کرتا ہے کہ وہ ایٹم بم بنانے کے قریب ہے۔

اور دنیا کے تمام ممالک جو اپنے آپ کو تہذیب کا محافظ کہتے ہیں، اسرائیل کی طرف سے ایران پر زبانی حملے شروع کر دیتے ہیں۔ فرانس، جرمنی، انگلینڈ سب چیخنے لگتے ہیں کہ ایران خطرہ ہے۔ جس کے پاس ایٹم بم ہے وہ خود کو غیر محفوظ کہہ کر اپنے پڑوسی پر حملہ کر رہا ہے۔ اگر ایٹم بم بھی کسی کو نہیں بچا سکتا تو اس کے ہونے کا کیا فائدہ؟

دنیا کی طاقتور ترین قومیں کینیڈا میں جمع ہوتی  ہیں۔ لیکن یہ جی7 جوکروں کے اڈے کی طرح لگتا ہے۔ یہ جوکر ہیں، لیکن خطرناک ہیں کیونکہ ان کے پاس پوری دنیا کی طاقت ہے۔

امریکہ کا  صدر یہ اڈے بازی درمیان میں چھوڑ کر اٹھ جاتا ہے یہ کہہ کر کہ وہ کچھ بہت بڑا کرنے کے لیے واشنگٹن لوٹ رہا ہے۔

سب قیاس آرائیاں کر رہے ہیں کہ وہ بڑا کیا ہوگا! ‘ میرے ذہن میں کیا ہے، کوئی نہیں بتا سکتا ‘، وہ سب کو چڑاتا ہے۔


صحافی پوچھتے ہیں کہ صرف 3 ماہ قبل امریکی محکمہ انٹلی جنس کی سربراہ تلسی گبارڈ نے بیان دیا تھا کہ ایران کے پاس بم بنانے کی صلاحیت نہیں ہے۔ پھر امریکہ اب اس بیان سے کیسے پیچھے ہٹ سکتا ہے؟ اور صدر یہ کہتا ہے کہ اسے  ذرا بھی پرواہ نہیں  کہ وہ کیا بولی تھی۔ ابھی اس کے ذہن میں جو آئے گا وہ کرے گا۔ امریکہ میں لوگ چیخ رہے ہیں کہ جنگ کا فیصلہ صرف کانگریس یا سینیٹ ہی کر سکتی ہے، لیکن صدر کے پاس ان اصول و ضوابط کے لیے وقت نہیں ہے۔


آپ کینیڈا میں اس منظر کو دوبارہ دیکھیے؛ فرانس، انگلینڈ، اٹلی، کینیڈا، جاپان، امریکہ اور یورپی یونین کے سربراہان کو دیکھیے۔ ان کے باہمی مسخرے پن کو دیکھیے۔ یہ سب اپنے کاروباری مفادات کے تحفظ کے لیے اکٹھا ہیں۔ اور وہ چاہتے ہیں کہ دنیا یقین کرے کہ وہ انسانیت کے لیے بھلائی کے طریقے سوچ رہے ہیں۔

مستقبل میں جب کوئی یہ تصویریں دیکھے گا تو کیا وہ اندازہ لگا سکے گا کہ یہ اس وقت کا منظر ہے جب ان ملکوں کا ایک پٹھوں دنیا کے ایک حصے میں تباہی مچا رہا تھا؟ جب غزہ میں روزانہ وہ پٹھوںسینکڑوں فلسطینیوں کو قتل کر رہا تھا؟

یہ 6 مغربی ممالک پوری دنیا کی تقدیر کا فیصلہ کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ باقی ممالک ان کے دعوت نامے کا انتظار کرتے ہیں، ان کے ساتھ تصویر لینے کے لیے دھکا مکی کرتے ہیں۔ سب کوواپس اپنےملکوں میں اپنے ووٹروں کو تصویر دکھانی ہے!

دنیا میں قیادت کا فقدان ہے، ہم افسوس کرتے ہیں۔ لیکن ہمیں شاید ٹرمپ کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ انہوں نے ہمیں دکھایا کہ بین الاقوامی تعلقات جیسی کوئی چیز نہیں ہے۔ یہ زمین کے وسائل کی اجتماعی لوٹ مار کے لیے طاقتوروں کے باہمی معاہدے کا دوسرا نام ہے۔ ایک طرح سے 20ویں صدی کا پہلا نصف ختم نہیں ہوا ہے۔ جس طرح یہ ممالک مشرق وسطیٰ کو آپس میں تقسیم کر رہے تھے، آج پھر کر رہے ہیں۔ استعماریت جاری ہے۔

اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔

Next Article

یوپی کانسٹبل بھرتی: امت شاہ نے جس امتحان کو بے داغ کہا، وہ کبھی پیپر لیک کے بعد ہوا تھا رد

مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے یوپی پولیس میں بھرتی کے عمل کو ‘شفاف’ قرار دیا ہے، لیکن گزشتہ سال پیپر لیک کی وجہ سے اس امتحان کو منسوخ کر دیا گیا تھا۔ اس کا انعقاد کرنے والی گجراتی کمپنی ایڈوٹیسٹ کی تاریخ داغدار رہی ہے۔ یوپی حکومت کو بھی اس کمپنی کو بلیک لسٹ کرنا پڑا تھا۔ اس کمپنی کے بانی ڈائریکٹر کے بی جے پی کے اعلیٰ لیڈروں سے قریبی روابط رہے ہیں۔

مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ جوائنگ لیٹردیتے ہوئے۔تصویر بہ شکریہ: ایکس/ امت شاہ

نئی دہلی: 15 جون، 2025 کو لکھنؤ میں منعقد ایک پروگرام میں مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے اتر پردیش پولیس کے ‘اب تک کی سب سے بڑی بھرتی کے عمل’ کے تحت منتخب کیے گئے   60244سپاہیوں کو تقرری لیٹر سونپے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ بھرتی مکمل طور پر شفاف تھی اور کسی کی سفارش نہیں چلی، اور نہ ہی رشوت لی گئی اور ذات یا برادری  بھی نہیں دیکھی گئی- انتخاب صرف میرٹ کی بنیاد پر کیا گیا۔

اس دعوے میں کتنی صداقت ہے؟

وزیر داخلہ کا یہ دعویٰ کئی سطحوں پر سوالوں کے دائرے میں ہے۔

اول، اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی موجودگی میں یہ دعویٰ کرتے ہوئے امت شاہ بھول گئے کہ پچھلے سال، اسی امتحان، یعنی ‘کانسٹبل سول پولیس ڈائریکٹ ریکروٹمنٹ-2023’ پربدعنوانی کے تمام طرح کے الزام لگے تھے اور اس کی جانچ یوپی ایس ٹی ایف نے کی تھی۔ وہ بھول گئے کہ سال بھرقبل پرچہ لیک ہونے کی وجہ سے اتر پردیش حکومت کو یہ امتحان منسوخ کرنا پڑا تھا۔

اس کے بعد دوبارہ امتحان ہوا جس کے بعد اب بھرتیاں کی گئی ہیں۔ اس دوسرے امتحان کی شفافیت کا دعویٰ کرنے سے پہلے بہتر ہو گا کہ پچھلے سال منسوخ ہونے والے امتحان کا ذکر کر دیا جائے جس نے لاتعداد امیدواروں کی زندگیاں داؤ پر لگا دی تھیں۔

دوم، امت شاہ نے اس حقیقت کو نظر انداز کر دیا کہ اس امتحان کا انعقاد کرنے والی کمپنی ایڈوٹیسٹ سولیوشنز پرائیویٹ لمیٹڈپربہارحکومت نے ایک دوسرےپیپر لیک معاملے میں بہت پہلے پابندی لگا دی تھی ۔ اس کے باوجود اتر پردیش حکومت نے دوبارہ امتحان کرانے کا ٹھیکہ اس کمپنی کو دیا ۔

سوم، امت شاہ بھول گئے کہ یہ کمپنی دراصل گجرات کی ہے  اور اس کے بی جے پی لیڈروں سے روابط رہےہیں۔

چہارم، انہوں نے یہ بھی نہیں دیکھا کہ 20 جون 2024 کو اتر پردیش حکومت کی طرف سے بلیک لسٹ کیے جانے کے باوجود، سی ایس آئی آر نے، جو کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی سربراہی والا ادارہ ہے، سیکشن آفیسر (ایس او)، اور اسسٹنٹ سیکشن آفیسر(اے ایس او) کے عہدوں پر بھرتی کے لیے ایڈوٹیسٹ کی خدمات کو لینا جاری رکھا، جس پر شدید بے ضابطگیوں کے الزامات تھے۔

یعنی، جس امتحان کو ملک کے وزیر داخلہ نے شفاف قرار دیا ، نہ صرف اس کی تاریخ پیپر لیک اور بدعنوانی کی  ہے بلکہ اس امتحان کو منعقد کرنے والی کمپنی پر پابندی لگائی جاتی رہی ہے- اور ان پابندیوں کے باوجود کمپنی مختلف امتحانات کا انعقاد کرتی رہی ہے۔

پیپر لیک کی تاریخ

اتر پردیش پولیس میں کانسٹبل کی بھرتی کے لیے امتحان 17 اور 18 فروری 2024 کو منعقد ہوا تھا۔ 48 لاکھ سے زیادہ نوجوانوں نے حصہ لیا تھا۔ لیکن سوالیہ پرچہ لیک ہونے کے الزام کے بعد دوبارہ امتحان کرانے کا مطالبہ کیا جانے  لگا۔

اس معاملے میں ریاست کے مختلف حصوں سے 120 سے زیادہ لوگوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔ یہ لوگ نقل کرتے ہوئے پکڑے گئے تھے۔ کچھ لوگوں کو اصلی امیدواروں کی جگہ امتحان میں شریک ہونے پر گرفتار کیا گیا، جبکہ کچھ ایسے بھی تھے جنہوں نے امیدواروں کے ساتھ  دھوکہ  کیا تھا۔

اس وقت کے پولیس ڈائریکٹر جنرل پرشانت کمار نے کہا تھا ، ‘کل 122 گرفتار لوگوں میں سے 15 کو ایٹا میں، نو-نو کو مئو، پریاگ راج اور سدھارتھ نگر میں، آٹھ کو غازی پور میں، سات کو اعظم گڑھ میں، چھ گورکھپور میں، پانچ کو جونپور میں، چار کو فیروز آباد میں، تین-تین کو کوشامبی میں اورہاتھرس میں،دو-دو کو جھانسی ،وارانسی، آگرہ آگرہ اور کانپور میں ، اور ایک -ایک کوبلیا، دیوریا اور بجنور میں گرفتار کیا گیا ۔’

یہ بدعنوانی ریاست گیر تھی

سوالیہ پرچہ لیک ہونے کے الزامات کے بعد ریاستی حکومت نے فروری 2024 میں ایس ٹی ایف کی تشکیل کی تھی۔ ایس ٹی ایف نے مارچ 2024 میں بلیا کے رہنے والے نیرج یادو کو گرفتار کیا تھا ۔ اس پر امیدواروں کو وہاٹس ایپ پر جوابات بھیجنے کا الزام تھا۔

اس کے علاوہ بھی کئی گرفتاریاں  کی گئی تھیں۔

کمپنی پر اٹھائے گئےسوال

ریاست بھر سے امیدواروں نے لکھنؤ پہنچ کر احتجاج کیا ، اور آخرکار یوگی آدتیہ ناتھ نے امتحان کو رد کرنے کا اعلان کیا ۔

گجرات کی جس  ایجنسی ایڈوٹیسٹ کو اس امتحان کے انعقاد کی ذمہ داری دی گئی تھی، اسے ریاستی حکومت نے پیپر لیک کے الزامات کے بعد 20 جون 2024 کو بلیک لسٹ کر دیا ۔

یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ اس کمپنی پر سوالات اٹھائے گئے تھے۔

دی وائر نے گزشتہ سال تین حصوں میں اپنی مفصل رپورٹ میں لکھا تھا کہ یوپی میں پولیس بھرتی امتحان کے لیے ٹینڈر حاصل کرنے سے پہلے بہار میں امتحان کے عمل میں بے قاعدگیوں کی وجہ سے ایڈو ٹیسٹ کو بلیک لسٹ کر دیا گیا تھا۔

بلیک لسٹڈ کمپنی کی بی جے پی لیڈروں سے قربت

بار بار تنازعات میں آنے کے باوجود اسے بی جے پی مقتدرہ ریاستوں اور خود نریندر مودی کی سربراہی والی سی ایس آئی آر سے ٹھیکے ملتے رہے۔ اس کمپنی کا رجسٹریشن گجرات میں ہوا تھا۔

دی وائرنے اپنی رپورٹ میں بتایاتھا کہ نہ صرف اس کمپنی کو کئی بار بلیک لسٹ کیا گیا، بلکہ اس کے بانی ڈائریکٹر کے وزیر اعظم نریندر مودی سمیت بی جے پی کے کئی بڑے لیڈروں سے خوشگوار تعلقات ہیں۔

دراصل، ایڈوٹیسٹ کے بانی ڈائریکٹر سریش چندر آریہ ایک ممتاز ہندو تنظیم ‘سارودیشک آریہ پرتینیدھی سبھا‘ کے صدر ہیں ۔ سبھا نے سال 2018 میں چار روزہ بین الاقوامی آریہ مہا سمیلن کا انعقاد کیا تھا ، جس میں بی جے پی اور سنگھ کے کئی سینئر لیڈروں نے شرکت کی تھی۔ اس وقت کے صدر رام ناتھ کووند مہا سمیلن کی افتتاحی تقریب میں پہنچے تھے اور سریش چندر آریہ نے استقبالیہ تقریر کی تھی۔

فروری 2023 میں نئی دہلی میں دیانند سرسوتی کے 200 ویں یوم پیدائش کی تقریبات کا افتتاح وزیر اعظم نریندر مودی نے کیا تھا۔ آریہ سماج کے اس پروگرام کے دوران پی ایم مودی کے ساتھ اسٹیج پر سریش چندر آریہ موجود تھے۔  مودی نے اپنی تقریر میں سریش چندر کا بھی ذکر کیا تھا ۔

سریش چندر آریہ پی ایم مودی کے دائیں طرف کھڑے ہیں۔ (تصویر بہ شکریہ: نریندر مودی ویب سائٹ)

وزیراعظم کے ادارے کے امتحان پر بھی سوالات اٹھائے گئے

سریش چندر کے بیٹے یعنی ایڈوٹیسٹ کے منیجنگ ڈائریکٹر ونیت آریہ کو 2017 میں امتحان سے متعلق بے ضابطگیوں کے الزام میں جیل رسید کیا گیا تھا۔ اس کے باوجود وزیر اعظم کی سربراہی والی  مرکزی حکومت کے ادارے سی ایس آئی آر اور کئی ریاستوں میں بی جے پی حکومتوں نے امتحان کے انعقاد کے لیے ایڈوٹیسٹ کو ٹھیکہ دیا تھا۔

سی ایس آئی آرکےسیکشن آفیسر (ایس او) اور اسسٹنٹ سیکشن آفیسر (اے ایس او) بھرتی امتحان کے مختلف مراحل میں بے ضابطگیاں سامنے آئی تھیں۔ پہلے مرحلے کا امتحان 5 اور 20 فروری 2024 کے درمیان ملک بھر کے مختلف مراکز پر آن لائن منعقد ہوا تھا۔ 8 فروری 2024 کو اتراکھنڈ پولیس نے ایک امتحانی مرکز پر چھاپہ مارا اور ملزم انکت دھیمان کو گرفتار کیا تھا، جس نے اعتراف کیا کہ اس نے ایک امیدوار کا پرچہ حل کرایا تھا۔

ایسے تمام الزامات کے بعد امیدواروں نے سینٹرل ایڈمنسٹریٹو ٹریبونل (سی اے ٹی) سے رجوع کیا تھا۔ لیکن اس سے پہلے کہ وہاں کوئی فیصلہ ہوتا، 7 جولائی 2024 کو ملک کے بڑے میٹرو میں منعقد ہونے والے امتحان کے دوسرے مرحلے میں بدانتظامی اور بے ضابطگیاں سامنے آ گئیں ۔

ظاہر ہے، اگر امت شاہ نے اتر پردیش پولیس بھرتی امتحان کے ماضی اور امتحان منعقد کرنے والی اس کمپنی کی تاریخ پر نظر ڈالی ہوتی، تو شاید وہ ‘بدعنوانی سے پاک عمل اور شفافیت’ کا دعوی کرنے کے بجائے اپنی ہی حکومتوں کی جانب سے ہوئی لاپرواہی کا تذکرہ کرتے۔

Next Article

اسرائیل کا جوہری پروگرام: پردہ اٹھانے کی ضرورت

اگرچہ اسرائیل نے سخت رازداری قائم رکھی ہے، تاہم جوہری ماہرین کے درمیان اس بات پر اتفاق ہو چکا ہے کہ اسرائیل ایک جوہری طاقت ہے۔ مگر شفافیت نہ ہونے کی وجہ سے اس کی صلاحیتیں، حکمت عملیاں اور خطرے کی حدود اب بھی اندھیرے میں چھپی ہیں۔یہ ابہام ایک طرف دشمنوں کو باز رکھنے کا ذریعہ ہے، تو دوسری طرف کھلے اعتراف سے بچنے کا طریقہ ہے۔

علامتی تصویر، بہ شکریہ ایکس: @TheFlagOfIsrae

پوکھرن میں جوہری تجربات کے چار ماہ بعد وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کو خطاب کرنے کے لیے ستمبر  1998کو نیو یارک آپہنچے تھے۔ منموہن سنگھ اور موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی کے برعکس ان کے کام کا طریقہ نہایت آسان، سست مگر چست ہوتا تھا۔ وہ صرف کام اور کام پر یقین نہیں رکھتے تھے۔

بالعموم وہ شام کو کوئی اپائنٹمنٹ نہیں رکھتے تھے اور دن میں بھی لنچ کے بعد وہ وزیر اعظم ہاؤس کے احاطہ میں موجود رہائشی بنگلہ میں قیلولہ کرنے چلے جاتے تھے۔ اس لیے بیرون ملک ان کے سرکاری دورے تین دن کے بجائے پانچ دن کے رکھے جاتے تھے۔ ان کے ساتھ میڈیا ٹیم کے مزے ہوتے تھے۔

ایک تو وہ خود بھی ملنا جلنا پسند کرتے تھے۔ پھر چونکہ ان کی تین یا چار سے زیادہ اپائنٹمنٹ نہیں ہوتی تھیں، اس لیے میڈیا ٹیم کو اس شہر کو دیکھنے اور خریداری کرنے کے بھر پور مواقع فراہم ہوتے تھے۔

یہ عیاشیاں سنگھ کے دور میں نہیں ہوسکتی تھی،کیونکہ ان کے کام کاج کا اسٹائل ہی اذیت بھرا ہوتا تھا۔ مودی نے ویسے تو میڈیا ٹیم کو ساتھ لینا ہی بندکردیا، مگر ان کا بھی ورک اسٹائل منموہن سنگھ جیسا خود گزیدہ ہے۔

خیر نیو یارک کے اس دورہ کے دوران ان کی اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو سے ملاقات طے تھی۔ نیتن یاہو بھی پہلی بار 1996 میں وزیر اعظم کی کرسی پر فائز ہو گئے تھے۔ میڈیا ٹیم کو بتایا گیا کہ وزیر اعظم کی ملاقاتوں کے حوالے سے دوپہر کو بریفنگ ہوگی اور تب تک ہندوستانی سفارت خانے نے ان کے لیے شہر گردی کا پروگرام رکھا  ہواہے۔

ایک ہندی اخبار کے ایڈیٹر کا اپنا کوئی پروگرام تھا، اس لیے انہوں نے اس ٹیم میں شمولیت نہیں کی۔ اسی ہوٹل کے ایک سیوٹ میں نیتن یاہوکو وزیر اعظم واجپائی کا استقبال کرنا تھا۔ جب یہ ایڈیٹر باہر جانے کے لیے لابی میں آئے، تو واجپائی دروازے سے اندر آرہے تھے۔ چونکہ وہ خاصے یار باش شخص تھے اور ایڈیٹر صاحب کو ایک عرصے سے جانتے تھے انہوں نے ان کا حال چال پوچھا اور ہاتھ پکڑ کر سیوٹ میں اپنے ساتھ لے گئے، جہاں نیتن یاہو ان کا انتظار کر رہے تھے۔

 اسرائیلی وزیر اعظم نے واجپائی کا استقبال کرتے اور ان کو گلے لگاتے ہوئے کہا؛

مسٹر پرائم منسٹر، اب آپ نیوکلیر ہیں، ہم نیوکلیر ہیں، کیوں نہ ہم اس طرح (گلے لگتے ہوئے) پاکستان کو کرش کریں۔

ہندوستانی وزارت خارجہ کے افسران کے پسینے چھوٹ رہے تھے۔ اسرائیلی وزیر اعظم پہلی بار نیوکلیر ہونے کا اعلان ایک صحافی کے سامنے کر رہے تھے۔ واجپائی ابھی بھی ایڈیٹر صاحب کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے اور ان کو اپنے پاس ہی بٹھایا ہوا تھا۔

خیر سفارت خانے کے کسی افسر کی دماغ کی بتی جل گئی، انہوں نے ایڈیٹر صاحب سے کہا کہ باہر ریسیپشن پر آپ کا فون آیا ہے۔ ان کو باہر لےجاکر دروازہ بند کروادیا۔ ان کو تاکید کی گئی کہ جو کچھ انہوں نے دیکھا اور سنا، اس کی تشہیر نہیں ہونی چاہیے اور سرگوشیوں میں بھی کبھی یہ سننے میں نہیں آنا چاہیے، ورنہ ان کو نتائج بھگتنا پڑیں گے۔

ایڈیٹر صاحب اور میڈیا ٹیم میں جن افراد کو بھنک مل گئی تھی، نے بھی اس کی کسی کو ہوا لگنے دی نہ کبھی اس کو اخبارات کی زینت بنادیا۔

خیر جس طرح خاص طور پر مغربی دنیا  ابھی ایران اور شمالی کوریا اور ماضی میں پاکستان اور ہندوستان کے ایٹمی پروگرام پر نظریں جمائے ہوئے بیٹھی تھی، اب وقت آگیا ہے کہ ان کو اسرائیل کے مبہم اور غیر اعلانیہ ایٹمی ذخیرہ کا بھی نوٹس لینا چاہیے۔ کیونکہ جس طرح کے غیرذ مہ دار لیڈران اس وقت تل ابیب میں برسر اقتدار ہیں، وہ کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔

اسی ایٹمی ذخیرہ کی سیکورٹی اور اس کے غلط استعمال کو روکنا بین الاقوامی سفارت کاری کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔

ویسکونسن پروجیکٹ آن نیوکلئیر آرمز کنٹرول کے مطابق اسرائیل کے پاس ایٹمی ہتھیار موجود ہیں۔ ان کے ذخیرے کا اندازہ 90 سے لے کر 400 وار ہیڈز تک لگایا جاتا ہے، اور کہا جاتا ہے کہ اسرائیل نے ایک مکمل ایٹمی سہ جہتی نظام (ٹریایڈ) تیار کر لیا ہے: ایف-15 اور ایف-16 لڑاکا طیاروں سے بم گرانے کی صلاحیت، ڈولفن کلاس آبدوزوں سے کروز میزائل داغنے کی صلاحیت، اور بین البرِاعظمی مار کرنے والی ‘یریکو’ میزائل سیریزان کی اسلحہ انوینٹری میں شامل ہے۔

بتایا جاتا ہے کہ اسرائیل نے اپنا پہلا قابلِ استعمال ایٹمی ہتھیار 1966 کے آخر یا 1967 کے اوائل میں تیار کر لیا تھا، جو اسے دنیا کی آٹھویں ایٹمی قوت بناتا ہے۔ اس کے باوجود اسرائیل نے ‘مبہم پالیسی’ اختیار کر رکھی ہے—نہ کبھی تصدیق نہ انکار کیا۔

اس مبہم پالیسی کو حالیہ دنوں میں ایران پر اسرائیل کے بڑے پیمانے پر فضائی حملوں کے بعد ایک بار پھر توجہ ملی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق، یہ نہ صرف تہران بلکہ پورے خطے کو اسرائیل کی روایتی اور ممکنہ ایٹمی صلاحیتوں کا پیغام تھے۔

جوہری امور کی ماہر سوزی سنائیڈر نے اس حوالے سے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ دنیا اسرائیل کے ایٹمی پروگرام پر بھی بات کرے، جو خطے کے لیے ایک خطرہ ہے۔عالمی شفافیت کے مطالبوں کے باوجود، اسرائیل نے آج تک ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے (این پی ٹی) پر دستخط نہیں کیے۔

اس کا موقف ہے کہ علاقائی امن اور باہمی اسلحہ کنٹرول کے معاہدے اس سے پہلے ہونا چاہیے۔ یہی موقف اسے بین الاقوامی معائنے کے نظام سے باہر رکھتا ہے۔ستم ظریفی یہ ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام کی بین الاقوامی اٹامک انرجی ایجنسی مسلسل مانیٹرنگ کرتی ہے، مگر اسرائیلی جوہری پروگرام تک اس کی رسائی ہے نہ ہی اس کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔

حالیہ برسوں میں اسرائیلی حکام کے بیانات سے اس کی صلاحیتوں کو زیادہ واضح طور پر تسلیم کرنے کے اشارے ملے ہیں۔ 2023 میں اُس وقت کے وزیرامیحائی ایلیاہو،  نے غزہ پر ایٹم بم استعمال کرنے کی تجویز  دی تھی، جس پر انہیں وزیرِاعظم نیتن یاہو نے معطل کر دیا۔

اگرچہ اس بیان کی سرکاری طور پر تردید کی گئی، مگر اس نے اسرائیل کے ایٹمی ارادوں اور تیاریوں کے بارے میں شکوک و شبہات کو مزید تقویت دی۔

اسرائیل کے ایٹمی پروگرام کی تاریخ  1948 میں اس کے قیام کے ساتھ ہی شروع ہوگئی تھی۔ فرانس کی مضبوط پشت پناہی اور خفیہ ذرائع سے ضروری مواد اور ٹکنالوجی حاصل کر کے، اسرائیل نے ‘دیمونا’ میں نیگیو نیوکلئیر ریسرچ سینٹر تعمیر کیا۔1986 میں ایک وسل بلور خائی وانونو کے انکشافات نے اس پروگرام کی پہلی جھلک دنیا کے سامنے رکھی، جس میں ایڈوانس ہتھیاروں کے ڈیزائن، بشمول تھرمو نیوکلئیر وار ہیڈز کی تصاویر شامل تھیں۔

وانونو کو بعد میں اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد نے روم سے اغوا کر کے اسرائیل لا کر غداری کے الزام میں سزا دلوادی۔نامور مؤرخ ایوینر کوہن کے مطابق، اسرائیل نے 1966 میں باضابطہ طور پر اپنی ایٹمی پالیسی تشکیل دی۔ اس کی نیوکلیر ڈاکٹرائن میں چار ریڈ لائنز متعین کی گئیں۔ان میں  اسرائیل کی 1967 سے پہلے کی سرحدوں میں فوجی مداخلت، اسرائیلی فضائیہ کی مکمل تباہی؛ اسرائیلی شہروں پر زہریلی گیس یا حیاتیاتی ہتھیاروں سے مہلک فضائی حملے؛ اور اسرائیلی سرزمین پر ایٹمی حملہ شامل ہیں۔

معروف صحافی سیمور ہرش نے اپنی کتاب ‘دی سیمسن آپشن’ میں دعویٰ کیا کہ اسرائیل  1973 کی یوم کپور جنگ کے دوران ایٹم بم کو استعمال کرنے کے قریب پہنچ گیا تھا۔ 8 اکتوبر کو، جنگ کے چند دن بعد، وزیرِاعظم گولڈا مئیر اور ان کے مشیروں نے مبینہ طور پر آٹھ جوہری ہتھیاروں سے لیس ایف-4 فینٹم طیاروں کو ‘تل نوف’ ائیر بیس پر ہمہ وقت الرٹ پر رکھاہوا تھا۔ اسی دوران ‘سدوت میخا’ بیس پر جوہری میزائل لانچرز بھی فعال کیے گئے تھے۔

ہرش کے مطابق، اسرائیل کے ابتدائی اہداف میں قاہرہ اور دمشق میں مصری اور شامی فوجی ہیڈکوارٹر شامل تھے۔ یہ الرٹ محض دفاعی نہیں تھا بلکہ سوویت یونین کے لیے پیغام تھا کہ وہ اپنے عرب اتحادیوں کو لگام دے، اور امریکہ پر دباؤ ڈالنا تھا تاکہ وہ اسرائیل کی بکھری ہوئی فوج کے لیے بھاری فوجی امداد فراہم کرے۔

بتایا جاتا ہے کہ ایک سوویت انٹلی جنس افسر نے مصر کے فوجی سربراہ کو اسرائیلی ایٹمی تیاریوں سے آگاہ کیا تھا۔ ادھر امریکی قومی سلامتی کے مشیر ہنری کسنجر کے قریبی افراد نے بعد میں تسلیم کیا کہ جوہری خطرے کے خدشے نے واشنگٹن کو فوجی امداد کے جلد آغاز پر مجبور کردیا۔

کسنجر کے سوانح نگار مارٹن انڈک کے مطابق اسرائیل کی ناقابل تسخیریت کے بھر م کو توڑنے کے لیے اس جنگ کے ابتدائی دنوں میں امریکہ نے مداخلت سے گریز کیا تھااو ر مصر کو پوری آزادی دی۔ اسرائیل کے دماغ میں دوبارہ بٹھایا گیا کہ اس کا وجود امریکہ کے مرہون منت ہے۔

ہرش کا مزید کہنا ہے کہ سیٹلائٹ نگرانی کی صلاحیت حاصل کرنے سے پہلے، اسرائیل نے سوویت اہداف کی معلوما ت امریکہ کی خفیہ ایجنسیوں کی جاسوسی کرکے حاصل کی تھی۔ 1991 کی خلیجی جنگ میں جب عراق نے اسرائیل پر اسکڈ میزائل داغے، اسرائیل نے مکمل ایٹمی الرٹ نافذ کردیا تھا۔ ممکنہ کیمیائی یا حیاتیاتی حملے کے خدشے کے تحت جوہری صلاحیت والے موبائل میزائل لانچرز تعینات کیے گئے۔ اگرچہ اسرائیل نے امریکی دباؤ کے تحت جوابی کارروائی سے گریز کیا، لیکن یہ لمحہ بھی ایک سنجیدہ جوہری غور و فکر کی مثال بن گیا۔

اسی طرح 2003  میں بھی امریکی صدر جارج بش کو اسرائیلی وزیرِاعظم ایرئیل شیرون نے خبردار کیا تھا کہ اگر اسرائیل کو بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہوا، تو اسرائیل ایٹمی اسلحہ کا استعمال کر سکتا ہے۔

فوجی تجزیہ کار اور منصوبہ ساز تسلیم کرتے ہیں کہ اگرچہ اسرائیل کی جوہری پالیسی کبھی باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کی گئی، لیکن یہ قومی سلامتی کے اصولوں کا بنیادی جزو بن چکی ہے۔

لوئس رینی بیرس، جو ‘پروجیکٹ ڈینیئل’ کے نمایاں رکن ہیں، نے اس پالیسی کو مزید مضبوط بنانے کی وکالت کی ہے۔ ان کے مطابق، اسرائیل کو اپنی حکمت عملی امریکی پنٹاگون کی ‘ڈاکٹرائن فار جوائنٹ نیوکلئیر آپریشنز ‘کے مطابق رکھنی چاہیے، جو پیشگی حملے پر زور دیتی ہے۔اسرائیل کی جوہری صلاحیتوں کے بارے میں دانستہ ابہام اب بھی ایک مؤثر سفارتی ڈھال کا کام دے رہا ہے۔

مگر مشرقِ وسطیٰ کی بدلتی ہوئی صورتِ حال میں، جہاں غیر روایتی خطرات اور ہائبرڈ جنگوں کا خطرہ بڑھ رہا ہے، ماہرین کا خیال ہے کہ پرانی ‘ریڈ لائنز”بھی بدل سکتی ہیں۔ ان کے ساتھ ایٹمی استعمال کے خطرہ بھی حقیقت بن چکا ہے۔

اسرائیل کے رہنماؤں نے متواتر ایٹمی ہتھیاروں کو قومی بقا کا آخری سہارا قرار دیا ہے، اور اکثر ہولوکاسٹ کے ساتھ اس کو نتھی کیا جاتا ہے۔  ‘سیمسن آپشن’یعنی بڑے خطرے کی صورت میں زبردست جوابی کارروائی اسی سوچ کی نمائندگی کرتا ہے۔

اسی طرح 1980 کی دہائی میں بنائی گئی ‘بیگن ڈاکٹرائن’کے تحت اسرائیل کسی بھی دشمن ریاست کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ اسی اصول کے تحت عراق کا ‘اوسیرک’ ری ایکٹر 1981 میں، شام کی ممکنہ جوہری تنصیب 2007 میں، اور ایران کے ‘نطنز’ پلانٹ پر ‘سٹکس نیٹ’ سائبر حملہ 2010 میں کیا گیا۔ اب حال میں ایران پر حملوں کا جواز بھی یہی ڈاکٹرائن فراہم کرتی ہے۔

اسرائیل مسلسل اپنے جوہری پروگرام کو بین الاقوامی جانچ سے بچاتا رہا ہے۔ اقوامِ متحدہ اور انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کی قراردادوں میں، عرب ممالک اور دیگر غیر وابستہ ریاستیں مسلسل اسرائیل پر زور دیتی رہی ہیں کہ وہ این پی ٹی  یعنی جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے میں شامل ہو کر اپنے جوہری اثاثے عالمی معائنے کے لیے کھول دے۔ مگر اسرائیل امریکہ کی پشت پناہی کے باعث ڈٹا ہوا ہے۔امریکہ کے ساتھ ایک غیر اعلانیہ مفاہمت کے تحت،  اسرائیل جوہری ہتھیا کا تجرنہ کرتا ہے، نہ اس کا اعلان کرتا ہے۔

اس کے باوجود اسرائیل کے ایٹمی ‘ڈیلیوری سسٹمز’  ایک خطرناک سہ جہتی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ماہرین کے مطابق، یریکو-III میزائل بیک وقت کئی اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اور بین البرِاعظمی مار کر سکتے ہیں۔

اسرائیلی فضائیہ کے ترمیم شدہ ایف-15I اور ایف-16I طیارے دور دراز اہداف پر حملہ کر سکتے ہیں، جیسا کہ عراق، شام اور اب ایران میں میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ جرمن ساختہ ڈولفن کلاس آبدوزیں جوہری صلاحیت والے کروز میزائل سے لیس ہیں، جو ‘سیکنڈ اسٹرائیک’ کی صلاحیت فراہم کرتی ہیں۔ جہاں واشنگٹن ایران پر تو سختی کرتا ہے مگر اسرائیل کی طرف آنکھیں بند رکھتا ہے۔

اب یہ دوہرا معیار نہیں تو کیا ہے۔ 2009 میں سابق امریکی صدر جمی کارٹر نے اندازہ لگایا تھا کہ اسرائیل کے پاس 300 سے زائد وار ہیڈز ہو سکتے ہیں۔ ‘بلٹن آف اٹامک سائنٹسٹس’کے حالیہ جائزے میں اس تعداد کو تقریباً 80 بتایا گیا ہے، مگر مزید ہتھیار بنانے کی مکمل صلاحیت موجود ہے۔

اسرائیلی پروگرام کو ابتدائی طور پر غیر ملکی مدد سے فروغ ملا۔ فرانس نے دیمونا ری ایکٹر کی تعمیر اور ری پروسیسنگ ٹیکنالوجی فراہم کی۔ برطانیہ اور ناروے نے خفیہ یا بالواسطہ طریقوں سے بھاری پانی اور یورینیم مہیا کیا۔ جنوبی افریقہ سے بھی 1970 کی دہائی میں جوہری تعاون کے شواہد موجود ہیں۔

اگرچہ اسرائیل نے سخت رازداری قائم رکھی ہے، تاہم جوہری ماہرین کے درمیان اس بات پر اتفاق ہو چکا ہے کہ اسرائیل ایک جوہری طاقت ہے۔ مگر شفافیت نہ ہونے کی وجہ سے اس کی صلاحیتیں، حکمت عملیاں اور خطرے کی حدود اب بھی اندھیرے میں چھپی ہیں۔یہ ابہام ایک طرف دشمنوں کو باز رکھنے کا ذریعہ ہے، تو دوسری طرف کھلے اعتراف سے بچنے کا طریقہ ہے۔

لیکن ناقدین کے مطابق، یہ خطے میں اسلحہ کنٹرول کی کوششوں کو نقصان پہنچاتا ہے اور خاص طور  پڑوسی ممالک میں عدم تحفظ کو فروغ دیتا ہے۔ جہاں ایران کا 60 فیصد یورینیم افزودہ کرنا پابندیوں اور دھمکیوں کا سبب بنتا ہے، وہاں اسرائیل کے درجنوں یا سینکڑوں جوہری ہتھیار سفارتی سطح پر سوال سے بھی بچے رہتے ہیں۔

لیکن جیسے جیسے مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی بڑھ رہی ہے اور سیاسی بیانیے میں ایٹمی خطرات دوبارہ ابھر رہے ہیں، اسرائیل کے ایٹمی پروگرام پر دہائیوں سے چھایا ہوا سکوت اب برقرار رکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

مشرقِ وسطیٰ کی بدلتی ہوئی تزویراتی زمین، ایران کے ساتھ  کشیدگی کا عروج، اور عالمی سطح پر جوہری خطرات کے دوبارہ سر اٹھانے کے بعد، یہ تقاضا شدت اختیار کرتا جا رہا ہے کہ جوہری مساوات میں دوہرا معیار ختم ہونا چاہیے۔

اگر ایران، شمالی کوریا  یاکسی اور ملک کی ایٹمی سرگرمی پر دنیا کی نظریں فوری طور پر مرکوز ہو جاتی ہیں، تو اسرائیل جیسے غیر اعلانیہ جوہری طاقت کو مسلسل استثنیٰ دینا نہ صرف علاقائی استحکام کے لیے خطرہ ہے بلکہ عالمی اصولوں کی ساکھ کے لیے بھی ایک تازیانہ ہے۔

اب وقت آ گیا ہے کہ اسرائیل کی جوہری حقیقتوں پر سے بھی وہ پردہ ہٹایا جائے جس نے ایک خاموش مگر مہلک خطرے کو برسوں سے عالمی نظروں سے چھپائے رکھا ہے۔