سیاچن میں فوج کو نہیں مل رہے ہیں ضروری کپڑے اور کھانے: کیگ

02:27 PM Feb 05, 2020 | دی وائر اسٹاف

پارلیامنٹ میں پیش کیگ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ زیادہ اونچائی والے علاقوں میں تعینات فوجی دستوں کے لیے ضروری کپڑے، چشمے وغیرہ کی کمی دیکھی گئی ہے، ساتھ ہی انہیں دیے جانے والے کھانے  کے معیارسے بھی سمجھوتا کیا گیا۔

فوٹو: پی ٹی آئی

نئی دہلی : سوموار کو پارلیامنٹ میں پیش کی گئی ایک رپورٹ میں کیگ نے سیاچن سمیت زیادہ  اونچائی والے علاقوں میں فوج  کے لیے خاص کپڑے، کھانے اور رہائش کے انتظام  میں خامیوں کے بارے میں جانکاری دی۔دی  ہندو کی خبر کے مطابق مالی سال 2015-16 سے 2017-18 کی مدت کے دوران ہوئے آڈٹ میں کیگ نے پایا کہ ‘اونچے علاقوں  کے لیے ضروری کپڑوں اور آلات کی خریداری  میں چار سال تک کی تاخیر ہوئی، جس کی وجہ سے ان کی شدید کمی دیکھنے کو ملی۔ اس کے ساتھ ہی برف میں لگائے جانے والے چشمے کی بھی بے حد کمی دیکھی گئی۔’

اس کے علاوہ 1999 میں کارگل ریویو کمیٹی کی جانب سے مجوزہ آئی این ڈی یو کی صورتحال پر کیگ نے کہا کہ اس ادارےکو زمین پر اتارنا ابھی باقی ہے جبکہ اس منصوبے کی لاگت 395 کروڑ روپے سے 914 فیصدی بڑھ کر 4007.22 کروڑ روپے ہو چکی ہے۔رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ نومبر 2015 سے ستمبر 2016 کے بیچ فوجی دستوں  کو ‘ملٹی پر پس بوٹس’ نہیں ملے تھے، جس کی وجہ سےانہیں دستیاب بوٹس کو ری سائیکل کرکے استعمال کرنا پڑا۔ اس کے ساتھ ہی رپورٹ میں بتایا گیا کیونکہ فیس ماسک، جیکٹ اور سلیپنگ بیگس کے پرانے ماڈل خرید لیے گئے تھے، اس لیے فوجیوں کو نئے پروڈکٹس کا فائدہ نہیں مل سکا۔

رپورٹ کے مطابق، اس کی وجہ  ڈیفینس لیب کے تجزیے کی کمی کی وجہ سے امپورٹ پر انحصار بڑھتا جا رہا ہے۔1999 میں کارگل ریویو کمیٹی کی جانب سے ہندوستان کے دفاعی نظام کی کمیوں کو سامنے لانے کے لیے آئی این ڈی یو کی تجویز رکھی  گئی تھی۔ مئی 2010 میں مرکزی کابینہ نے اسے گڑگاؤں میں قائم  کرنے کی بات کہی تھی، جس کا مجوزہ خرچ 395 کروڑ روپے بتایا گیا تھا۔

کیگ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ستمبر 2012 میں زمین لی گئی، حالانکہ کارگل جنگ کی  دو دہائی بعد بھی اس کو بنایا نہیں جا سکا ہے۔ اس کے ساتھ ہی مئی 2010 میں بتائے گئے اس کے مجوزہ خرچ395 کروڑ روپے سے 914 فیصد بڑھ کر دسمبر 2017 میں 4007.22 کروڑ روپے ہو گیا ہے۔کیگ کا یہ بھی کہنا ہے ہے کہ دسمبر 2017 سے آئی این ڈی یو قانون کا مسودہ کابینہ سکریٹری  کی منظوری کے لیے ملتوی ہے۔

کیگ کی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ زیادہ اونچائی والے علاقوں  میں تعینات فوجی دستوں   کو توانائی  بنائے رکھنے کے لیے دیے جانے والے کھانے  کے معیار سے بھی سمجھوتہ کیا گیا۔ ایسے علاقوں میں رہنے والے فوجیوں کے حالات میں سدھار کرنے کے مقصد سے بنائے گئے ہاؤسنگ پروجیکٹ کو کام چلاؤ طریقے سے عمل میں لایا گیا۔اس بارے میں وزارت دفاع نے کیگ کو بتایا کہ آرمی ہیڈکوارٹر کے ریزرو میں زیادہ اونچائی والے علاقوں کے کپڑے اور آلات کی کمی ہے، جسے اقتصادی خامیوں  کے باوجود وقت کے ساتھ پورا کیا جائےگا، لیکن یہ کمی فیلڈ میں تعینات فوج کے ساتھ نہیں ہے۔

ٹائمس آف انڈیا کے مطابق ایک آرمی افسر کا کہنا ہے کہ اب حالات میں اصلاح  ہوئے  ہیں۔ انہوں نے کہا، ‘کیگ کی رپورٹ 2015-16 سے 2017-18 کے دوران کی ہے۔ تب سے حالت میں سدھار آیا ہے۔ 16000 سے 20000 فٹ کی اونچائی پر واقع سیاچن جیسی جگہوں پر تعینات فوجی دستوں  کے لیے کپڑوں اور آلات  کی کوئی کمی نہیں ہے۔’