خواجہ احمد عباس کی ایک یادگار تحریر: الف سے امیتابھ

امتیابھ بچن کی 80 ویں سالگرہ پر خواجہ احمد عباس کی ایک یادگار تحریر: امتیابھ کو بہاری مسلمان شاعر کی حیثیت سے اُردو اشعارترنم کے انداز میں ادا کرنے پڑے(بالکل میرے مرحوم دوست مجازؔ لکھنوی کے انداز میں) دو دن کے بعد میں نے دیکھا کہ امیتابھ کو ایک بات ایک بار بتادی وہ امیت کے لیے پتھر کی لکیر بن گئی ۔ وہ ہمارے ‘اسکول’ کا بہترین طالب علم تھا۔

امتیابھ بچن کی 80 ویں سالگرہ پر خواجہ احمد عباس کی ایک یادگار تحریر:  امتیابھ کو بہاری مسلمان شاعر کی حیثیت سے اُردو اشعارترنم کے انداز میں ادا کرنے پڑے(بالکل میرے مرحوم دوست مجازؔ لکھنوی کے انداز میں)  دو دن کے بعد میں نے دیکھا کہ امیتابھ کو ایک بات ایک بار بتادی وہ امیت کے لیے پتھر کی لکیر بن گئی ۔ وہ ہمارے ‘اسکول’ کا بہترین طالب علم تھا۔

امتیابھ بچن، فوٹو : رائٹرس

امتیابھ بچن، فوٹو : رائٹرس

ا م ی ت ا بھ

الف سے اللہ، الف سے ایشور، الف سے امتیابھ۔

م سے محمد، منوہر، مسلمان، مست مولا۔ م سے موت، جس سے وہ تقریباً گلے مل چکا ہے۔

ی سے یاری ، ی سے یس سر بھی ہوسکتا ہے۔ حروف تہجی کے حساب سے ی آخری حرف ہوتا ہے۔

ت سے تخت (یا سنگھاسن) جس پر امتیابھ بیٹھا ہوا تھا۔ ت سے تاج بھی ہوتا ہے(خواہ وہ نقلی ہیروں کا ہی کیوں نہ ہو کیوں کہ وہ فلمی تاج تھا)جو امتیابھ بھی پہنے ہوئے تھا اور ہے!

الف سے انور علی بھی ہوتا ہے جو امتیابھ کا پہلا فلمی کیرکٹر کا نام تھا۔(سات ہندوستانی میں)

بھ سے بھائی (امتیابھ کا بھائی اجیتابھ جس نے پہلے دن سے ہمیشہ اپنے آپ کو امتیابھ کا چھوٹا بھائی ہی بناکر پیش کیا ہے اور علاج و معالجہ میں بڑا بھائی ثابت کیا ہے) بھ سے بھلائی بھی ہوتی ہے۔ سب بھلائیاں  جو امتیابھ نے آج تک کیں اور جو اس کڑے وقت میں اس کے کام آئیں۔

میری اور امتیابھ کی ذاتی داستان اتفاق سے شروع ہوگئی جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ وہ اندرا گاندھی کا خط لے کر میرے پاس آیا تھا وہ غلط ہے۔ ممکن ہے کسی اور پروڈیوسر کے پاس گیا ہو۔ میرے پاس تو اس کا چھوٹا بھائی، ایک دن شاید جلال آغا کے ساتھ آیا۔ ان دنوں میں اپنی فلم ‘سات ہندوستانی’ کے لیے آرٹسٹوں کا چناؤ کر رہا تھا۔

جلا ل نے کہا، مامو جان یہ اجیتابھ ہیں۔ یہ خود کسی فلم میں کام کرنا نہیں چاہتے، لیکن ان کے پاس ایک لڑکے کا فوٹو ہے جو شاید آپ کو پسند آئے اور آپ کو وہ ساتواں ہندوستانی مل جائے جس کی آپ تلاش میں ہیں اور ہم یہ پکچر شروع کر سکیں۔

میں نے کہا دکھاؤ بھئی۔ یہ فوٹو بھی دیکھ لیتے ہیں۔ جس طرح میں تقریباً آٹھ دس تصویریں فی دن دیکھا کرتا تھا مجھے امید کم تھی کہ کوئی کام کا چہرہ نظر آ جائے۔ یں نے نہایت بے دلی سے وہ فوٹو بھی دیکھا جو بڑا بھی نہیں تھا۔ معمولی کوارٹر پلیٹ فوٹو تھا۔ مگر اس فوٹو میں کچھ بات ایسی تھی جس نے مجھے غور سے اس کو دیکھنے کے لیے مجبور کر دیا۔

نمبر ایک تو یہ کہ یہ لڑکا بہت زیادہ لمبے قد کا تھا۔ دوسرے یہ کہ اس کی آنکھیں بہت خوبصورت تھیں۔ نمبر تین یہ کہ یہ لڑکا وہ لباس پہنے ہوئے تھا جو میں اس کیرکٹر کو پہنانا چاہتا تھا، یعنی چوڑی دار پاجامہ ، کرتا اور جواہر جیکٹ۔

میں نہیں جانتا تھا کہ یہ لڑکا کون ہے ، کہاں ہے ، کس کا بیٹا ہے، کچھ پڑھا لکھا ہے کہ مڈل فیل ہی ہے جس نے ایک چھوٹی سی تصویر اس لڑکے کے ساتھ روانہ کر دی ہے۔

میں پرسوں اس لڑکے سے ملنا چاہوں گا۔

اگلے دن مجھے بلٹز کے لیے ‘آخری صفحہ’ اور ‘آزاد قلم’ لکھنے تھے۔

جلال کے دوست نے کہا، بہت اچھا۔ پرسوں یہ یہاں ہوگا۔

میں نے سوچا بمبئی میں ہوگا۔ میں نے کہا، ٹھیک ہے۔ میں پرسوں تک اس کا انتظار کروں گا۔ مگر زیادہ انتظار کرنا ممکن نہ ہوگا کیوں کہ اس کی وجہ سے پکچر رُکی ہوئی ہے!

ٹھیک ہے۔ جلال  کے دوست نے یقین دلایا۔ پرسوں یہ لڑکا یہاں موجود ہوگا۔

اور واقعی پرسوں یہ تصویر والا لڑکا میرے سامنے کھڑا تھا۔ لمباسا، دبلا، گورا سا، شرمیلا سا۔ ایک نظر دیکھتے ہی دل نے کہا، یہ ہے انور علی ۔ بالکل جیسا میں نے سوچا تھا! سو میں نے کہا، کب سے کام شروع کر سکتے ہو؟

جی! کام ؟ وہ ہڑبڑا کر بولا۔ مگر آواز میں اس کی زوردار کھرج تھی، فوراً سمجھیے!

مگر میں نے بات صاف کرتے ہوئے کہا؛

اس پکچر میں سات ہیرو ہیں اور ساتویں ہیروئن ہے! اس لیے ہم کسی کو پانچ ہزار سے زیادہ نہیں دے سکتے نہ پرانوں کو نہ نیوں کو!

مجھے منظور ہے۔ لمبے لڑکے نے جلدی سے کہا، مگر ٹیسٹ وغیرہ نہیں لیں گے۔

نہیں ۔ میں نے کہا، ہم ٹیسٹ نہیں لیتے ہیں۔

میرے تین چار ٹیسٹ لیے گئے ہیں۔ کہیے تو میں لاکر دکھاؤں۔

نہیں۔ میں دوسروں کے ٹیسٹ نہیں دیکھنا چاہتا۔ کس کس نے ٹیسٹ لیے تھے؟

اس نے چار بہت مشہور پروڈیوسروں کی گنتی سنادی (اس وقت ان کا نام لینا بھی ان کو ‘انسلٹ’ کرنا ہوگا!)

میں نے کہا، میں ٹیسٹ نہیں لیتا ہوں۔ آرٹسٹ کو دیکھ کر ہی فلم میں لے لیتا ہوں۔

اس کے چہرے پر معصوم سی مسکراہٹ پھیل گئی۔

جلد ہی اس کی مسکراہٹ سمٹ کر ہونٹوں ہی میں  رہ گئی۔

جی میں سمجھا نہیں۔ اور پروڈیوسروں نے تو بار بار ٹیسٹ لیے تھے ڈائیلا گ بلوائے تھے۔ ناپا تھا، تولا تھا۔

پھر کیا ہوا؟ میں نے سوال کیا۔

سب نے رد کردیا۔ کہا کہ میں بہت لمبا ہوں، بے ڈول ہوں، کارٹون لگتا ہوں۔ کوئی ہیروئن میرے ساتھ کا م نہیں کرے گی۔

خیر میرے ہاں و ہ سوال نہیں ہوگا۔ یہاں تو چھ ہیرو ہیں اور ایک ہی ہیروئن ہے۔ وہ بھی نئی لڑکی ہے۔ سو مجھے جو لڑکا چاہیے تھا وہ مل گیا ہے۔

جی مل گیا؟ اس نے میرا جملہ دہرایا جیسے یقین نہ آ رہا ہو۔

ہاں۔ مل گیا۔ میں نے کہا۔

کون ہے وہ؟ اس نے پھر سوال کیا۔

تم ہو۔ اور کون ہے !

امیت نے میز کا سہارا لیا۔ ایسا نہ ہوکہ شادی مرگ ہوجائے پھر بولا، اب مجھے کیا کرنا ہوگا؟

کانٹریکٹ سائن کرنا ہوگا۔ میں سمجھتا ہوں کہ تم اتنا تو لکھ پڑھ سکتے ہو۔

اس نے بتایا کہ وہ دہلی یونیورسٹی کا گریجویٹ ہے پھر کہا کہ کالج میں کئی بار ڈراموں میں ہیرو کا پارٹ ادا کرچکا ہے۔ پھر بتایا کہ اب وہ کلکتہ کی ایک بڑی فرم میں چودہ سو روپے ماہوار پر ملازم تھا۔ کار مفت، فلیٹ مفت۔ مگر ‘تھا’ پر زور تھا۔کل تک تھا۔ اب نہیں ہوں۔

کیوں کیا ہوا؟ میں نے جان بوجھ کر بے وقوفی سے سوال کیا۔

میں نے استعفیٰ دے دیا ہے۔ اس نے کہا۔

مگر کیوں؟

آپ نے بلایا تھا۔ سو میں آگیا۔

میں نے بلایا تھا صرف تم سے ملنے کے لیے۔ وہ بھی مجھے معلوم نہیں تھا کہ تم کلکتہ میں ہو۔ اگر معلوم ہوتا تو میں درجن بار سوچتا کہ تمہیں بلاؤں یا نہ بلاؤں۔ پھر کچھ دل  ہی میں حساب لگاکر میں نے کہا، اتنی جلدی تو کوئی ریل نہیں آتی۔ ہوائی جہاز سے آئے ہو نا؟

جی، اس نے اقرار کیا۔

اس لیے اجیتابھ نے آپ سے ذکر کرنا اُچت(مناسب ) نہ سمجھا۔ اس نے مجھے یہ تار دے دیا؛

Role fixed in Saat Hindustani have to report day after tomorrow.

(سات ہندوستانی میں تمہیں کام مل گیا ہے پرسوں کام پر آنا ہے)

میں نے حیرت سے کہا، اتنا بڑا جھوٹ بولا تمہارے بھائی نے۔ اگر میں نہیں لیتا تو؟

کوئی اور اٹھاپٹخ کرتا۔ سنیل دت صاحب بھی نئی پکچر شروع کرنے والے ہیں ، شاید وہ کسی رول میں لے لیں؟ میں کلکتہ کے کام سے بے حد بد دل تھا۔

میں نے دل ہی دل میں اس نوجوان کی ہمت کی داد دی ، جو ایک امید موہوم کے پیچھے اچھی خاصی نوکری چھوڑ آیا۔ امید کے ساتھ خود اعتمادی بھی ہونی چاہیے۔

میں نے اس سے کہاکہ، تم میرے سکریٹری کے پاس جاکر کانٹریکٹ سائن کردو، مگر اس سے پہلے مجھے تم سے دو چار سوال کرنے ہیں۔

اس نے کہا فرمائیے۔

نام؟

امتیابھ۔

صرف امتیابھ تو نہیں ہوسکتا۔ امتیابھ وہاٹ (آگے کیا ہے؟)

بچن……امتیابھ بچن ، وہ بولا۔

میرے دماغ میں ایک خطرے کی گھنٹی بجی۔ کیا ڈاکٹر بچن سے تمہاری کوئی رشتہ داری ہے؟

جی ہاں۔ اس نے جھجکتے ہوئے جواب دیا۔ وہ میرے پتاجی ہیں۔

تب یہ کانٹریکٹ آج سائن نہیں ہوسکتا۔ ڈاکٹر بچن سے میرے پرانے تعلقات ہیں، پھر ان کی اجازت کے بغیر میں تمہیں کانٹریکٹ نہیں دے سکتا۔

تو ان سے پوچھ لیجیے تار دے کر۔ کل تک جواب آجائے گا۔ ویسے میں نے انہیں سب کچھ لکھ دیا ہے۔

یہ سب تار میں نہیں لکھ سکتا ہوں۔ مفصل لکھنا ہوگا۔ سو میں آج ہی انہیں خط لکھتا ہوں اور جواب تار کے ذریعے منگواتا ہوں۔ اس لیے اب تم جاؤ۔ پرسوں ان کا جواب آجائے گا۔ اگر ان کی اجازت مل گئی تو تمہیں کوئی چنتا نہیں ہونی چاہیے۔ پرسوں آکر کانٹریکٹ سائن کر سکتے ہو۔

امیت چلا گیا۔ تیسرے دن ڈاکٹر بچن کا ٹیلی گرام ملا، لکھا تھا؛

If he is working with you, I am happy!

(اگر وہ آپ کے ساتھ کام کرے تو مجھے خوشی ہوگی)

پھر تو مجھے کوئی رکاوٹ نہیں تھی امیتابھ بچن کو سائن کرنے میں۔ میں نے اُسے پانچ ہزار میں سائن کرلیا۔

اس کے بعد ہم نے ریہرسل شروع کیے۔

سب رول اور کیرکٹر گڈ مڈ تھے۔ جو جیسا تھا وہ پکچر میں نہیں تھا۔ جو نہیں تھا وہ اسے ہونا پڑا۔ مشہور بنگالی ایکٹر ڈائرکٹر اتپل دت کو ایک پنجابی بننا پڑا۔ اپنے بنگالی لہجے کو پنجابی بنانا پڑا۔ ملیالی ایکٹر مدھوکو بنگالی بننا تھا اور اسے بنگالی انداز میں بولنا سیکھنا پڑا اور اپنے گھونگریالے بال باربر کی نذر کرنے پڑے۔ میرٹھ کے رہنے والے مدھو کو تامل انداز میں ہندوی اور تامل بھی بولنی پڑی۔ انور علی(برادر محمود اور’خوددار’ کے پروڈیوسر) کو شدھ کنڑ و ہندی اور سنسکرت بولنی پڑی۔

اسی سلسلے میں امتیابھ کو بہاری مسلمان شاعر کی حیثیت سے اُردو اشعارترنم کے انداز میں ادا کرنے پڑے(بالکل میرے مرحوم دوست مجازؔ لکھنوی کے انداز میں)  دو دن کے بعد میں نے دیکھا کہ امیتابھ کو ایک بات ایک بار بتادی وہ امیت کے لیے پتھر کی لکیر بن گئی ۔ وہ ہمارے ‘اسکول’ کا بہترین طالب علم تھا۔

سات ہندوستانی میں امیتابھ بچن

سات ہندوستانی میں امیتابھ بچن

(یہ ہم کیوں کر رہے تھے۔ یہ دکھانے کے لیے کہ ہندوستانی ایک ہیں صرف ناموں کی تبدیلی اور ذرا سے تلفظ کی تبدیلی سے بنگالی پنجابی بن سکتا ہے اور یوپی والا تامل بھاشی بن سکتا ہے۔ اسی طرح ہندو مسلمان بن سکتا ہے)

تھوڑے دن میں امیت اُردو کا ماہر بن گیا اور اپنی مشہور آواز میں اُردو کے شعر تو ایسے پڑھتا تھا کہ کوئی داد دیے بغیر نہ رہ سکتا تھا۔ فلم ‘کالیا’ میں اس نے کس خوبی کے ساتھ مکالمے اور اُردو شاعروں کے شعر ادا کیے ہیں کہ مجھے خوشی ہوئی یہ دیکھ کر کہ ‘سات ہندوستانی’ میں ہماری محنت رائیگاں نہیں گئی۔

جس دن ہم گوا کے لیے دادر اسٹیشن سے روانہ ہونے کے لیے جمع ہوئے وہ دن دیکھنے کے قابل تھا۔ ہ لوگ تھرڈ کلاس میں سفر کر رہے تھے۔(تھرڈ کلاس تھا اس وقت یعنی 1967میں ، تکلفاً سیکنڈ کلاس نہیں کہلاتا تھا!) امتیابھ کے ساتھ ایک قلی بھاری بھرکم ٹرنک سر پر اٹھائے ہوئے چلا آ رہا تھا۔ میں نے امیت سے پوچھا، اپنا بستر نہیں لیا تم نے ؟ اس نے جواب دیا۔ سب کچھ اس ٹرنک ہی میں ہے۔

اس ٹرنک میں امیت کا بستر تھا، کپڑے تھے ، ایک لیٹر پیڈ اور ٹکٹ لگے ہوئے لفافوں کا ایک پیکٹ تھا، جن پر ہر رات کو وہ اپنی ماتا جی کو ایک تفصیلی خط لکھا کرے گا۔ ایک گھڑی تھی جو اس کو وقت کی پابندی سکھائے گی۔ اسی ٹرنک میں شاید اس کی قسمت بھی تھی۔

گوا میں ہم کسی بڑے تو کیا معمولی سے ہوٹل میں  ٹھہرنے کا بھی خرچ برداشت نہیں کر سکتے تھے اس لیے ہم نے ایک ڈاک بنگلہ لیا جس کے بڑے ہال میں سب برابر بستر لگا کر زمین پر سوتے تھے۔ سوائے چند افرا کے مثلاً اُتپل دت اور مسز اُتپل دت اور شہناز آغاکے کیوں کہ وہ ہم سب سے سینئر تھے اور شہناز آغا ایک لڑکی تھی ۔ اس لیے ان کے لیے تین بیڈز اور بستروں کا انتظام الگ چھوٹے کمرے میں کیا گیا تھا۔ باقی سب ساتھ میں زمین پر بستر لگا کر سوتے تھے۔ میرے برابر میں میرا اسسٹنٹ کملاکر، اس کے بعد امتیابھ بچن ، اس کے بعد انور  علی جو امیتابھ کا یار غار بن گیا تھا۔ اس کے بعد جلا ل آغا وغیرہ وغیرہ ۔

(کملاکر نے امتیابھ کو ‘لمبو’ کا خطاب دیا تھا۔ اس کے بارے میں ایک لطیفہ سن لیجیے۔ برسوں بعد جب امیتابھ بڑا اسٹار بن گیا۔ ایک دن اس کی ملاقات آر کے اسٹوڈیو میں امتیابھ سے ہوئی۔ ہیلو امیتابھ صاحب کملاکر نے جھجکتے ہوئے امیت کو سلام کرتے ہوئے کہا۔ امیت نے کملاکر جو صرف سوا پانچ فٹ کا ہے گود میں اٹھالیا۔ اس نے کہا، نام بھول گیا، گوا میں مجھے کیا کہا کرتا تھا۔ ڈرتے ہوئے کملاکر نے کہا، لمبو جی کہتا تھا جب تو میں۔

لمبو جی نہیں، جب تو مجھے صرف لمبو کہا کرتا تھا۔اب کیا ہوگیا۔ تو سمجھتا ہے میں بھول گیا ہوں۔ بول لمبو پھر۔ جب کملاکر نے اسے ‘لمبو’ کہا جب جان چھوٹی۔ تب بھی امتیابھ نے جب تک اپنے پرانے ساتھی کو چائے نہیں پلائی اس کو نہیں چھوڑا!

امیت کا بعد میں جو زبردست امیج بنا وہ اینگری ینگ مین کا تھا۔ اتفاق سے اس کی شروعات بھی ‘سات ہندوستانی ‘ ہی سے ہوئی تھی۔ اس کیرکٹر سے باقی سب ہندوستانیوں کو تھوڑا سا تعصب، تھوڑا سا شبہ اور تھوڑی نفرت تھی!اس کے مسلمان ہونے کے کارن— (بعد میں یہ دور ہوگیا) جس کا اظہار وہ کبھی نہ کبھی کرتے رہتے تھے۔ کبھی پانی پینے پر کبھی کھانا کھانے پر۔

سات ہندوستانی میں امیتابھ بچن

سات ہندوستانی میں امیتابھ بچن

اس سب کا ردعمل یہ تھا کہ وہ جو شروع میں سب سے نازک سب سے بودا اور بزدل تھا وہ آخر میں سب سے بہادر اور نڈر ثابت ہوتا ہے۔پرتگالی پولیس والے سب سے زیادہ ایذا پہنچاتے ہیں ایک بار تشدد اور ایذا پہنچانے کمرے میں اس کے ہاتھوں کو زندہ بجلی کے ننگے تاروں سے چھو دیتے ہیں جس سے وہ بے ہوش ہوجاتا ہے۔ بعد میں اس کے منہ پر بالٹی پانی مار کر ہوش میں لاتے ہیں اور پھر پوچھتے ہیں کہ گوا میں کس کس نے اس کی مدد کی ہے۔ وہ بتانے سے انکار کردیتا ہے اور زیادہ اصرار کنے پر پرتگیز پولیس افسر کے منہ پر تھوک دیتا ہے۔ جس پر اسے کوڑے کھانے پڑتے ہیں۔ جب پھر بھی وہ کچھ نہیں بتاتاتو وہ اس کے رسوں سے بندھے ہوئے پیروں کو استرے سے چھیل دیتے ہیں۔ اور اخیر میں اسی حالت میں اُسے سرحد کے باہر نو مینس لینڈ میں پھینک دیتے ہیں ۔ او رکہتے ہیں کہ ، اب جاؤ۔ رینگ کر اپنے وطن ہندوستان جاؤ! تب امیتابھ ‘سات ہندوستانی’ کے بہترین کلوز اپ میں جواب دیتا ہے اور کہتا ہے، ہم ہندوستانی رینگتے نہیں۔اور کانپتی ہوئی زخمی ٹانگوں اور زخمی تلووں پر کھڑا ہو جاتا ہے اور ہندوستان کی طرف سینہ تان کر چلنا شروع کردیتا ہے۔ جب وہ سرحد کے پار اپنے ساتھیوں سے ملتا ہے تو شرما (انور علی) سے گلے مل  کر بے ہوش ہو جاتا ہے۔

اس سین میں امیتابھ نے بہادری اور دلیری کی بہترین مثال پیش کی ہے۔ آگے سب پکچروں یں جو کچھ اس نے کیا ہے(مار دھار فائٹ) اس کی ابتدا  بھی سات ہندوستانی کے اسی سین سے ہوتی ہے!

ایک اور واقعہ یاد آتا ہے ۔ شروع ہی سے امتیابھ کو اپنا کام ڈپلی کیٹ کے ذریعے کرانا پسند نہیں تھا۔ اسے وہ  مردانگی نہیں سمجھتا تھا کہ کسی اور آدمی کو اپنی جگہ تکلیف پہنچائے اور جس سین کے لیے اسے داد ملنے والی تھی اس کا خطرہ کوئی اور مول لے! ایک سین میں اُسے پہاڑ کی چوٹی پر لٹکنا تھا۔ سب کمانڈوز ایک رسی کے سہارے پہاڑ کے اوپر چڑھ رہے ہیں ۔ کیوں کہ امیتابھ سب کے اخیر میں ہے اس لیے اس کی کمر میں رسی لپیٹ کر گرہ لگائی جاتی ہے کہ اگر اس پیر پھسل جائے تو وہ بچ جائے۔ ڈرپوک امتیابھ کا پیر پھسل جاتا ہے۔ وہ پھسل کر گر پڑتا ہےمگر کمر میں رسی بندھی ہوتی ہے۔ سر کو ایک جھٹکا لگتا ہے۔ لوٹ کر دیکھتے ہیں تو امیتابھ چٹان کے نیچے ہاتھ پیر مارتا نظر آتا ہے۔اس وقت وہ کم سے کم ہزار فٹ گہرائی پر لٹکا ہوا ہے۔

سین تو میں نے یہی لکھا تھا پھر بھی اپنے فائٹ ماسٹر کی مدد سے ایک ڈپلی کیٹ کا انتظام بھی کر لیا تھا جو امتیابھ جیسی یونی فارم پہنے ہوئے تھا۔ لانگ شاٹ میں امتیابھ جیسا ہی نظر آتا تھا۔ کلوز اپ الگ سے لگایا جاتا۔ مگر اس شاٹ میں وہ بات تھوڑی ہی ہوتی جو سچ مچ امیتابھ کو لٹکا کر حاصل کی جاسکتی تھی۔ میں نے فیصلہ امتیابھ پر چھوڑ دیا۔ اگر تم چاہو تو ڈپلی کیٹ یہ شاٹ کر سکتا ہے۔

کیوں؟ اس نے پوچھا، کیا میں اتنا بزدل ہوں؟ رسی تو مضبوط ہے۔

تو پھر میں کروں گا؟ اس نے کہا اور رسی کے سہارے لٹک گیا۔لوگوں نے جنہوں نے یہ شاٹ دیکھا ہے مجھ سے کہا ہے کہ ان کو ڈر لگتا تھا کہ اگر رسی ٹوٹ گئی یا پھسل گئی تو امیتابھ کا کیا ہوگا؟ یہی تو جذباتی اثر ہم پیدا کرنا چاہتے تھے۔

ایک مسلمان لٹکا ہوا ہے۔ اس کی جان چھ ہندوستانیوں کے ہاتھوں میں ہے جب وہ سب مل کر اسے گھسیٹتے ہیں تب ہی وہ اوپر آسکتا ہے کیا وہ اس کو اوپر کھینچ سکیں گے ، یا اس کی رسی کو چھوڑ کر اسے موت کے منہ میں دھکیل دیں گے؟ آخر میں وہ سب رسی اوپر کھینچ لیتے ہیں اور امیتابھ زندہ موت کے منھ سے نکل آتا ہے!

لگتا ہے جب سے امتیابھ کو اپنی زندگی سے کھیلنے میں مزہ آنے لگاتھا، بار بار اسے معمولی چوٹیں آئیں  مگر وہ یہ سب سین خود کرتا رہا، اور جس میں اسے مہلک چوٹ لگی وہ بھی اسی قسم کا تھا جو پورا کرنا تھا۔ لانگ شاٹ میں ایک ڈپلی کیٹ کو۔ مگر امیت نے اپنی جان پر کھیل کر خود ہی سین مکمل کر دیا۔ یہ ضرور ہوا کہ لوہے کے ٹیبل کا تیز کنارہ اس کے پیٹ سے ٹکرایا ، اس کو اندرونی چوٹ آئی اور امیتابھ سین ختم ہونے کے بعد صاحب فراش ہوگیا۔ وہ سب ہوا جس کا خطرہ ہمیشہ سے تھا مگر امیدنہیں تھی کہ ایسا ہوگا۔

(اخبار نویسوں کو لکھنے کا موقع مل گیا، کوئی کہہ رہا ہے کہ امتیابھ کے پیٹ میں گھونسا مارا گیا اور اسی سے اس کو چوٹ لگی، کوئی فلائنگ کک کی بات کر رہا ہے تو کوئی کہتا ہے کہ امیتابھ کو قتل کرنے کی سازش تھی۔ بات صرف اتنی تھی کہ ‘ سپر اسٹار’ خود ہی موت اور زندگی کا ناٹک کھیلنا چاہتاتھا)

مگر یہ صحیح ہے کہ تقریباً دو مہینے موت اور زندگی کی کشمکش سے امیتابھ کو دو چار رہنا پڑا۔ کئی بار اس کی موت کی افواہیں اڑائی گئیں ۔ لاکھوں بلکہ کروڑوں چاہنے والوں کی دعائیں، بہترین ڈاکٹروں کی دیکھ بھال، سب سے قابل اور ماہر نرسوں کی چوبیس گھنٹوں کی تیمار داری، اس کی بیوی ، اس کے بھائی ، اس کے ماں باپ کی ان تھک کوششیں کام آئیں۔ پرائم منسٹر اندرا گاندھی کو بھی دلی سے بمبئی آنا پڑا۔

موت اور زندگی میں برابر کی ٹکر تھی۔ مگر موت ٹل گئی ۔ دنیا کے کونے کونے سےاس کے لیے دوائیں منگوائی گئیں ۔ معلوم نہیں کتنے دوستوں اور عزیزوں کو اپنا خون دینا پڑاان میں اس فائٹر پنت اسر کی بیوی بھی تھی جس کا نقلی گھونسا اس اصلی ٹریجڈی کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔ معلوم نہیں کتنے لاکھ علاج میں خرچ ہوئے!

یہ سب ہوا، مگر امیتابھ نے ہمت نہ ہاری، موت کو شکست دے کر اس نے اپنے آپ کو واقعی ‘سپر اسٹار’ ثابت کر دیا۔ جب اس کے گلے میں سوراخ کرکے ربڑ کی نلکی سانس لینے کے لیے لگائی ہوئی تھی، تب بھی لکھ کر مذاق کرتا رہتا۔ ایک بار جیہ آئی تو نرس نے اس سے کہا؛

Your beloved is here.

(تمہاری محبوبہ یہاں آئی  ہے ) تو امیتابھ نے پرچی لکھ کر اسے بتایا کہ؛

Wives are nor beloved!

 (بیویاں محبوبائیں نہیں ہوتیں!)

جب مسز گاندھی اس کی مزاج پرسی کو پہنچیں تو اس نے پرچی لکھ کر ان کا شکریہ ادا کیا، مگر پرائم منسٹر اس کی ماں کی پرانی سہیلی ہیں اور ان کو امیتابھ کی ایسی ہی فکر تھی جیسے کہ اپنے بیٹے کی ہوتی۔

غرض کہ اب ڈاکٹروں کی دواؤں اور آپریشنز سے اور نرسوں کی انتھک نرسنگ سےیا اس کے چاہنے والوں کی دعاؤں سے،

‘دعاؤں سے یا دواؤ ں سے’

یا ان سب چیزوں سے

سب سے زیادہ امیتابھ کی اپنی ہمت اور قوت ارادی سے۔ موت کی گھڑی (جو ایک دن اٹل ہوتی ہے) ٹل گئی ہے۔

لیکن اب امیتابھ کو اور خطرے مول لینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ اس کو اپنا ایکٹنگ اسٹائل ہی بدلنا پڑے گا۔

ماردھاڑ، مکے، گھونسے اور لات کی پکچریں نوجوان ایکٹروں پر چھوڑ دینی چاہیے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ہیرو بننا چھوڑ دے(حالاں کہ اس کی آئندہ زندگی کے لیے دولت بہت ہے)

بہادر ہیرو بھی دو قسم کا ہوتا ہے، بہادری بھی دو قسم کی ہوتی ہےایک تو جسمانی بہادری ہوتی ہے جس میں ماردھاڑ اچھل کود سب ہوتی ہےمگر اس بہادری سے بڑی ایک روحانی بہادری ہوتی ہے۔

امیتابھ بچن کو اب ایسی بہادری دکھانی چاہیےجیسے دو مختلف قسم کے سین دونوں ‘سات ہندوستانی’ میں تھے۔ پہاڑ پر رسی سے لٹکنا بھی بہادری تھی اور کٹے ہوئے پیروں پر چلنا بھی بہادری تھی— ایک میں جان کا خطرہ تھا۔ دوسرے میں خطرے کی کوئی بات  نہیں تھی۔

میرا مطلب یہ ہے کہ اب امیتابھ نے جسمانی ایذا کافی اٹھالی ہے۔ اب سے جان بوجھ کر موت کے منہ میں باتھ ڈالنے کی ضرورت نہیں ہے۔

جب میں یہ مضمون ختم کر رہا ہوں تو امیتابھ کا ڈرائیور میرے پاس امیتابھ کا ایک دستی خط لایا ہے جو اس نے اپنے قلم سے لکھا ہے۔

‘بلٹز ‘ جو میں نے اس کے بارے میں لکھا تھا اس کا جواب دیتے ہوئے امیت نے لکھا ہے(انگریزی سے ترجمہ)

بریچ کنیڈی ہاسپٹل

آئی سی یو، روم نمبر 1

بہت پیارے ماموں جان،

آپ کا ‘بلٹز’ میں مضمون پڑھ کر از حد متاثر ہوا۔ جو عزت افزائی آپ نے میری کی ہے—آپ کی تعریف اور اس سے بھی زیادہ ان سب چیزوں نے میرے بھیتر اتنی شکتی بھر دی کہ مرض سے مجھے لڑنا ہی پڑا۔ بھگوان کی کرپا اور آپ کی دعاؤں اور نیک خواہشات سے اب بہت تیزی کے ساتھ اچھا ہو رہا ہوں۔

میں نے چلنا شروع کردیا ہے اور جلد ہی اپنے گھر پہنچ جاؤں گا۔

آپ کی مہربانی ، محبت اور نیک خواہشات کا شکریہ!

امیتابھ

(یہ مضمون خواجہ احمد عباس کی کتاب ‘سونے چاندی کےبُت’ میں شامل ہے۔)