کھیڑا ضلع کے اندھیالا گاؤں میں 3 اکتوبر کو ایک مسجد کے قریب گربا پروگرام کی مخالفت کے بعد ہندو اور مسلم کمیونٹی کےبیچ تنازعہ ہوگیا تھا۔ واقعے سے متعلق ایک ویڈیو میں کچھ پولیس والے مسلم کمیونٹی کے لوگوں کو ایک پول سے باندھ کر لاٹھیوں سے پیٹتےنظر آئےتھے۔ متاثرین نے 15 پولیس اہلکاروں کے خلاف گجرات ہائی کورٹ میں عرضی دائر کی ہے۔
نئی دہلی: گجرات ہائی کورٹ نے جمعرات (20 اکتوبر) کو ریاست کے کھیڑا ضلع میں اس ماہ کے شروع میں نوراتری کے دوران ایک گرباسائٹ پر جھگڑے کے بعد مبینہ طور پر مسلمانوں کی سرعام پٹائی میں ملوث پولیس اہلکاروں کو نوٹس جاری کیا ہے۔
چیف جسٹس اروند کمار اور جسٹس اے جے شاستری کی بنچ کے سامنے عرضی گزاروں کی نمائندگی کرتے ہوئے سینئر ایڈوکیٹ آئی ایچ سید نے کہا، پولیس والوں نے خود ویڈیو بنا یا اور اس کو سوشل میڈیا پر ڈال دیا۔ ایک پولیس وین میں انہیں (متاثرین) تھانے سے لایا گیا، سب کو باہر نکالا گیا، سرعام مارا پیٹا گیا اور پھر پولیس وین میں ڈال دیا گیا۔ یہ (حراست اور گرفتاری کے دوران پولیس کے لیے سپریم کورٹ کے رہنما اصولوں کی) سراسر خلاف ورزی ہے۔’
بنچ نے 15 ملزم پولیس اہلکاروں کو نوٹس جاری کیا ہے۔ کیس کی اگلی سماعت 12 نومبر کو ہوگی۔
غور طلب ہے کہ 3 اکتوبر کی رات کھیڑا کے اندھیالا گاؤں میں ایک مسجد کے قریب گربا منعقد کرنے کی مخالفت کرنے والی مسلم کمیونٹی کے ایک ہجوم کے ذریعے پنڈال پرکیے گئے حملے میں ایک پولیس اہلکار سمیت سات افراد زخمی ہو گئے تھے۔
اس جھڑپ کے سلسلے میں درج ایک ایف آئی آر میں الزام لگایا گیا ہے کہ مسلم کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے تقریباً 150 لوگوں نے گربا سائٹ پرمبینہ طور پر دیر رات پتھراؤ کیاتھا، جس سے کچھ پولیس اہلکار زخمی ہوگئے تھے۔ اس کے بعد پولیس نے اس معاملے میں 13 لوگوں کو گرفتار کیاتھا۔
اگلے دن، اس واقعے سے متعلق ویڈیوز سوشل میڈیا پر شیئر کیےجانے لگے، جن میں کچھ پولیس افسر(جن کے بعد میں کرائم برانچ سے جڑے ہونے کی جانکاری ملی) 3 اکتوبر کو ہونے والے تشدد میں ملوث مبینہ حملہ آوروں (مسلم کمیونٹی کے لوگ) کو ایک پول سے باندھ کرانہیں لاٹھیوں سے سرعام پیٹتےنظر آرہےتھے۔
سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے ویڈیو میں سادہ کپڑوں میں پٹائی کرتے نظر آ رہے لوگوں کی پہچان کھیڑا ضلع کی لوکل کرائم برانچ (ایل سی بی) یونٹ کے پولیس اہلکاروں کے طور پر کی گئی ہے۔
نوجوانوں کی پٹائی کرنے والے ایک شخص کی شناخت پولیس انسپکٹر اے وی پرمار کے طور پر کی گئی ہے اورمار پیٹ کر رہے لوگوں کی جیب سے فون اور پرس نکالتےنظر آ رہے ایک دوسرے شخص کی پہچان سب انسپکٹر ڈی بی کماوت کے طور پر کی گئی ہے ۔
پرمار اور کماوت – دونوں کھیڑا میں ایل سی بی یونٹ میں تعینات ہیں
بار اینڈ بنچ کی رپورٹ کے مطابق، اس دوران بھیڑ جو پورے منظر کودیکھ رہی تھی، پولیس کی جئے جئے کار کر رہی تھی اور ‘وندے ماترم’ سمیت مختلف نعرے لگا رہی تھی۔
ان ویڈیوز کے منظر عام پر آنے کے بعد لوگوں نے بڑے پیمانے پر آن لائن اپنے غم و غصے کا اظہار کیا تھا۔ اس کے بعد 7 اکتوبر کو پولیس نے واقعے میں ملوث پولیس افسران کے خلاف تحقیقات کا حکم دیا تھا۔
اس کے علاوہ اقلیتی رابطہ کمیٹی (ایم سی سی) جیسی رضاکار تنظیموں نے حکومت اور پولیس حکام کو قانونی نوٹس بھیج کر ملزم افسران کے ساتھ ساتھ مارپیٹ کی ویڈیو ریکارڈ کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔
ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی) نے مسلم کمیونٹی کے ارکان کی سرعام پٹائی کے سلسلے میں نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن (این ایچ آر سی) کے پاس شکایت بھی درج کرائی تھی۔
انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق، متاثرین ظہیرمیاں ملک (62 سال)، مقصود بانو ملک (45 سال)، شہیدمیاں ملک (23 سال)، شکیل میاں ملک (24 سال) اور شہیدراجہ ملک (25) نے 15 پولیس اہلکاروں کے خلاف گجرات ہائی کورٹ میں عرضی دائر کی تھی۔
ان پولیس اہلکاروں میں انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی – احمد آباد رینج)، کھیڑا سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس پی)، مٹر پولیس اسٹیشن کے 10 کانسٹبل اور لوکل کرائم برانچ (ایل سی بی) کے تین افسران شامل ہیں۔
درخواست گزاروں نے ڈی کے بسو بنام ریاست مغربی بنگال کیس کا حوالہ دیا، جس میں عدالت عظمیٰ نے قانونی اہتمام کیے جانے تک گرفتاری اور حراست کے دوران پولیس کے لیے بنیادی ‘رہنمائی خطوط’ پر عمل کرنا طے کیا تھا۔
یہ الزام لگاتے ہوئے کہ پولیس افسران نے ان رہنما خطوط کی خلاف ورزی کی، درخواست گزاروں نے پولیس اہلکاروں کے خلاف توہین عدالت کا مقدمہ چلانے کے ساتھ معاوضے کی مانگ کی ہے۔