کتاب کے آخر میں پروفیسر اخلاق احمد نے عمرخیام کی رباعیات کا انتخاب مع اردو تراجم کے شامل کیا ہے۔ تراجم منظوم نہیں ہیں تاہم سلاست زبان اور محاورے کا خاص لحاظ رکھا گیا ہے۔
ایڈورڈ فٹزجیرالڈنے گیارھویں صدی کے ممتاز فارسی شاعر عمر خیام کی رباعیات کا انگریزی ترجمہ1858ء میں کیا اور اس کی اشاعت کے ساتھ خیام کی شہرت کا آغاز مشرق اور مغرب میں ہوا اور اس کی شاعری، اس کے علمی کارناموں،فکری دلچسپیوں اور اس کی زندگی کے مختلف گوشوں سے دلچسپی عام ہونے لگی۔ گزشتہ سو برس سے خیام شناسی کا پہلو دار بیانیہ مرتب ہوا ہے اور ایک ایرانی محقق علی دشتی کے مطابق خیام کا کلام انگریزی میں31، فرانسیسی میں14، جرمنی میں12، عربی میں8، اطالوی میں4، ترکی روسی میں2 اور سویڈش اور آرمنی میں ایک بار شائع ہوا ہے۔ خود فٹز جیرالڈ کا ترجمہ150بار شائع ہو چکا ہے۔
انور مسعود کے مطابق نیو یارک کی پبلک شاعری میں اس موضوع پر 500 عنوانات قائم کئے گئے ہیں۔ خیام شناسی کی مختلف جہتیں کیا ہیں، انگریزی، اردو، ہندی اور دیگر زبانوں میں رباعیاتِ عمر خیام کے کتنے تراجم شائع ہوئے ہیں، عمر خیام کی رباعیات کی صحیح تعداد کیا ہے، الحاقی رباعیات کتنی ہیں، اردو میں عمر خیام پر کتنی کتابیں لکھی گئی ہیں، کتنے مقالے شائع ہوئے ہیں۔ شاعری کے علاوہ دیگرعلوم و فنون کو عمر خیام کی عطا (Contribution)کی نوعیت کیا ہے، ان اہم تحقیقی نکات کی قرارواقعی وضاحت فارسی اور اردو کے معروف ادیب پروفیسر اخلاق احمد آہن نے اپنی مرتبہ کتاب-خیام شناسی، میں کی ہے ۔
500 صفحات پر مشتمل اور4ابواب میں مقسم یہ کتاب تحقیقی دقت نظری کی ایک قابل تقلید مثال ہے کہ مرتب نے بعض اہم اور خیام شناسی کے اولین مضامین(مثلاً مولانا ابو الکلام آزاد کے بڑے بھائی ابوالنصر غلام ےٰسین آہ دہلوی، مولانا ابو الکلام آزاد، خواجہ غلام الثقلین اور عبد الباری آسی وغیرہ ) کو نہ صرف شامل کیا ہے بلکہ ان پر حواشی بھی لکھے اورمتعدد تسامحات کی تصحیح بھی کی۔ اخلاق احمد آہن نے خیام فہمی کی جہات کا احاطہ کرتے ہوئے کتاب کے مقدمے میں لکھا ہے ؛
خیام کی اقلیم سلطنت تمام عالم پر محیط ہے۔اس کی امارت کے آگے ایک دنیا نے سر تسلیم و نیاز خم کیا ہے۔ اس کا طلسم جہانگیر ہے۔ اس کی رباعیاں، اس کی زندگی کے گمنام گوشے، ا س کا فلسفہ و فکر، اس کے علمی کارنامے، اس کے دوست و معاصر، یہ سب گذشتہ ایک صدی سے مشرق و مغرب کے علمی و ادبی حلقوں میں دلچسپی کا موضوع بنے ہوئے ہیں۔
فٹز جیرالڈ کا ترجمہ جب عوام و خواص کے ہاتھ پہنچاتو بقول مصنف لوگ مسحور ہو کر رہ گئے۔ محققوں نے اس کی رباعیات کے صحیح ترین نسخوں کی تلاش شروع کر دی، اس کے علمی آثار کو موضوع بحث بنا لیا۔ خیام کو اپنی ان چند رباعیوں کے طفیل ایسی شہرت و مقبولیت حاصل ہوئی جس پر مرتب کے نزدیک اکابر شعرا کے دواوین و کلیات رشک کرنے لگے۔ معروف ایرانی اسکالر مجتبیٰ مینوی نے لکھا ہے کہ بلا شبہ شعرائے ایران کے درمیان کوئی ایسا نظر نہیں آتا جسے خیام کی مانند علمی شہرت ملی ہو۔
اخلاق احمد آہن نے خیام شناسی کے ضمن میں مغربی عالموں و محققوں مثلاً ولیم جونس، کرسٹن سن، ڈاکٹر روزن، ژوکوفسکی، بودلین اور ہیرون آلن کی جانفشانی کی داد ضرور دی ہے مگر یہ بھی لکھا ہے کہ فٹز جیرالڈ کے ترجمے سے قبل بھی عمر خیام کے علمی کارناموں سے واقفیت تھی اور جب بھی بو علی سینا، ابن حوقل اور المسعودی کا ذکر کیا گیا ہے تو اس کے ساتھ عمر خیام کے علمی کارناموں کو بھی مرکز نگاہ بنایا گیا ہے۔
فٹز جیرالڈ سے قبل ایک اردو شاعر راجہ مکھن لال نے رباعیات عمر خیام کا ترجمہ 1844میں شائع کیا تھا۔ مرتب کے مطابق مکھن لال کو فٹز جیرالڈ پر فی زمانہ فوقیت حاصل ہے۔ اردو کے مشہور شاعر میراجی نے بھی عمر خیام کی رباعیوں کا ترجمہ کیا تھا۔ ڈاکٹر آہن نے اردو تراجم کو موضوعِ مطالعہ بناتے ہوئے عبد الحمید عدم، قزلباش دہلوی، کاظم علی، شوکت بلگرامی اور میراجی کا ذکر کیا ہے۔
کیا فٹز جیرالڈ کے تراجم میں الحاقی رباعیاں شامل ہیں؟ اس سوال کا جواب بھی اثبات میں ہے اور اس ضمن میں اخلاق آہن نے مستشرق ایڈورڈ ہیرون آلن کی تحقیق سے اتفاق کرتے ہوئے لکھا ہے کہ فٹز جیرالڈ کے معروف ترجمہ میں 49 رباعیاں نسخۂ بودلین یا نسخۂ کلکتہ میں شامل ایک ایک رباعی کے آزاد ترجمے ہیں اور 44 رباعیاں دو یا دو سے زائد رباعیوں پر مشتمل ہیں جبکہ باقی 11 رباعیاں منطق الطیر عطار، اشعار حافظ یا خیام کی رباعیوں کے مجموعی تاثر پر مبنی ہیں۔ ایرانی محقق مسعود فرزاد نے بھی آلن کی تائید کی ہے۔ دنیا کی بیشتر زبانوں میں فٹز جیرالڈ کے ترجمے سے ترجمے کیے گئے ہیں اور براہ راست فارسی سے تراجم بہت کم کیے گئے ہیں۔
ہندی کے مشہور شاعر ہری ونش رائے بچن کی-مدھوشالا،کو عموماً عمر خیام کی رباعیوں کے ترجمے پر محمول کیا جاتا ہے مگر یہ حقیقت نہیں ہے۔ مدھو شالا کے مقدمے میں بچن نے خود لکھا ہے کہ انہوں نے عمر خیام کے خیالات کو اپنی زبان میں پیش کیا ہے۔ اس کتاب میں پاکستانی رسالہ آئندہ کے مدیر اور ادیب محمود واجد کا ایک مضمون -بچن ہندی کا خیام، شامل ہے۔ محمود واجد نے لکھا ہے کہ رباعی کی ایک مخصوص بحر ہے اور اس کا تتبع ہندی میں بہت کم ہوا ہے۔ محمود واجد کے مطابق اس سلسلے میں سب سے اہم کوشش بچن نے کی اور اسے بعینہٖ رباعی تو نہیں، ہاں اس کے قریب لے آئے۔ ایک ہی التزام انہوں نے رکھا ہے کہ ہر چوتھے مصرعے میں مدھو شالا (میخانہ) کی تکرار ہے۔شراب سے رغبت کے اظہار کے ضمن میں بچن نے بڑی دلچسپ وضاحت کی ہے کہ،ہم لوگ اموڑھا کے کایستھ ہیں جن کے یہاں کیودنتی (کہاوت) ہے کہ اگر کوئی شراب پی لے تو کوڑھی ہو جائے گا۔ یہ بھی نیتی (قدرت)کا ایک وینگ (طنز) ہے کہ جنہوں نے مدرا (شراب)نہ پینے کی اتنی کڑی پرتگیا (عہد) کی تھی ، ان کے ونشج (اولاد)نے مدرا کی اتنی وکالت کی۔
مدھو شالا کے مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ بچن نے عمر خیام کے متن پر ایک متوازی متن تعمیر کیا، اسے ترجمہ کے ذیل میں نہیں رکھا جا سکتا ہے۔
اردو میں خیام سے متعلق سب سے مبسوط، خیال انگیز اور تحقیقی نقطہ نظر سے جامع کتاب ‘خیام’ ہے جو معروف ادیب اور محقق سید سلیمان ندوی نے سپرد قلم کی ہے۔ شبلی نے شعرالعجم میں عمر خیام کے کلام سے متعلق تفصیلی گفتگو کی ہے۔محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کے ایک طالب علم خواجہ غلام الثقلین نے، جن کی تربیت میں سرسید نے اہم رول ادا کیا تھا، عمر خیام پر اولین مقالہ لکھا جو1898 میں شائع ہوا۔ یہ مضمون اس کتاب میں شامل ہے۔ عبد الباری آسی، شارح کلام غالب، نے رباعیات عمرخیام کو اپنے تحقیقی ارتکاز کا ہدف بنایا تھا اور الحاق اور مناسبت کے حوالے سے اہم مباحث اٹھائے تھے۔ یہ مضمون بھی شاملِ اشاعت ہے۔
کتاب کے اولین باب ‘تعارف و تنقید’ میں ابوالنصر غلام ےٰسین آہ دہلوی کا مضمون ‘الخیام’، مولانا ابوالکلام آزاد کا مقالہ’رباعیات عمر الخیام’، جواد علی خاں کی تحریر’حکیم عمر ابن خیام’، انور مسعود کا تحقیقی مقالہ ‘خیام ایک مطالعہ’ اور سید صباح الدین کا مضمون ‘خیام’ شامل ہے۔ سید صباح الدین نے شبلی اور سید سلیمان کی عمر خیام سے متعلق تحریروں کو موضوع بحث بنایا ہے۔ سید سلیمان ندوی نے خیام سے متعلق مروجہ غلط فہمیوں کے ازالہ کے لیے اپنی کتاب کا ایک اہم باب جعلی خیام کے عنوان سے قائم کیا۔ سید صاحب نے ان آرا کی تردید کی کہ خیام ایک لاابالی اور عیش ومسرت کا دلدادہ تھا، عام سرخوشی میں اس کی زبان سے جو کچھ نکلتا اسے رباعی کی شکل دے دی جاتی۔ وہ آواگون (تناسخ)کا قائل تھا اور خدا کے وجود کو بھی وہم سے تعبیر کرتا تھا۔
دوسرے باب تحقیق و تفحص میں پروفیسر محمد اقبال (رباعیات عمر خیام ایک قدیم نسخہ)، پروفیسر سید امیر حسن عابدی (بیاض کرمان میں خیام کی نایاب رباعیاں)، شبیر احمد خاں غوری (’’خیام کا ایک عظیم ہندسی شاہکار‘‘ اور ’’خیام کا تذکرہ تفسیر کبیر میں‘‘)، ڈاکٹرنذیر احمد (خیام کی بعض کمیاب تحریریں)، امتیاز علی خاں (عمر خیام اور خاقانی) اور عبد الباری آسی (رباعیات خیام پر تحقیقی نظر) کے مضامین شامل ہیں۔اسی طرح تیسرے باب فکر و فلسفہ میں خواجہ غلام الثقلین، کرنل بھولا ناتھ، برہان احمد فاروقی، حسان ندوی کے مقالے شامل ہیں۔ آخری باب ترجمہ اور تفہیم قیصر سرمست، ضیا احمد، اخلاق حسین عارف، اکبر حیدری کاشمیری، محمد اسحاق، محمود واجد اور سید علی عباس جلال پوری کے مضامین پر مشتمل ہے۔کتاب کے آخر میں پروفیسر اخلاق احمد نے عمرخیام کی رباعیات کا انتخاب مع اردو تراجم کے شامل کیا ہے۔ تراجم منظوم نہیں ہیں تاہم سلاست زبان اور محاورے کا خاص لحاظ رکھا گیا ہے۔ شراب کے علاوہ خیام نے بہت سے مضامین باندھے ہیں، اس نوع کی دو رباعیوں کے تراجم ملاحظہ کریں ؛
ازل کے بھید سے نہ تو واقف ہے اور نہ میں۔ یہ دنیا ایسی پہیلی ہے جس کو نہ تو بوجھ سکتا ہے، نہ میں۔ میں اور تم پردے کے پیچھے بے خبری میں باتیں کر رہے ہیں۔ جب یہ پردہ اٹھے گا تو اس وقت نہ میں موجود ہوں گا ، نہ تو۔
ایک قوم ہے جو مذہب اور دین کے حوالے سے متفکر ہے۔ ایک جماعت ہے جو علم اور یقین کے بارے میں حیرت زدہ ہے۔ تبھی اچانک کمیں گاہ سے ایک ندا آئی کہ اے بے خبرو، راہ حقیقت نہ یہ ہے، نہ وہ۔
یہ کتاب یقیناً خیام شناسی کی متعدد جہتوں کو ایک لڑی میں پروتی ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر شعرا لعجم کا وہ حصہ شامل کر دیا جاتا جس کا تعلق عمر خیام سے ہے۔ اسی طرح سید سلیمان ندوی کی کتاب کے بعض اہم مندرجات کو کتاب کی زینت بنایا جا سکتا ہے گو کہ صباح الدین کا مضمون اس کی تلافی کرتا ہے۔ ناسپاسی ہوگی اگر پروفیسر اخلاق احمد آہن کی اس گرانقدر علمی اور تحقیقی کاوش کی داد نہ دی جائے۔