ایک مذہبی گھرانے میں بچپن سے ہی آوازوں کے پیچھے بھاگنے والے خیام کو ان کے جرم کی سزا سنائی گئی اور گھر کے دروازے بند کر دئے گئے۔اب فلموں کے عاشق خیام ہیں اور پیچھے بند دروازہ۔ مگر ان کی دستک کسی اور دروازے پر تھی ،جس کی تھاپ میں زندگی کو رقص کرنا تھا۔
بات گیت سنگیت کی ہو تو میں کہوںگا ؛ نئی دنیا کے ہنگامے اور بےمطلب کے تماشے ہماری کمائی ہیں، اس لئے تنہائی کی شہنائی بھی اکثر سنائی نہیں پڑتی۔ یوں ہم اپنے وقت کی آہٹ اور رنج و غم سے رشتہ بحال نہیں کر پا رہے۔پھر کوئی اچھی سی موسیقی، کوئی ساز یا کوئی میٹھا سا نغمہ کہیں نظر آ بھی جائے تو ‘کالی دھوپ ‘سے اسے کون بچائے…یہ اور بات ہے کہ ماضی کی گلیاں قدم روک لیتی ہیں۔ جی، اس وقت کے شور میں ہنگامہ نہیں ہے۔ درد میں شدّت بہت ہے، لیکن شام غم کی تنہائی اپنی سی تہذیب کے ساتھ ہمیں رلا کر سلا دیتی ہے۔
شام غم کی یہ تہذیب فنا نہیں ہوئی۔ شاید اس لئے ہمارے پاس پرانے وقتوں کی ڈائری سلامت ہے۔ ڈائری کے انہی صفحات میں کہیں خیام (18 فروری 1927-19 اگست 2019) جیسے موسیقار بھی ہیں، جو احساس دلاتے ہیں کہ ؛میاں ہر شاعری، شاعرانہ ہو ضروری کہاں ہے۔میں نہیں جانتا کسی راگ میں کتنی راگنیاں ہوتی ہیں، لیکن خیام جیسوں کی موجودگی میں یقین ہو جاتا ہے کہ آج کی موسیقی نظریں زیادہ چراتی ہے باتیں کم کرتی ہے۔
ہاں،
جب خیام تھے ان کی موسیقی تھی، ساز تھا، وہ نہیں ہیں تب بھی ان کی موسیقی ہے… لیکن اب ان کے ہونے کا احساس زیادہ ہو چلا ہے۔ خدا جانے ہم کہاں آ بسے ہیں، اپنی دنیا سے ایسے عاجز اور بےزار کہ ان کی سجل راگنی میں ہنسنارونا سب ہو جاتا ہے۔
ان سب کے درمیان حیران ہوں کہ ایک ایسے دور میں جب انل بسواس کو ‘ کنگ آف میلوڈی’ کہا گیا ہو، ‘آٹھواں سر’والے نوشاد صاحب کی طوطی بولتی ہو، اور ایک سے بڑھکر ایک موسیقی رچنے والے موجود ہوں، اس زمانے میں کچھ سوچکر ہی فیض صاحب نے خیام کو ‘پوئٹ آف میلوڈی’ کہا ہوگا۔میں فیض کے کہے پر سر دھنتا ہوں تو ساحر کا کہا سامنے آ جاتا ہے، جنہوں نے اپنی نظم ‘فنکار’کی کمپوزیشن سنکر کہا تھا، ‘بہت لوگوں نے اس نظم کو گایا، دھنیں بنائیں لیکن آپ کو سنکر لگا جیسےیہ نظم لکھی بھی آپ نے ہے۔ ‘اور پھر ایسے خوش ہوئے کہ دوہرانے لگے، ‘یہ نظم ساحر نے نہیں لکھی خیام نے لکھی ہے، خیام نے لکھی ہے… ‘
فوٹو بہ شکریہ ٹوئٹر،@IndoIslamicPage
یہ بھی خوب ہے کہ جب ہرطرف صرف نوشاد صاحب تھے، اس وقت چندولال شاہ جیسے فلمساز خیام کو ہی اپنا نوشاد کہنے لگے تھے۔خیام کی اس ہر دلعزیزی سے الگ ان کی زندگی میں جھانکیں تو ہماری ملاقات ایک ایسے لڑکے سے ہوتی ہے جس کے داداجان مسجد میں امام ہیں اور والد مؤذن۔
پنجاب کے اس مذہبی گھرانے میں صرف تعلیم کو اہمیت حاصل ہے، گھر میں کتابوں کا ایسا ذخیرہ ہے کہ لوگ نایاب کتابوں کے لئے ادھر کا رخ ضرور کرتے ہیں۔ دالان میں ادب اور شاعری پر باتیں ہورہی ہیں، اور پانچویں جماعت کے طالب علم محمد ظہور خیام ہاشمی کے سامنے علامہ اقبال جیسے شاعر کی کتابیں ؛ بال جبریل اور بانگ دراکی تشریح برطانوی حکومت کے خلاف اپنی بغاوت کو جوش دینے کے تناظر میں کی جا رہی ہے۔یہ لڑکا اپنی حیرانی میں اقبال کے صفحے پلٹکر سوچ رہا ہے ؛ یہ لوگ کیا باتیں کرتے ہیں، آخر ان کتابوں میں ایسا کیا ہے۔ پھر بڑے بھائی کی حوصلہ افزائی میں خیام، اقبال کی شاعری کو اپنی یادوں سے باندھ لیتے ہیں۔ یوں کہ ان کو آگے چلکر ان شعروں کی تعبیر میں ہی خیام بننا تھا، خاص طور پر یہ اشعار کہ؛
اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
وہیں دوسری طرف ابا ہیں، جو بھگت سنگھ کی شہادت کا قصہ سنا رہے ہیں اور ان سب کے درمیان سہگل، ملکہ پکھراج اور بیگم اختر کے ریکارڈ سنے جا رہے ہیں، لیکن خیام کی نگاہیں کچھ اور ڈھونڈ رہی ہیں…دراصل خیام پڑھنےلکھنے سے حد درجہ بیزار ہیں۔ اور سینما کا شوق ایسا کہ چھپ چھپاکر فلمیں دیکھ رہے ہیں، نوبت یہ کہ پیسے نہیں ہیں تو سینما گھر کے دروازے کی درار میں آنکھ لگاکر کھڑے ہیں۔ اور جب اس میں بھی ناکام ہوئے تو کان لگاکرتخیل کی دنیاآباد کر رہے ہیں کہ اسکرین پر کیا ہو رہا ہوگا۔
ایک مذہبی گھرانے میں بچپن سے ہی آوازوں کے پیچھے بھاگنے والے خیام کو ان کے جرم کی سزا سنائی گئی اور گھر کے دروازے بند کر دئے گئے۔اب فلموں کے عاشق خیام ہیں اور پیچھے بند دروازہ۔ مگر ان کی دستک کسی اور دروازے پر تھی سو کے ایل سہگل بننے کی دھن میں موسیقی کی تعلیم لینے چل پڑے۔
یہاں یہ یاد رکھنا بھی ضروری ہے کہ آگے چلکر مذہبی الجھنوں سے آزاد خیام نے جہاں اپنے وقت کی مشہور گلوکارہ جگجیت کور سے شادی کی وہیں اپنے بیٹے پردیپ کو ہندو مذہب اپنانے کی بھی آزادی دی۔بہر کیف پانچ سال دہلی میں حسن لال-بھگت رام کی شاگردی اور چند مہینے پنجابی فلموں کے مشہور موسیقار بابا چشتی(غلام احمد چشتی)سے لاہور میں موسیقی کی باریکیوں سے واقف ہونے کے بعد مایانگری کا اپنی یاترا-جہاں دھکے ہیں، ناامیدی ہے، انکار ہے لیکن نوجوان کی ضد اپنی جگہ قائم ہے۔
قصہ مختصر یہ کہ ملک کی آزادی والے سال اور تقسیم کے المیہ میں کیریئر کی شروعات ہوتی ہے۔ استاد دوراندیشی سے کام لےکران کو شرماجی کا نام دیتے ہیں اور یہ اپنے دوسرے دوست رحمان کے ساتھ شرماجی-ورماجی کے طور پر 5 سال تک موسیقی رچتے ہیں۔اس وقت ملک کے حالات ایسے ہیں کہ استاد ان کو یہ کہنا نہیں بھولتے کہ اگر کوئی تمہارے بارے میں پوچھے تو یہ بتاؤ کہ ہم حسن لال-بھگت رام کے بیٹے ہیں اور انہی کے شاگرد ہیں…
اسی زمانے میں خیام نرگس آرٹ کی فلم رومیو-جولیٹ کے لئے فیض احمد فیض کا کلام ‘دونوں جہاں تیری محبت میں ہارکے…’زہرہ بائی انبالےوالی کے ساتھ اس انداز سے گاتے ہیں کہ اپنے زمانے کی مشہور فنکارہ اور نرگس کی ماں جدن بائی خیام کو بلاکر ان سے غزلیں سنتی ہیں اور حوصلہ بڑھاتی ہیں۔اس طرح خیام پہلی بار پلےبیک سنگر کے طور پر سامنے آتے ہیں۔
پلے بیک سنگنگ کے چھوٹے سے کیریئر کے ساتھ ہی موسیقار-خیام کی’اننت یاترا’ انہی دنوں شروع ہوتی ہے۔ ‘شام غم کی قسم ‘ اور ‘ وہ صبح کبھی تو آئےگی… ‘ اسی دور کے یادگار نغمے ہیں۔اس طرح فلم ہیر رانجھا سے شروع کریں تو بیوی، فٹ پاتھ، پھر صبح ہوگی، لالہ رخ، شعلہ اور شبنم، شگون، آخری خط، کبھی کبھی، نوری، بازار، رضیہ سلطان، انجمن، امراؤ جان… جیسی فلموں کی یادگار دھنیں ان کے نام پر درج ہیں۔
ان گانوں کو درج کرنے کی کوشش کریں تو-تم اپنا رنج وغم، پھر چھڑی رات، نہ جانے کیا ہوا، دکھائی دئے یوں کہ، بہاروں میری زندگی سنوارو، کب یاد میں تیرا ساتھ نہیں، کبھی کبھی میرے دل میں، آپ یوں فاصلوں سے گزرتے، دیکھ لو آج ہمیں،یہ کیا جگہ ہے دوستو، ہزار راہیں مڑکے، پیار کا درد ہے، کروگے یاد تو، ہریالی بنا آیا رے، اے دل ناداں، ان آنکھوں کی مستی کے، دل چیز کیا ہے، جستجو جس کی تھی، میرے گھر آئی ایک ننھی پری… ایک ایسی لسٹ بنتی چلی جائےگی جس پر خیام کے نایاب دستخط ثبت ہیں۔
خیام نے موسیقی کی اس یاترا میں ملک بھرکے گیت سنگیت کو خوب اکسپلائٹ کیا تو عرب ملک اور مغربی دنیا سے بھی انجان نہیں رہے۔ دراصل اپنا ساز درست کرنے سے پہلے وہ پس منظر کے لئے جہاں جغرافیہ کو سمجھنے کی کوشش کرتے وہیں تاریخ کا صفحہ بھی ضرور پلٹتے تھے۔شاید یہی وجہ ہے کہ اپنے فن کو لےکر خیام نے بڑے دعوے کئے کہ، ان کی دھن کو گانے سے الگ ریکارڈ نہیں کیا جا سکتا، وہ گانوں کا جزو لاینفک ہیں اور ان میں کہانی کا مکمل کردار ہے۔
یوں خیام ان موسیقاروں میں رہے جو مانتے ہیں کہ گانے پہلے لکھے جائیں دھن بعد میں تیار ہو۔ یہاں ان باتوں کو ملاکر سوچیں تو ہم آج کی موسیقی میں ویرانی کا نظارہ کر سکتے ہیں۔ اسی بات کو کسی نے یوں کہا تھا-‘ عجیب چلن ہے کہ پہلے قبر کھود لی جاتی ہے پھر ناپ کا کفن تلاش کیا جاتا ہے۔ ‘گانوں کی مٹھاس شاید اسی چلن میں کہیں گم گئی۔
خیر خیام تکنیکی دنیا کے موسیقار نہیں تھے۔ ان کا نظریہ ذرا سا طبع زاد تھا، اس لئے نیا بھی تھا۔ شاید اس لئے وہ دھن بنانے کے مرحلے میں گانے والوں کے بارے میں نہیں سوچتے تھے ؛ فلاں صاحب کس سر پر گاتے ہیں، ان کے لحاظ سے موسیقی کیسی ہوگی، یہ ان کے لئے بےکار کے سوال تھے۔ وہ اس کہانی اور کردار کو سمجھنے کی زیادہ کوشش کرتے تھے جس پر گانےکو فلمایا جانا ہے۔
اس طرح گلوکار وں کو خیام کے سروں میں گانا پڑتا تھا۔ گویا محمد رفیع ہوں، کشور کمار ہوں یا آشا بھونسلے سب کو ان کے کمفرٹ زون سے باہر نکالکر گانا ریکارڈ کرنے والے جنون کا نام ہی خیام ہے۔امراؤجان کی ریکارڈنگ کے دوران تو آشا بھونسلے اپنی ہی آواز سنکر حیران رہ گئی تھیں۔ اور شاید یہ خیام ہی کر سکتے تھے کہ 1948 سے ساتھ کام کرنے کے باوجود انہوں نے کہانی اور کردار کو اہمیت دی اور آشا کو ان کے سر سے ڈیڑھ سر نیچے گانے کو مجبور کر دیا۔
اس معاملے میں خیّام ضدی تھے، حالانکہ اپنے زمانے کے تمام گانے والوں اور شعراء کے چہیتے تھے۔ لیکن بات فن کی ہو تو وہ رائٹر-پروڈیوسر کی بات بھی کاٹ دیتے تھے، اس کی ایک مثال اپنے وقت کی مشہور افسانہ نگار عصمت چغتائی اور ان کے شوہر شاہد لطیف کی فلم ‘لالہ رخ’ ہے، اس فلم کے سارے گانے کیفی اعظمی نے لکھے تھے۔تو قصہ یہ ہے کہ کیفی کا کلام سنکر عصمت آپا بولیں،’کیفی ہم فلم عام لوگوں کے لئے بنا رہے ہیں اور تم نے کتابی شاعری کی ہے، کچھ اور لکھو جو خاص و عام کی زبان پر آئے۔ ‘
کیفی چپ، سب چپ، تب خیام نے کہا آپا کلام تو اچھا ہے، آپ مجھے دھن بنانے دیجئے۔ عصمت بولیں نہیں خیام ہمیں بھوکوں نہیں مرنا، رہنے دو۔ لیکن خیام بھی کہاں ماننے والے تھے، ایک معصوم سی ضد کے بعد انہوں نے ایسی دھن بنائی کہ سب نہال ہو گئے۔اصل میں خیام شاعری کے لئے ویسی ہی آزادی چاہتے تھے جیسی اپنی دھنوں کے لئے۔ شاید وہ فلم کے لئے بھی آرٹ کو گائیڈ ہوتا ہوا نہیں دیکھ سکتے تھے۔ یوں وہ بازار میں تھے لیکن بازاری نہیں تھے۔
خیر اس وقت ان کی دھن کو سنکر ساحر اور جاں نثار اختر نے بھی داد دی تھی اور عصمت کی اسی محفل میں پہلی بار ساحر اور خیام کی باقاعدہ ملاقات ہوئی، جہاں خیام نے ساحر کو بتایا کہ انہوں نے ان کی کتاب ‘ تلخیاں’کی دھن بھی بنائی ہے…پوری کتاب کی، ساحر حیران ہوئے، بولے جی… خیام نے کہا جی۔ پھر ان کی نظم ‘فن کار’والا قصہ پیش آیا، جس ذکر پچھلے سطور میں کیا گیا ہے۔ساحر نے خیام سے اسی محفل میں کہا تھا کہ ہم جلدہی اکٹھے کام کریںگے۔ پھر خیام اور ساحر نے جو کیا وہ گزرے ہوئے وقت کی بات نہیں بلکہ ہماری سماعتوں کی اپنی گواہی ہے۔
اب یہ خیام کی ضد تھی یا اپنی شرطوں پر کام کرنے کی دھن، جو چاہے کہہ لیں۔ عشق تو وہی ہے جو لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بنے۔خیام کے اس عشق میں فلم آخری خط ‘بھی شامل ہے۔ راجیش کھنہ اسٹارر اس فلم کو دیو آنند کے بڑے بھائی چیتن آنند نے بنایا تھا۔ یہ ایسی فلم تھی جس میں ڈائیلاگ سے زیادہ خاموشی (Silence)تھی، اور بیک گراؤنڈ میوزک خیام کو دینا تھا۔ حالانکہ یہ ان کے لئے بہت مشکل اس لئے نہیں تھا کہ وہ کہانی کو اپنی دھن میں بحال کرنے کے لئے ہی جانے جاتے تھے۔
مگر چیتن آنند ڈرے ہوئے تھے بولے، ‘خیام صاحب بیک گراؤنڈ میوزک ہالی ووڈ سے ذرا بھی کم ہوا تو فلم نہیں چلےگی۔ اس میں اتنی خاموشی ہے کہ آپ کو پوری کہانی بیک گراؤنڈ میوزک میں ہی تخلیق کرنی ہوگی ۔ پھر خیام نے Silenceکو ایسی زبان دی کہ خاموشی اپنی فطرت کے ساتھ بول اٹھی ۔خیام نے ہمیشہ اس نظریہ سے کام کیا کہ مجھے بلند پایہ کام ہی کرنا ہے۔ اصل میں وہ صرف کہانی یا اچھی شاعری کے قائل نہیں تھے، صحیح معنوں میں وہ مقصد یت ، موسیقیت اور فلموں کی معنی آفرینی کے موسیقار تھے۔
ان کو اپنے فن پر بھروسہ تھا اس لئے وہ یہ بات بہت کھلکر کہتے رہے کہ میری دھن پر کسی کی پرچھائیں نہیں ہے۔ لوک-دھنوں کو الگ کرکے ان کا دعویٰ رہا کہ ان پر الزام نہیں لگایا جا سکتا اور یہ نہیں کہا جا سکتا کہ خیام نے یہاں وہاں سے دھنیں اٹھائی ہیں۔بڑی بات یہ ہے کہ خیام ویسٹرن میوزک کو بھی اچھا مانتے تھے اور اس سے روشنی حاصل کرنے کو عیب نہیں سمجھتے تھے۔
خیام نے ہمیشہ اپنی دھنوں سے سب کو حیران کیا، فلم ‘فٹ پاتھ’جس میں پہلی بار ضیا سرحدی کے کہنے پر انہوں نے اپنااسکرین نیم خیام رکھا تھا، اس کی دھن سنکر میوزک انڈسٹری نے بھی مانا کہ ایسی موسیقی پہلے کبھی نہیں آئی، یہ موسیقی کی دنیا میں انقلاب ہے۔خیام مانتے رہے کہ فلموں میں کہانی کے لئے موسیقی بنائی جائے اور اس کا ٹریٹمنٹ بھی کہانی کی طرح ہی ہو۔ شاید اس لئے آج کے گانوں سے ان کو یہ شکایت رہی کہ اب پردے پر اچانک ہی کوئی گانا آ جاتا ہے جس کا فلم سے کوئی رشتہ نہیں ہوتا۔
بات شاید وہی ہے کہ موسیقی ان کے لئے بازار کی چیز نہیں تھی، اس لئے جتنا کام کیا اس سے کہیں زیادہ فلموں کو منع کر دیا۔ایک ایک گانے کے لئے وہ اپنی دنیا میں ڈوبے، یوں کہ جب ‘رضیہ سلطان ‘ اور ‘امراؤ جان ‘ کی دھن بنائی تو معاصر تاریخ میں ترکوں کو ڈھونڈا، امراؤ کی دنیا میں گئے پھر اپنے ساز کو آواز دی۔کہتے ہیں’پاکیزہ’کی موجودگی میں امراؤ جان کی موسیقی دینا خیام کے لئے آسان نہیں تھا، وہ یہ سوچکر ڈر گئے تھے کہ پہلے ہی اس میں اودھ کی موسیقی کو نچوڑ لیا گیا ہے، دونوں کے موضوع ایک جیسے ہیں۔ خیام ناول بھی پڑھ چکے تھے اور یہ جانتے تھے کہ وہاں موسیقی کے لئے بہت زیادہ اشارے نہیں ہیں۔
لیکن خیام نے ایک بار پھر تواریخ میں پناہ لی اور یہ تصور کرنے میں کامیاب ہوئے کہ امراؤ کی موسیقی کیسی ہوگی، گلوکاری کا اندازہ کیا ہوگا اور الاپ کیسا ہوگا۔ آشا بھونسلے جو ویسٹرن بیٹ کے لئے مشہور رہیں، ان سے کیسے گوایا جائےگا۔ ان باتوں کو دھیان میں رکھکر انہوں نے وہ کیا جو شاید کوئی اور نہیں کر پاتا۔تبھی شاید رضیہ سلطان کے وقت ‘اے دل ناداں…’ کا ریکارڈ سننے کے لئے امیتابھ بچن اتنے بےچین ہوئے کہ رات کے 2 بجے جیا بچن کو خیام کے دروازے پر دستک دینی پڑی۔
اس طرح کی کامیابیوں کے درمیان ہی یش چوپڑا اور ساحر کی شاعرانہ فلم ‘کبھی کبھی’سامنے سے خیام کو ملی اور اس فلم نے پہلی بار خیام کو جوبلی، گولڈن جوبلی اور ڈائمنڈ جوبلی والا موسیقار بنا دیا۔کہتے ہیں بدلے ہوئے زمانے کی موسیقی کی شروعات اسی فلم سے ہوئی تھی۔
اس طرح 14 سالوں تک ہائی ایسٹ-پیڈ موسیقار رہے خیام نے فلمیں کم کیں اور جب بھی ان کو پسند کی فلمیں نہیں ملیں وہ نان فلمی البم کو اپنی موسیقی سے سجانے میں مصروف ہو گئے۔ اس لئے فلموں کے علاوہ بھی ان کے یہاں نظموں، غزلوں، بھجن اور نعت کا دلکش سلسلہ نظر آتا ہے۔یہ بھی محض اتفاق نہیں کہ خیام نے نغمہ نگاروں سے زیادہ شعراء کے کلام کو اپنی دھن سے سجایا۔ یوں کہیے کہ خیام نے اکثر اس شاعری کو زبان دی جو گائے جانے کے لئے لکھی نہیں گئی۔
نان فلمی البم کی بات کریں تو مشہور اداکارہ مینا کماری کا البم بھی ان میں سے ایک ہے۔ اس البم میں جہاں مینا کماری کا کلام تھا وہیں ان کی اپنی آواز نے دل کی ویرانیوں کو بڑی خوبی سے پیش کیا۔اس طرح خیام کے کاموں پر نگاہ کیجیے تو غالب، داغ، مجروح، ولی، نقش لائل پوری، ندا فاضلی، بشر نواز، میر، قلی قطب شاہ، شہریار، مرزا شوق اور مخدوم وغیرہ کے کلام ان کی دھن کی وجہ سے ہی عام لوگوں کی زبان پر آ سکے۔
خیام زبان و ادب کی گود میں پلے، صاف-ستھری اردو بولتے تھے۔ خود کو اردو والا کہتے رہے اور کئی بار یہ کہا کہ انڈسٹری میں ان کی عزت اس لئے بھی تھی کہ وہ اردو کے ساتھ ہندی بھی جانتے ہیں اور زبان کی نازکی سے بھی واقف ہیں۔شاید اس لئے ادب کے اس عاشق نے اردو کی ایسی مثنوی جو اکثر اکادمک مباحث میں ہی جگہ پاتی رہی اس کو بھی اپنی کمپوزیشن سے عوام تک پہنچا دیا۔
بات ہو رہی ہے مرزا شوق کی مثنوی زہر عشق کی،جس کو ایک بار برطانوی حکومت میں پارسی تھیٹر کمپنی نے اسٹیج کیا تو اس سے متاثر ہوکرعشق میں پاگل ایک لڑکی نے خودکشی کر لی اور کئی عاشق جوڑوں نے جان دینے کی کوشش کی۔ بعد میں حکومت نے اس کتاب پر پابندی عائد کر دی۔ سالوں بعد جولائی 1919 میں پابندی ہٹائی گئی۔اسی کتاب سے حوالہ لے کر انہوں نے فلم بازار میں’دیکھ لو آج ہم…’جیسے کلام کو ایسا لریکل بنا دیا کہ اس کی موسیقی آنسوؤں کا بیانیہ بن گئی۔ یہی خیام کی پہچان تھی۔
یوں وقت اور تاریخ کی یاترامیں اپنی دھنیں تلاش کرنے والے خیام نے 2016 تک فلموں کے لئے کام کیا۔ لیکن اس اننت یاترا کی سیماؤں کو لانگھنے کے بعد بھی وہ شاید نئی دنیا کی انڈسٹری میں جگہ نہیں بنا سکے اور نہ ہی کسی ایسے موسیقار کی سرپرستی کر سکے جو لفظوں کے لئے موسیقی بناتا ہو۔یوں دیکھیں تو لفظوں کی مکمل کائنات کو اپنی دھنوں میں تخلیق کرنے والے خیام کاکوچ کرنا بھی دراصل ان کا ‘ظہور’ ہی ہے۔