جنوبی کشمیر کے پلوامہ ضلع کے جدورا گاؤں کے لوگوں نے الزام لگایا تھا کہ 23-24 جون کی درمیانی شب کو فوج کے کچھ جوانوں نے مسجد میں گھس کر مؤذن سمیت نمازیوں کو ’جئے شری رام‘ کا نعرہ لگانے کے لیے مجبورکیا۔ اب خود کو اس واقعے کا عینی شاہد بتانے والے ایک شخص نے دی ٹیلی گراف کو بتایا کہ اتوار کو فوج کے سینئر افسر نے گاؤں والوں سے معافی مانگی ہے۔
(علامتی تصویر: پی ٹی آئی)
نئی دہلی: جنوبی کشمیر کے پلوامہ ضلع کے جدورا گاؤں کے لوگوں نے الزام لگایا تھاکہ گزشتہ جمعہ-سنیچر (23-24 جون) کی درمیانی شب کو ایک میجر کی قیادت میں ہندوستانی فوج کی راشٹریہ رائفلز کے جوانوں نے مقامی مسجد میں گھس کر لوگوں کو ‘جئے شری رام’ کا نعرہ لگانے کے لیےمجبور کیا۔ ریاستی لیڈروں کی طرف سے اس کی مذمت کرتے ہوئے واقعہ کی تحقیقات کی
مانگ کرتے ہوئے قصورواروں کے خلاف مناسب کارروائی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
دی ٹیلی گراف نے رپورٹ کیا ہے کہ کچھ فوجی افسران نے مقامی لوگوں سے معافی مانگی ہے اور بتایا ہے کہ اس واقعے میں مبینہ طور پر ملوث میجر کو (ڈیوٹی سے) ہٹا دیا گیا ہے۔
جدورا گاؤں کے سول سوسائٹی گروپ کے صدر الطاف احمد بھٹ خود کو اس واقعے کا عینی شاہد بتاتے ہیں۔ انہوں نے اس اخبار کو بتایا کہ اتوار کو کچھ سینئر افسر گاؤں پہنچے تھے، جہاں انہوں نے گاؤں والوں سے معافی مانگی اور بتایا کہ اس واقعے میں مبینہ طور پر ملوث میجر کو ہٹا دیا گیا ہے۔
واضح ہو کہ راشٹریہ رائفلز ہندوستانی فوج کی انسداد دہشت گردی یونٹ ہے۔ سری نگر میں تعینات ایک فوجی افسر نے اس اخبار کو بتایا کہ فوج کی طرف سے واقعے سے متعلق حقائق کی تصدیق کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا، ‘جیسے ہی میرے سینئرز اس بارے میں کوئی اطلاع دیں گے، میں انہیں شیئر کروں گا۔ میں نے کچھ خبریں دیکھی ہیں کہ کچھ کارروائی کی گئی ہے، لیکن میں اس کی تصدیق نہیں کر سکتا۔
الطاف احمد بھٹ کے مطابق،سنیچر کی صبح تقریباً 2 بجے فوجی اہلکار موقع پر پہنچے تھے اور انہوں نے کچھ مقامی شہریوں کو پیش کرنے کو کہا تھا۔ ان میں بھٹ کے چھوٹے بھائی اور سرکاری ٹیچر کے طور پر کام کرنے والے جاوید احمد کا بھی نام تھا۔
بھٹ نے بتایا،گھپ اندھیرا تھا۔ انہوں نے تمام سڑکیں سیل کر دی تھیں اور میرے دروازے پر دستک دی۔ انہوں نے مجھ سے ان لوگوں کو بلانے کو کہا کیونکہ افسر ان سے ملنا چاہتے تھے۔ میں ان کے گھر گیا اور اپنے بھائی سمیت انہیں ساتھ لے گیا، حالانکہ ان کے گھر والے نہیں چاہتے تھے کہ وہ جائیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ، کچھ دیر بعد میں نے ان کی چیخیں سنیں۔ مجھے لگا کہ انہیں مارا پیٹا جا رہا ہے۔ میں نے احتجاج کیا اور کچھ نعرے لگائے لیکن انہوں نے (فوجیوں) نے مجھے خاموش رہنے کی تنبیہ کی۔ مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ وہ (فوجی) ان سے مسجد کے دروازے کھولنے اور ‘جئے شری رام’ کے نعرے لگانے کو کہہ رہے تھے۔ انہوں نے (مقامی لوگوں) واضح طور پر مسجد کھولنے سے انکار کر دیا، اس لیےانہیں مارا پیٹا گیا۔ میں نے انہیں (فوجیوں) میرے بھائی کے سر کو کچلتے ہوئے دیکھا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ ان سے کہہ رہا ہے کہ وہ مسجد کے باہر نعرے لگائےگا، اندر نہیں۔
بھٹ نے مزید کہا، ڈیڑھ گھنٹے بعد، عارف واگے، جو اذان دیا کرتے ہیں، فجر کی نماز کے لیے مسجد میں داخل ہوئے۔ انہوں نے لاؤڈ اسپیکر آن کیا اور اذان دینے لگے۔ لیکن انہوں نے (فوجیوں) نے انہیں درمیان میں روک دیا۔ انہوں نے چلاتے ہوئے ان سے ‘جئے شری رام’ کے نعرے لگانے کو کہا۔ میں نے انہیں لاؤڈ اسپیکر پر نعرے لگاتے سنا۔ درحقیقت ان سے اس لے میں پڑھنے کو کہا گیا تھا – جیسے ہم اذان دیتے ہیں۔
بھٹ نے دعویٰ کیا کہ اسی دوران کچھ اور فوجی چند سو میٹر دور جامع مسجد میں داخل ہوئے اور وہاں موجود نمازیوں سے بھی ایسا ہی کرنے کو کہا۔
انہوں نے بتایا کہ، وہاں کے مؤذن شیراز احمد نے بھاگنے کی کوشش کی لیکن انہیں اندر گھسیٹا گیا اور باقی نمازیوں کے ساتھ نعرے لگانے کو کہا گیا۔ جب میں نے ان سے بتایا کہ اس سے علاقے میں تناؤ پیدا ہو جائے گا تو انہوں نے (میجر) کہا کہ کسی مائی کے لال میں اتنی ہمت نہیں کہ ان کے رہتے ایسا کرے۔ انہوں نے ہمیں ان کی اجازت کے بغیرعید الاضحیٰ پر گاؤں میں جانوروں کی قربانی کرنے کے خلاف بھی خبردار کیا۔
بھٹ کے مطابق، فوج کے جانے کے بعد گاؤں میں احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ‘سنیچر کو انٹلی جنس ونگ کے کچھ لوگ میرے پاس آئے اور کہا کہ کچھ اعلیٰ فوجی افسران مجھ سے فون پر بات کرنا چاہتے ہیں، میں نے سارا واقعہ بتا دیا۔ انہوں نے معافی مانگی اور کارروائی کا وعدہ کیا۔ انہوں نے گزرش کی کہ کوئی احتجاجی مظاہرہ نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ وہ یونٹ کے سی او (کمانڈنگ آفیسر) کو گاؤں بھیجیں گے۔
انہوں نے مزید کہا، ‘اتوار کی صبح سی او صاحب دیگر افسران کے ساتھ آئے اور معافی مانگی۔ ہمیں بتایا گیا کہ ان میجر کو ہٹا دیا گیا ہے اور ان کا کورٹ مارشل کیا جائے گا۔ ہم فوج کی کارروائی سے مطمئن ہیں، لیکن ہم نہیں چاہتے کہ ایسے واقعات دوبارہ کبھی ہوں۔
قابل ذکر ہے کہ ریاست کے سابق وزرائے اعلیٰ محبوبہ مفتی، عمر عبداللہ اور غلام نبی آزاد نے اس واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے واقعہ کی تحقیقات اور قصورواروں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا مطالبہ کیاتھا۔