حال ہی میں لشکر طیبہ کے مبینہ بلاگ پر شائع ہونے والے ایک دھمکی آمیز خط میں وادی کے 21 میڈیا تنظیموں کے مالکان، مدیران اور صحافیوں کے نام لیے گئے تھے۔ بتایا گیا کہ چھاپے کے دوران مقامی صحافی سجاد احمد کرالیاری کو حراست میں لیا گیا اور ان کا لیپ ٹاپ، کیمرہ اور موبائل فون ضبط کر لیا گیا۔
نئی دہلی: کشمیر پولیس نے سنیچر (19 نومبر) کو کشمیر میں تقریباً ایک درجن صحافیوں کو ملی آن لائن دھمکیوں کی تحقیقات کے سلسلے میں کئی صحافیوں کے گھروں پر چھاپے مارے۔
کشمیر زون پولیس نےسنیچر کو ایک ٹوئٹ میں بتایا کہ سری نگر، اننت ناگ اور کلگام میں 10 مقامات پر تلاشی لی گئی۔
Massive searches in connection with #investigation of case related to recent #threat to journalists started by Police at 10 locations in #Srinagar, #Anantnag and #Kulgam. Details shall be followed.@JmuKmrPolice
— Kashmir Zone Police (@KashmirPolice) November 19, 2022
ایک بلاگ،جہاں مرکز کے زیر انتظام علاقے میں رسائی حاصل نہیں کی جا سکتی، کے ذریعے دی گئی دھمکیوں کے لیے پولیس نے پاکستان واقع لشکر طیبہ اور اس کی فرنٹل تنظیم دی ریسسٹنس فرنٹ(ٹی آر ایف ) کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔
اس پوسٹ میں کشمیر سے تعلق رکھنے والے تین صحافیوں کو انڈین سیکورٹی ایجنسیوں کا ‘معاون’، ‘دہلی کا حمایت یافتہ، ہندوستانی فوج کی سرپرستی’ والا بتاتے ہوئے ان کے ذریعے ‘فرضی بیانیہ پھیلانے ‘ کا الزام لگاتے ہوئے دھمکایا گیا تھا۔
معلوم ہو کہ ان دھمکیوں کے بعد وادی کے پانچ صحافیوں نے اپنی نوکری سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ پولیس نے بتایا تھا کہ اس نے دھمکی کے سلسلے میں تعزیرات ہند کی دفعہ 505، 153بی، 124اے اور 506 کے ساتھ یو اے پی اے کی دفعہ 13 کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔
تاہم اب تک پولیس کی کارروائی صرف صحافیوں پر مرکوز رہی ہے۔
ایک سینئر اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر رائٹرس کو بتایا کہ مقامی صحافی سجاد احمد کرالیاری کو پولیس چھاپے کے دوران پوچھ گچھ کے لیے حراست میں لیا گیا اور ان کا لیپ ٹاپ، کیمرہ اور موبائل فون ضبط کر لیا گیا۔
اہلکار نے بتایا کہ مصنف اور صحافی گوہر گیلانی سمیت ایک درجن کے قریب صحافیوں کے گھروں پر چھاپے مارے گئے۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق، ان کے علاوہ رائزنگ کشمیر کے ڈاکٹر راشد مقبول، گریٹر کشمیر کے سابق نامہ نگار خالد گل، ‘کشمیریت’ پورٹل چلانے والے قاضی شبلی اور آزاد صحافی وسیم خالد اور محمد رفیع کے یہاں چھاپے مارے گئے تھے۔
واضح ہو کہ آرٹیکل 370 ہٹائے جانے کے بعد سے گیلانی مرکزی حکومت کے ساتھ ساتھ جموں و کشمیر انتظامیہ کی طرف سے اپنائی گئی پالیسیوں کے سخت ناقد رہے ہیں۔ 2020 میں، جموں و کشمیر پولیس نے گیلانی کو ‘سوشل میڈیا پر اپنی پوسٹ اور تحریروں کے ذریعے غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونےکے لیے انسداد دہشت گردی قانون کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔
سنیچرکے روز پولیس نے اس وکیل کے گھر پر بھی چھاپہ مارا جو انسداد دہشت گردی کے مقدمات میں مدعا علیہان کی نمائندگی کر تا رہا ہے۔
دی ٹیلی گراف کے مطابق، سنیچر کے روز یہاں چھاپے مارے گئے کچھ صحافیوں نے 2019 میں جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے بعد حکومتی اقدامات کی سخت تنقید کی تھی، لیکن بعد میں اپنی مخالفت کو کم کر دیا تھا۔
اطلاعات کے مطابق، ترکی میں مقیم کشمیری نژاد فوٹو جرنلسٹ مختار احمد بابا کی رہائش گاہ پر بھی چھاپے مارے گئے۔ اس کے ساتھ ہی لشکر کمانڈر سجاد شیخ عرف سجاد گل، ایک سرگرم دہشت گرد مومن گلزار کے یہاں بھی چھاپہ مارا گیا۔