نیتی آیوگ کے مطابق، بہرائچ اتر پردیش کا غریب ترین ضلع ہے، جس میں کل آبادی کے 55 فیصد لوگ غربت کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ لیکن حالیہ دہائیوں میں تیزی سے طاقتور ہوتے گئے ہندوتوا کو یہ المناک یا توہین آمیز نہیں لگتا۔
ہمالیہ کی گود میں واقع اتر پردیش کے بہرائچ ضلع میں پچھلے دنوں درگا کی مورتیوں کے وسرجن کے دوران ہردی تھانہ حلقہ کے مہاراج گنج بازار میں برپا ہڑبونگ کے بعد جو ہوا، اپوزیشن پارٹیوں نے اس کو بی جے پی کی یوگی آدتیہ ناتھ حکومت کے ذریعے اسمبلی کی 9 سیٹوں کے لیے فی الحال ہو رہے ضمنی انتخابات سے قبل ووٹروں کو فرقہ وارانہ طور پر پولرائز کرنے کی سوچی سمجھی کوشش قرار دینے کی کوشش کی ہے۔
ان پارٹیوں کی مانیں تو، ابھی چند ماہ قبل لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کی غیر متوقع شکست کے بعد وزیر اعلیٰ کے عہدے سے ہٹائے جانے کے خدشے کا سامنا کر رہے یوگی کو یہ ضمنی انتخابات جیت کر اپنا دبدبہ برقرار رکھنے کے لیے اس طرح کے پولرائزیشن کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں سوجھ رہا۔
اگر ہم اپوزیشن کے ان الزامات کو سیاسی کہہ کر نظر انداز کر دیں تو بھی ایسے حقائق کی کوئی کمی نہیں ہے جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ بی جے پی نہ صرف اس ریاست بلکہ ملک میں اپنے دائرہ اختیار کے تمام حلقوں میں فسادات کا انتخابی فائدہ حاصل کرنے کے لیے معروف ہے، جس سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ عام طور پردنگے ہوتے نہیں، کرائے ہی جاتے ہیں۔
لیکن اس دنگے کو ٹھیک سے سمجھنے کے لیے بہرائچ کے ماضی اور حال سے وابستہ دو اہم عوامل کو دیکھنا ضروری ہے۔
‘کوئی نہیں پرایا’ کی تہذیب
سب سے پہلے، ماضی کی بات کریں تو پرانوں میں بہرائچ کو ‘برہما کی راجدھانی’ بتایا گیا ہے، جبکہ موریہ دور میں یہ بدھ مت کی ثقافت کا اہم مرکز ہوا کرتا تھا۔ہیوین سانگ، فا ہین اور ابن بطوطہ جیسے تاریخ کے مشہور غیر ملکی سیاحوں نے کھل کر اس کی تعریف کی ہے کہ وہ بے مثال ثقافتی تنوع ، جس میں بیگانگی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی، اس کا ورثہ ہے۔
دوست ہو یا دشمن سب کے لیےفراخدلی کا مظاہرہ اسی کلچر کی پہچان ہے کہ بہرائچ کے لوگ اپنے ایم پی کا انتخاب کرتے ہوئے بھی اپنےپرایے کافرق نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے لوک سبھا انتخابات میں کئی مبصرین نے اسے دوسری سیٹوں پر’باہری’ کہہ کر مسترد کیے جانے سے ڈرنے والے لیڈروں کے لیے ایک پناہ گاہ تک قرار دیا تھا۔ اس کی کئی مثالیں بھی ان کے پاس تھیں۔
سال 1952 میں بہرائچ نے بارہ بنکی کےسینئر مجاہد آزادی رفیع احمد قدوائی کو منتخب کیا تھا، جن کے مخالفین انہیں ‘آؤٹ سائیڈر’ کہہ رہے تھے۔ بعد میں قدوائی ملک کے پہلے خوراک اور زراعت کے وزیر بنے۔ 1967 میں فرقہ وارانہ جنون کا شکار ہو کر اس نے بی جے پی کے پیش رو بھارتیہ جن سنگھ کے کے کے نائر کا انتخاب کیا،وہ بھی کیرالہ سے تھے۔ اسی طرح 1977 میں بھارتیہ لوک دل کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے اوم پرکاش تیاگی بلند شہر سے تھے، 1980 میں کانگریس کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے سید مظفر حسین امبیڈکر نگر ضلع میں واقع کچھوچھہ شریف سے تھے اور 1984 میں اسی پارٹی سے منتخب ہوئے عارف محمد خان بلند شہر سے تھے۔
‘باہری’ ہونے کے نام پر امیدواروں کی بے قدری نہ کرنے کی اپنی اسی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے،اس نے عارف کو 1989 میں جنتا دل کے ٹکٹ پر اور 1998 میں بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) کے ٹکٹ پر بھی جتایا تھا۔
اسی طرح 2004 میں اس نے میرٹھ میں پیدا ہونے والی رباب سعیدہ (ایس پی) کو، 2009 میں بانس گاؤں کے کمل کشور (کانگریس) کو اور 2019 میں دیوریا کے اکشے ورلال گونڈ (بی جے پی) کو ایم پی بنایا۔ گزشتہ لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی نے انہی اکشے ور لال گونڈ کے بیٹے آنند کمار گونڈ کو اپنا امیدوار بنایا اور بہرائچ نے انہیں بھی مایوس نہیں کیا۔ اس بات کو اس طرح بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ اب تک ہونے والے 18 لوک سبھا انتخابات میں اس نے صرف ایک تہائی مقامی ایم پی منتخب کیے ہیں- 1957 میں سردار جوگیندر سنگھ (کانگریس)، 1962 میں کنور رام سنگھ (سوتنتر پارٹی)۔ 1971 میں بدلورام شکلا (کانگریس)، 1991 میں رودرسین چودھری، 1999 میں پدم سین چودھری اور 2014 میں ساوتری بائی پھولے (تینوں بی جے پی)۔
فرقہ واریت سے پہلا سابقہ!
یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اکثریتی فرقہ پرستی کے انتخابی استعمال کی پہلی مثال 1967 کے لوک سبھا انتخابات میں ہی دیکھنے کو ملی تھی، جب 1949 میں ایودھیا کی بابری مسجدمیں مورتیاں رکھوانے میں ‘بڑا’ کردار ادا کرکے ہندوتوا کے ہیرو بنے وہاں کے اس وقت کے ڈپٹی کلکٹر کے کے نائر یہاں بھارتیہ جن سنگھ کی طرف سے الیکشن لڑنے آئے تھے۔ اس وقت بہرائچ نے انہیں جتوایا بھی، لیکن شاید یہ اس کے تکثیری کلچر کا ہی اثر تھا کہ اسے جلد ہی اپنی غلطی کا احساس ہوگیا اور انہوں نے اس کی اصلاح بھی کی۔ لیکن چونکہ ہندوتوا نے یہاں فتح کا مزہ چکھ لیا تھا، اس لیے وہ اس کی سرزمین پر اپنے لیے نئے امکانات تلاش کرتے رہے۔
بالآخر، وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) کی 1990-92 کی پرتشدد ایودھیا تحریک نے ان کی یہ ‘حسرت’ پوری کردی اور وہ اس علاقے میں دوبارہ جڑیں جما کر کے کے نائر کی ‘وراثت’ کو آگے بڑھانے میں کامیاب رہے۔ تب سےنشیب وفراز کے درمیان یہاں کے منظر نامے میں ان کی ‘جارحیت’ اور ‘طاقت’ پر ان کے مخالفین کوبھی کوئی شک نہیں رہ گیاہے۔
یہ دنگا جس وجہ سےبھی ہوا ہو، یہ ماننے کی وجوہات ہیں کہ اس کے پیچھے 1990-92 کے بعد سے اکثریت اور اقلیتوں کے درمیان بیگانگی اور اختلاف کی وجہ سے پیدا ہونے والی دوری ہے جو کبھی آہستہ اور کبھی تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے، اس پہلو کو طنز و مزاح کے ایک شاعر نے یوں بیان کیا ہے کہ: ’’تو مناؤعید ہم منائی ہولی، نہ تم ہم سے بولو نہ ہم توہ سےبولی۔‘‘
تاہم، اس سے پہلے ایک وقت تھا جب تمام تہوار خواہ کسی بھی مذہب کے ہوں، مل جل کر منائے جاتے تھے۔
اب اس حقیقت کا ذکر کرنے کی ضرورت نہیں کہ غربت، بے روزگاری اور ناخواندگی ان اشتعال انگیزیوں کے پھیلاؤ کے لیے کس قدر سازگار ہوتے ہیں۔
ہائے غربت!
قابل ذکر بات یہ ہے کہ سرسا(دیوی) کے منہ کی طرح پھیلنے والی غربت آزادی کےامرت کال میں یعنی آج بھی اس ضلع کے حال کو متاثر کر رہی ہے۔ نیتی آیوگ کی طرف سے 2023 میں جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق، یہ اتر پردیش کا سب سے غریب ضلع ہے اوراس میں کل آبادی کے 55 فیصد لوگ غربت کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ غربت ہے تو بے روزگاری بھی ہے اور ناخواندگی بھی۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ بے روزگاری ہے، لوگوں کے پاس کام دھندہ نہیں ہے، اس لیے غربت اور ناخواندگی ہے۔
اس غربت کی انتہا یہ ہے کہ حال ہی میں ضلع کے کچھ علاقوں میں آدم خوربھیڑیوں کی دہشت تھی اور ان کے حملوں میں دس جانیں چلی گئیں تو مظلوم دیہاتیوں کے پاس اتنی رقم بھی نہیں تھی کہ وہ اپنی جھونپڑیوں میں بھیڑیوں سے بچنے کے لیے دروازے لگا سکیں۔ کوڑھ میں کھاج یہ کہ سریو اور گھاگھرا وغیرہ کے ساتھ نیپال سے آنے والی ندیوں کا پانی اکثر برسات کے موسم میں سیلاب کی وجہ سے اس علاقے میں تباہی پھیلاتا ہے۔
اس کے پڑوسی شراوستی اور بلرام پور اضلاع بھی ریاست کے پانچ غریب ترین اضلاع میں شامل ہیں، لیکن حالیہ دہائیوں میں تیزی سے طاقتور ہوتے گئے ہندوتوا کے حامیوں کو یہ المناک یا توہین آمیز نہیں لگتا۔
وہ قریبی ضلع گونڈہ کے مقبول شاعر عدم گونڈوی کے کئی دہائیوں قبل دیے گئے اس سبق کو بھی نہیں مانتے کہ ‘چھیڑیے ایک جنگ مل جل کر غریبی کے خلاف، دوستو میرےمذہبی نرمان کو مت چھیڑیے’ اور اس کی نافرمانی کرتے ہوئے مذہبی گیت گاتے رہتے ہیں۔ ذرا ذرا سے فرقہ وارانہ معاملوں کو لے کربڑے بڑے فتنے پیدا کرتے ہیں اور فساد کرتے ہیں۔
حالیہ دہائیوں میں، اقتدار کی سرپرستی میں وہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد کے شعور کو آلودہ کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اس حد تک کہ وہ ‘اپنے’ لوگوں کی طرف سے پھیلائی گئی اشتعال انگیزی کو، اشتعال انگیزی ہی نہیں مانتے۔ شعور کی اس آلودگی کے بغیر یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ غربت اور انحطاط سے رنجیدہ ہونے کے باوجود غصے میں آکر لوہے کی راڈ، لاٹھیوں اور دیگر ہتھیاروں کے ساتھ نکلیں اور اپنے جیسے ہی دکھیاروں کی جان و مال سے کھلواڑ، خون کے بدلے خون اور انکاؤنٹر و بلڈوزر ایکشن وغیرہ کا مطالبہ صرف اس لیے کرنا شروع کر دیں کہ ان کی عبادت کا طریقہ الگ ہے۔
اس کے برعکس اپنے ہم مذہب کو یہ کہنے کی ہمت بھی نہیں کر پائے کہ درگا کی مورتیوں کے وسرجن کے لیے نکالے جانے والے جلوسوں میں جو بے ہودگی اورداداگیری کی جاتی ہے، اس میں کتنادھرم ہوتا ہے!
سرکار آپ بھی!
عام لوگ تو پھر بھی عام لوگ ہیں، حکمران بی جے پی کا شعور ان سے بھی زیادہ آلودہ نظر آتا ہے۔ اس کے ترجمان سدھانشو ترویدی چیف منسٹر یوگی آدتیہ ناتھ کے اس دعوے کہ ان کے چیف منسٹر کے دور میں ریاست میں فسادات پر پوری طرح سے قابو پالیا گیا ہے، کی ہوا نکل جانے کی شرم محسوس کرنے کے بجائے اپوزیشن پارٹیوں کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے سوال کرتے ہیں کہ پچھلے چار مہینوں میں ہی ایسے واقعات کیوں ہو رہے ہیں؟ کس کی طاقت بڑھنے سے سے ایسے واقعات میں اضافہ ہوا ہے؟
یہ واضح ہے کہ وہ فسادات کو لوک سبھا انتخابات میں اپوزیشن کو حاصل برتری سے جوڑ کرالٹے اسےہی کٹہرے میں کھڑا کردینا چاہتے ہیں۔ گویا ان کے بجائے اپوزیشن اقتدار میں ہے اور انہیں ہی فسادات روکنے کا فرض نبھانا ہے۔
واضح رہے کہ نہ تو وہ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے اس ویڈیو کو ، جس میں ایک نوجوان گھر کی چھت پر لگےہرے جھنڈے کو اتار کر بھگوا جھنڈا لہراتا نظر آتا ہے اور بھیڑ اس کا حوصلہ بڑھاتی نظر آتی ہے، فرضی قرار دیتے ہیں اور نہ ہی اس میں نظر آتے ‘جھنڈا بدل’ کو ماحول خراب کرنے کی کوشش مان کر اس کی مذمت کرتے ہیں۔ اس کے بعد یہ سمجھنے کے لیے کسی اور چیز کی ضرورت نہیں رہ جاتی کہ وہ دراصل کس قسم کے عناصر کے ساتھ کھڑے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ جب وہ یوگی حکومت کے ساتھ یہ کہتے ہیں کہ ماحول کو خراب کرنے کی کوشش کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی، تو ماحول خراب کرنے والے لوگ نہیں بلکہ ان کے متاثرین سکتے میں آ جاتے ہیں۔ اس بارے میں سوچتے ہوئے کہ ہمیں مستقبل میں اور کس کس چیز کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ان کے پاس اس سوال کا بھی کوئی ذمہ دارانہ جواب نہیں ہے کہ اب جو سخت ایکشن لیا جائے گا وہ اس وقت کیوں نہیں لیا گیا جب ماحول خراب کیا جا رہا تھا؟ اس وقت اس نوجوان کی جان بچانے کے لیے مناسب کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟
یہی نہیں، بات اب یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ دیوریا سے بی جے پی ایم ایل اے شلبھ منی ترپاٹھی صحافیوں کے ناموں (صاف کہیں تو مذہب)سے ان کی خبروں کی غیر جانبداری اور سچائی کو پرکھنے لگے ہیں۔ گویا وزیر اعظم نریندر مودی کے ذریعہ قائم کی گئی روایت کو تقویت بخشتے ہوئے، جس کی بنیاد رکھتے ہوئے انہوں نے دسمبر 2019 میں جھارکھنڈ کے دمکا میں ایک انتخابی ریلی میں کہا تھا کہ سی اے اے مخالف مظاہروں کے نام پر تشدد بھڑکانے والے شرپسندوں کی شناخت ان کے کپڑوں سے کی جا سکتی ہے۔
شاید مرزا غالب نے ایسے ہی حالات میں لکھا ہو گا کہ؛
کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
(کرشن پرتاپ سینئر صحافی ہیں۔)