ویڈیو: دی وائر کو دیے ایک انٹرویو میں جموں و کشمیر کے سابق گورنر ستیہ پال ملک نے وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی حکومت کے کام کرنے کے انداز پر کئی سوال اٹھائے۔
نئی دہلی: مودی سرکار، بھارتیہ جنتا پارٹی اور جموں و کشمیر میں سیاسی ہلچل برپا کر دینے والے ایک انٹرویو میں جموں و کشمیر سے ریاست کا درجہ چھیننے سے ٹھیک پہلے کے آخری گورنر رہےستیہ پال ملک نے کہا،میں سیفلی کہہ سکتا ہوں کہ وزیر اعظم کوبدعنوانی (کرپشن) سے زیادہ نفرت نہیں ہے۔
ملک، جو فروری 2019 کے پلوامہ دہشت گردانہ حملے اور اسی سال اگست میں آرٹیکل 370 کی منسوخی کے دوران گورنر تھے، نے یہ بھی کہا کہ وزیر اعظم کے پاس کشمیر کے بارے میں ‘غلط جانکاری ‘ ہے اور وہ وہاں کے حالات سے’لاعلم’ ہیں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے ان کو (ملک کو) مرکزی وزارت داخلہ کی غلطیوں، جس کی وجہ سے فروری 2019 میں پلوامہ میں فوجیوں پر مہلک حملہ ہوا ، کے بارے میں بولنے سے منع کیا تھا۔
تقریباً ایک گھنٹہ کےاس انٹرویو میں ملک نے انکشاف کیا کہ پلوامہ میں سی آر پی ایف کے قافلے پر حملہ ہندوستانی سسٹم،بالخصوص سینٹرل ریزرو پولیس فورس اور وزارت داخلہ کی ‘نااہلی’ اور’غفلت’ کا نتیجہ تھا۔ اس وقت راج ناتھ سنگھ وزیر داخلہ تھے۔
ملک نے تفصیل سے بتایا کہ کس طرح سی آر پی ایف نے اپنے جوانوں کو لے جانے کے لیے ایک طیارے کا مطالبہ کیا تھا، لیکن مرکزی وزارت داخلہ نے انکار کر دیا تھا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ کس طرح راستے میں حفاظتی انتظامات مؤثر طریقے سے نہیں کیے گئے تھے۔
اس سے بھی اہم بات انہوں نے یہ کہی کہ انہوں نے براہ راست مودی کو ان باتوں کی جانکاری دی، جب انہوں نے (مودی نے) انہیں پلوامہ حملے کے فوراً بعد انہیں کاربٹ پارک کے باہر سے بلایا تھا۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے انہیں اس بارے میں خاموش رہنے کی تاکید کی تھی اور کسی کو اس کے بارے میں نہ بتانے کو کہا تھا۔ اس کے علاوہ ملک نے کہا کہ این ایس اے اجیت ڈوبھال نے بھی انہیں خاموش رہنے اور اس بارے میں بات نہ کرنے کو کہا تھا۔ ملک نے کہا کہ انہیں فوراً احساس ہو گیا تھاکہ یہاں ارادہ پاکستان پر الزام لگانا اور حکومت اور بی جے پی کے لیے انتخابی فائدہ حاصل کرناتھا۔
ملک نے یہ بھی کہا کہ پلوامہ کے واقعہ میں انٹلی جنس کی سنگین غلطی بھی ہوئی تھی کیونکہ 300 کلوگرام آر ڈی ایکس لے جانے والی کار پاکستان سے آئی تھی، لیکن بناکسی کی نظر میں آئے وہ 10-15 دنوں تک جموں و کشمیر کی سڑکوں اور دیہاتوں میں گھوم رہی تھی۔
ملک نے اس بات چیت میں یہ بھی بتایا کہ انہوں نے 87 رکنی اسمبلی میں 56 کی اکثریت کا دعویٰ کرنے کے باوجود محبوبہ مفتی کو نئی حکومت بنانے کی اجازت کیوں نہیں دی اور نومبر 2018 میں ہی اسمبلی کیوں تحلیل کردی۔ ایک موقع پر انہوں نے محبوبہ مفتی پر جھوٹ بولنے کا الزام بھی لگایا۔ ایک اور جگہ پر انہوں نے کہا کہ نیشنل کانفرنس جیسی جماعتیں جن کی حمایت کا مفتی دعویٰ کر رہی تھیں، وہ ان سے الگ سےاسمبلی کو تحلیل کرنے کے لیے کہہ رہی تھیں کیونکہ انہیں ہارس ٹریڈنگ (ایم ایل اے کی خرید وفروخت) کا خدشہ تھا۔
ملک نے مزید بتایا کہ جب وہ جموں و کشمیر کے گورنر تھے تو کیسے بی جے پی-آر ایس ایس لیڈر رام مادھو نے ان سے ہائیڈرو الیکٹرک اسکیم اور ریلائنس انشورنس اسکیم کی منظوری کے لیے رابطہ کیا تھا، لیکن انھوں نے ایسا کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ‘میں غلط کام نہیں کروں گا۔ ‘
انہوں نے بتایا کہ مادھو ایک صبح سات بجے ان سے ملنے آئے تھے تاکہ ان کا ارادہ بدل سکیں۔ ملک نے کہا کہ اس وقت لوگ ان سے کہہ رہے تھے کہ انہیں دونوں اسکیموں کو کلیئر کرنے کے لیے 300 کروڑ روپے مل سکتے تھے۔
ملک نے مزید کہا کہ وزیر اعظم کشمیر کے بارے میں ‘لاعلم’ ہیں اور ‘غلط جانکاری’ رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر سے مکمل ریاست کا درجہ واپس لینا ایک غلطی تھی اور اسے جلد از جلد درست کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ‘وزیراعظم اپنے آپ میں مست ہیں’۔
مودی کے بارے میں ملک نے کہا کہ وزیر اعظم کو کرپشن کی ذرا بھی فکرنہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انہیں اگست 2020 میں گوا کے گورنر کے عہدے سے ہٹا کر میگھالیہ بھیج دیا گیا تھا کیونکہ انہوں نے بدعنوانی کے کئی معاملوں کو وزیر اعظم کے نوٹس میں لانے کا کام کیا تھا، جن سے حکومت نے نمٹنے کے بجائے نظر انداز کرنے کا راستہ اختیار کیا۔
انہوں نے الزام لگایا کہ وزیر اعظم کے آس پاس کے لوگ بدعنوانی میں ملوث ہیں اور اکثر پی ایم او کے نام کا استعمال کرتے ہیں۔ ملک نے کہا کہ انہوں نے یہ سب کچھ مودی کو بتایا تھا، لیکن انہوں نے اس کی پرواہ نہیں کی۔ پھر انہوں نے کہا، ‘میں سیفلی کہہ سکتا ہوں کہ وزیراعظم کو کرپشن سے زیادہ نفرت نہیں ہے۔’
ملک نے یہ بھی کہا کہ صدر دروپدی مرمو کی طرف سے کی گئی تمام تقرریوں کی حقیقت میں پی ایم او کے ذریعے جانچ کی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب وہ گورنر تھے تب صدر کی طرف سے کی گئی تقرری کو عین وقت پر اس لمحے رد کر دیا گیا تھاجب وہ راشٹرپتی بھون کے راستے میں تھے۔
ملک نے اس انٹرویو میں درج ذیل نکات پر بھی بات کی:
ان کا کہنا ہے کہ بی بی سی کیس کو سنبھالنے میں وزیر اعظم نے بڑی غلطی کی ہے۔
ملک نے وزیر اعظم اور ان کے کئی وزراء کی طرف سے مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اڈانی گروپ کے الزامات نے وزیر اعظم کو شدید نقصان پہنچایا ہے اور یہ بات گاؤں–گاؤں تک پہنچ چکی ہے، جس سے آنے والے عام انتخابات میں بی جے پی کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے، خاص طور پر اگر اپوزیشن بی جے پی کے خلاف ایک بھی امیدوار کھڑا کر دے۔
ملک نے یہ بھی کہا کہ راہل گاندھی کو پارلیامنٹ میں بولنے کی اجازت نہ دینا ایک بڑی غلطی تھی۔ راہل گاندھی نے اڈانی گھوٹالے پر صحیح سوال اٹھایا، جس کا جواب وزیر اعظم واضح طور پر نہیں دے سکے۔
ملک نے حکومت پر ‘تھرڈ کلاس’ لوگوں کو گورنر بنانے کا بھی الزام لگایا۔
ملک نے یہ کہہ کر اپنی بات ختم کی کہ وہ وزیر اعظم کے بارے میں کہے گئے اپنے ہر لفظ پر قائم ہیں اور اس کی پرواہ نہیں کرتے کہ اس کے نتائج کیا ہوں گے۔ اگرچہ انہوں نے یہ بھی کہا کہ انہیں جتنی سیکورٹی ملنی چاہیے اس سے کم سکیورٹی دی گئی ہے- لیکن وہ اس سے بھی پریشان نہیں ہیں۔