سپریم کورٹ کے ریٹائر جسٹس مدن بی لوکر نے کہا کہ شکایت گزار خاتون کو معاملے کی سماعت کرنے والی انٹرنل کمیٹی کی رپورٹ یقینی طور پر ملنی چاہیے تاکہ شکایت گزار خاتون کو ان سوالوں کا جواب مل سکے، جو اس نے اٹھائے ہیں۔
نئی دہلی: سی جے آئی رنجن گگوئی کے خلاف سابق خاتون اسٹاف کے ذریعے لگائے گئے جنسی استحصال کے الزامات کے معاملے میں سپریم کورٹ کی ابتدائی تفتیش کو ادارہ جاتی جانبداری بتاتے ہوئے سپریم کورٹ کے ریٹائر جسٹس مدن بی لوکر نے کہا، ‘ میرا ماننا ہے کہ اسٹاف کے ساتھ انصاف نہیں ہوا ہے۔ ‘واضح ہو کہ گزشتہ سال دسمبر میں سپریم کورٹ سے ریٹائر ہونے والے جسٹس مدن بی لوکر ان چار ججوں میں سے ایک تھے جنہوں نے اس وقت کے سی جے آئی دیپک مشرا کے خلاف جنوری، 2018 میں تاریخی پریس کانفرنس کی تھی۔ ان کی پریس کانفرنس خاص طور پر مقدموں کو سونپنے میں ہونے والی بدنظمی کو لےکر تھی۔انڈین ایکسپریس میں لکھے ایک مضمون میں جسٹس لوکر نے کہا، ‘شکایت گزار خاتون کو معاملے کی سماعت کرنے والی انٹرنل کمیٹی کی رپورٹ یقینی طور پر ملنی چاہیے تاکہ شکایت گزار خاتون کو ان سوالوں کا جواب مل سکے، جو اس نے اور دوسرے لوگوں نے اٹھائے ہیں۔ ‘
ایک معاملے کی مثال دیتے ہوئے شکایت گزار کو رپورٹ کی کاپی نہیں دینے کے سپریم کورٹ کے فیصلے پر سوال اٹھاتے ہوئے جسٹس لوکر نے لکھا، ‘ سکریٹری جنرل نے اندرا جئے سنگھ بنام سپریم کورٹ معاملے کا حوالہ دےکر شکایت گزار خاتون کو رپورٹ کی کاپی دینے سے انکار کر دیا۔ یہ فیصلہ بالکل بھی بامعنی نہیں ہے۔ ‘انہوں نے لکھا ہے کہ انٹرنل کمیٹی اس طرح کی ان-ہاؤس انکوائری نہیں تھی جس پر سال 1999-2000 میں سپریم کورٹ کے جج تب متفق ہوئے تھے، جب ان-ہاؤس کارروائی کو منظور کیا گیا تھا۔ جسٹس لوکر نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ یہ نہیں کہتا کہ شکایت گزار کو ‘ ان-ہاؤس کمیٹی ‘ کی رپورٹ نہیں ملےگی۔ اس کے علاوہ، سپریم کورٹ کے فیصلے میں یہ نہیں کہا گیا ہے کہ شکایت گزار کو نام نہاد ان-ہاؤس کمیٹی کی رپورٹ کی کاپی پانے کا حق نہیں ہے۔
جسٹس لوکر کے مطابق، ‘ انٹرنل کمیٹی کی کارروائی کہتی ہے کہ رپورٹ کی کاپی متعلقہ جج کو دی جائےگی۔ اس میں کہیں سے بھی شکایت گزار کو رپورٹ کی کاپی نہیں دینے جیسی کوئی روک نہیں ہے۔ ایسا نہ تو انٹرنل کمیٹی کی کارروائی میں ہے اور نہ ہی سپریم کورٹ کا فیصلہ ایسی کوئی روک لگاتا ہے۔ ایسے میں کس قانون کے تحت شکایت گزار کو رپورٹ دینے سے منع کیا گیا؟ ‘انہوں نے لکھا، ‘ ایک معاملے میں ایسا ہی سوال سپریم کورٹ کے سامنے آیا تھا اور تب حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ ہندوستانی Evidence Act کے تحت اس کو شکایت گزار کو رپورٹ کی کاپی نہیں دینے کا حق ہے۔ تب اس دعویٰ کو خارج کر دیا گیا تھا کیونکہ جنسی استحصال کا معاملہ ریاست سے متعلق نہیں ہوتا ہے اور نہ ہی ہو سکتا ہے۔ اس طرح حکومت کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ شکایت گزار کو دیگر مواد کے ساتھ رپورٹ کی کاپی مہیا کرائے۔ ‘
غیرجانبداری کی مانگ کرتے ہوئے جسٹس لوکر نے پوچھا کہ جمع ہونے کے بعد اس رپورٹ کا کیا ہوگا۔ کیا انٹرنل کمیٹی کی رپورٹ کو متعلقہ جج منظور کریںگے؟ کیا اس تعلق سے کوئی حکم ہے؟ کیا متعلقہ جج نام نہاد غیر رسمی رپورٹ سے غیرمتفق بھی ہو سکتے ہیں؟انہوں نے کہا، ‘ میرا ماننا ہے کہ اگر ان-ہاؤس کارروائی نافذ کی جاتی ہے تو متعلقہ جج کو اس رپورٹ کو منظور کرنے یا نامنظور کرنے یا اس پر کوئی کارروائی نہیں کرنے کا حق ہوتا ہے۔ کسی بھی حالت میں متعلقہ جج کو رپورٹ پر خود سے فیصلہ کرنا ہوگا۔ حالانکہ لگتا ہے کہ ایسا کوئی فیصلہ نہیں ہوا اور اگر ہوا بھی تو اس کو عوامی نہیں کیا گیا۔ ‘جسٹس لوکر نے کہا، ‘ 20 اپریل، 2019 کے واقعات کو دیکھنے پر ادارہ جاتی جانبداری کی بات تب صاف ہو جاتی ہے جب سی جے آئی خود کو اس معاملے کی سماعت والی بنچ کا چیئر مین نامزد کر لیتے ہیں۔ ‘
انہوں نے کہا، ‘دھیان دیجئے، (اس معاملے میں) انٹرنل کمیٹی کو وہ فردتشکیل کرتا ہے، جس پر خاتون اسٹاف سے نامطلوب جسمانی رابطہ کا الزام لگتا ہے اور وہی شخص الزامات کی تفتیش کرنے کے لئے جج منتخب ہوتا ہے۔ وہیں انٹرنل کمیٹی کو صرف نامطلوب جسمانی رابطہ کے الزامات کی تفتیش کا حق دیا جاتا ہے جس کو ثابت کرنا مشکل ہوتا ہے۔ کمیٹی کو دئے گئے جانچکے حق میں شکایت گزار کے ساتھ استحصال کی تفتیش کا حق نہیں دیا جاتا ہے۔ ‘کمیٹی کو محدود حق دئے جانے پر سوال اٹھاتے ہوئے جسٹس لوکر نے کہا کہ اگر کسی انٹرنل کمیٹی کے ذریعے تفتیش کی جانی تھی تو یہ دونوں الزامات کے تعلق سے ہونا چاہیے تھا۔ یہ اس لئے بھی ضروری تھا کیونکہ اسٹاف نے حلف نامہ میں تصدیق لائق دستاویزی ثبوت دئے تھے جو ثابت ہونے پر استحصال کے نتیجہ تک پہنچا سکتے تھے۔
اس سے پہلے 2 مئی کو سی جے آئی رنجن گگوئی کے خلاف لگے جنسی استحصال کے الزامات کو دیکھنے والی جسٹس ایس اے بوبڈے کی صدارت والی تین رکنی کمیٹی سے ملکر جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے کمیٹی کا دائرہ بڑھانے کے لئے ایک باہری ممبر کو شامل کرنے کی مانگ کے ساتھ اپنے خط میں اٹھائے گئے مدعوں کو دیکھنے کے لئے فُل کورٹ سماعت کی مانگ کی تھی۔
قابل ذکر ہے کہ سپریم کورٹ کی ایک سابق اسٹاف نے 22 ججوں کو خط لکھکر الزام لگایا تھا کہ چیف جسٹس رنجن گگوئی نے اکتوبر 2018 میں ان کا جنسی استحصال کیا تھا۔35 سالہ یہ خاتون عدالت میں جونیئر کورٹ اسسٹنٹ کے عہدے پر کام کر رہی تھیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس کے ذریعے ان کے ساتھ کئے ‘ قابل اعتراض سلوک’ کی مخالفت کرنے کے بعد سے ہی ان کو، ان کے شوہر اور فیملی کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے۔
خاتون کے مبینہ استحصال کا یہ واقعہ 11 اکتوبر 2018 کا ہے، جب وہ سی جے آئی کے گھر پر بنے ان کے دفتر میں تھیں۔ انہوں نے لکھا ہے، ‘ انہوں نے مجھے کمر کے دونوں جانب سے پکڑکر گلے لگایا اور اپنے بازوؤں سے میرے پورے جسم کو چھوا، اور اپنے کو مجھ پر لادکرمجھے جکڑ سا لیا۔ پھر انہوں نے کہا ‘ مجھے پکڑو۔ ‘ میری ان کی جکڑ سے نکلنے کی کوششوں اور بت-جیسے ہو جانے کے باوجود انہوں نے مجھے جانے نہیں دیا۔ ‘خاتون نے اپنے حلف نامہ میں لکھا ہے کہ ان کے ایسا کرنے کے بعد ان کا مختلف محکمہ جات میں تین بار تبادلہ ہوا اور دو مہینے بعد دسمبر 2018 میں ان کو برخاست کر دیا گیا۔ انکوائری رپورٹ میں اس کے تین اسباب دئے گئے، جن میں سے ایک ان کا ایک سنیچر کو بنا اجازت کے کیزوئل لیو لینا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ استحصال ان کی برخاستگی پر ہی نہیں رکا، بلکہ ان کی پوری فیملی کو اس کا شکار ہونا پڑا۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے شوہر اور شوہر کے بھائی، دونوں دہلی پولس میں ہیڈ کانسٹبل ہیں، کو 28 دسمبر 2018 کو سال 2012 میں ہوئے ایک کالونی کے جھگڑے کے لئے درج ہوئے معاملے کی وجہ سے معطل کر دیا گیا۔اس کے بعد گزشتہ چھ مئی کو سپریم کورٹ کی انٹرنل جانچ کمیٹی نے چیف جسٹس رنجن گگوئی کو جنسی استحصال کے الزام پر کلین چٹ دے دی تھی۔ سپریم کورٹ کے دوسرے سینئر جج جسٹس ایس اے بوبڈے، جسٹس اندرا بنرجی اور جسٹس اندو ملہوترا اس کمیٹی کے ممبر تھے۔ کمیٹی نے کہا کہ خاتون کے ذریعے لگائے گئے الزامات میں کوئی دم نہیں ہے۔وہیں سابق اسٹاف نے جلدہی سی جے آئی کے سامنے عدالت میں اپنی برخاستگی کے خلاف اپیل دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔