جے پی نڈا نے الیکشن کمیشن کے نوٹس کے جواب میں مودی کی ہیٹ اسپیچ کا دفاع کیا

گزشتہ دنوں کانگریس، سی پی آئی اور سی پی آئی (ایم ایل) نے اپنی شکایت میں الزام لگایا تھا کہ راجستھان کے بانس واڑہ میں مودی کی تقریر، انتخابی ریلیوں میں ان کا بار بار رام مندر کا ذکر کرنا اور کانگریس کے منشور کو مسلم لیگ کا بتانا ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہے، جس پر الیکشن کمیشن نے بی جے پی صدر جے پی نڈا کو نوٹس جاری کیا تھا۔

گزشتہ دنوں کانگریس، سی پی آئی اور سی پی آئی (ایم ایل) نے اپنی شکایت میں الزام لگایا تھا کہ راجستھان کے بانس واڑہ میں مودی کی تقریر، انتخابی ریلیوں میں ان کا بار بار رام مندر کا ذکر کرنا اور کانگریس کے منشور کو مسلم لیگ کا بتانا ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہے، جس پر الیکشن کمیشن نے بی جے پی صدر جے پی نڈا کو نوٹس جاری کیا تھا۔

جے پی نڈا۔ (تصویر بہ شکریہ: فیس بک)

جے پی نڈا۔ (تصویر بہ شکریہ: فیس بک)

نئی دہلی: کانگریس اور بائیں بازو کی جماعتوں کی جانب سے وزیر اعظم نریندر مودی کی انتخابی مہم کی تقاریر کو تفرقہ انگیز قرار دیتے ہوئے الیکشن کمیشن میں درج کی گئی شکایتوں کا جواب دیتے ہوئے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے صدر جے پی نڈا نے مودی کا دفاع کیا اور کہا کہ ان کی تمام تقاریر حقائق پر مبنی ہیں۔

رپورٹ کے مطابق، سوموار (13 مئی) کو الیکشن کمیشن کو بھیجے گئے اپنے جواب میں نڈا نے شکایت کنندگان پر ہندو مذہب کی توہین کا الزام لگایا اور ان کے خلاف کارروائی کا بھی مطالبہ کیا۔ نڈا نے  کانگریس پر اقتصادی عدم تعاون اور لسانی اختلافات کے ذریعے ملک کے شمال اور جنوب کے درمیان تقسیم پیدا کرنے کے لیے مسلم لیگ کی حکمت عملی کو اپنانے کا بھی  الزام لگایا۔ یہاں نڈا مودی کے اس بیان کا حوالہ دے رہے تھے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ کانگریس کے منشور پر مسلم لیگ کی چھاپ ہے۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، ہندو دھرم کو ہندوستان کا ‘اصل مذہب’ قرار دیتے ہوئے نڈا نے کہا کہ کانگریس اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر وزیر اعظم کی مخالفت کر کے ہندوستان کی ‘قدیم ثقافت’ کی مخالفت کر رہی ہے۔

اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ مودی کی تقاریر حقائق پر مبنی ہیں، نڈا نے کہا کہ جمہوریت میں رائے دہندگان کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ نہ صرف اپوزیشن کی بات سنیں بلکہ اس کے ‘مقاصد’ کو بھی سمجھیں۔

الیکشن کمیشن کو لکھا گیا نڈا کا خط بی جے پی سربراہ کو دیے گئے اس نوٹس کے جواب میں ہے جس میں کہا گیا تھا کہ بی جے پی کے اسٹار کمپینر مودی نے ماڈل کوڈ آف کنڈکٹ (ایم سی سی) کی خلاف ورزی کی ہے۔

بتادیں کہ کانگریس، سی پی آئی اور سی پی آئی (ایم ایل) نے اپنی شکایت میں الزام لگایا تھا کہ راجستھان کے بانس واڑہ میں مودی کی تقریر، انتخابی ریلیوں میں ان کا بار بار رام مندر کا ذکر کرنا اور کانگریس کے منشور کو مسلم لیگ کا بتانا ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہے۔

بانس واڑہ میں اپنی تقریر میں مودی نے مسلمانوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ اگر کانگریس اقتدار میں آتی ہے تو وہ ملک کی دولت کو ‘گھس پیٹھیوں’ اور ‘جن کے زیادہ بچے ہیں’ ان میں تقسیم کر سکتی ہے۔

شکایت میں کہا گیا تھا، ‘ہمیں وزیر اعظم کی تقریر کے لہجے اور انداز پر اعتراض ہے۔ اس شکایت میں ہم ان کے بدنیتی پر مبنی الزامات کو اجاگر کرنا چاہتے ہیں… جن کا مقصد واضح طور پر طبقات کے درمیان دشمنی پیدا کرنا ہے۔’

شکایت میں مزید کہا گیا کہ ہندوستان کی تاریخ میں کسی بھی وزیر اعظم نے اس طرح کے تبصرے نہیں کیے ہیں۔

نڈا نے دو بار الیکشن کمیشن کے سامنے اپنا جواب داخل کرنے کی آخری تاریخ میں ایک ایک ہفتہ توسیع کی درخواست کی تھی، جو انہیں مل بھی گئی۔ بی جے پی کے سربراہ نے کہا کہ مودی صرف ووٹروں کو کانگریس کے ‘حقیقی ارادوں’ سے آگاہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے، جو کہ بھاری ٹیکس لگانا اور اسے ووٹ بینک کی سیاست کے مطابق دوبارہ تقسیم کرنا تھا۔

شکایت کے بعد الیکشن کمیشن نے مودی کو براہ راست مخاطب کرنے کے بجائے نڈا کو نوٹس بھیجا تھا۔ تاہم عام رواج یہ رہا ہے کہ انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی صورت میں براہ راست متعلقہ شخص کو نوٹس دیا جاتا ہے۔