ونود دوا سیڈیشن معاملے میں جانچ رپورٹ نہیں سونپنے پر سپریم کورٹ نے پولیس کو پھٹکار لگائی

ایک بی جے پی رہنما کی جانب سے صحافی ونود دوا پر الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے اپنے ایک ویڈیو شو کے ذریعے‘فرضی جانکاریاں’ پھیلائی ہیں اور وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف توہین آمیز لفظوں کا استعمال کیا ہے۔ شکایت پر ہماچل پردیش پولیس نے سیڈیشن کا معاملہ درج کیا ہے۔

ایک بی جے پی رہنما کی جانب سے صحافی ونود دوا پر الزام  لگایا گیا ہے کہ انہوں نے اپنے ایک ویڈیو شو کے ذریعے‘فرضی جانکاریاں’ پھیلائی ہیں اور وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف توہین آمیز لفظوں  کا استعمال کیا ہے۔ شکایت پر ہماچل پردیش پولیس نے سیڈیشن کا معاملہ درج کیا ہے۔

ونود دوا ، فوٹو: دی وائر

ونود دوا ، فوٹو: دی وائر

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے صحافی  ونود دوا کے خلاف سیڈیشن معاملے میں جانچ رپورٹ نہیں سونپنے کی وجہ سے منگل کو ہماچل پردیش پولیس کو پھٹکار لگائی۔کورٹ نے پولیس کو ہدایت دی ہے کہ سیل بند لفافے میں جانچ رپورٹ جمع کرائے۔ اب اس معاملے کی آخری شنوائی اگلے ہفتے ہوگی۔ پولیس کو 13 جولائی تک کورٹ میں رپورٹ پیش کرنی ہوگی۔

لائیولاء کی رپورٹ کے مطابق، سپریم کورٹ نے زبانی طو رپر کہا کہ جانچ رپورٹ سونپے جانے کے بعد اگر کورٹ کو صحافی  کی دلیلیں درست لگتی ہیں تو عدالت سیدھے ایف آئی آر خارج کر دےگی۔سپریم کورٹ کے جسٹس یویو للت، موہن ایم شانتاناگودر اور ونیت سرن کی بنچ معاملے کی شنوائی کر رہی تھی۔

صحافی ونود دوانے اپنے خلاف ہماچل پردیش کے شملہ میں درج کی گئی ایف آئی آر کو خارج کرنے کے لیے کورٹ میں عرضی دائر کرکے  اپنے خلاف کوئی بھی کارروائی کرنے سے روک لگانے کی مانگ کی ہے۔بار اینڈ بنچ کی رپورٹ کے مطابق، دوا کی جانب  سے پیش ہوئے سینئر وکیل وکاس سنگھ نے کہا کہ پولیس نے پوچھ تاچھ کے نام پر موکل کو ہراساں کیا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ پولیس کی جانب سے دوا سے ایک ہی سوال کو لےکر باربار پوچھ تاچھ کی گئی اور پولیس نے شکایت کی تفصیلات کو بھی شیئر کرنے سے منع کر دیا۔

وکیل نے کہا کہ پچھلے تقریباً45 سالوں سے ونوددوا ایک ‘ذمہ دار صحافی’ کی طرح کام کر رہے ہیں اور ان کے پاس بولنے اور اظہار رائے کی آزادی کے تحت پورا حق ہے کہ وہ سرکار کی تنقیدکر سکیں۔سنگھ نے کہا کہ پولیس کی طرف سےکی گئی کارروائی ان کے اس حق  کو متاثر کرتی ہے۔

وکاس سنگھ نے اینکر امیش دیوگن کی جانب سےدائر عرضی پر سپریم کورٹ کے حالیہ آرڈرکا حوالہ دیا، جس کے تحت کورٹ نے ان کی گرفتاری پر عبوری روک لگائی ہے۔ انہوں نے آپ انڈیا کی نپر شرما اور تین دیگر کے خلاف دائر ایف آئی آر پر روک لگانے والے کورٹ کے آرڈر کا بھی حوالہ دیا۔

حالانکہ سالیسیٹر جنرل تشار مہتہ نے کہا کہ ان معاملوں کے حقائق الگ الگ ہیں۔ اس پر سنگھ نے کہا کہ یہ سبھی معاملے آئین کے آرٹیکل 19(1)(اے) کے دائرے میں ہیں اور اظہار رائے اور بولنے کی آزادی سے متعلق  ہیں۔کورٹ نے سوال اٹھایا کہ آخر پولیس معاملے  میں تاخیر کیوں کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا، ‘یہ (پروگرام) 30 مارچ کو نشر ہوا تھا اور شکایت 23 اپریل کو درج کی گئی ہے۔ اس میں کل 24 دنوں کی تاخیرتھی۔ آپ کہتے ہیں کہ 11 مئی کو سی آر پی سی کی دفعہ91 کے تحت کرائم برانچ سے آپ کو نوٹس ملا اور پھر آپ نے 11 جون کو نیوز میڈیا ہاؤس کو خط  لکھا۔ 11 مئی سے 11 جون کے بیچ کیا ہوا، یہ جانچ کو لےکر آپ کی سنجیدگی کو دکھاتا ہے۔’

اس کے بعد کورٹ نے معاملے کی آخری شنوائی کی تاریخ اگلے ہفتے کے لیے طے کی اور ہماچل پولیس سے کہا کہ وہ 13 جولائی تک سیل بند لفافے میں جانچ رپورٹ دیں۔اس سے پہلے کورٹ نے سینئر صحافی ونوددوا کے خلاف مختلف ریاستوں میں درج ایف آئی آر کورد کرنے سے منع کر دیا تھا۔ حالانکہ کورٹ نے اگلی شنوائی یعنی کہ چھ جولائی تک صحافی کی گرفتاری پر روک لگا دی تھی۔ کورٹ نے منگل کو پھر کہا کہ یہ روک اگلی شنوائی تک جاری رہےگی۔

معلوم ہو کہ بی جے پی رہنما اجئے شیام کی جانب سے لگائے گئے سیڈیشن کے الزامات پر شملہ پولیس نے ونود دواکو سمن جاری کیا تھا۔ بی جے پی رہنما نے شکایت درج کراکر دواپرالزام  لگایا ہے کہ انہوں نے ‘دی  ونود دوا شو’کے ذریعے‘فرضی جانکاریاں’ پھیلائی ہیں اور وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف توہین آمیز لفظوں  کا استعمال کیا ہے۔