جو بائیڈن کی قیادت میں امریکی انتظامیہ سےہندوستان کوتجارت ، تارکین وطن اور اہم اسٹریٹجک امور پر مثبت رخ کی امید رہے گی۔
وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ امریکہ کے نومنتخب صدر جو بائیڈن۔ (فائل فوٹو: امریکی محکمہ خارجہ)
نئی دہلی: ہندوستانی امریکی کمیونٹی سے ملاقات کے دوران نومنتخب امریکی صدر جو بائیڈن نے براک اوباما کےانتظامیہ کے تحت ہندوستان امریکہ شراکت داری کے مد نظر اپنے لیے حمایت مانگی تھی۔انہوں نے اہم ہندوستان اور امریکہ جوہری معاہدے پر زور دینے والے چیف ڈیموکریٹ سینیٹر ہونے کے لیےحمایت مانگی تھی۔
ہندوستان کے ساتھ ان کی وابستگی رہی ہے، لیکن جس بدلے ہوئے بین الاقوامی ماحول اور معاشی حالات میں وہ صدر کاعہدہ سنبھالیں گے وہی ان کےخارجہ پالیسی کی ترجیحات طے کریں گے۔پچھلی دو دہائی میں امریکہ کے ساتھ ہندوستان کےرشتے کافی حد تک سیاسی طور پرراحت بخش بنے رہے، چاہے اس دوران واشنگٹن یا دہلی میں کوئی بھی اقتدار میں رہا ہو۔
حالانکہ، تھوڑی بہت پریشانی تجارت اور تارکین وطن کے مسائل کو لےکر بنی رہی۔ اس رشتہ میں بازار تک رسائی روایتی طور پرپریشان کن رہی ہے، وہیں تارکین وطن کےمسائل پر سب سے زیادہ پریشانی ڈونالڈ ٹرمپ انتظامیہ کے دوران دیکھنے کو ملی۔
یہاں ہم تین اہم شعبوں میں سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ ابھی دونوں ممالک کے تعلقات کہاں ہیں اور مستقبل میں وہ کس سمت میں آگے بڑھ سکتے ہیں۔
تجارتی امور
موجودہ صورتحال
حکومت ہند کے اعدادوشمار کےمطابق، امریکہ2019-20 میں 88.75 بلین ڈالر کی دوطرفہ تجارت کے ساتھ ہندوستان کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ یوایس ٹی آر ڈیٹا(جس کا الگ سے حساب لگایا جاتا ہے)کےمطابق، 2019 کے لیےاشیا اور خدمات میں کل تجارت146 بلین ڈالر سے زیادہ تھی۔
اس سال فروری میں ہندوستان آنے سے پہلے ٹرمپ نے ایک
بڑے تجارتی سودے کا وعدہ کیا تھا حالانکہ، پچھلے ایک سال میں وہ نہیں ہو سکا۔گزشتہ
27ستمبر کو وزیر تجارت پیوش گوئل نے دعویٰ کیا تھا کہ ہندوستان‘کل’سودا کرنے کے لیے تیار ہے لیکن کووڈ 19کی وجہ سے امریکی سرکار نے اس پر بہت سست پیش رفت کی۔
جون2019 سے صدر ٹرمپ نے ہندوستان کو جی ایس پی کے لیےاہل ممالک سے ہٹا دیا، جس کی وجہ سےکچھ ہندوستانی درآمدات پر دوبارہ ڈیوٹی بحال ہو گئی۔
کچھ میڈیکل آلات کے قیمت کے تعین اوردرآمد ڈیری مصنوعات کے لیے سخت ضوابط پر ہندوستان کی جانب سے کی گئی سختی کے بارے میں امریکی صنعت کی شکایتوں کی وجہ سے جی ایس پی اہل ممالک کی فہرست ہندوستان کو نکالا گیا۔
جی ایس پی ترجیحات والے ممالک کی فہرست سے نکالے جانے کے بعد ہی امریکہ نے 2008 میں اسٹیل اور ایلومینیم کے درآمدات پرڈیوٹی لگانے کا فیصلہ کیا تھا اور ہندوستان نے 29 امریکی سامانوں پر
ڈیوٹی بڑھانے کا فیصلہ کیا تھا۔
گزشتہ30اکتوبر کو وزارتی سطح کے2 + 2چوٹی کانفرنس میں مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ ہندوستان کی وزارت تجارت اور صنعت کے بیچ بازار میں رسائی کو لےکر‘مسلسل تبادلہ خیال’جاری ہے جس میں تجارتی رکاوٹوں کو دور کرنے اور تجارت میں آسانی جیسی باتیں شامل ہیں۔
غیرملکی تجارت پر کیا تھا بائیڈن کے انتخابی مہم کا رخ
بائیڈن نے میڈاِن امریکہ منصوبہ شائع کیا تھا جس میں دوسرے ملکوں سے اسٹیل، سیمنٹ، کنکریٹ، تعمیراتی سامان اور آلات خریدنے پر پابندی لگانے کی تجویز ہے۔وال اسٹریٹ جنرل کی
رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ بائیڈن اور ٹرمپ انتظامیہ کے بیچ سب سے بڑا فرق اتحادی ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات پر ہوگا۔
کووڈ 19 سے متاثرمعیشت کی دوبارہ تشکیل پر اپنے خودساختہ مقصد کے ساتھ بائیڈن کی توجہ یقینی طور پر امریکی کمپنیوں کو حمایت کرنے پر ہوگی۔کئی ممالک میں اس بات کو لےکربھی شبہ ہےکہ بائیڈن انتظامیہ ٹرمپ کی کئی پالیسیوں کو جاری نہیں رکھے گی۔
د ی اکانومسٹ نے اشارہ دیا ہے کہ بائیڈن ڈبلیوٹی اواور یورپی یونین(ای یو)کی جانب سے لگائے گئے ٹیکس جیسے دومعاملوں پرخاموش ہیں ۔اس نے لکھا، یہ حکمت عملی ایک رول ادا کر سکتی ہے۔پہلا کہ بائیڈن انتظامیہ دوسرے ملکوں میں رعایتوں کے بدلے میں ڈیوٹی کٹوتی کو کم کرسکتا ہے۔
آگے کیا ہو سکتا ہے؟
آنے والے بائیڈن انتظامیہ سے ہندوستان کے اہم مطالبات میں جی ایس پی منافع کی بحالی کے ساتھ ہی اسٹیل اور ایلومینیم پرڈیوٹی ہٹانے کی مانگ شامل ہوگی۔حالانکہ، ہندوستان اور امریکہ کے بیچ آنے والے دنوں میں ہونے والے ایک محدودتجارتی سمجھوتے کا بھی بہت کم امکان ہے۔
ریاستہائے متحدہ امریکہ کے ایک نئے تجارتی نمائندے (یو ایس ٹی آر)کا چارج سنبھالنے کے ساتھ ہی غیرملکی سرکاروں کے ساتھ تمام مذاکرات کا جائزہ پہلے لیا جائےگا۔ہندوستان امریکہ تعلقات کے جانکاروں کے مطابق،تجارتی مذاکرہ کی صورت میں سب سے اہم فرق انسانی حقوق اورماحولیات جیسےامورپر ہوگا، جن سے ہندوستان سرکار اکثر بچتی رہتی ہے۔
تارکین وطن
اب تک کیا ہوا ہے؟
سال2016کے امریکی صدارتی انتخاب کے لیے ایچ 1بی ویزاپروگرام پر ڈونالڈ ٹرمپ کے خیالات ان کے تفرقہ انگیز امیگریشن ایجنڈے کا ایک اہم مدعا بن گیا تھا۔ مہم کے دوران ٹرمپ نےاسکلڈ ویزا پروگرام کو ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا اور اسے امریکی تارکین وطن کے لیے‘بہت، بہت برا’ کہا تھا۔
اس کے بعد اپریل2017 میں ایک آرڈر کے ذریعے ٹرمپ نے ایچ 1بی ویزا پالیسی میں تبدیلی کی جس کے بعد شروعاتی سطح کے ہندوستانی انجینیروں کے لیےمشکل پیدا ہو گئی۔اس تبدیلی کے بعد یوایس سی آئی ایس کے مطابق، 2015 میں چھ فیصدی کے مقابلے2019 کی تیسری سہ ماہی میں پہلی بار ایچ1بی ویزا کے 24 فیصدی درخواست نامنظور کر دیے گئے۔
سال2020میں اس تعداد میں ڈرامائی انداز سے اضافہ دیکھا گیا کیونکہ ٹرمپ نے ایچ 1بی سمیت کئی مزدور ویزا پرعارضی پابندی لگا دی۔
تارکین وطن پر بائیڈن کے انتخابی مہم کا رخ
ٹرمپ کی جانب سے مزدور ویزا پرپابندی لگائے جانے کے دو ہفتے بعد بائیڈن نے ایک ریلی میں وعدہ کیا کہ وہ چنے جانے پر ٹرمپ کی تمام پابندیوں کو ہٹا دیں گے۔ان کی مہم ویب سائٹ میں اعلیٰ مہارتی ویزاکی توسیع کرنے اور ملک پر مبنی کوٹا کو ختم کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے جن کی وجہ سے بڑی تعداد میں درخواست التوامیں رہتے ہیں۔
انہوں نے یہ بھی یقینی دہانی کرائی تھی کہ سائنس،ٹکنالوجی، انجینئرنگ اورریاضی(ایس ٹی ای ایم)کے شعبہ میں ڈاکٹریٹ حاصل کرنے والے غیرملکی طلبا کو کسی بھی ویزا کیپ سے چھوٹ دی جائےگی۔
آگے کیا؟
ہندوستان کی ترجیحات والے تمام شعبوں میں سے ہندوستانی مزدوروں کا مدعا بائیڈن انتظامیہ میں جگہ بنا سکتا ہے۔یہ ایک ایسا موضوع تھا جسے ہندوستان نے مختلف سطحوں پر اٹھایا تھا، لیکن امریکی سرکار نے پچھلے چار سالوں میں اپنا رخ نرم نہیں کیا۔
ہندوستان کی اسٹریٹجک صورتحال
موجودہ حالات
ہندوستان کی سب سے بڑی تشویش شمال مشرقی ہمالیہ خطے میں پچھلے چھ مہینے سے چین کے ساتھ چل رہے تنازعہ کو لےکر ہے جس میں نرمی کے اشارے نہیں مل رہے ہیں۔ویسے تو ابھی تک چین کے جارحانہ رویے کی کوئی صاف وجہ پتہ نہیں چلی ہے لیکن ایسے اندیشے ہیں کہ وہ ایشیا اور بحرہند کے خطے میں امریکی اسٹریٹجک مقاصد میں ہندوستان کے حصہ بننے کو لےکر ناخوش ہے۔
چین کے ساتھ امریکہ کےبگڑتے رشتہ ہندوستان کے لیے بےحد اہم ہیں۔ چین کےتسلط نے ہندوستان کو امریکہ کے ساتھ صلاحیت پیدا کرنے اور بنیادی ڈھانچے کے فروغ کے ذریعے اپنی موجودگی بڑھانے کے لیےموقع دیا ہے۔
افغانستان میں ہندوستان کی موجودگی اور امن مذاکرات کے نتیجے نہ صرف علاقائی سلامتی کے لیے اہم ہیں بلکہ یہ پاکستان کے ساتھ امریکہ کے رشتہ کو بھی طے کریں گے۔چھ ممالک کے جوہری سمجھوتے سے امریکہ کے باہر ہونے اور ایران پر تیل پابندیوں کے نافذ ہونے سے ہندوستان کی توانائی تحفظ کے ساتھ ہی چابہار بندرگاہ پر منفی اثر پڑا۔
ہندوستان کے اہم اسٹریٹجک امور پر بائیڈن کی پوزیشن ؟
کونسل آف فارن ریلیشنزکو ایک سوالنامہ کے جواب میں بائیڈن نے ‘من مانے’ڈیوٹی کے لیے ٹرمپ کی تنقید کی تھی اور چین کے کورونا وائرس وباسے نپٹنے کی تعریف کی تھی۔ان کا یہ خیال تھا کہ وہ چین کے خلاف زیادہ مؤثر ہوں گے کیونکہ وہ اس کے انسانی حقوق کے ریکارڈ اور انتہائی ظالمانہ رویے پر چین کے خلاف جانے کے لیے امریکی اتحادیوں کو ساتھ لے لیں گے۔
ممکنہ طورپرلداخ کی حالت کا ذکر کرتے ہوئے بائیڈن کےانتخابی مہم میں کہا گیا تھا کہ بائیڈن انتظامیہ ضابطہ پر مبنی اور مستحکم بحرہندکی حمایت کرنے کے لیے ہندوستان کے ساتھ بھی کام کرےگا، جس میں چین سمیت کوئی بھی ملک اپنے پڑوسیوں کو دھمکی دینے کی حالے میں نہیں ہوگا۔
بائیڈن جہاں افغانستان میں جنگ ختم کرنے کے حق میں ہیں، وہیں کبھی نہ ختم ہونے والے جنگی خطوں سے فوج واپس بلانے کی خواہش رکھتے ہیں۔ وہ جنوبی ایشیا میں سرحدپار اور کسی بھی طرح کی دہشت گردی کو برداشت نہ کرنے میں بھی یقین رکھتے ہیں۔
ٹرمپ کی ایران پالیسی کو خطرناک بتانے والے بائیڈن اس کوبدلنے کے خواہش مند ہیں۔ حالانکہ اس کے لیے انہیں ایران کی مرضی کے ساتھ سعودی عرب، یو اے ای اور اسرائیل کی مخالفت کا بھی سامنا کرنا پڑےگا۔حالانکہ امریکی انتخابات سے دو مہینے پہلے یو اے ای اور اسرائیل نے اسٹریٹجک تعلقات کو کھولنے کے لیے ایک سمجھوتے پردستخط کیا تھا۔
آگے کیا؟
ٹرمپ کے جانے کے بعد امریکہ اور چین کے تعلقات کے اصلاح کی امید کم ہے۔ حالانکہ لداخ پر کشیدگی کے بارے میں بائیڈن انتظامیہ کا رخ دیکھنا دلچسپ ہوگا۔
اوباماانتظامیہ کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی نے پاکستان سے رابطہ بڑھانے کے لیے کئی قدم اٹھائے تھے اور 2015 میں لاہور بھی چلے گئے تھے۔ ایسی امید ہے کہ ڈیموکریٹ انتظامیہ ایک بار پھر دونوں ممالک پر بات چیت کے راستے کھولنے کے لیے دباؤ ڈال سکتی ہے۔
بائیڈن کے خارجہ پالیسی کے صلاحکار انتھنی بلنکن نے ہڈسن انسٹی ٹیوٹ کے ساتھ بات چیت کے دوران کہا تھا کہ نائب صدر بڈن کے نظریے سےہندوستان کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کرنا اور گہرا کرنا ترجیحات میں ہے۔
سابق خارجہ سکریٹری بلنکن نے یہ بھی کہا تھا کہ بائیڈن انتظامیہ کو ہندوستان میں ہو رہے کچھ واقعات پر در حقیقت تشویش ہو سکتی ہے۔انہوں نے کشمیر میں مظاہرہ کی آزادی اور اظہار رائے کی آزادی پر حملے کے ساتھ شہریت پر کچھ قوانین کا حوالہ دیا۔
ہندوستانی مبصرین کو امید ہے کہ کشمیر ،شہریت(ترمیم)ایکٹ اور شہریوں کے قومی رجسٹر پر نسبتاًزیادہ خاموش رہنے والے ٹرمپ انتظامیہ کے برعکس صدر بائیڈن کے زیادہ بولڈ ہونے کاامکان ہے۔صدر ٹرمپ نے اس سال فروری میں ان کے ہندوستان دورے کے دن ہوئے دہلی فسادات کے بارے میں لاپرواہ رویہ کا اظہار کیا تھا۔ یہ تصورکرنا مشکل ہے کہ بائیڈن نے وہی راستہ چنا ہوگا۔
بائیڈن نے کہا ہے کہ وہ صدارتی میعاد کے پہلے سال میں ڈیموکریٹس کی ایک کانفرنس منعقد کریں گے۔ اس میں دوسرے ممالک میں انسداد بدعنوانی کےشعبوں میں وابستگیوں، مطلق العنانیت کے خلاف دفاع اور ‘اپنے قوموں اور دوسرے ممالک میں انسانی حقوق کو آگے بڑھانے پر اعلانات کریں گے۔
جہاں ہندوستان اور دنیا بھر میں مودی سرکار صاف طور پر مطلق العنانیت کے راستے پر جاتی دکھ رہی ہے، وہیں جمہوریت میں انسانی حقوق اورشہری سماج کے رول پر نئے امریکی انتظامیہ کا رخ مودی سرکار کے لیے مشکلیں پیدا کر سکتا ہے۔
(اس خبر کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)