پولیس نے دہلی ہائی کورٹ کو بتایا کہ تشددسے متعلق سی سی ٹی وی فوٹیج محفوظ رکھنے کی اس کی درخواست پر جے این یو انتظامیہ کی جانب سے ابھی تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے۔ وہیں، اس نے وہاٹس ایپ کو بھی تحریری درخواست بھیج کر ان دو گروپ کا ڈیٹا محفوظ رکھنے کو کہا ہے جن پر جے این یو میں تشدد کی سازش رچی گئی تھی۔
نئی دہلی: دہلی ہائی کورٹ نے پانچ جنوری کو جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) میں ہوئےتشدد سے متعلق سی سی ٹی وی فوٹیج محفوظ رکھنے سے متعلق تین پروفیسروں کی عرضی پر پولیس، دہلی سرکار، وہاٹس ایپ اور ایپل -گوگل سے منگل تک جواب مانگا ہے۔دہلی پولیس نے ہائی کورٹ کو بتایا کہ تشدد سے متعلق سی سی ٹی وی فوٹیج محفوظ رکھنے کی اس کی درخواست پر جے این یو انتظامیہ کی جانب سے ابھی تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے۔ وہیں، پولیس نے عدالت کو بتایا کہ اس نے وہاٹس ایپ کو بھی تحریری درخواست بھیج کر ان دو گروپ کا ڈیٹا محفوظ رکھنے کو کہا ہے جن پر جے این یو میں تشدد کی سازش رچی گئی تھی۔
گزشتہ10 جنوری کو تین پروفیسروں امت پرمیشورن، اتل سود اور شکلا ونایک ساونت نے ہائی کورٹ میں عرضی داخل کی تھی۔ اپنی عرضی میں انہوں نے سبھی کمپنیوں کو ثبوت عدالت یا جانچ ایجنسیوں کو سونپنے کی ہدایت دینے کی مانگ کی تھی۔فوٹیج کے علاوہ عرضی گزاروں نے ‘یونٹی اگینسٹ لیفٹ’ اور ‘فرینڈس آف آر ایس ایس’ وہاٹس ایپ گروپ سے متعلق ڈاٹا کی بھی مانگ کی ہے جس میں پیغامات، تصویریں، ویڈیوز اور ممبروں کے فون نمبر شامل ہیں۔
واضح ہو کہ گزشتہ پانچ جنوری کو جے این یو کیمپس میں نقاب پوش لوگوں کی بھیڑ نے گھس کر تین ہاسٹل میں طلبہ و طالبات پر حملہ کیا۔ لاٹھی، لوہے کی چھڑ ہاتھ میں لیے ان حملہ آوروں نے سابرمتی ہاسٹل سمیت کئی بلڈنگ میں جم کر توڑ پھوڑ کی تھی۔ حملہ آوروں نے ٹیچروں کو بھی نہیں چھوڑا۔
اس مارپیٹ میں اسٹوڈنٹ یونین کی صدر آئشی گھوش کو شدید چوٹیں آئی تھیں اور کم سے کم 30 لوگ زخمی ہوئے تھے۔ پروفیسر سچارتا سین کے سر پر بھی شدید چوٹ لگی ہیں۔حالانکہ، ایک ہفتے بعد بھی پولیس اس معاملے میں ایک بھی گرفتاری نہیں کر سکی ہے۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)