یونیورسٹی نے جولائی میں تھاپر کو خط لکھ کر بایوڈیٹا دینے کو کہا تھا تاکہ وہ اس بات کا تجزیہ کر سکیں کہ تھاپر کو پروفیسر ایمریٹس کے طور پر جاری رکھنا چاہیے یا نہیں۔
نئی دہلی: جواہر لال نہرو ٹیچرس ایسوسی ایشن(جے این یوٹی اے)نے یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے ملک کی معروف مؤرخ رومیلا تھاپر سے پروفیسر ایمریٹس کےعہدے پر بنے رہنے کے لیے بایوڈیٹا مانگنے کے فیصلے کو ‘سیاسی طور سے متاثر’بتایا۔ جے این یو ٹی اے کے بیان کے بعد یونیورسٹی نے کہا کہ وہ جے این یو میں پروفیسر ایمریٹس کے عہدے پر تقرری کے لیے اپنے آرڈیننس پر عمل کر رہی ہے۔انتظامیہ نے کہا کہ آرڈیننس کے مطابق،یونیورسٹی کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ ان سبھی کو خط لکھےجو 75 سال کی عمر پار کر چکے ہیں تاکہ ان کے دستیاب ہونے اور یونیورسٹی کے ساتھ ان کے رشتے کو جاری رکھنے کے لیے ان کی خواہش کا پتہ چل سکے۔یہ خط صرف ان پروفیسر ایمریٹس کو لکھے گئے ہیں جو اس زمرے میں آتے ہیں۔
یونیورسٹی نے واضح کیا کہ اس نے یہ خط ان کی سروس کو ختم کرنے کے لیے نہیں بلکہ یونیورسٹی کے ایگزیکٹیو کونسل کے ذریعے تجزیہ کرنے کی جانکاری دینے کے لیے لکھا ہےاور ایسا دوسری بڑی یونیورسٹی جیسے ایم آئی ٹی اور پرنسٹن یونیورسٹی میں بھی ہوتا ہے۔
تھاپر سے رابطہ کرنے پر انھوں نے تصدیق کی کہ ان کو جولائی میں خط ملا تھا اور انھوں نے اس کا جواب دیا ہے’یہ زندگی بھر کی عزت ہے’۔انھوں نے اور کوئی جانکاری نہیں دی۔بہرحال جے این یو ٹی اے نے کہا کہ یہ ایک جان بوجھ کر کی گئی کوشش ہےاور ان لوگوں کو بے عزت کرنا ہے جو موجودہ وقت میں انتظامیہ کی تنقید کرتے ہیں۔’اس نے اس قدم کو رسمی طور پر واپس لینے اور تھاپر کے لیے ذاتی طور پر معافی نامہ جاری کرنے کی مانگ کی۔ایسوسی ایشن نے انتظامیہ کے ذریعے تھاپر کو اپنے ‘اوچھے خط’کے ذریعے سے جے این یو کے ٹیچنگ اور سیکھنے کی روایات کو ‘بد نام ‘کرنے کی کوششوں پر ناراضگی کا اظہار کیا۔
جے این یو نے کہا کہ پروفیسر تھاپر کی بے عزتی سیاست سے متاثر ایک اور قدم ہے۔ٹیچرس ایسوسی ایشن نے کہا کہ تھاپر اور جے این یو کے ہر دوسرے پروفیسر ایمریٹس/ایمریٹا کو ایک ادارے کے طور پر جے این یو کی تعمیر میں ان کے رول کے لیے ان کو اس عہدے پر زندگی بھر کے لیے نامزد کیا گیا ہے۔ یونیورسٹی کے رجسٹرار نے جولائی میں تھاپر کو خط لکھ کر بایوڈیٹا دینے کو کہا تھا تاکہ وہ اس بات کا تجزیہ کر سکیں کہ تھاپر کو پروفیسر ایمریٹس کے طور پر جاری رکھنا چاہیے یا نہیں۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)