سرینگر کے باہری علاقے لاوے پورہ میں29-30 دسمبر کو ایک مبینہ انکاؤنٹر میں تین مشتبہ دہشت گردوں کو مار گرایا گیا تھا، جس میں سے ایک16سال کا تھا۔ یہ اس طرح کا دوسرا واقعہ ہے، جس میں انکاؤنٹر میں مارے گئے مبینہ دہشت گرد کے اہل خانہ کے خلاف پولیس نے یو اے پی اے کے تحت معاملہ درج کیا ہے۔
جموں وکشمیر پولیس نے سرینگر کے باہری علاقے میں دسمبر مہینے میں مبینہ انکاؤنٹر میں مار گرائے گئے لڑکےکے والد کے خلاف یو اے پی اے کے تحت معاملہ درج کیا ہے۔جموں وکشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے بتایا کہ سرینگر کے لاوے پورہ میں 29-30 دسمبر کو مبینہ انکاؤنٹر میں اپنے دیگر لوگوں کے ساتھ مار گرائے گئے 16 سالہ اطہر مشتاق کے والد مشتاق وانی کے خلاف یو اے پی اے کے تحت معاملہ درج کیا گیا ہے۔ ان کے علاوہ چھ دیگر لوگوں کے خلاف بھی یہ معاملہ درج کیا گیا ہے۔’
محبوبہ مفتی نے ٹوئٹ کیا،‘مبینہ فرضی انکاؤنٹر میں اپنے بیٹے اطہر مشتاق کو کھونے کے بعد اس کی لاش کے مطالبے پر والدکے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ ان کا جرم پر امن احتجاج تھا۔ نئے کشمیر کے لوگ بے حس انتظامیہ سے سوال تک نہیں کر سکتے۔ لوگوں کوزندہ لاش بناکر چھوڑ دیا گیا ہے۔’
After losing his son in an alleged fake encounter, Athar Mushtaq’s father has been slapped with an FIR for demanding his dead body. His crime was to stage a peaceful protest. The inhabitants of Naya Kashmir can’t even question a callous admin & have been reduced to living corpses
— Mehbooba Mufti (@MehboobaMufti) February 7, 2021
مقامی نیوز پورٹل کشمیروالا کے مطابق،’پلوامہ پولیس کے ذریعے جنوبی کشمیر ضلع کے ساتھ لوگوں کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ147(دنگا کرنے)،341(غلط طریقے سے پکڑنے) اور 153 (دنگے کے ارادے سے اکسانے)اور یو اے پی اے کی دفعہ13 کے تحت پلوامہ کے راج پورہ پولیس تھانے میں ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔’
پولیس ذرائع کے مطابق، وانی نے اپنے بیٹےکی لاش مانگتے ہوئے پچھلے ہفتے جمعہ کی نماز کے بعد مقامی مسجد سے ایک ریلی نکالی تھی۔وانی نے فون پر بتایا،‘وہ چاہتے ہیں کہ میں اپنے بیٹے کے لیے انصاف کی مانگ نہ کروں۔ وہ میرا اکلوتا بیٹا تھا اور اگر مجھے انصاف کے لیے اپنی جان بھی دینی پڑے تو میں دے دوں گا۔’
وانی لگاتار اپنے بیٹے کی لاش کی مانگ کر رہے ہیں۔ بتا دیں کہ اطہر 11ویں کا اسٹوڈنٹ تھا۔ اطہر کو جموں و کشمیر پولیس نے ان کے گھر سے 110 کیلومیٹر سے دور سونمرگ میں دفن کیا ہے۔ایسا جموں وکشمیر پولیس کی نئی پالیسی کے تحت کیا گیا، جس میں کہا گیا ہے کہ دہشت گردوں کی لاشیں ان کےاہل خانہ کو نہ دی جائیں۔ گھر سے دور دفن کرنے کا مقصد ان کے جنازے میں بڑی تعدادمیں لوگوں کوجمع ہونے سے روکنا ہے۔
وانی نے بیٹے کے لیے اپنے آبائی قبرستان میں ایک قبر کھودی ہے۔وانی کی طرح انکاؤنٹر میں مار گرائے گئے دو دیگر مشتبہ کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ ان کے بیٹے بھی بے قصورہیں اور اس نام نہاد انکاؤنٹر میں ان کے قتل سے پہلے وہ عام زندگی جی رہے تھے۔
جموں وکشمیر پولیس نے وانی کو اوجی ڈبلیو(اوورگراؤنڈ ورکر)کے طور پر نشان زدکیا ہے، جس کا مطلب ہے کہ وہ دہشت گردوں کو لاجسٹک سپورٹ دیتے ہیں۔اطہر اپنے والدین کے اکلوتے بیٹے تھے۔ اطہر کا چچازاد بھائی رئیس کاچرو ایک دہشت گرد تھا، جسے 2017 میں مار گرایا گیا تھا۔
لاوے پورہ انکاؤنٹر میں مار گرائے گئے دوسرے شخص زبیر احمد کے دونوں بھائی پولیس اہلکار ہیں اور سینٹرل کشمیر میں تعینات ہیں۔ وہیں تیسرے مشتبہ کے والد اعجازمقبول غنی جموں وکشمیر پولیس میں ہیڈ کانسٹبل ہیں۔یو اے پی اے کے تحت جن لوگوں کے خلاف معاملہ درج کیا گیا ہے، ان میں اطہر کے دیگر رشتہ دار اور مقامی مسجد کے سربراہ بھی شامل ہیں۔
’60 فیصدی دہشت گرد’
ایک سینئرپولیس افسر کے مطابق، ‘شروعاتی رپورٹ میں پایا گیا کہ تینوں مشتبہ میں سے کسی کا کرائم کا کوئی ریکارڈ نہیں تھا۔کشمیر کے آئی جی وجئے کمار نے ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ تینوں کادہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونا لگ بھگ 60 فیصدی ثابت ہوا ہے، جس کے بعد سوشل میڈیا پر لوگوں نے غصے کا اظہار کرنا شروع کیا۔’
کمار نے صحافیوں کو بتایا،‘میٹا ڈیٹا کے مطابق انکاؤنٹر میں مارے گئے تینوں دہشت گردی میں شامل تھے۔ وہ دہشت گردوں کو لاجسٹکس سپورٹ مہیا کرا رہے تھے۔ ہم کچھ اور دن لینا چاہتے ہیں تاکہ ہم تمام شواہد اکٹھا کر سکیں، جو ہم پہلے ان کے اہل خانہ کو دکھائیں گے تاکہ ہم انہیں یقین دلا سکیں کہ ان کے بچےاس میں شامل ہیں۔’
کمار اور ڈی جی پی دل باغ سنگھ کے بیان نہیں مل سکے۔
یہ اس طرح کا دوسراواقعہ ہے،جس میں انکاؤنٹر میں مارے گئے ایک مبینہ دہشت گرد کے اہل خانہ کے خلاف جموں وکشمیر پولیس نے یو اے پی اے کے تحت معاملہ درج کیا ہے۔
مئی 2018 میں سکیورٹی اہلکاروں کے ذریعے مار گرائے گئےحزب المجاہدین کمانڈر توصیف شیخ کی ماں نسیمہ بانو کو پچھلے سال 19 جون کو ان کے گھر سے گرفتار کیا گیا تھا اور اگلے دن ان پر یو اے پی اے کے تحت معاملہ درج کیا گیا تھا۔
مبینہ انکاؤنٹر
گزشتہ 29 دسمبر کی شام ہوکرسر ویٹ لینڈ میں بھاری گولی باری کی آوازیں سنی گئیں۔ کشمیر زون کی پولیس نے ٹوئٹ کرکے بتایا تھا، ‘سرینگر کے لاوےپورہ علاقے میں انکاؤنٹر شروع کیا گیا ہے۔ پولیس اور سکیورٹی اہلکار مستعد ہیں۔’
یہ مبینہ انکاؤنٹر سرینگربارہمولہ شاہراہ پر ہوا تھا، جس کی وجہ سے انتطامیہ نےآمد ورفت کو روک دیا تھا۔سرینگرٹریفک ڈپارٹمنٹ کے اہلکار نے ٹوئٹ کر کےبتایا تھا، ‘بارہمولہ،سوپور، گلمرگ کی طرف سے ضروری آمد ورفت کو حفاظتی نقطہ نظر سے ماگم بڈگام سے سرینگر کی طرف موڑ دیا گیا ہے۔ پریشانی کے لیےمعذرت۔’
گزشتہ 30 دسمبر کی صبح علاقے میں گولی باری پھر سے شروع کی گئی، جس کے بعد پولیس نے بتایا کہ انہوں نے تین دہشت گردوں کو مار گرایا ہے۔
کیلو فورس کے جنرل آفیسر کمانڈنگ ایچ ایس ساہی نے کہا، ‘انہیں سرینڈر کرنے کے لیے کہا گیا لیکن انہوں نے فائرنگ کی، اس کے بعد رات کی وجہ سے آپریشن کو روک دیا گیا لیکن دن میں دوبارہ آپریشن شروع کیا گیا، جس کے بعد انہوں نے دوبارہ سرینڈر سے انکار کر دیا۔’
تینوں لوگوں کے اہل خانہ نےمبینہ انکاؤنٹر کے ایک دن بعد سرینگر کنٹرول روم کے باہر مظاہرہ کرکےلاشیں سونپنے کی مانگ کی۔چھ علاقائی پارٹیوں کی تنظیم گپکر نے بھی انکاؤنٹر کی غیرجانبدارانہ جانچ کی مانگ کی۔اس ہنگامہ کے بعد جموں وکشمیر کے ایل جی منوج سنہا نے کہا کہ ان اموات سے جڑے سوالوں کے جواب صحیح وقت پر دیے جائیں گے۔
سنہا نے سات جنوری کو سرینگر میں صحافیوں سے کہا تھا، ‘تمام حقائق میرے سامنے آ گئے ہیں۔ میں معاملے کو دیکھ رہا ہوں اور وقت پر آپ کو آپ کے سوالوں کے جواب مل جائیں گے۔’
یہ پوچھے جانے پر کہ کیاانکاؤنٹر کی جانچ کی جائےگی؟ اس پر سنہا نے کہا، ‘میں پوری ذمہ داری کے ساتھ یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اگر کسی بھی طرح کا کوئی شک ہے تو ہم یقیناً جانچ کریں گے۔ حالانکہ جموں وکشمیر ایک حساس جگہ ہے۔ ہمیں سیکورٹی اہلکاروں کےحوصلہ سے سمجھوتہ کیےبغیر دونوں کے بیچ توازن بنانا ہوگا۔ ہمیں ہر پہلو کو دھیان میں رکھنا ہوگا۔’
(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)