ہندوستان کی سیر وسیاحت کے لیے آئے ایک غیر ملکی جوڑے نے جھارکھنڈ کے دمکا میں ان کے ساتھ مار پیٹ اور خاتون کے ساتھ گینگ ریپ کا الزام لگایا ہے۔ اس حوالے سے قومی کمیشن برائے خواتین کی چیئرپرسن ریکھا شرما نے ہندوستان میں خواتین کے تحفظ کے حوالے سے کیے گئے ایک تبصرے کو ‘ملک کو بدنام کرنے’ کی کوشش قرار دیا ہے۔
نئی دہلی: جھارکھنڈ میں ایک ہسپانوی سیاح کے ساتھ مبینہ گینگ ریپ اور حملے کے بارے میں ایک آن لائن تبصرہ نگار کے بیان پر قومی کمیشن برائے خواتین کی چیئرپرسن کے ردعمل نے پورے انٹرنیٹ پر غم و غصے کو جنم دیا ہے۔
واضح ہو کہ ہندوستان کی سیر وسیاحت کے لیے آئے ایک مقبول ٹریول بلاگر جوڑے نے الزام لگایا ہے کہ جھارکھنڈ کے دمکا میں خاتون کے ساتھ گینگ ریپ کیا گیا اور ان کے شوہر کے ساتھ مار پیٹ اور لوٹ پاٹ کی گئی۔ پولیس نے اس معاملے میں تین افراد کو گرفتار کر لیا ہے اور کہا ہے کہ معاملے کی تفتیش جاری ہے۔
ایک انسٹاگرام پوسٹ میں جوڑے نے کہا تھا کہ ان پر حملہ کیا گیا، گردن پر چھری رکھی گئی اور خاتون کے ساتھ سات مردوں نے ریپ کیا۔
ان سیاحوں کے اس ویڈیو پر سوشل میڈیا پر کافی ردعمل دیکھنے میں آئے، جہاں بہت سے لوگوں نے اپنے تجربات شیئر کیے کہ کس طرح خواتین کے لیے ہندوستان کے مختلف حصوں میں سفر کرنا محفوظ نہیں ہے۔ اسی طرح کا ایک ردعمل مصنف ڈیوڈ جوزف وولوزکو کی طرف سے بھی آیا، جنہوں نے کہا کہ ہندوستان میں کئی سالوں کے رہنے کے دوران انہوں نے جس طرح کی جنسی جارحیت یہاں دیکھی ہے، وہ پہلے کبھی کہیں نہیں دیکھی تھی۔
The level of sexual aggression I witnessed while living in India for several years was unlike anywhere else I have ever been. Once a total stranger, a British woman, asked to sleep in my bed and pretend to be my girlfriend on a train ride because a man walking by in the hall had… https://t.co/ZssX0Eq9aJ
— David Josef Volodzko (@davidvolodzko) March 2, 2024
بہت سی غیر ملکی خواتین کو درپیش تکلیف دہ تجربات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ کبھی بھی کسی ایسی خاتون مسافر سے نہیں ملے جس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ یا مار پیٹ نہ ہوئی ہو یا اس سے بھی بدتر سلوک نہ کیا گیا ہو، چاہے وہ ملک میں صرف چند دن کے لیے ہی کیوں نہ رہی ہوں۔
انہوں نے مزید کہا، ‘میں ہندوستان سے پیار کرتا ہوں۔ یہ دنیا میں میری پسندیدہ جگہوں میں سے ایک ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ لیکن میں نےخواتین دوستوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ وہاں اکیلے سفر نہ کریں۔ ہندوستانی معاشرے میں یہ ایک حقیقی مسئلہ ہے جس پر مزید توجہ دینے کی ضرورت ہے اور مجھے امید ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ اس میں بہتری آئے گی۔’
جہاں بہت سے لوگوں نے ان کے تبصرے سے اتفاق کیا وہیں کئی لوگوں نے انہیں نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ ان میں سے ایک قومی کمیشن برائے خواتین کی چیئرپرسن ریکھا شرما بھی تھیں۔
ڈیوڈ کی پوسٹ پر انہوں نے لکھا، ‘کیا آپ نے ان واقعات کے بارے میں پولیس میں رپورٹ کی ؟ اگر نہیں، تو آپ پوری طرح سے ایک غیر ذمہ دار انسان ہیں۔ سوشل میڈیا پر لکھنا اور پورے ملک کو بدنام کرنا اچھی بات نہیں ہے۔’
این سی ڈبلیو مرکزی حکومت کے تحت ایک قانونی ادارہ ہے، جو خواتین سے متعلق مسائل پر آواز اٹھانے اور ان کے حقوق کو یقینی بنانے کے لیے ذمہ دار ہے۔
تاہم، اب کچھ عرصے سے یہ تنظیم غلط وجوہات کی بنا پر خبروں میں ہے۔ نیوز لانڈری نے 2023 میں اپنی ایک رپورٹ میں بتایا تھاکہ کمیشن کو نسلی تنازعہ کی وجہ سے منی پور میں ہوئے تشدد کے دوران ہجوم کے ذریعے 4 مئی کو دو کُکی خواتین پر کیے گئے حملہ اور جنسی زیادتی کے واقعے کا ایک ویڈیو ریکارڈ کرنے کے دردناک معاملے کے بارے میں 12 جون کو مطلع کیا گیا تھا، لیکن این سی ڈبلیو نے شکایت کنندگان کو جواب نہیں دیا یا شکایت کو قبول نہیں کیا۔
اس سے قبل سال 2020 میں جب خواتین، سیاستدانوں اور خواتین لیڈروں کا مذاق اڑانے والے ان کے پرانے ٹوئٹ پر لوگوں نے غصے کا اظہار کیا تھا، تو ریکھا شرما نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کا ٹوئٹر ہینڈل ہیک ہو گیا تھا۔
ان کے حالیہ تبصرے کے بعد ڈیوڈ نے انہیں جواب دیا اور ان کے اور کمیشن کے رویے پر تنقید کی۔ اپنے طویل جواب میں انہوں نے کہا کہ وہ ملک کو بدنام نہیں کر رہے تھے بلکہ اس ملک کی ایک برائی کی نشاندہی کرنے کی کوشش کر رہے تھے، جس کو وہ پیار کرتے ہیں۔
انہوں نے لکھا، ‘این سی ڈبلیو ٹائپ والوں سےیہ ملتا ہے! میں ہندوستانی نہیں ہوں، تو چاہے آپ میری باتوں پر دھیان دیں یا نہ دیں، لیکن میرے ہندوستانی دوستوں کے دل میں بھی این سی ڈبلیو کی کوئی خاص عزت نہیں ہے اور اس کی ایک وجہ ہے خواتین پر حملہ، ریپ یا حتیٰ کہ ان کےقتل پر بھی قصوروار ٹھہرانے کی گھٹیا عادت۔ جب بھی این سی ڈبلیو اس طرح سے کام کرتا ہے، تو وہ ہندوستان کو خواتین کے لیے کم محفوظ بناتا ہے۔
…اور پھر بھی وہ مجھ پر ہندوستان کو بدنام کرنے کا الزام لگانے کی ہمت کر رہی ہیں۔ میڈم شرما، یہ آپ ہی ہیں، جو نیشنل کمیشن فار ویمن نامی گروپ کی سربراہی کر کے اور مذکورہ بالا مسئلے کے بارے میں کچھ نہیں کرکے ہندوستان کو بدنام کر رہی ہیں اور پھر اس اہم مسئلے کی طرف توجہ مبذول کرانے کے لیے مجھ جیسے لوگوں کو تنقید کا نشانہ بنا رہی ہیں۔’
بہت سے دوسرے سوشل میڈیا صارفین – جن میں زیادہ تر خواتین ہیں – نے بھی ان کے ساتھ روزانہ کی بنیاد پر کیے جانے والے سلوک کا ذکر کرتے ہوئے ریکھا شرما کے تبصرے پر حیرانی کا اظہار کیا ہے۔
She is Chair of the NCW–such heartlessness! Reporting the truth about the lack of safety that women in India face is NOT defamatory. Every Indian woman has experienced this most days of her life. Instead of working towards making India safer, don't do this whataboutery. https://t.co/EGgvX2HULC
— Dr Meena Kandasamy மீனா கந்தசாமி (@meenakandasamy) March 3, 2024
This is NCW chairperson Rekha Sharma’s response to someone sharing a personal experience of sexual harassment of a woman on a train.
Rekha Sharma is more worried about perception rather than the ground reality of rape, perhaps she doesn’t get time to read the newspaper. Do tag… pic.twitter.com/27hz2MsEBU
— RichaChadha (@RichaChadha) March 3, 2024
I was going to completely avoid this but since this is all over my TL — India is extremely unsafe for women. I don't know a SINGLE woman who has not faced some form of harassment or worse while in India. Really vile to say that women are baselessly shaming the country.
— Sohni Chakrabarti (@sohni_c) March 3, 2024
قابل ذکر ہے کہ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) کی تازہ ترین سالانہ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ سال 2022 میں ہندوستان میں تشدد کے واقعات کی حیران کن تعداد ہر گھنٹے 51 ایف آئی آر کے برابر تھی۔
بہت سے لوگوں نے یہ بھی ذکر کیا کہ مبینہ جنسی جرائم کے واقعات کو رپورٹ کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان کے خلاف فوراً کارروائی کی جائے گی یا ایکشن لیا جائے گا۔
As if reporting an incident would make any difference. https://t.co/7TYBYmLW6P pic.twitter.com/gWD7asdHgV
— Lokesh (@lokeshbag67) March 3, 2024
The fact that this person continues to be the chair of the NCW boggles the mind. Not to mention the fact that Brij Bhushan Singh continues as a member of parliament, as does Ramesh Bidhuri.
There's little that could defame my country more. https://t.co/CFBYZFyx2F
— Gautam Menon (@MenonBioPhysics) March 3, 2024
اپنی بات کی حمایت میں انہوں نے بی جے پی کے رکن پارلیامنٹ برج بھوشن شرن سنگھ اور انڈین ریسلنگ فیڈریشن پر ان کے دباؤ کی مثال دی ۔ ملک کے ٹاپ میڈل جیتنے والے پہلوانوں نے سنگھ پر کھلاڑیوں کے ساتھ جنسی ہراسانی کا الزام لگاتے ہوئے مہینوں تک احتجاج کیا تھا۔
(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔)