جھارکھنڈ کے سرائے کیلا کھرساواں ضلع کے ایک گاؤں میں 18 جون 2019 کو چوری کے الزام میں تبریز انصاری نامی نو جوان کو بھیڑ نے ایک کھمبے سے باندھکر بےرحمی سے کئی گھنٹوں تک پیٹا تھا، جس کے کچھ دنوں بعد حراست میں ان کی موت ہو گئی تھی۔
نئی دہلی: جھارکھنڈ کے سرائےکیلا کھرساواں ضلع کی ایک عدالت نے 2019 میں چوری کے الزام میں بھیڑ کے ذریعے پیٹ-پیٹکر مارےگئے تبریز انصاری قتل معاملے میں بدھ کو 10 لوگوں کو دس سال کی سخت قید کی سزا سنائی۔
قابل ذکر ہے کہ 18 جون، 2019 کو 22 سالہ تبریز انصاری کو ایک ہجوم نے چوری کے شبہ میں مبینہ طور پر کھمبے سے باندھ کر ڈنڈے سے بے دردی سے پیٹا تھا۔
اس واقعے کا ایک ویڈیوسامنے آیاتھا، جس میں انھیں مبینہ طور پر ‘جئے شری رام’ اور ‘جئے ہنومان’ کے نعرے لگانے کو مجبور کیا جا رہا تھا۔ ویڈیو میں وہ بھیڑ سے رحم کی درخواست کرتے ہوئے بھی نظر آ رہے تھے۔
اس حملے کے بعد تبریز کو چوری کے الزام میں گرفتار کر کے عدالتی حراست میں بھیج دیا گیا تھا۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، اس واقعہ کے چار دن بعد 22 جون 2019 کی صبح تبریز انصاری، جو چوری کے الزام میں عدالتی حراست میں تھے، نے متلی، الٹی اور سینے میں درد کی شکایت کی اوربے ہوش ہوگئے۔ انہیں صدر اسپتال اور پھر جمشید پور کے ٹاٹا اسپتال لے جایا گیا، جہاں علاج کے دوران اس کی موت ہو گئی۔
پچھلے مہینے اس واقعہ کے چار سال بعد عدالت نے 10 لوگوں کو تعزیرات ہند (آئی پی سی) سیکشن 304 کے تحت قصوروار پایا تھا۔
ضلع جج امت شیکھر نے بدھ کو سخت سیکورٹی کے درمیان ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے سزا سنائی اور تمام قصورواروں کو آئی پی سی سیکشن 304 (غیر ارادتاً قتل)کے تحت 10 سال کی سخت قید کی سزا سنائی۔ جج نے ان میں سے ہر ایک پر 15000 روپے جرمانہ بھی عائد کیا۔
اس معاملےکے دو ملزمین کو بری کر دیا گیا اور ایک کی مقدمے کی سماعت کے دوران ہی موت ہوچکی ہے۔
لائیو لا کی رپورٹ کے مطابق،عدالت نے بھیم سنگھ منڈا، کمل مہتو، مدن نایک، اتل مہلی، سنامو پردھان، وکرم منڈل، چامو نایک، پریم چند مہلی، مہیش مہلی ہر ایک پر 15000 روپے کا جرمانہ بھی عائد کیا۔
اس معاملے میں پولیس کا کردار شروع سے ہی سوالوں کی زد میں رہا ہے۔ جب انصاری کو حراست میں لیا گیا تھاتو پولیس نے ان پر حملہ کرنے والوں کے خلاف مقدمہ درج نہیں کیا تھا۔ ان کی موت کے بعد متاثرہ کی بیوی کی شکایت پر مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
جھارکھنڈ جن ادھیکار مہاسبھا کی ایک فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے یہ بھی پایا کہ پولیس نے انصاری کومناسب علاج فراہم نہیں کیا تھا اور ان کے خاندان کو دھمکی بھی دی تھی۔
ستمبر 2019 میں پولیس نے چارج شیٹ سے قتل کے الزام کو خارج کر دیا تھا۔ پولیس نے قتل کے الزام کو ہٹانے کے لیےآخری پوسٹ مارٹم رپورٹ کا استعمال کیا تھا، جس میں کہا گیا ہے کہ انصاری کی موت دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی۔
انصاری کی موت پولیس کے لیے اسی وقت تشویش کا باعث بن گئی تھی جب ہجوم کی جانب سے ان پر حملہ کرنے کا ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگیا تھا۔ ضلع انتظامیہ کی طرف سے مقرر کردہ ایک انکوائری کمیٹی نے بھی پولیس کی کوتاہیوں کا پتہ لگایا تھا اور کہا تھا کہ حملے کے بعد جس اسپتال میں انصاری کو پہلے لے جایا گیا تھا وہاں کے ڈاکٹر بھی ذمہ دار ہیں، کیونکہ انہوں نے ان کے سر میں شدید چوٹوں کے باوجود انہیں حراست میں رکھنے کی اجازت دی تھی۔
اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔