زمانۂ قدیم کے بارے میں، وہ بھی ماضی بعید کے ایسے پہلو پر لکھنا جس کے اسرار سے بہت کم پردہ ہٹا ہے، ناولٹ کو خالص تخیل کی اڑان بنا سکتا تھا، لیکن ’سندھو‘ کی کہانی جیم عباسی نے نہایت قائل کرنے والے اور معروضی انداز میں لکھی ہے۔ کوئی تخلیق کار تاریخی بیانیے کے بین السطور میں کیا کیا پڑھ سکتا ہے، اگر سمجھنا ہو تو ’سندھو‘ کو ضرور پڑھنا چاہیے۔
’رقص نامہ‘ کے خالق جیم عباسی کا یہ دوسرا ناول ہے۔
’سندھو‘ (2024) انھوں نے موجودہ سندھ کے ایک مخصوص علاقے کے آثارِ قدیمہ کے پس منظر میں لکھا ہے جو قدیم تاریخ ہی کی طرح سحرانگیز اور متاثر کن ہے اور ساتھ ہی ایک متوازن بیانیہ بھی۔
زمانۂ قدیم کے بارے میں، وہ بھی ماضی بعید کے ایسے پہلو پر لکھنا جس کے اسرار سے بہت کم پردہ ہٹا ہے، ناولٹ کو خالص تخیل کی اڑان بنا سکتا تھا، لیکن ’سندھو‘ کی کہانی مصنف نے نہایت قائل کرنے والے اور معروضی انداز میں لکھی ہے۔
تاریخ کی کتابوں میں ہم نے وادیِ سندھ کی قدیم تہذیب کے متعلق جو کچھ نصابی کتابوں میں پڑھا اسے معلوم شواہد کی بنیاد پر تاریخ دانوں کا وضع کردہ بیانیہ قرار دے سکتے ہیں۔
لیکن کوئی تخلیق کار اس تاریخی بیانیے کے بین السطور میں کیا کیا پڑھ سکتا ہے، اگر سمجھنا ہو تو ’سندھو‘ کو ضرور پڑھنا چاہیے۔
اس ناول کی سب سے بڑی خوبی یہی لگی کہ مصنف نے ہڑپہ اور موئن جودڑو کے دستیاب تاریخی شواہد سے بے جا آزادی نہیں لی بلکہ معلوم حقائق کے ارد گرد کہانی کے واقعات کو ترتیب دیا ہے۔ سندھو کے ساحلی علاقے میں نمو پانے والی معاشرت، رہن سہن، روزگار اور معیشت (کھیتی باڑی، اینٹوں کے بھٹے) باہم منطقی ربط اور استدلال رکھتے ہیں۔
کھدائی میں ملنے والی مُہروں، برتنوں، مورتیوں وغیرہ کی بنیاد پر اس علاقے کی رسوم و عقائد، اور سماجی و سیاسی نظام کی نہایت دلکش اور سحرانگیز دنیا اس ناول میں وضع کی گئی ہے۔ البتہ مادرسری نظام کا بیانیہ گڑھنا مجھے ذرا چونکانے والا لگا۔
موجودہ دکنی ہندوستان (خصوصاً کیرل) اور شمال مشرق کے علاقوں (آسام، منی پور، تریپورہ، ناگالینڈ وغیرہ کی ریاستیں جنھیں آج سیون سسٹرس (سات بہنیں) اور نارتھ ایسٹ وغیرہ کہا جاتا ہے، کی تہذیب سے متعلق تو یہ پڑھا ہے کہ یہاں آج بھی ایسی روایات اور رسم و رواج موجود ہیں جو ایک قدیم مادرسری نظام کے گواہ ہیں۔
البتہ کبھی اس پر غور نہیں کیا تھا (یا اگر کہیں پڑھا ہو تو میرے ذہن سے پوری طرح اتر چکا ہے) کہ سندھو گھاٹی سبھیَتا میں بھی عورت مرکوز نظام پنپا تھا۔
خیر جب میں نے ’سندھو‘ میں پڑھا تو یہ خیال آیا کہ معروفِ زمانہ ’ڈانسنگ گرل‘ اور عورتوں کے دیگر مجمسوں کا پایا جانا اس معاشرے میں عورت کی اہمیت کو یقیناً نمایاں کرتا ہے، نیز لِنگ اور یونی (مردانہ اور زنانہ عضوِ تناسل) کی پرستش کے اشاروں کے سبب بھی ایسے نظام کا بیانیہ خلق کیا جا سکتا ہے جس میں عورت زیادہ نہیں تو برابر کی اہمیت کی حامل ہو۔
اسی دور کی دیگر عالمی تہذیبیں (دریائے نیل کے ڈیلٹا میں مصر کی تہذیب، اور دجلہ و فرات کے ساحلوں پر سمیریائی تہذیب) بھی اس کی توثیق کرتی ہیں کہ ان کی اساطیر، دیواری تصاویر اور مجسموں سے یہ واضح ہے کہ ان معاشرتوں میں عورت ہرگز ہر گز کم تر نہیں تھی؛ اور نہ ویسی بے توقیر تھی جو وہ عالمی تمدن کے ارتقا پذیر ہونے کے ساتھ ہو گئی۔
اس لیے ’سندھو‘ میں عورت کے کردار کو جس طرح مرکزی اہمیت دی گئی ہے وہ بھی نرا تخیل نہیں ہو سکتا۔ بہرحال تاریخ اس کو ثابت نہ بھی کر سکے تو بھی بیانیے کے متاثر کن ہونے میں کلام نہیں۔
جہاں تک عقائد، آدابِ معاشرت اور رسوم کی بات ہے تو اِن کی کہانی نیچر پر انسان کے انحصار اور اس فطرت کی قوتوں کے ساتھ تصادم کے رشتوں سے ہی ارتقا پذیر ہو سکتی تھی، اور ’سندھو‘ میں جیم عباسی نے اس پہلو کو بہت خوبی سے نبھایا ہے۔ نیز قدیم مُہروں پر نقش پیپل اور بیل (’پشوپتی‘ ساری مخلوقات کے خالق شیو جی کا ایک روپ) کو ناول میں نمایاں مقام دیا گیا ہے جس سے ہم فوری طور پر وہ ربط دیکھ لیتے ہیں جو آج بھی ہندوستان کے مختلف عقیدوں (جن کو اب ’ہندو‘ کی چھتری کے نیچے یکجا کر دیا گیا ہے) میں موجود ہے۔
نَندی (وہ بیل جو شیوجی کی سواری ہے) اور شیو لِنگ آج بھی تخلیقِ کائنات اور افزائشِ نسل کی علامت کے طور پر ہندوستان کے ہر حصے میں پوجے جاتے ہیں (البتہ ’یونی‘ کی پوجا تاریخ کے کسی نامعلوم دور میں متروک ہو گئی اور یہ غالباً پدر سری نظام کے مضبوط ہونے کے ساتھ ہوا ہوگا)۔
ناول میں ان علامتوں کو جگہ ملنے سے یہ خیال گزرتا ہے کہ یہ واقعی ایک متواتر اور متسلسل تہذیب ہے، اور کبھی فنا نہیں ہوئی۔ شمالی ہندوستان کے مختلف مقامات کی آثارِ قدیمہ کی کھدائیوں سے ایسے اشارے ملتے رہے ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ اصل میں جس کو ہم سندھ ندی کی تہذیب کہتے ہیں اس کا کوئی محدود صوبائی وجود نہیں بلکہ یہ ایک وسیع جغرافیائی علاقہ ہے جو دور دور تک پھیلا ہوا ہے اور کیوں کہ ابتدائی نشانات سندھ میں ملے اس لیے وادیِ سندھ کی تہذیب کہلائی۔
یہ عظیم تمدن بعد میں بہت سی تہذیبوں کے اشتراک اور تعامل کے باوجود اپنی نہاد میں (مذہبی رسوم وعقائد، ریت رواج، سنسکار، پرمپراؤں کی شکل میں) آج بھی زندہ ہے۔
بس اتنا ہی ہوا کہ بعض قدرتی اور بعض انسان کی لائی ہوئی تباہیوں کے سبب کچھ علاقے اجڑتے رہے، نئے بستے رہے، آبادی نقلِ مکانی کرتی رہی، وغیرہ وغیرہ۔ یہ امکانات فطری ہیں اور ایسے ہی ایک امکان کا سرا پکڑ کر ناول میں بھی ایک بستی؍ علاقے کی معاشرت اور پھر اجڑنے کی کہانی وضع کی گئی ہے۔
ناول کا ایک دلچسپ حصہ وہ لگا جہاں ’اجرک‘ کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس کا منبع غالباً آثارِ قدیمہ میں ملنے والی مکھیا، راہب، پجاری یا راجا (جو بھی ہو، بہرحال وہ اس تہذیب کی ایک نمایاں شخصیت ہے) کا مجسمہ ہے جس کے لباس پر تین پتیوں والے پھول بنے ہیں۔
مصنف نے سندھ کی مخصوص پہچان بن چکی چادر یا اجرک کے روایتی ڈیزائن کے ابتدائی نمونے کے طور پر اس کو دیکھا ہے جو ایک دلچسپ اور نوسٹالجک تخیل ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہےکہ مصنف کو اس تہذیب کے اُس تسلسل پر اصرار ہے جو اسے سندھ کی موجودہ تہذیب سے وابستہ کرتا ہے۔
مجھے اس تخیل پر بالکل اعتراض نہیں، بلکہ یہ ناول کو دلکش ہی بناتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کل کو ایسی کڑیاں مل جائیں جو چھَپائی اور رنگوں کے امتزاج کے اس فن کے کسی ارتقائی مرحلے کو اس قدیم دور سے ملا دیں، بالکل ویسے ہی جیسے آج کے دور میں پشوپتی اور پیپل کی پرستش کا رشتہ قدیم مہروں سے متسلسل ہے۔ یا ہو سکتا ہے ایسی کڑیاں موجود ہوں جو اجرک کی تاریخ بیان کرتی ہیں، لیکن یہ تبصرہ نگار لاعلم ہے۔
بہر حال، پجاری یامکھیا کی یہ مورتی اس علاقے کی تہذیب کی نہایت اہم علامت ہے جس کے گرد ایک واضح سیاسی اورسماجی نظام وضع کیا جا سکتا تھا یا مذہبی نظام بھی۔ اور یہ ایک سامنے کا اور قائل کرنے والا بیانیہ ہوتا لیکن جیم عباسی نے یہ سہل راہ نہیں چُنی، بلکہ انھوں نے کسی بھی قسم کے ارتقا شدہ نظام کو متعارف کرانے سے گریز کیا ہے۔
وہ خاندان، سماج، مذہب، عقیدے اور معیشت کے ابتدائی مراحل کو اس طرح پیش کرتے ہیں کہ ان کی وہ مخصوص شناختیں جنھیں ہم آج الگ الگ پہچانتے ہیں، پوری طرح متشکّل نہیں ہوئی تھیں۔ ارتقا کے ان مراحل کو ناول نگار نے متحرک رکھا ہے اور ان میں تبدیلی کا عمل ناول میں انفرادی اور گروہی مفادات کے تصادم کو، نیز ایک اقتدار کی سمٹتی ہوئی بساط اور دوسری بساط کے بچھنے کے اشارے دے کر شامل کیا ہے۔
یہ کام تلوار کی دھار پر چلنے جیسا تھا اور اس پل صراط سے مصنف بخوبی گزر گئے ہیں۔ مادر سری سے پدر سری نظام کی طرف میلان کو انھوں نے بہت عمدگی سے ناول کے آخری حصے میں شامل کیا ہے۔
آخری بات ناول کی زبان کے تعلق سے کہنا چاہتی ہوں۔ ایک قدیم تہذیب کو، جو ارتقا کے ابتدائی مراحل میں ہے، آخر ایک ترقی یافتہ جدید زبان میں کیوں کر بیان کیا جا سکتا تھا؟ اس قدامت کا احساس کرانے، اور ہمیں آج کی زندگی سے کاٹ کر ایک قدیم دور کے جزیرے میں لے جانے کے لیے جیم عباسی نے زبان کو گویا ایک کشتی کے طور پر استعمال کیا ہے۔ زبان کی کشتی پر سوار ہو کر قاری تاریخ کے دریا میں اترتا ہے اور کشتی کا ملاح، یعنی ہمارا مصنف اسے ’سندھو‘ کے جزیرے پر چھوڑ آتا ہے کہ جی بھر کر سیر کرو!
زبان کی یہ کشتی قدیم ہی لگنی چاہیے؛ اور اتنی اجنبی بھی کہ ہم اپنی جانی پہچانی دنیا سے خود کو بہت دور محسوس کر سکیں۔ اس کے لیے جیم عباسی نے کرداروں اور جگہوں کے نام ایسے رکھے ہیں جو ہندی اور اردو، دونوں کے لیے اجنبی ہیں (ہو سکتا ہے سندھی کے لیے مانوس ہوں)۔ پھر گفتگو میں ان سے جو جملے ادا کرائے ہیں ان کی ترکیبِ نحوی یا ساخت موجودہ اردو ہندی کےجملوں کی ساخت سے الگ کر دی ہے۔ جملے کی ترتیب کا یہ قوی اسٹروک وہ چپّو ہے جو کشتی کو ایک خاص رفتار سے جزیرے کے قریب تر کرتا جاتا ہے۔ ان کا تیسرا آلہ قدیم قبائلی طرزِ زندگی اور طرزِ فکر کو ناول کی بُنت میں شامل کرنا ہے جو آج کے شہری تمدن میں پلے بڑھے قاری کو ترنت ہی ایک قدیم اور انوکھی دنیا میں پہنچا دیتا ہے۔
اور اس طرح مخصوص لفظیات اور نحوی ساخت سے قدامت کا چولا پہنا کر وضع کی گئی زبان میں، اور ایک قدیم طرز زندگی اور طرز فکر کے امتزاج سے، جیم عباسی نے ایک ایسا بیانیہ خلق کیا ہے جس کی عمارت بعض تاریخی حقائق اور شواہد کی بنیادوں پر استوار کی گئی ہے۔ ایسا دلکش اور سحرانگیز ناول مجھ جیسے اپنے قارئین کو تحفے میں دینے کے لیے ان کا بہت بہت شکریہ۔
(ارجمند آرا دہلی یونیورسٹی میں اردو زبان و ادب کی پروفیسر ہیں اور شوقیہ مترجم ہیں۔)