وادی کشمیر میں رہ رہی اپنی فیملی سے بات نہ ہونے پانے کی وجہ سے لوگ فکرمند ہیں۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ بدقسمتی سےحکومت نے ایسا فیصلہ کیا ہے جس سے امن قائم ہونے کی جگہ غصہ اور بھڑکےگا۔
نئی دہلی: دہلی میں رہ رہے کشمیری طلبا اور لوگوں نے آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کے مرکزی حکومت کے قدم کو تاناشاہی قرار دیتے ہوئے وادی میں رہ رہی اپنی فیملیوں کے تحفظ کو لےکر تشویش کا اظہار کیا ہے۔جواہرلال نہرو یونیورسٹی اسٹوڈنٹ یونین (جےاین یو ایس یو) کی سابق ممبر شہلا رشید نے کہا کہ وہ اس معاملے میں سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹائیںگی۔ رشید سابق آئی اے ایس افسر شاہ فیصل کی سیاسی پارٹی جموں و کشمیر پیپلس موومنٹ (جے کے پی ایم) کی بھی ممبر ہیں۔
انہوں نے ٹوئٹ کر کہا، ‘ ہم اس حکم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کریںگے۔ حکومت کی جگہ گورنر اور مجلس دستور ساز کی جگہ اسمبلی کرنا آئین کے ساتھ دھوکہ دھڑی ہے۔ ترقی پذیر طبقوں سے یکجہتی دکھانے کی اپیل کرتی ہوں۔ ‘
We will challenge the order passed today in the Supreme Court. The move to replace "Government" by "Governor" and Constituent Assembly by "Legislative Assembly" is a fraud upon the Constitution. Appeal to progressive forces for solidarity. Protests today in Delhi and Bangalore.
— Shehla Rashid شہلا رشید (@Shehla_Rashid) August 5, 2019
رشید نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ کشمیری لوگوں کے موبائل فون کی انٹرنیٹ اسپیڈ کو بھی دھیما کر دیا گیا ہے۔انہوں نے ٹوئٹ کر کہا، ‘ میں وائی فائی کی مدد سے صرف ٹوئٹر پر پوسٹ کر پائی۔ ریاست سے باہر چل رہے تمام کشمیری لوگوں کے موبائل انٹرنیٹ میں بھی رکاوٹ پیدا کی گئی ہے۔ ‘وہیں جے این یو ایس یو کے جنرل سکریٹری اعجاز احمد راٹھیر نے کہا، ‘پارلیامنٹ کے ایوان سے غیر آئینی اور تاناشاہی والے کام کئے جا رہے ہیں۔ ہمارے لئے کچھ بچا نہیں ہے۔ میں نے اپنی فیملی سے اتوار رات میں بات کی تھی اور انہوں نے مجھے ایک بار آکر ہمیں دیکھ لو کہا۔ کشمیر میں سب کچھ بند کے بعد ہم اپنی فیملیوں سے رابطہ کرنے میں کامیاب نہیں ہیں۔ ‘
وہیں کشمیر کے اننت ناگ کے رہنے والے جے این یو کے ایک سابق طالب علم مدثر نے کہا، ‘ ہم کشمکش میں جی رہے ہیں۔ ہم نہیں جانتے ہیں کہ رابطہ کے سارے ذرائع بند کرنے کے بعد وہ کیسے جی رہے ہیں۔ کچھ دن پہلے میں نے اپنی فیملی سے بات کی تھی اور وہ چاہتے تھے کہ میں ان سے آکر مل لوں۔ میں نے سوموار کے لئے اپنا ٹکٹ بھی بک کیا تھا لیکن اس صورت حال میں مجھے اپنا ٹکٹ کینسل کرنا پڑا۔ مجھے وہاں اپنے لوگوں کی فکر ہو رہی ہے۔ ‘
دہلی یونیورسٹی میں پڑھنے والے کشمیر کے ایک طالب علم انیس احمد نے بتایا، ‘ ہر مہینے کشمیر میں گھبراہٹ والی حالت رہتی ہے۔ میں اور میری فیملی دونوں ایک دوسرے کی حفاظت کے لئے فکرمند رہتے ہیں۔ میں اپنی فیملی سے سنیچر سے بات نہیں کر پایا ہوں۔ پتا نہیں کہ وہ لوگ کیسے ہیں سنیچر کو انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ کچھ وقت کے لئے گھر نہ آنا۔ ‘
نام ظاہر نہیں کرنے کی شرط پر جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ایک کشمیری طالب علم نے کہا کہ ان کی فیملی نے ان سے یونیورسٹی کیمپس سے باہر نہیں جانے اور اجنبیوں سے بات نہیں کرنے کے لئے کہا ہے۔وہیں اسی یونیورسٹی کے ایک طالب علم نے کہا، ‘ اگر یہ واقعہ ہمارے حق میں ہے، جیسا کہ حکومت دعویٰ کر رہی ہے تو اس طرح کی گھبراہٹ والی حالت کیوں تیار کی گئی؟ اگر ہم ساتھ آ رہے ہیں تو کیا یہ ایک اچھی چیز نہیں ہے؟ اس طریقے سے دہشت کا ماحول کیوں تیار کیا گیا؟ کیوں انٹرنیٹ سروس بند کی گئی؟ ‘مرکزی حکومت نے سوموار کو تمام ریاستوں کو ہدایت دی ہے کہ وہ جموں و کشمیر کی ریاست کے لوگوں کا خاص دھیان رکھیں تاکہ امن برقرار رہے۔
غور طلب ہے کہ گزشتہ4 اگست کو جموں و کشمیر طلبا اکائی نے وادی سے باہر رہ رہے کشمیری طالب علموں کے لئے مشورہ جاری کیا تھا کہ وہ سوشل میڈیا پر کسی بھی طرح کا متنازعہ تبصرہ کرنے سے بچیں اور افواہوں پر دھیان نہ دیں۔گزشتہ پانچ اگست کو مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے راجیہ سبھا میں ایک تجویز پیش کی جس میں جموں و کشمیر ریاست سے آئین کے آرٹیکل 370 (1) کے علاوہ سبھی سیکشن کو ہٹانے اور ریاست کی تقسیم جموں و کشمیر اور لداخ کے دویونین ٹریٹریز کے طور پر کرنے کی بات کہی گئی ہے۔
جموں و کشمیر یونین ٹریٹری کی اپنی قانون ساز مجلس ہوگی جبکہ لداخ بنا قانون سازمجلس والی یونین ٹریٹری ریاست ہوگی۔جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ دینے والے آرٹیکل 370 کو ہٹانے کا وعدہ بی جے پی نے اپنے انتخابی منشور میں بھی کیا تھا۔ اس فیصلے کا مقصد دہائیوں پرانی علیحدگی پسند تحریک کو ختم کرنا ہے۔
کشمیر کے لوگوں نے کہا، ہم نے اپنی شناخت کھوئی
آرٹیکل 370 کو ہٹائے جانے کے حکومت کے فیصلے کے مدنظر کشمیر کے لوگوں نے وادی میں تشدد کا نیا دور شروع ہونے کا خدشہ جتایا اور کہا کہ اس سے ریاست کی مسلم اکثریت والی شناخت میں تبدیلی ہو سکتی ہے۔جموں آئے سرینگر کے رہنے والے فاروق احمد شاہ (50) نے کہا، ‘ ہم فیصلے سے حیران ہیں اور اس نے ہمیں مایوس کر دیا ہے کیونکہ اس آرٹیکل کے ساتھ ہمارے جذبات جڑےتھے اس کو ختم کرنے کا مطلب ہے کہ ریاست اپنی مسلم اکثریت والی شناخت کھو دےگی۔ ‘
انہوں نے کہا کہ آرٹیکل کو ختم کئے جانے سے لوگوں کا غصہ بھڑک سکتا ہے۔جمو ں گھومنے آئے وادی کے رہنےوالے 20 سالہ ارشد وارثی نے کہا، ‘ وہ (حکومت) ہمیں کب تک نظربند رکھیںگے؟ ‘ انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم اپنے غصے کا اظہار نہیں کر سکتے۔اس سے متعلق ایک خاتون استاد نے موجودہ صورت حال کے لئے ریاست کی مین اسٹریم کی جماعتوں کو ذمہ دار ٹھہرایا۔
انہوں نے کہا، ‘ آج ہمیں لگتا ہے کہ ہم نے اپنی شناخت کھو دی ہے۔ یہ بدقسمتی ہے کہ حکومت نے ایسا فیصلہ کیا ہے جس سے امن قائم ہونے کی جگہ غصہ اور بھڑکےگا۔ ‘کاروباری جلیل احمد بہادر نے کہا کہ وادی میں کشمکش کی وجہ سے ان کا کاروبار غیرمعینہ مدت کے لئے بند رہےگا اور روزی-روٹی کے لالے پڑ جائیںگے۔ انہوں نے کہا، ‘ ہمیں نہیں پتا کہ کرفیو جیسی پابندی ہٹنے کے بعد کیا حالت ہوگی۔ ہمیں لگتا ہے کہ ہم سب سے خراب وقت کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ‘ بھٹ نے ریاست میں فون اور انٹرنیٹ خدمات بند کئے جانے پر مایوسی کا اظہار کیا اور کہا کہ وادی کے لوگ باہری دنیا سے پوری طرح کٹ گئے ہیں۔
انہوں نے کہا، ‘ میرے دو بچے ریاست سے باہر پڑھ رہے ہیں اور ان سے میرا کوئی رابطہ نہیں ہے۔ مجھے پتا ہے کہ وہ یہاں کی صورت حال کو لےکر فکرمند ہوںگے اور مجھے یہ بھی نہیں پتا کہ وہ کیسے ہوںگے۔ ‘فاطمہ بانو نام کی ایک خاتون نے کہا، ‘ کیا آرٹیکل 370 کو ختم کرنے سے کشمیر میں دہائیوں پرانی بدامنی ختم ہوگی؟ مجھے ایسا نہیں لگتا۔ ‘ انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 370 یا 35 اے کشمیری پنڈتوں کی واپسی میں کوئی رکاوٹ نہیں تھے۔
جموں میں رہ رہیں نصرت نے کہا، ‘ ہمیں نہیں پتا کہ کشمیر میں کیا ہو رہا ہے؟ میں نے وہاں اپنے رشتہ داروں سے بات کی جن سے پتا چلا کہ وہاں حفاظتی دستہ کی بھاری تعیناتی کی گئی ہے۔ ‘ اپنی بہن کی شادی کے لئے دہلی سے خریداری کر لوٹ رہے فیاض احمد ڈار نے کہا کہ وادی کے واقعات سے اس کا دل ٹوٹ گیا ہے۔
تمل ناڈو میں رہ رہے کشمیریوں نے آرٹیکل 370 ختم کرنے کو غیر متوقع قدم بتایا
مرکز کے ذریعے آرٹیکل 370 کے اہتماموں کو ختم کرنا دہائیوں سے تمل ناڈو میں رہ رہے جموں و کشمیر کے باشندوں کے لئے غیر متوقع قدم ہے اور کچھ لوگوں کو جہاں اس سے امید ہے وہیں کچھ مایوس بھی ہیں۔کچھ لوگوں نے کہا کہ اس کے دوررس نتائج کیا ہوںگے اس کا اندازہ نہیں ہے وہیں کچھ دیگر نے امید جتائی کہ اس قدم سے ریاست کے لوگوں کو مدد ملےگی۔
چنئی میں فیشن جیولری اسٹور کے ملازم اشرف نے کہا کہ آرٹیکل ختم کرنا غیر قانونی کام ہے جس کو کشمیری لوگوں کے مفاد کے بارے میں سوچے بغیر کیا گیا ہے۔انہوں نے تعجب کا اظہار کیا کہ حکومت ریاست کے لوگوں سے صلاح و مشورہ کئے بغیر اور ان کے خیالات جانے بغیر اس طرح کا مشتعل بدلاؤ کیسے کر سکتی ہے۔اس نے کہا، ‘ اس سے عام آدمی متاثر ہوگا۔ ‘
ایک دہائی پہلے چنئی آئے ان کے ساتھی سرینگر کے رہنے والے عمر نے اپنی فیملی کے ساتھ بات چیت نہیں ہو پانے پر تشویش کا اظہار کیا۔انہوں نے بھی جموں و کشمیر کو خصوصی ریاست کا درجہ دئے جانے والے اہتمام ختم کرنے پر اشرف سے اتفاق کیا۔ہینڈی کرافٹ اور ہینڈلوم اسٹور چلانے والے احمد رفیق نے کہا کہ مرکز کی پہل ایسے وقت میں آئی ہے جب لوگ دہائیوں سے وہاں چل رہی بدامنی سے پریشان ہیں۔
آرٹیکل 370 پر انہوں نے کہا کہ وہ 1990 کی دہائی کی شروعات میں ہی وادی چھوڑکر آ گئے تھے جب دہشت گردی انتہا پر تھی اور وہ نہیں کہہ سکتے کہ آرٹیکل کو ختم کرنا اچھا یا برا ہے اور آئندہ ہفتے یا مہینے میں چیزیں کیسے بدلتی ہیں۔جموں کے رہنے والے اور چنئی میں موٹر اسپیئر پارٹس کمپنی میں کام کرنے والے ہرمندر نے کہا کہ آرٹیکل 370 نافذ رہنے اور مرکزی حکومت سے دیگر تعاون ملنے کے باوجود جموں و کشمیر میں دہائیوں سے امن نہیں تھا اور ترقی نہیں ہو پا رہی تھی۔
انہوں نے کہا، ‘ اس حکومت نے کچھ نیا کیا ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ اس سے لوگوں کے لئے اچھا ہوگا، کاروبار کے نئے مواقع آئیںگے اور سیاح بڑھیںگے۔اس سے ہماری غلامی ختم ہوگی۔’
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)