جموں و کشمیر: بے بسی اور بے اختیاری کے چھ سال

04:53 PM Aug 07, 2025 | افتخار گیلانی

اگر ہندوستانی حکومت کے پچھلے چھ سالوں کے اقدامات کا جائزہ لیا جائے، تو ان کا ایک ہی مقصد معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح ریاست کی مسلم اکثریتی آبادی کو بے اختیار بناکر مجبور بنایا جائے۔

(علامتی تصویر، فوٹو: پی ٹی آئی)

اس سال پانچ اگست کو جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت، ریاستی درجہ اور خصوصی اختیارات کے چھیننے کے چھ سال مکمل ہو گئے ہیں۔ اسی دوران بتایا جاتا ہے کہ ہندوستان میں وزیر اعظم نریندر مودی حکومت ریاستی درجہ کی بحالی کے مضمرات کا جائزہ لے رہی ہے۔

وجہ یہ ہے کہ دسمبر 2023 کو جب سپریم کورٹ نے حکومت کے فیصلوں کو برقرار رکھا، تو اس وقت حکومت سے وعدہ لیا کہ وہ جلد ہی ریاستی درجہ بحال کرے گی اوراسمبلی کے انتخابات منعقد کروائے گی۔ حکومت نے پچھلے سال انتخابات تو منعقد کروائے، مگر ریاستی درجہ کو بحال کرنے میں لیت و لعل سے کام لے رہی ہے۔

 ہوسکتا ہے کہ اس معاملے میں سپریم کورٹ کے ممکنہ سخت رویہ کے باعث ہی اس پر غور و فکر  شروع ہو گئی ہے۔ مگر یہ تو طے ہے کہ حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کا  ایجنڈہ جس میں مقامی آبادی کو سیاسی طور پر بے اختیار بنا کر اپنی ہی زمین پر بیگانہ بناناشامل ہے، نئے سیٹ اپ میں بھی شامل ہوگا۔یہ 2019سے قبل کی صورتحال نہیں ہوگی۔

یہ بھی افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ انتخابی حلقوں کی جیری مینڈرنگ، و ان گنت اقدامات کے باوجود کشمیری عوام نے جس طرح خامو ش مزاحمت کا مظاہرہ کرکے پچھلے سال ہوئے اسمبلی انتخابات میں اس کو شکست دی، اس لیے اب نیا شوشہ یہ چھوڑا گیا ہے کہ خطے کو دوبارہ مسلم اکثریتی وادی کشمیر اور ہندو اکثریتی جموں میں تقسیم کرکے دو ریاستیں قائم کروائی جائیں۔

اس طرح جموں خطے میں کم سے کم بی جے پی کا وزیر اعلیٰ مسند اقتدار پر فائز ہو سکتا ہے۔ ویسے 2019میں ہی تین مرکزی زیر انتظام علاقے بنانے پر غور ہو رہا تھا،مگر بعد میں جب بل پارلیامنٹ کے سامنے پیش کیا گیا، تو اس میں صرف لداخ کو ہی الگ کیا گیا، بقیہ جموں و کشمیر کو یکجا ہی رکھا گیا۔

بتایا گیا کہ اگر یہ کیا گیا ہوتا، تو بانی پاکستان محمد علی جناح کے دو قومی نظریہ کی توثیق ہوجاتی۔

مجھے یا د ہے کہ 90کی دہائی میں دہلی میں آرایس ایس کے ایک سابق لیڈر آنجہانی بلراج مدھوک اسی طرح کا حل پیش کیا کرتے تھےکہ جموں و لداخ کو محفوظ کرکے اور وادی کشمیر کو الگ تھلگ کرکے صرف اسی خطے پر بات چیت ہو۔

خیر ریاست کے دولخت ہونے اور عوام کی بے اختیاری کی چھٹی سالگرہ کے موقع پر ہندوستان کی مقتدر شخصیات نے ایک رپورٹ جاری کی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ سیاسی بے اختیاری، ادارہ جاتی انحطاط، سکیورٹی  کے غیر ضروری استعمال، اور جمہوری جمودنے اس خطے کو ایک تاریک دور میں پہنچا دیا ہے۔

2025 JK Human Rights Report by The Wire on Scribd

یہ رپورٹ ‘فورم فار ہیومن رائٹس ان جموں اینڈ کشمیر’ کی جانب سے جاری کی گئی ہے۔یہ ایک ایسا پینل ہے جس میں ممتاز قانونی ماہرین، سابق بیوروکریٹس، فوجی افسران اور سول سوسائٹی کی نمایاں شخصیات شامل ہیں۔

فورم نے وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ کے ان بیانات کا حوالہ دیا جن میں انہوں نے بارہا ریاستی درجہ بحال کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن رپورٹ خبردار کرتی ہے کہ اب دہلی حکومت اس وعدے سے پیچھے ہٹ رہی ہے اور ‘مرحلہ وار’ اختیارات کی منتقلی کی بات کر رہی ہے۔

سپریم کورٹ نے اگرچہ 2019 کے فیصلے کو اصولی طور پر برقرار رکھا، مگر فوری طور پر ریاستی درجہ کی بحالی کی ہدایت بھی کی۔

جسٹس سنجیو کھنہ نے اپنے علیحدہ نوٹ میں واضح کیا تھا کہ کسی ریاست کو یونین ٹیریٹری میں تبدیل کرنا آئینی طور پر غلط ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حکومت ایک طرف آئین کی خلاف ورزی کر تی ہے اور دوسری طرف اس کی تلافی کو مؤخر کر رہی ہے، جو قابل قبول نہیں ہے۔ ریاستی درجہ کی بحالی سہولت نہیں، قانون کا تقاضہ ہے۔

اس فور م کی سربراہی ہندوستان کے سابق سکریٹری داخلہ گوپال پلئی اور سابق مذاکرات کار رادھا کمار کر رہی ہے۔ دیگر اراکین میں سپریم کورٹ کے سابق جج جیسے مدن لوکور، روما پال اور اے پی شاہ  کے علاوہ  فوجی افسران لیفٹنٹ جنرل ایچ ایس پناگ، ایر وائس مارشل کپل کاک، کرنل یوگندر گندھاری، میجر جنرل اشوک مہتہ،مشہور مؤرخ رام چندر گہا اور نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کے سابق سکریٹری جنرل پربیر سین شامل ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گوکہ پچھلے سال ایک منتخبہ حکومت کا قیام عمل میں آیا ہے، مگر یہ حکومت بے اختیار ہے۔ جس کے پاس طاقت ہے، اس کا احتساب نہیں ہے۔  فورم کے مطابق،

‘یہ جمہوریت محض ایک سراب ہے، جس میں حقیقی اقتدار ناپید ہے۔’

اگرچہ ستمبر-اکتوبر 2024 میں بالآخر اسمبلی انتخابات منعقد ہوئے، لیکن فورم کے مطابق، زیادہ تر انتظامی اور قانونی اختیارات تاحال لیفٹیننٹ گورنر اور مرکزی وزارت داخلہ کے ہاتھوں میں ہیں۔نیشنل کانفرنس، جس کی قیادت عمر عبداللہ کر رہے ہیں، نے فیصلہ کن اکثریت حاصل کی اور گزشتہ برس اکتوبر میں حکومت بنائی۔

حکمراں جماعت بی جے پی کو محض 25.64 فیصد ووٹ ملے، جس نے پانچ اگست 2019 کے اقدامات کے نام پر انتخابی مہم چلائی تھی۔ جبکہ نیشنل کانفرنس، پی ڈی پی، کانگریس اور پیپلز کانفرنس جیسی جماعتیں، جو اس کی مخالفت کرتی تھیں، کو مجموعی طور پر 74.36 فیصد ووٹ حاصل ہوئے۔یہ صرف ایک انتخابی نتیجہ نہیں تھا۔یہ ایک غیر رسمی ریفرنڈم تھا۔

تاہم، مرکزی وزارت داخلہ کی جانب سے 12 جولائی 2024 کو جاری کردہ نئے ‘ٹرانزیکشن آف بزنس رولز’ نے کابینہ کو پولیس، سول سروسز، استغاثہ اور مالیات جیسے اہم شعبوں سے متعلق اختیارات سے محروم کر دیا۔ یہاں تک کہ وزارتی قلمدانوں کی تقسیم بھی راج بھون کے بیوروکریٹک جائزے کی محتاج ہو گئی۔

وزیراعلیٰ کو اعلیٰ سطحی سکیورٹی بریفنگز میں شامل نہیں کیا جاتا، اور منتخب کابینہ کو افسران کے تقرر میں کوئی اختیار حاصل نہیں۔فورم کے مطابق، یہ ‘کٹھ پتلی نظام’ وفاقیت کی روح کی خلاف ورزی کرتا ہے اور جموں و کشمیر کے عوام کو حقیقی سیاسی اختیار سے محروم کرتا ہے۔

رپورٹ میں سب سے شدید تنقید 22 اپریل 2025 کے پہلگام دہشت گرد حملے پر کی گئی ہے، جس میں 25 ہندو سیاح اور ایک مقامی کشمیری گھوڑا بان پہلگام کے بائیساران کے میدان میں بیدردی سے قتل کیے گئے۔رپورٹ انکشاف کرتی ہے کہ اگرچہ حملے کے حوالے سے خفیہ اداروں کی جانب سے واضح وارننگ موجود تھی، مگر کوئی مناسب حفاظتی اقدام نہیں اٹھایا گیا۔

ایک سی آر پی ایف چوکی، جو پہلے اس علاقے کی نگرانی کرتی تھی، جنوری 2025 میں ہٹا دی گئی تھی اور دوبارہ نہیں لگائی گئی۔ حتیٰ کہ سیاحوں کو تنہا علاقوں سے اجتناب برتنے کی کوئی ہدایت تک جاری نہ کی گئی۔

میڈیا رپورٹس اور اندرونی سرکاری خط و کتابت کا حوالہ دیتے ہوئے فورم کے اراکین کا کہنا ہے کہ  انٹلی جنس بیورو اور وزارت داخلہ دونوں اس خطرے سے آگاہ تھے۔

خود وزیر داخلہ امت شاہ نے کئی سکیورٹی اجلاسوں کی صدارت کی تھی، اس کے باوجود  انتظامیہ نے کوئی قدام نہیں اٹھایا۔

پولیس نے ابتدائی طور پر حملے کا الزام دو مقامی کشمیریوں پر عائد کیا، مبہم خاکے جاری کیے، اور قریبی دیہات سے متعدد نوجوانوں کو گرفتار کیا۔ ایک ماہ بعدنیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی  یعنی  این آئی اے نے ان دعووں کو غلط قرار دیا۔

تاہم، اس دوران ناقابل تلافی نقصان ہو چکا تھا۔ سوشل میڈیا اور ٹیلی ویژن پر نفرت انگیز تقاریراور ہجومی حملوں میں کشمیریوں کو نشانہ بنایاگیا۔ 2800 سے زائد کشمیریوں کو حراست میں لیا گیا یا پوچھ گچھ کے لیے بلایا گیا۔ سو سے زائد افراد—جن میں بیشتر طلبہ، صحافی یا مزدور تھے—کو سخت قوانین جیسے پبلک سیفٹی ایکٹ اور یو اے پی اے کے تحت گرفتار کیا گیا۔

کم از کم چھ مکانات کو دھماکوں سے تباہ کیا گیا، جسے فورم نے ‘اجتماعی سزا’ قرار دیا ہے۔بتایا گیا کہ یہ مشتبہ افراد کے مکانات تھے۔ گو کہ فورم نے چھ مکانات کا ذکر کیا ہے، مگر مقامی میڈیا کے مطابق دس مکانات زمین بوس کر دیے گئے۔

فورم کا کہنا ہے کہ تنظیم نو کے چھ سال بعد بھی جموں و کشمیر میں کوئی انسانی حقوق کمیشن، خواتین کمیشن، احتساب کمیشن یا اطلاعاتی کمیشن فعال نہیں ہے۔ یہ تمام نگرانی کرنے والے آئینی ادارے 2019 میں ختم کر دیے گئے اور اب تک بحال نہیں ہوئے۔

اگرچہ نو منتخب حکومت نے ان کی بحالی کا مطالبہ کیا ہے، لیکن اس کے اختیارات اس حد تک محدود ہیں کہ وہ عملی اقدام نہیں اٹھا سکتی۔اس خلا کو جزوی طور پر پُر کرنے کے لیے نیشنل کانفرنس نے ایک داخلی انسانی حقوق کمیٹی تشکیل دی ہے، جس کی سربراہی ریٹائرڈ جسٹس حسنین مسعودی کر رہے ہیں، مگر رپورٹ تسلیم کرتی ہے کہ ایک سیاسی جماعت کی کمیٹی آئینی اداروں کا متبادل نہیں ہو سکتی۔رپورٹ کہتی ہے؛

عوام کے پاس داد رسی کا کوئی ذریعہ نہیں۔ ان کے منتخب نمائندے پولیس زیادتیوں پر بھی کارروائی نہیں کر سکتے۔ عدالتیں سست ہیں۔ سول سوسائٹی پر کڑی نگرانی ہے۔

رپورٹ کے مطابق، وادی کے نسبتاً پُرامن سمجھے جانے والے چناب اور پیر پنجال کے علاقوں میں عسکری سرگرمیوں میں دوبارہ اضافہ ہوا ہے۔وہ علاقے جو 2000 کی دہائی میں عسکریت پسندی سے پاک قرار دیے جا چکے تھے۔

اگست 2024 سے جولائی 2025 کے درمیان ڈوڈہ، کشتواڑ، ادھم پور اور کٹھوعہ میں ایک درجن سے زائد حملے درج کیے گئے، جن میں فوجی قافلوں، مہاجر مزدوروں اور گاؤں کی دفاعی کمیٹیوں کو نشانہ بنایا گیا۔

لیفٹیننٹ جنرل ایچ ایس پناگ، جو فورم کے رکن ہیں کا کہنا ہے کہ یہ صرف کشمیر کا مسئلہ نہیں رہا، بلکہ  ہندوستان کی جمہوری روح کا سوال ہے۔وہ مزید کہتے ہیں کہ حکومت نے چھ سال سے ایک پوری قوم کے حقوق سلب کیے ہوئے ہیں۔ اسے معمول کہنا فریب ہے، یہ سراسر آمریت ہے۔

فورم کی شریک چیئر پرسن رادھا کمار بتاتی ہے کہ کشمیری عوام بارہا ووٹ ڈالنے نکلے ہیں۔ ”اب نئی دہلی کی باری ہے کہ وہ سزا کے بجائے امن، جبر کے بجائے مفاہمت کا راستہ چنے۔“ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ عزتِ نفس کی بحالی ہی استحکام کی ضمانت ہے۔ اور عزت کا آغاز ریاستی درجے سے ہوتا ہے۔

اگر ہندوستانی حکومت کے پچھلے چھ سالوں کے اقدامات کا جائزہ لیا جائے، تو ان کا ایک ہی مقصد معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح ریاست کی مسلم اکثریتی آبادی کو بے اختیار بناکر مجبور بنایا جائے۔ سیاسی طور پر، جموں و کشمیر میں جانبدارانہ حد بندی اور انتخابی فہرستوں کی از سر نو ترتیب عمل میں لائی گئی، جن کی بنیاد پر 2024 کے پارلیامانی اور اسمبلی انتخابات ہوئے۔

مزید توہین آمیز اقدام یہ تھا کہ ریاست کی جمہوری جدوجہد کی علامت یوم شہداء 13جولائی کو نہ صرف تعطیلات کی فہرست سے ختم کر دیا گیا، بلکہ حال ہی میں اس دن منتخب وزیر اعلیٰ کو بھی مزار شہدا میں فاتحہ خوانی کے لیے نہیں جانے دیا گیا۔

اگلے روز صبح سویرے دنیا نے دیکھا کہ کس طرح ایک وزیر اعلیٰ کوپولیس کو چکمہ دیکر دیوار پھاند کر مزار شہدا میں داخل ہونا پڑا۔ اسی طرح نیشنل کانفرنس کے بانی  شیخ محمد عبداللہ کی سالگرہ کو بھی تعطیلات کی فہرست سے نکال دیا گیا۔ حکمران پارٹی ہوتے ہوئے بھی وہ اس کو دوبارہ اس لسٹ میں شامل نہیں کروا پار رہی ہے۔

اگر جموں و کشمیر کے انتظامی ڈھانچے پر نظر ڈالی جائے، تو فی الحال جموں و کشمیر کا انتظام انڈین ایڈمنسٹریٹو سروس (آئی اے ایس) کے 93 افسران چلا رہے ہیں،یہ ہندوستان کی اعلیٰ ترین سول سروس سمجھی جاتی ہے۔ان میں سے صرف 20 افسر مسلمان ہیں، محض 21.5 فیصد، جبکہ ریاست کی آبادی میں مسلمانوں کا تناسب 68.31 فیصد ہے۔ریاست کے 20 اضلاع میں سے صرف 6 اضلاع میں مسلم ڈسٹرکٹ مجسٹریٹس تعینات ہیں۔ یعنی صرف 30 فیصد۔

سول سکریٹریٹ میں 36 سیکریٹریوں میں صرف چھ مسلمان ہیں، یعنی 16.6 فیصد۔مقامی جموں و کشمیر ایڈمنسٹریٹو سروس کے 761 افسران میں سے 298 مسلمان ہیں، یعنی 39.2 فیصد۔پولیس کے ڈھانچے میں، ڈی جی پی سے ایس پی رینک تک کل 111 افسران میں صرف 23 مسلمان ہیں، یعنی محض 20.7 فیصد۔ان میں بھی اعلیٰ ترین 30 رینکنگ افسران میں صرف 3 مسلمان شامل ہیں، یعنی صرف 10 فیصد۔

 پچھے سال کی اکنامک سروے 2023–2024 کے مطابق، 2015 سے 2019 کے دوران جموں و کشمیر کی خالص ریاستی گھریلو پیداوار (این ایس ڈی پی) کی شرح نمو 13.28 فیصد تھی۔2019 کے بعد یہ شرح گر کر 8.73 فیصد رہ گئی۔جموں و کشمیر ہندوستان کے دو سرفہرست منشیات زدہ علاقوں میں شامل گیا ہے۔

اندازہ ہے کہ 9 لاکھ افراد باقاعدگی سے منشیات استعمال کرتے ہیں —یعنی ہر 130 افراد میں سے ایک۔ایک خاموش لیکن سنگین ذہنی صحت کا بحران جنم لے چکا ہے۔55.72 فیصد آبادی کسی نہ کسی درجے کے ڈپریشن کا شکار ہے۔دیہی علاقوں کی 15 تا 35 سالہ خواتین میں ڈپریشن کی شرح حیران کن طور پر 93.1 فیصد ہے۔

ایسے میں فطری طور پر سوال کیا جاتا ہے کہ پھر ریاست کی تنظیم نو  اور  خصوصی حیثیت کی منسوخی نے کیا دیا؟ جواب ہے کہ ادارہ جاتی زوال، نمائندگی کا بحران؛معیشت میں جمود؛اور ایک ایسی نسل، جو بے روزگاری، منشیات اور ذہنی اذیت میں پھنسی ہوئی ہے۔

جموں و کشمیر کے عوام اگرچہ اپنے آئینی ڈھال سے محروم کر دیے گئے ہیں، لیکن ان کی آواز آج بھی خاموش نہیں ہوئی۔ انہوں نے پچھلے سال کے انتخابی نتائج کو بھی ایک طرح سے اپنی آواز کو دنیا کو سنانے کے لیے استعمال کیا۔ اب یہ ان منتخب نمائندوں پر منحصر ہے کہ وہ کس طرح اس منڈیٹ کا مان رکھیں گے۔