فورم فار ہیومن رائٹس ان جموں وکشمیر سے وابستہ اس غیر رسمی گروپ نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں کہا ہے کہ حکومتی دعووں کے برعکس کشمیر کے زمینی حقائق کچھ اور ہی کہانی بیان کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر حکومت کا امن و امان و سلامتی کا دعویٰ صحیح ہے، تو یہ خطہ پچھلے پانچ سالوں سے منتخب اسمبلی کے بغیر کیوں ہے؟
ہندوستانی آئین میں درج جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو ختم کرنے کے خلاف دائر عرضیوں پر سپریم کورٹ نے چار سال بعد سماعت شروع کر دی ہے۔ حکومت کے طرف سے دائر حلف نامہ میں بتایا گیا اس خصوصی حیثیت کے خاتمہ، ریاست کو تحلیل کرکے مرکز کے دو زیر انتظام علاقوں میں تبدیل کرنے سے خطے میں بے مثال تعمیر و ترقی کے کام ہوئے ہیں اور سلامتی اور استحکام کا احساس پیدا ہوا ہے۔ مگر فکر مند شہریوں کے ایک غیر رسمی گروپ نے اپنی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں کہا ہے کہ زمینی حقائق، حکومتی دعووں سے میل نہیں کھاتے ہیں۔
فورم فار ہیومن رائٹس ان جموں وکشمیر سے وابستہ اس غیر رسمی گروپ کے 19اراکین میں پانچ ریٹائرڈ سینئر جج، جن میں دو ہائی کورٹ کے چیف جسٹس، ایک سپریم کورٹ جج، چار سابق سینئر بیوروکریٹ، جن میں ایک سکریٹری داخلہ، ایک سکریٹری خارجہ اور ایک جموں و کشمیر کے سابق چیف سکریٹری کے علاوہ فوج کے سابق اعلیٰ افسران، جن میں فضائیہ کے سابق نائب سربراہ اور فوج کی شمالی کمان کے سربراہ کے علاوہ تاریخ دان رام چندر گہا شامل ہیں ۔ سابق سکریٹری داخلہ گوپال کرشن پلئے اور حکومت کی سابق مصالحت کار رادھا کمار اس گروپ کی کوآرڈینیٹر ہیں۔
اپنی تازہ ترین رپورٹ میں اس گروپ کا کہنا ہے کہ حکومتی دعووں کے برعکس کشمیر کے زمینی حقائق کچھ اور ہی کہانی بیان کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر حکومت کا امن و امان و سلامتی کا دعویٰ صحیح ہے، تو یہ خطہ پچھلے پانچ سالوں سے منتخب اسمبلی کے بغیر کیوں ہے؟ آخر حکومت پھر اس خطے میں انتخابات منعقد کیوں نہیں کرا پا رہی ہے؟
فورم کا کہنا ہے کہ اگست 2019 سے جولائی 2022 کے درمیان تین درجن سے زیادہ معاشی، سیاسی اور سماجی حقوق کی گارنٹی دینے والے قوانین کو منسوخ کر دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ محتاط تخمینہ کے مطابق 500 بلین روپے کا نقصان اس خطے کو برداشت کرنا پڑا ہے۔
اس کے علاہ زمین اور ڈومیسائل کے حقوق کی پامالی، قابل اعتراض گرفتاریاں، مواصلاتی پابندیاں، میڈیا کو ڈرانا اور دھمکانا، اور آزادی اظہار اور نقل و حرکت پر پابندیوں میں شاید ہی کوئی کمی آئی ہو۔ ان کا کہنا ہے کہ آئے دن کے حکومتی اقدامات بداعتمادی اور خوف کو ہوا دے رہے ہیں۔
گروپ کے مطابق حیرت انگیز طور پر جموں اور کشمیر میں 2023 میں سب سے زیادہ اسلحہ کے لائسنس جاری کیے گئے ہیں۔ دسمبر 2016 میں خطے میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 369191 اسلحہ لائسنس ہولڈر تھے۔ بعد میں حکومت نے اسلحہ کے لائسنس کے اجراء پر پابندی لگا دی تھی۔ اس سال جنوری میں جب پابندی ہٹائی گئی، تو پہلے چھ ماہ میں ہی 130914 نئے لائسنس جاری کیے گئے۔
جموں و کشمیر جیسے چھوٹے خطے میں اتنی بڑی تعداد میں اسلحہ کا لائسنس جاری کرنا اور ہتھیاروں کے پھیلاو کی پشت پناہی کرنا حیران کن امر ہے۔یہ کن افراد کو جاری کیے جا رہے ہیں اور وہ اس کو کس طرح استعمال کر رہے ہیں سوالوں کے گھیرے میں ہے؟
گرچہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ 2019 سے سیکورٹی کی صورتحال میں بہتری آئی ہے، لیکن اس گروپ کا کہنا ہے کہ یہ 2019 سے پہلے کی نسبت کافی خراب ہے۔ اعداد و شمار کے حوالے سے فورم کا کہنا ہے کہ 2012 سے 2015 کے درمیانی سالوں میں سیکورٹی حالات خاصے بہتر ہو گئے تھے۔ علاوہ ازیں جموں ڈویژن کے دوردراز پہاڑی پیر پنچال علاقے میں ولیج ڈیفنس کمیٹیوں کا احیاء، جن کو اب ڈیفنس گارڈز کا نام دیا گیا، تشویش کا موجب ہے۔
لال کرشن اڈوانی جو1998 سے 2004 کے درمیان ہندوستان کے وزیر داخلہ تھے، تو انہوں نے ان کمیٹیوں کی داغ بیل ڈالی تھی۔ اس کا مقصد تھا چونکہ پولیس اور سیکورٹی دستے ان دوردراز علاقوں میں فوراً نہیں پہنچ پاتے تھے، اس لیے دیہاتیوں میں اسلحہ تقسیم کیا گیا تھا اور ان کو فوجی تربیت دی گئی تھی، تاکہ وہ اپنا دفاع خود کرسکیں۔ کم سے کم سیکورٹی دستوں کے آنے تک عسکریت پسندوں سے مقابلہ کرسکیں۔
مگر چونکہ صرف ہندو دیہاتیوں کو ہی ولیج ڈیفنس کمیٹیوں میں بھرتی کیا گیا تھا، انہوں نے جلد ی اپنے مسلمان پڑوسیوں سے پرانے بدلے چکانے شروع کر دئے۔ کئی علاقوں میں وصولی کا دھندا شروع ہوگیا۔ لاتعداد شکایتوں کے بعد ان کو تحلیل کر دیا گیا اور ان سے اسلحہ بھی واپس لے لیا گیا۔
یہ بھی رپورٹیں ملی تھیں کہ ان میں تقسم کیا گیا ایمینیشن عسکریت پسندوں کے پاس پہنچ گیا ہے۔ گروپ نے یاد دلایا کہ یہ طریقہ کار ماضی میں ناکام ہوا ہے۔ بغیر کسی جوابدہی کے ان مسلح افراد نے مقامی یہاتیوں کو ہی نشانہ بنانا شروع کر دیا تھا۔ یہ خدشہ اب دوبارہ سر اٹھا رہا ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اگست 2019 کے بعد سیاسی رہنماؤں، صحافیوں اور سول سوسائٹی کے کارکنوں سمیت 5000 افراد کو گرفتار کیا گیا تھا، جن میں 144 نابالغ بھی شامل تھے۔ ان گرفتاریوں کے علاوہ، 2019 اور 2023 کے درمیان مزید 1071 گرفتاریاں کی گئیں۔ غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے قانون (یو اے پی اے) اور احتیاطی حراست والا بد نام زمانہ قانون پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) جیسے سخت قوانین کے استعمال کو محدود کرنے کی ہدایات کے باوجود،ان کا بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے اور اس کی زد میں کئی میڈیا کے افراد بھی آگئے ہیں۔
دسمبر 2022 میں، وزیر مملکت برائے داخلہ نتیانند رائے نے پارلیامنٹ کو اطلاع دی تھی کہ 2021 کے آخر تک یو اے پی اے کی گرفتاریوں سے متعلق 830 زیر التواء تحقیقات ہیں۔ جموں و کشمیر میں گرفتار کیے گئے 668 افراد میں سے 651 پر فرد جرم عائد کی گئی، کسی کو سزا نہیں ہوئی، اور 26 کو بری کر دیا گیا۔مارچ 2023 کو، صحافی عرفان میراج کو قومی تفتیشی ایجنسی یعنی این آئی اے نےیو اے پی اے کے تحت کشمیری غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز)، فاؤنڈیشنز کے سلسلے میں ہورہی تفتیش کے لیے گرفتار کیا۔ ان پر الزام لگایا گیا کہ وہ انسانی حقوق کے ممتاز کارکن خرم پرویز کے قریبی ساتھی ہیں ور ان کی تنظیم جموں اور کشمیر کولیشن آف سول سوسائٹیز (جے کے سی سی ایس) کے لیے کام کرتے ہیں۔ میراج نے مارچ 2022 میں جے کے سی سی ایس کو چھوڑ دیاتھا۔ پرویز نومبر 2021 سے دہشت گردی کی مبینہ مالی اعانت اور سازش کے الزام میں سلاخوں کے پیچھے ہے۔
فورم نے جموں و کشمیر کی جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدیوں کی طرف بھی توجہ مبذول کروائی ہے۔ اس خطے میں 14 جیل کمپلیکس ہیں جن میں دو سینٹرل جیل، 10 ڈسٹرکٹ جیل، ایک خصوصی جیل اور ایک سب جیل شامل ہیں۔ ان کمپلیکس میں مجموعی طور پر 3,629 قیدیوں کی گنجائش ہے، لیکن جون 2023 تک، ان میں 5300 قیدی تھے۔دسمبر 2022 تک، کوٹ بلوال سینٹرل جیل میں 1,016 قیدی تھے، حالانکہ اس کی منظور شدہ گنجائش 902 تھی۔ سری نگر سنٹرل جیل میں 722 قیدی تھے، حالانکہ اس کی گنجائش 509 تھی۔ جموں ڈسٹرکٹ جیل میں 688 قیدی تھے، حالانکہ اس کی گنجائش 426 تھی۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جموں و کشمیر میں پانچ سال سے منتخب حکومت نہیں ہے۔ اگرچہ حکومت خود یہ دعویٰ کرتی ہے کہ خطے میں امن لوٹ آیا ہے اور وہ بین الاقوامی تقریبات کا بھی اہتمام کرتی ہے، لیکن اسمبلی انتخابات کے انعقاد کے معاملے پر اس کی ہچکچاہٹ واضح نظر آتی ہے۔مقامی سیاست دانوں کا دعویٰ ہے کہ حکمران ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو جب تک یقین نہیں آئےگا کہ وہ مسلم اکثریتی علاقے میں من مانی حلقہ بندی اور دیگر ذرائع سے حکومت پر قابض نہیں ہوتی ہے، وہ تب تک انتخابات کے انعقاد سے گریز کریں گے۔
شہریوں کے اس گروپ نے حد بندی کمیشن، جس نے مئی 2022 میں اپنی حتمی رپورٹ پیش کی تھی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہاہے کہ اس نے اکثریتی مسلم کمیونٹی کو بے اختیار کرنے کے خدشات کو جنم دیا ہے۔ اسمبلی کی نشستوں کی تعداد 107 سے بڑھا کر 114 کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔
سات نئی نشستوں میں سے چھ ہندو اکثریتی جموں کو اور صرف ایک مسلم اکثریتی وادی کشمیر کو دی گئی۔ وادی کشمیر میں ریاست کی کل آبادی کا 56.15فیصد حصہ رہتا ہے۔ مگر اس کے لیے اسمبلی میں محض 47 نشستیں مختص کی گئیں، جب کہ ہندو اکثریتی جموں ڈویژن جہاں ریاست کی 43.85فیصد آبادی رہتی ہے، کو 43 نشستیں دی گئی ہیں۔اس حساب سے کشمیر کی سیٹیں 57ہونی چاہیے تھیں۔
ریاست کے سابق وزیر خزانہ حسیب درابو نے اس گروپ کو بتایا وادی کشمیر کا ایک ووٹر جموں خطے کے 0.8 ووٹروں کے برابر کر دیا گیا ہے۔ یہ نئی طرز جمہوریت ہے، جس میں بندو ں کو گنا نہیں بلکہ ان کے مذہب اور نسل کی بنا پر تولا گیا ہے۔اس کو انتخابی عصبیت سے تشبہہ دی جاسکتی ہے۔کیونکہ حلقہ بندیوں کی از سر نو ترتیب اس طرح کی گئی کہ ہندو اقلیت آئندہ اسمبلی میں سیاسی غلبہ حاصل کرسکے۔
جموں میں، نئے ہندو اکثریتی حلقے بنائے گئے، جیسے کہ پاڈر جس کی آبادی صرف پچاس ہزار ہے، اسمبلی حلقہ ہے۔ جبکہ اس سے تین گنا زیادہ مسلم علاقوں، جیسے پونچھ ضلع میں سورنکوٹ، کو اسمبلی میں جگہ نہیں دی گئی ہے۔ جموں کے پونچھ اور راجوری کے مسلم اکثریتی اضلاع کو کشمیر کے اننت ناگ کے لوک سبھا حلقہ میں شامل کیا گیا ہے۔ سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے اس ٹیم کو بتایا کہ ووٹ ڈالنے سے قبل ہی انتخابی دھاندلی کی گئی ہے۔
اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ 2019 سے پہلے آئین ہند کے آرٹیکل 35-اے اور جموں و کشمیر کے آئین کے آرٹیکل 140 کے تحت جموں و کشمیر کے مستقل باشندوں کو ووٹ دینے اور جائیداد رکھنے کا حق تھا۔ جو لوگ جو جموں و کشمیر میں مقیم تھے لیکن مستقل رہائشی نہیں تھے وہ صرف پارلیامانی انتخابات میں ووٹ دینے کے اہل تھے اور ان کی غیر مستقل ووٹر کے طور پر درجہ بندی کی گئی تھی۔اب نئے قوانین کی رو سے کوئی بھی شخص جو جموں و کشمیر میں کچھ عرصے سے رہا ہو وہ ووٹر کے طور پر اہل ہو گیا ہے۔
مارچ 2020 میں جموں و کشمیر کے رہائشی کی ایک نئی تعریف متعارف کرائی گئی۔ جس کے تحت کوئی بھی شخص جو جموں و کشمیر میں 15 سال سے زیادہ عرصے سے مقیم ہے، کوئی بھی شخص جس نے جموں و کشمیر میں سات سال تک تعلیم حاصل کی ہے، یا بطور مہاجر ریلیف اینڈ ری ہیبلیٹیشن کمشنرکے پاس رجسٹرڈ ہے، ووٹ ڈالنے یا غیر منقولہ جائیداد خریدنے کا حقدار ہوگا۔ اطلاعات کے مطابق ووٹر لسٹوں میں سات لاکھ ستر ہزار نئے ووٹر وں کا اندراج کیا گیا ہے۔ یہ تعداد اور بھی زیادہ ہوتی اگر جموں کے ڈپٹی کمشنر اور چیف الیکٹورل آفیسر کے 2022 کے حکم کو پوری سابق ریاست میں لاگو کیا جاتا، جس میں تحصیلداروں (ریونیو اہلکاروں) کو کسی بھی ایسے شخص کو ووٹر کے طور پر رجسٹر کرنے کا اختیار دیا گیا تھا، جو جموں ضلع میں ایک سال سے زیادہ عرصے سے مقیم ہے۔ جموں میں اس پر عوامی غم وغصہ کے بعد یہ حکم فی الحال واپس لے لیا گیا۔
نئی اسمبلی میں جموں کے علاقے کی طرف ہجرت کرنے والے کشمیری پنڈتوں کے لیے دو نشستیں، جن میں ایک خاتون بھی شامل ہوگی، اور ایک نشست ان مہاجرین کے لیے جو 1947 اور 1965 کی جنگ میں پاکستانی علاقوں سے آئے تھے، کے لیے بھی اسمبلی میں مخصوص رکھی گئی ہے۔ مگر نئی منتخب حکومت کی طرف سے نامزد کرنے کے بجائے ان کو لیفٹیننٹ گورنر نامزد کریگا۔ یعنی یہ طے ہے کہ اگر نئی اسمبلی میں کسی بھی طرح سے بی جے پی یا اس کی حمایت یافتہ گروپ ووٹوں کے ذریعے مطلوبہ تعداد حاصل نہیں کرتا ہے، تو نامزد امیدوارں کے ذریعے اسکو اقتدار میں آ نے دینا ہے۔
اسی طرح پہاڑی برادری کے علاوہ چند اور برادریوں کو شیڈیولڈ ٹرائب یعنی درج فہرست قبائلی تسلیم کیا گیا ہے۔ ابھی تک صرف گجر برادری ہی اس کی حقدار تھی۔اس کی رو سے ان برادریوں کے لیے نوکریوں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں نشستیں مخصوص ہوں گی۔ اب ظاہر سی بات ہے کہ تحفظات کی جو شرح گجر برادری کے لیے مخصوص تھی، اس پر اب پہاڑی براردی بھی حقدار ہوگئی، جس سے ان کا کوٹا کم ہو جائےگا۔ اس سے گجر اور پہاڑی برادریاں، جو دونوں مسلمان ہیں، ایک دوسرے سے برسرپیکار ہوجائیں گی۔ کشمیر ی برادری کے لیے مواقع مزید سکڑ جائیں گے۔
ایک اور قانون میں ہندو دلت والمیکی برادری کو جموں و کشمیر میں درج فہرست ذاتوں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ 15 مزید کمیونٹیز کو او بی سی یعنی دیگر پسماندہ طبقات کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ ان میں مغربی پاکستانی مہاجرین اور گورکھا برادری شامل ہے۔ ان قوانین کا اثر سب سے زیادہ جموں میں نظر آئے گا، جہاں درج فہرست ذاتوں او بی سی برادریوں کی بڑی تعداد آباد ہے۔رپورٹ کے مطابق انتخابات میں اب ذات پات کا عنصر کلیدی اہمیت اختیار کر جائےگا۔
سینٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکانومی (سی ایم آئی ای) کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے، رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جموں و کشمیر میں بے روزگاری کی شرح یعنی 23.1 فیصدہندوستان میں سب سے زیادہ ہے۔ ہندوستان میں اس کا اوسط 7.8 فیصد ہے۔ ‘وزارت داخلہ کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ پچھلے چار سالوں میں خطے میں سرمایہ کاری میں 50 فیصد سے زیادہ کی کمی آئی ہے۔جہاں 2017-18 میں یہ سرمایہ کاری 840.55کروڑ روپے تھی، 2022-23میں سکڑ کر 377.76کروڑ روپے رہ گئی ہے۔
جموں و کشمیر انتظامیہ کو صنعتی ترقی کے لیے زمین مختص کرنے کی کل 2500 درخواستوں میں سے صرف 5-6 درخواستیں باہر سے موصول ہوئی ہیں۔ یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ انتظامیہ کی جانب سے مبینہ طور پر پیش کی جانے والی مراعات کے باوجود باہر کے لوگ خطے میں سرمایہ کاری کرنے سے کنارہ کشی اختیار کر رہے ہیں۔رپورٹ میں یہ بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ 31 مئی 2023 تک اس خطے میں 199,872 کالج گریجویٹ بے روزگار ہو گئے ہیں۔ بے روزگار نوجوانوں کی کل تعداد 563984 ہے۔
فکر مند شہریوں کے نام سے اس گروپ کا کہنا ہے کہ بے زمین غریبوں کے لیے 5 مرلہ اراضی (0.031 ایکڑ) فراہم کرنے اور 199550 مکانات کی تعمیر کا پروگرام شکوک و شبہات کے دائرے میں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پروگرام واقعی قابل تعریف ہے، مگر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، 2021 میں خطے میں بے زمین افراد کی تعداد بس 19047 ہی تھی۔ پھر یہ لاکھوں مکانات اور زمینیں کس کو بانٹی جا رہی ہیں؟
اگر ایک گھر میں پانچ افراد رہتے ہیں، تو اس کا مطب ہے کہ 997750 افراد میں زمینیں اور مکانات بانٹے جا رہے ہیں، جبکہ حکومت کے اپنے اعداد و شمار بتا رہے ہیں کہ خطے میں صرف 19ہزار افراد ہی بے گھر اور بے زمین ہیں۔ خدشہ ہے کہ غیر رہائشیوں کی ایک بڑی تعداد کے لیے ڈومیسائل کا حق حاصل کرنے کے لیے یہ طریقہ اپنایا گیا ہے۔
ایک اور نئے قانون یعنی لینڈ گرانٹ قانون نے 1960 کے زمینی گرانٹ قانون کی جگہ لے لی، جس کے تحت زمین 99 سال کی لیز پر لی جاسکتی تھی اور اس کو مزید بڑھایا جاسکتا تھا۔ نئے قانون کے تحت سبھی پرانی لیزز کو ختم کر دیا گیا ہے۔ کشمیر ٹریڈرز اینڈ مینوفیکچررز فیڈریشن نے ٹیم کو بتایا کہ سری نگر میں تقریباً نصف کاروبار، بشمول 2000 چھوٹے کاروبار، ان لیز کی شرائط کے تحت کام کر رہے تھے۔ سیاحتی مرکز گلمرگ میں ایک کو چھوڑ کر بقیہ سبھی ہوٹل لیز کی زمین پر قائم ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ لیز کی تجدید نہیں کی جائے گی اور ان کے مالکان کو ان کو خالی کرنا پڑے گا۔
انتظامیہ اب ان جائیدادوں کو لیز پر دینے کے لیے ایک نئی آن لائن نیلامی کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ مقامی تاجروں کو اب اس کے لیے باہر کے صنعت کاروں کے ساتھ مسابقت کرنی پڑے گی، جو نا ممکن ہے۔
رپورٹ کے مطابق مقامی تاجروں کو خدشہ ہے کہ اس پالیسی سے ان کو نان شبینہ کا محتاج کرایا جائےگا۔ اہم مقتدر شخصیتوں کے علاوہ جن افراد نےکشمیر کا دورہ کرکے اور مختلف افراد سے ملاقاتیں کرکے اس تحقیقی رپورٹ کو ترتیب دیا ہے، ان میں ابھیشیک ببر، وے بھاو لڈا اور شگن بھارگوا شامل ہیں۔