جموں و کشمیر پولیس کے ذریعے انجانے میں صحافیوں کو بھیجے گئے ای میل میں ’ ڈی این اے فائل ‘نام سے ایک فائل تھی، جس میں ایسے سوشل میڈیا پوسٹس کے اسکرین شاٹ تھے، جو کہ کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرنے کے بارے میں لکھے گئے تھے۔
سرینگر: کیا جموں و کشمیر پولیس ایسے سوشل میڈیا پوسٹ کی نگرانی کر رہی ہے جو کہ ریاست کا خصوصی درجہ ختم کر اس کو دو حصوں میں بانٹنے کے بارے میں لکھے جا رہے ہیں؟ پولیس کے ذریعے وادی کے صحافیوں اور میڈیا اداروں کو انجانے میں بھیجے گئے ایک ای-میل سے اس کا پتہ چلتا ہے۔
گزشتہ 22 نومبر یعنی کے جمعہ کو شام چھ بجکر 29 منٹ پر پولیس نے صحافیوں کو ای میل کے ذریعے اس دن کا اپ ڈیٹ بھیجا۔ اس ای میل میں وسط کشمیر کے بڈگام ضلع کے دو الگ الگ علاقوں سے تین ڈرگ بیچنے والوں کی گرفتاری اور ان سے غیر قانونی مادوں کو ضبط کرنے کے بارے میں ایک پریس ریلیز تھی۔
اس میں دو نجی گاڑیوں کی دو الگ الگ تصویریں بھی تھیں، جو پولیس کے مطابق، ضلع کے بونپورا اور کل کاڈل گاؤں میں چرس اور فوکی لے جاتے ہوئے پکڑے گئے تھے۔ لیکن اس ای میل میں ‘ ڈی این اے فائل ‘ نام سے بھی ایک فائل تھی جس نے سبھی کا دھیان اپنی طرف کھینچا۔ اس فائل میں رہنماؤں، صحافیوں اور دیگر لوگوں کے ٹوئٹر اکاؤنٹ کے اسکرین شاٹس تھے۔ اس کے علاوہ اس میں دنیا کے مختلف حصوں سے جاری ہو رہے مختلف ٹی وی چینلوں کے سرکاری ٹوئٹر اکاؤنٹس کے بھی اسکرین شاٹ تھے۔
اس فہرست میں پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کا بھی ایک اسکرین شاٹ تھا، جس میں انہوں نے وادی کے حالات کے بارے میں بات کی تھی۔ اس پر 19 ستمبر کی تاریخ تھی۔ ایک دیگر اسکرین شاٹ کشمیری طالبہ اور کارکن شہلا رشید کا تھا، جس میں وہ 5 اگست کے بعد کشمیر میں مبینہ ہیومن رائٹس کی خلاف ورزی کے واقعہ کے بارے میں بتاتی ہیں۔ مرکز نے گزشتہ پانچ اگست کو آرٹیکل 370 کے زیادہ تر اہتماموں کو ختم کر ریاست کو دو یونین ٹریٹری میں بانٹ دیا تھا۔
اس فہرست کے مطابق ،جموں و کشمیر پولیس کشمیر واقع صحافی احمد علی فیاض اور پاکستانی صحافی حامد میر پر بھی نگرانی رکھ رہی ہے۔ اس میں پاکستان واقع ریڈیو پاکستان، سماں چینل اور اے آر آئی نیوز اور ترکی نیوز چینل ٹی آر ٹی ورلڈ اور جرمنی واقع ڈی ڈبلیو نیوز جیسے میڈیا ادارے بھی شامل ہیں۔ یہ سبھی اسکرین شاٹس پانچ اگست کے بعدکے ہیں۔ جموں و کشمیر پولیس نے تقریباً ایک گھنٹے بعد شام سات بجکر 57 منٹ پر ایک دیگر ای میل بھیجکر صحافیوں سے ‘ ڈی این اے فائل ‘ کو نظرانداز کرنے کو کہا۔
پولیس سپرٹنڈنٹ رینک کے ایک پولیس افسر نے کہا کہ یہ جموں و کشمیر پولیس کا کام ہے کہ وہ سوشل میڈیا سمیت تمام ذرائع پر کشمیر سے متعلق چل رہی خبروں پر نظر رکھیں۔ انہوں نے کہا، ‘ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ‘ وہیں ایک دیگر افسر نے کہا کہ وہ ایسا اس لئے کرتے ہیں تاکہ جموں و کشمیر جیسے حساس علاقے کے بارے میں کوئی فیک نیوز نہ پھیلے۔
غور طلب ہے کہ پانچ اگست کے بعد سے کئی پابندیوں کی وجہ سے جموں و کشمیر میں عام زندگی متاثر ہے۔ عوام سمیت میڈیا کو بھی اس مسئلہ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔