جموں و کشمیر: مرکزی حکومت کے وعدوں کے بیچ مفلوج طبی نظام

گراؤنڈ رپورٹ : آرٹیکل 370 کے ہٹائے جانے کے بعد مرکزی حکومت نے جموں وکشمیر میں ایک نئی صبح کے آغاز کا دعویٰ کیا تھا اور یہاں کی عوام پر امید تھی کہ اب ترقی کا نیا سورج طلوع ہوگا، مگر تین سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہےاور لوگ آج بھی بنیادی طبی سہولیات سے محروم ہیں۔سڑک نہ ہونے کی وجہ سے ہسپتال پہنچنے کی کوشش میں ہی متعدد لوگ اپنی جان گنوا چکے ہیں۔

گراؤنڈ رپورٹ : آرٹیکل 370 کے ہٹائے جانے کے بعد مرکزی حکومت نے جموں وکشمیر میں ایک نئی صبح کے آغاز کا دعویٰ کیا تھا اور یہاں کی عوام پر امید تھی کہ اب ترقی کا نیا سورج طلوع ہوگا، مگر تین سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہےاور لوگ آج بھی بنیادی طبی سہولیات سے محروم ہیں۔سڑک نہ ہونے کی وجہ سے ہسپتال پہنچنے کی کوشش میں ہی متعدد لوگ اپنی جان گنوا چکے ہیں۔

تصویر: خواجہ یوسف جمیل

تصویر: خواجہ یوسف جمیل

میں گھر میں اکیلی تھی کہ اچانک مجھے درد زہ کی تکلیف محسوس ہوئی۔ میرا گھر سڑک سے تقریباََدوکلومیٹر کی دوری پر پہاڑی کی اوپری سطح پر موجود ہے۔ میرا شوہر مزدوری کی خاطر سعودی عرب تھا اور میں نے پیدل پہاڑی سے اترنا شروع کیا اور درد زہ کی تکلیف برداشت کرتے ہوئے سڑک تک پہنچی اور بعد ازاں ایمبولینس آئی اور مجھے ضلع ہسپتال پونچھ منتقل کیا۔ اگر سڑک ہوتی تو مجھے اس پریشانی کا سامنا نہ ہوا ہوتا۔ہمارے گاؤں میں ایک سب سنٹر تعمیر تو کیا گیا ہے لیکن نہ تو اس سب سنٹر میں وقت پر ڈاکٹر ملتے ہیں اور نہ ہی یہاں پر ڈلیوری کے عمل کو مکمل کیا جاتا ہے۔

یہ کہا نی ہے سرحدی ضلع پونچھ کی تحصیل منڈی کی رہائشی حنیفہ اختر کی ۔

بتادیں کہ  ہر سال کی طرح اس سا ل بھی طبی نظام کو بہتر بنانے کے لیے مالی سال 2023-24 کے لیے مرکزی حکومت کی جانب سے 88956کروڑ روپے کا بجٹ پیش کیا گیا۔تا کہ ملک کے دیگر حصوں کے ساتھ ساتھ جموں وکشمیر یوٹی میں بھی طبی نظام کو فعال بنا کر عوام کو بہتر سے بہتر علاج فراہم کیا جاسکے۔

حکومت ہر سال کروڑوں روپے شعبہ صحت کی بہتری کے لیے خرچ کرتی ہے ،لیکن زمینی سطح پربہتری نظر  نہیں آتی۔ مجموعی طور پر ملک کے دیگر حصوں کی طرح جموں وکشمیرکے مختلف علاقاجات میں بھی شعبہ صحت کانظام بہتر نہیں ہے۔صرف ضلع پونچھ کی بات کی جائے تو یہاں لوگوں  کو بہتر علاج کے لیے 240کلومیٹر کی مسافت طے کرکے جموں جاکر علاج کروانا پڑتا ہے۔

 ضلع پونچھ سرحدی علاقہ ہونے کے ساتھ ایک دور دراز اور پسماندہ علاقہ ہے۔ یہاں شعبہ صحت کو دوسرے علاقاجات کے مقابلے میں مزید مستحکم اور مضبوط ہونا چاہیے تھا، لیکن یہاں کی عوام کو اس ترقی یاقتہ دور میں بھی معقول علاج کے لیے ترسنا پڑ رہا ہے۔

پونچھ شعبہ صحت کی ویب سائٹ کے مطابق، پونچھ میں کل 186 طبی مراکز ہیں جن میں ہیلتھ سنٹر اور سب سنٹر بھی شامل ہیں، لیکن اکثر طبی مراکز میں یا تو ادویات نہیں ہوتی یا پھر ڈاکٹر نہیں ہوتے۔

 پونچھ ضلع ہیڈکوارٹر سے تقریباََ 35 کلومیڈر کی دوری پر آباد تحصیل منڈی کا گاؤں چکھڑی بن بھی اسی پریشانی سے دو چار ہے۔ اس گاؤں کے ایک رہائشی محمد سخی جن کی عمر 42 سال ہے اور پیشے سے مولوی ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ، ہندوستان کا آئین ملک کے تمام شہریوں کو برابر کے حقوق فراہم کرتا ہے۔اور حکومت کی ذمہ داری ہےکہ وہ تمام شہریوں کو بنیادی سہولیات فراہم کرے۔ لیکن  نہ تو ہمیں ہمارے حقوق ملتے ہیں اور نہ ہماری طرف کسی نے آج تک توجہ دی ہے۔

تصویر: خواجہ یوسف جمیل

تصویر: خواجہ یوسف جمیل

 وہ مزید کہتے ہیں کہ ،ہمارے گاؤں میں سڑک نہ ہونے کی وجہ سے یہاں کے ایک مریض کو نارمل بخار کی دوا خریدنے کے لیے بھی دو گھنٹے کا پیدل سفر طے کرکے سڑک تک پہنچناپڑتا ہے اور پھر مریض گاڑی میں بیٹھ کر سب ضلع ہسپتال منڈی میں اپنا علاج کرواتا ہے۔

اسی گاؤں کے ایک اور نوجوان محمد رفیق بجران جن کی عمر 29 سال ہے اور پیشے سے طالبعلم ہیں وہ کہتے ہیں کہ،ہماراخدا ہی حافظ ہے۔ سڑک سے تقریباََ5 کلومیٹر کی دوری پر پہاڑی کی اوپری سطح پر بسا ہوا یہ گاؤں تمام تر بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔اس گاؤں کے متعدد افراد طبی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے اپنی جان گنوا چکے ہیں۔

وہ کہتے ہیں؛

گزشتہ سال ‘عبداللطیف ولد نور عالم’،‘ذاکر حسین ولد محمد نجار’ پہاڑی سے پھسل کر نالے میں جا گرے اور جب تک انہیں ہسپتال تک لے جاتے یہ دم توڑ گئے اسی طرح گزشتہ سالوں میں سفیرہ بی زوجہ محمد حسین، زبیدہ بی زوجہ عبداللطیف، فریدہ بی زوجہ محمد خورشید اور متعدد دیگر خواتین کو چار پائی پر اٹھا کر پہاڑی راستوں سے اتارتے ہوئے ہسپتال کی جانب لے جاتے وقت یہ خواتین راستے میں درد زہ کی تکلیف برداشت نہ کرسکیں اور اپنی جان گنوا بیٹھیں۔اگر ہمارے گاؤں میں طبی مرکز فعال ہوتا اور یہاں علاج کا معقول انتظام ہوتا تو ہماری عورتوں کو اس کرب  سے نہ گزرنا پڑتا۔

وہیں، شعبہ صحت سے سبکدوش ہوئے ڈاکٹر عبدالرشید کہتے،میں گاؤں درمیانہ بن کے سب سنٹر میں سال 1986 میں بطور ڈاکٹر تعینات کیا گیا تھا اور اسی سال یہ سب سنٹر اس گاؤں کے لیے منظور ہوا تھا۔ اور 36 سال کا ایک طویل عرصہ گزرنے کے بعد بھی آج تک یہ سب سنٹر کرایہ کے ایک کمرے میں ہے۔ اس سے اندازہ لگایاجاسکتا ہےکہ یہ علاقہ کتنا پچھڑا ہوا ہے۔

وہ کہتے ہیں؛

ہماری عورتوں کو آج بھی بچے کی پیدائش کے لیے چار آدمیوں کے کاندھوں پر لاد کر پہاڑی راستوں سے اتار کر کئی گھنٹوں کی مسافت کے بعد سڑک تک پہنچایا جاتا ہے اور پھر سب ضلع ہسپتال منڈی پہنچایا جاتا ہے جہاں بچے کی پیدائش کا عمل تکمیل کو پہنچتا ہے۔ اگر کسی عورت کو رات میں درد زہ کی تکلیف محسوس ہوتی ہے تو ایسی صورت سے نپٹنے کے لیے ہمارے گاؤں میں کوئی انتظام نہیں ہے کیونکہ جو ڈاکٹر اس گاؤں کے سب سنٹر میں تعینات ہے وہ رات کو واپس پونچھ چلی جاتی ہے۔گزشتہ کئی سالوں سے یہاں کی عوام اسی  پریشانی سے گزر رہی ہے۔

اس حوالے سے سب سنٹر ‘بن’ میں تعینات کی گئی ڈاکٹر ‘پریم لتا’ جن کا تعلق شہرپونچھ سے ہے،انہوں نے کہا کہ،مجھے اس سنٹر تک پہنچتے چار گھنٹے لگ جاتے ہیں کیونکہ مجھے پونچھ سے آنا پڑتا ہے اور دو گاڑیاں تبدیل کرنے کے بعد میں لوہیل بیلا کے مقام پر پہنچتی ہوں اور وہاں سے مجھے پانچ کلو میٹر پیدل سفر طے کرنے کے بعد پہاڑی پر چڑھنا پڑتا ہے۔میرے لیے یہاں اپنی ڈیوٹی انجام دینا کسی قیامت سے کم نہیں۔

وہ کہتی ہیں؛ جب سردی کا موسم ہوتا ہے تو اس علاقے میں چار سے پانچ فٹ برف گرتی ہے اور اتنی برف میں اس پہاڑی پر چڑھنا کوئی آسان کام نہیں۔ وہیں جب گرمی کا موسم آتا ہے تو اس علاقہ میں جنگلی جانور عام ہوجاتے ہیں۔ اور اس دوران کئی لوگوں پر جنگلی جانور حملہ کردیتے ہیں اور زخمیوں کے لیے ہمارے پاس اس سب سنٹر میں کوئی معقول انتظامات نہیں ہوتے ہیں۔ جس کی بنا پر ان زخمیوں کو سب سنٹر لورن یا پھر سب ضلع ہسپتا ل منڈی منتقل کیا جاتا ہے۔

تصویر: خواجہ یوسف جمیل

تصویر: خواجہ یوسف جمیل

وہ مزید کہتی ہیں؛ حاملہ خواتین کی ڈلیوری کے لیے بھی ہمارے پاس مکمل انتظام نہیں ہے کیونکہ اس علاقے میں سڑک نہ ہونے کی وجہ سے ہمارا سامان اس سنٹر تک نہیں پہنچ سکتا۔اور نہ ہی اس سب سنٹر میں بیت الخلا کی سہولت موجود ہے۔ڈلیوری کے عمل کو مکمل کرنے کے لیے متعدد چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔جن میں بیت الخلا کا ہونا اشد ضروری ہے۔

تحصیل منڈی کے گاؤں لوہیل بیلہ میں سڑک کے کنارے پر تعمیر شدہ سنٹر کا بھی برا حال ہے۔ اس سب سنٹر میں تعینات شگفتہ چودھری کہتی ہیں کہ ؛

یہ سب سنٹر پندرہ سال قبل تعمیر ہوا ہے جسے 18فروری 2022 کو ‘ہیلتھ ویلنس سنٹر’میں تبدیل کیا گیا ہے۔ پانچ ماہ گزرنے کے بعد بھی ابھی تک اس سنٹر کی حالت جوں کی توں ہے۔ یہاں ایک سی ایچ او کو ضرور تعینات کیا گیا ہے لیکن ابھی تک ہمارے پاس اس سنٹر کا سامان نہیں پہنچا ہے۔اس ہیلتھ سنٹر میں بیت الخلاء تعمیر تو کیا گیا ہے لیکن پانی نہ ہونے کی وجہ سے یہ بیت الخلاء استعمال کے قابل نہیں ہیں۔

اگر ہمارے پاس کوئی ایمرجنسی ڈلیوری کیس آجائے تو ہمیں مجبوراََ ہمیں یہاں سے پی ایچ سی لورن یا سب ضلع ہسپتال منڈی منتقل کرنا پڑتا ہے کیونکہ مریضوں کے علاج کے لیے پانی کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔اس تعلق سے ہم نے محکمہ پی ایچ ای کو بھی کئی بار بتایا لیکن عرصہ دراز گزرنے کے بعد بھی یہاں پانی فراہم نہ کیا گیا۔

وہ مزید کہتی ہیں کہ ،ہمارے پاس پورا سامان بھی نہیں ہے جس کی وجہ سے ہم مریضوں کا پورا علاج نہیں کرسکتے۔

تصویر: خواجہ یوسف جمیل

تصویر: خواجہ یوسف جمیل

جب ان تمام پریشانیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے بی ایم او (بلاک میڈیکل آفسر منڈی) ڈاکٹر نصرت بھٹی سے بات کی گئی تو انہوں نے کہا کہ،ہمارے پاس ڈاکٹروں کی کمی ہے۔ہر مہینے کوئی نہ کوئی ملازم ریٹائر ہو رہا ہے لیکن ابھی تک کسی نئے ملازم کی تعیناتی نہیں ہوئی ہے جس کی وجہ سے ہمیں عوام کو بہتر سہولیات فراہم کرنے میں پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ ہمارے پاس چار ایمبولینس ہیں جو صرف حادثات کے اوقات میں ہم استعمال میں لاتے ہیں۔جب بھی کوئی حادثہ ہو یا پھر ڈلیوری کا کوئی کیس ہو تو ایسی صورت میں لوگ 108 نمبر پر کال کریں ہم فوری طور پر اس ایمبولینس کو روڑ سائڈ پر پہنچا دیں گے۔

وہ مزید کہتی ہیں کہ، اس ایمبولینس میں ہسپتال کی تمام تر سہولیات موجود ہوتی ہیں ماہر ڈاکٹر بھی موجود ہوتے ہیں جو ڈلیوری کے عمل کو گاڑی کے اندر ہی مکمل کرسکتے ہیں۔لیکن جن علاقوں میں ابھی تک سڑک تعمیر نہیں ہوئی ہے وہاں تک ہم فی الفور نہیں پہنچ سکتے یہی وجہ ہےکہ ان دیہی اور پہاڑی علاقوں میں حادثات ہوجاتے ہیں۔ اگر ان علاقوں میں سڑک نکالی جائے تو مریض بھی آسانی سے ہسپتال تک پہنچ سکتے ہیں اور ہمارا اسٹاف بھی بہتر طریقے سے اپنی ڈیوٹی کے فرائض انجام دے سکتے ہیں۔

اسی طر ح ضلع پونچھ کے بلا ک سرنکوٹ اور مہنڈر کے دیہی علاقاجات میں بھی طبی نظام بہتر نہ ہونے کی وجہ سے عوام کو شدید مشکالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ تحصیل سرنکوٹ کے دور دراز علاقہ ‘موہڑہ بچھائی’’ کی سکونتی ‘وحیدہ کوثر’ جن کی عمر 30 سال ہے اور پیشہ خانہ داری کہتی ہیں کہ ؛

میری شادی شہر سے دیہات میں ہوئی ہے جو سہولیات شہر میں ہوتی ہیں وہ ہمارے اس گاؤں میں نہیں ہیں۔گاؤں موہڑہ بچھائی کے ساتھ گاؤں ہاڑی، ہاڑی بڈھا، مرھوٹ و دیگر کئی گاؤ ں آباد ہیں۔ اور ان تمام علاقاجات کی آبادی تقریباََ چار ہزار سے زائد ہے لیکن ان علاقاجات میں ایک بھی فعال طبی مرکز قائم نہ ہے جہاں مریضوں کا علاج ممکن ہوسکے۔ ہمارے اس علاقہ میں سڑک تو تعمیر کی گئی ہے لیکن سڑک کی خستہ حالی کی وجہ سے نہ تو ایمبولینس یہاں وقت پر پہنچ پاتی ہے اور اگر کبھی پہنچ بھی جائے تو مریض سڑک کی ْخستہ حالی کی وجہ سے ہسپتال تک پہنچتے پہنچتے دم توڑنے پر آجاتا ہے۔

تحصیل سرنکوٹ کے ایک اور گاؤں سانگلہ کے رہائشی ماسٹر محمد یونس عمر 44 سال اور ہائی اسکول سانگلہ میں بطور استاد اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔وہ اپنے علاقہ کے طبی نظام کی خستہ حالی بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ، ہمارا گاؤں سانگلہ تین پنچایتوں پر مشتمل ہے۔ جن میں ‘اپر سانگلہ’ ‘لور سانگلہ’ اور ‘درہ سانگلہ’ شامل ہیں۔ ان تینوں پنچایتوں میں طبی نظام مکمل طور پر بہران کا شکار ہے۔ سات سال قبل اس گاؤں ڈسپنسری کا کام شروع ہوا تھا۔ لیکن سات سال کا طویل عرصہ گزرنے کے بعد بھی اس عمارت کا کام تکمیل تک نہیں پہنچا۔

وہ مزید کہتے ہیں؛ علاقہ میں سڑک فعال نہ ہونے کی وجہ سے کئی لوگ اپنی جان گنوا چکے ہیں۔ چند سال قبل ‘شمیم اختر زوجہ محمد فاضل’ کو درد زہ کے عالم میں گھر سے سرنکوٹ سب ضلع ہسپتال کی طرف لاتے ہوئے راستے میں ہی دم توڑ گئیں۔ اسی طرح سال 2016 میں ‘شمیم اختر زوجہ عزیز احمد’ ایک حادثے کا شکار ہوئیں شدید چوٹوں کی وجہ سے ہسپتال سرنکوٹ تک لانے سے قبل ہی دم توڑ گئیں۔ اس سال چند ماہ قبل تعظیم اختر زوجہ ریاض احمد اچانک گر گئیں اور جب تک یہ ہسپتال تک پہنچ پاتیں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اس دنیا سے چل بسیں۔ اگر اس علاقہ میں ہسپتال ہوتا یا تعمیر شدہ طبی مراکز میں علاج کا معقول انتظام ہوتا تو مکمن تھا کہ ان خواتین کی جان بچ جاتی۔

سب ضلع ہسپتال سرنکوٹ کے انچارج بلاک ڈیولپمنٹ آفسر (بی ڈی او) ڈاکٹر طارق محمود سے جب تحصیل سرنکوٹ کے مختلف علاقاجات کی عوام کی پریشانیوں کے حوالے سے بات کی گئی تو انہوں نے بتایا کہ، سب ضلع ہسپتال سرنکوٹ ایک قدیم ہسپتال ہے۔ جب سے اس ہسپتال کی منظوری ہوئی ہے تب سے لےکر آج تک یہاں وہیں اسامیاں ہیں۔جبکہ اس شعبہ میں تمام انسانی جسم کے اعضاء کے لئے ماہر ڈاکٹروں کا ہونا لازمی ہے۔ ہمیں چند‘ایم بی بی ایس’ اور اسپیشلسٹ ڈاکٹروں کی یہاں اشد ضرور ہے۔ جہاں تک دیہی علاقاجات کا سوال ہے تو بہت سارے علاقاجات جن میں ‘ہیل کاکا’،‘مرہوٹ’،‘ڈوڈی’ ‘سانگلہ’، ‘رجاڑہ’ موجود ہیں ان علاقاجات میں ابھی تک سڑک نہیں ہوئی ہے جس کی وجہ سے ہمارے ملازمین وقت پر نہیں پہنچ پاتے اور نہ ہی ان علاقوں میں طبی مراکزکے لیے سامان پہنچایا جاسکتا ہے۔ ان تمام دیہی علاقاجات میں سڑک کی تعمیر کے بعد ہی طبی نظام بہتر ہوسکتا ہے۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ ،

ہماری پوری کوشش ہےکہ طبی نظام کو بحال کیا جائے لیکن پوری سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے یہاں سے مجبوراََمریضوں کو ریفر کرنا پڑتا ہے۔ اگر اس ہسپتال میں پوری سہولیات فراہم کی جائیں تو یہاں کے مریضوں کو اس ہسپتال میں بہتر علاج مل سکتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ آرٹیکل 370 کے خاتمے  کے بعد  مرکزی حکومت نے جموں کشمیر میں ایک نئی صبح کے طلوع  ہونے کا دعویٰ کیا تھا، عوام بھی پر امید تھی کہ اب جموں کشمیر میں ترقی کا نیا سورج طلوع ہوگا مگر تین سال سے زائد  کا عرصہ گزر چکا ہےاورلوگ آج بھی نئی صبح  کا انتظار کر رہے ہیں۔ یہاں کے مقامی لوگوں نے ضلع انتظامیہ، گورنر انتظامیہ و مرکزی حکومت سے اپیل کی کہ اس درو دراز اور پچھڑے ہوئے علاقے کی جانب خصوصی توجہ دے کر یہاں کے طبی نظام کو بہتر بنایا جائے تاکہ عوام کو مزید مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

(خواجہ یوسف جمیل فری لانس صحافی ہیں۔ انہوں نے یہ رپورٹ این ایف آئی کی آزادصحافیوں کے لیے فیلوشپ پروگرام کے تحت تیار کی ہے۔)