جامعہ ملیہ اسلامیہ کے 16محققین کو امریکہ کی اسٹین فورڈ یونیورسٹی نےدنیا کےٹاپ دو فیصدی سائنسدانوں کی باوقارفہرست میں جگہ دی ہے۔ پہلی فہرست میں جامعہ کے آٹھ پروفیسر شامل ہیں۔ سال 2020 کی کارکردگی کی بنیاد پر دوسری فہرست میں جامعہ کے 16سائنسداں ہیں۔
نئی دہلی: جامعہ ملیہ اسلامیہ کے 16محقق کو امریکہ کی اسٹین فورڈ یونیورسٹی نے دنیا کے ٹاپ دو فیصدی سائنسدانوں کی باوقارفہرست میں شامل کیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، یونیورسٹی کے سابق طلبا اور طلبا کے دعوے سے اس کی تصدیق ہوتی ہے کہ مودی سرکار کے ذریعے کی جانے والی جامعہ کی مذمت حقائق پر مبنی نہیں ہے۔
اس پہلی فہرست میں جامعہ ملیہ کے آٹھ پروفیسر شامل ہیں۔ سال 2020 کی کارکردگی کی بنیاد پر دوسری فہرست میں جامعہ کے 16سائنسداں ہیں۔
ان دونوں فہرست میں عمران علی،عتیق الرحمٰن، انجان اےسین، حسیب احسان، سشانت جی گھوش، ایس احمد، توقیر احمد اور محمد امتیاز شامل ہیں۔
دوسری فہرست میں عابد حلیم، رفیق احمد، تبریز عالم خان، محمد جاوید، ارشد نور صدیق مشیر احمد، فیضان احمد اور طارق الاسلام شامل ہیں۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، فہرست میں159683 لوگ شامل ہیں جن میں لگ بھگ 1500ہندوستانی ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ وزارت تعلیم کی جانب سے2020 میں جاری سینٹرل یونیورسٹیوں کی فہرست میں جامعہ اعلیٰ مقام پر ہے۔ جامعہ نے جے این یو اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو پیچھے چھوڑکر ملک کی 40 سینٹرل یونیورسٹی میں اعلیٰ مقام حاصل کیا ہے۔
جامعہ نے ٹائمس ہائر ایجو کیشن کی ورلڈ یونیورسٹی ریکنگ میں ہندوستانی اداروں میں2020 میں19ویں نمبر کے مقابلےمیں 12ویں نمبر پر آکر اپنی حالت میں بہتری کی ہے۔
جامعہ نے گزشتہ دو دہائیوں میں اس کے خلاف کھڑے کیے گئے فرقہ وارانہ نیریٹو کا سامنا کیا ہے۔
وزارت تعلیم کی جانب سے جاری کیے گئے 2020 نیشنل انسٹی ٹیوشنل ریکنگ فریم ورک(این آئی آرایف)کے مطابق، جامعہ ملک بھر میں ٹاپ دس یونیورسٹیوں کی فہرست میں شامل ہے۔ اس فہرست میں دہلی یونیورسٹی11ویں نمبر پر ہے۔
حالانکہ بی جے پی حکومت اور اس کےحامی جامعہ اور اس کےطلبا کو غدار کہتے رہے ہیں۔
آرٹیکل 14 کے لیےتجزیاتی مضمون میں علی شان جعفری نے ذکر کیا تھا کہ 2017 اور 2018 کے دوران مودی سرکار کی جانب سے جامعہ کے اقلیتی درجے کو چھیننے کی لگاتار کوشش کی گئی۔ اس وقت پر کسی بھی وکیل نے یونیورسٹی کی نمائندگی نہیں کی۔
اس مضمون میں کہا گیا کہ مئی2021 میں وزارت داخلہ کی جانب سےانسداد دہشت گردی کے عہد کی تقریب منعقد کی گئی تھی، جس میں حکومت پر تنقید کرنے والے طلباء کے تئیں غصے کا اظہار کیا گیا تھا۔ اسی طرح کے عہد جے این یو اور دہلی یونیورسٹی میں بھی کیے گئے تھے۔
بتا دیں کہ 15 دسمبر 2019 کو شہر یت ایکٹ(سی اےاے)کی مخالفت میں یونیورسٹی کے پاس ہوئے پرامن احتجاج کے دوران پولیس افسریونیورسٹی کیمپس میں گھسے اور یونیورسٹی کی ملکیت کوتباہ کیا، آنسو گیس کے گولے داغے اور لاٹھی چارج کیا، جس میں یونیورسٹی کے سیکیورٹی اہلکار اورطالبعلم زخمی ہو گئے۔
پولیس کا دعویٰ ہے کہ پرتشدد ہو چکے احتجاج کو دبانے کے لیے طاقت کا استعمال کیا گیا۔
وہیں30 جنوری2020 میں زیور سے آئے ایک نابالغ نے سی اےاے کے خلاف مظاہرہ کر رہے جامعہ کے طلبا پر ایک نابالغ نے فائرنگ کی، جس میں ایک طالبعلم زخمی ہو گیا۔
اس معاملے میں نابالغ کو گرفتارکیا گیا، فی الحال ضمانت پر باہر ہیں۔ کوشک راج اور علی یشان جعفری نے دی وائر میں شائع ایک مضمون میں بتایا تھا کہ اس شوٹر کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز پوسٹ سے بھرے پڑے ہیں۔
جامعہ میں پولیس کی زیادتیوں پراپنی رپورٹ میں نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن نے سی اےاےمخالف مظاہرین کو ذمہ دار ٹھہرایا۔
فروری 2020 میں شمال مشرقی دہلی میں دنگے بھڑ کانے کے الزام میں جامعہ کے کئی طالبعلم اور سابق طالبعلم جیل میں بند ہیں۔ دہلی پولیس کا دعویٰ ہے کہ یہ طالبعلم اس سازش کا حصہ رہے ہیں۔ پولیس کے اس دعوے کو بڑے پیمانے پر چیلنج دیا گیا ہے۔