جامعہ ملیہ اسلامیہ کے 105ویں یوم تاسیس کی تقریبات کو لے کر تنازعہ کھڑا ہوگیا ہے۔ طلبہ تنظیموں نے ‘میوزک اینڈ ڈانس پرفارمنس – اکھنڈ بھارت’، ‘سنسکرت قوالی’ اور دلی پولیس کے گانے کے پروگرام پر اعتراض کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ پروگرام جامعہ کی سیکولر روایات کے خلاف ہیں۔

تصویر بہ شکریہ: جامعہ ویب سائٹ
نئی دہلی: جامعہ ملیہ اسلامیہ کے 105ویں یوم تاسیس کی تقریبات تنازعات میں گھری ہوئی نظر آ رہی ہیں۔ متعدد طلبہ تنظیموں نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا ہے،جس میں 29 اکتوبر سے 3 نومبر تک منعقدہونے والے چھ روزہ پروگرام میں بعض پروگراموں کے حوالے سےشدیدتشویش کا اظہار کیا گیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ یہ یونیورسٹی کی سیکولر روایات کے خلاف ہیں۔
سب سے زیادہ متنازعہ مسئلہ ‘میوزک اینڈ ڈانس پرفارمنس – اکھنڈ بھارت’ پروگرام ہے جو یکم نومبر کو صفدر ہاشمی ایمفی تھیٹر میں جامعہ میوزک کلب کے زیر اہتمام منعقد کیا جائے گا۔
یونیورسٹی کے ڈین آف اسٹوڈنٹس ویلفیئر کے تحت آنے والے میوزک کلب کی کنوینر ڈاکٹر ہرپریت کور جَس نے دی وائر کو بتایا کہ اس بار ان کی توجہ ‘لوک’ پر ہے۔ انہوں نے کہا،’ہم نے مختلف علاقوں سے موسیقی اور رقص کی نمائندگی کی کوشش کی ہے تاکہ بچے دوسرے علاقوں کے بارے میں بھی جان سکیں۔’
پروگرام کے نام میں ‘اکھنڈ بھارت’ کیوں شامل ہے؟ اس سوال پر ڈپارٹمنٹ آف ایجوکیشنل اسٹڈیز میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر جَس کہتی ہیں، ‘یہ حکومت کی پالیسی ہے، جس پر کلب کے کنوینر اور دیگر ممبران کو عمل کرنا ہوتا ہے۔ یہ صرف میرا فیصلہ نہیں ہے؛ دیگر ممبران کے فیصلے بھی اس میں شامل ہیں۔ تاہم، ہماری پالیسی اور اکیڈمک تحفظات بھی ہیں۔ ہمارا کلب ڈین آف اسٹوڈنٹس ویلفیئر کے تحت آتا ہے، اس لیے فیصلے اجتماعی طور پرکیے جاتے ہیں۔’
حالاں کہ، طلبہ تنظیموں کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ‘اکھنڈ بھارت’ کا جملہ ایک ایسے نظریے سے جڑا ہوا ہے جو تفرقہ انگیز ہے، اور جو ان بنیادی اقدار کے بالکل خلاف ہے جن پر جامعہ کی بنیاد رکھی گئی تھی، جیسے کہ برادریوں کے درمیان بقائے باہمی اور باہمی احترام۔
‘اکھنڈ بھارت’ آئیڈیالوجی کی تاریخ
‘اکھنڈ بھارت’ یا ‘اکھنڈ ہندوستان’ کا تصور ہندوتوا نظریہ کا بنیادی ستون رہا ہے۔ یہ خیال راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے بنیادی اصولوں میں سے ایک ہے، جو ہندوستان کو ایک غیر منقسم ہندو قوم کے طور پر دیکھتا ہے جس میں افغانستان، پاکستان، بنگلہ دیش، میانمار، سری لنکا، نیپال، بھوٹان اور تبت بھی شامل مانے جاتے ہیں۔
آر ایس ایس کی نصابی کتابوں میں بتایا گیا ہے کہ برہما دیش (میانمار)، بنگلہ دیش، پاکستان، افغانستان، تبت، نیپال، بھوٹان، اور سری لنکا کبھی ہندوستان کا حصہ ہوا کرتے تھے۔ وزیر اعظم نریندر مودی خود اس خیال سے متفق نظر آتے ہیں۔ 2012 کے ایک انٹرویو میں، جب وہ گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے، ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا تھاکہ ‘اکھنڈ بھارت’ کا مطلب ثقافتی اتحاد ہے۔

لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ متحدہ ہندوستان کا تصور محض ثقافتی اتحاد نہیں ہے بلکہ ایک سیاسی ومذہبی منصوبہ ہے جو اسلام کی آمد سے قبل جنوبی ایشیا کو دوبارہ قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ نظریہ سیکولرازم اور جامعیت کے اصولوں کے خلاف ہے۔
دلی پولیس گانا گائے گی
ایک اور متنازعہ پہلو دلی پولیس کے گانے کا پروگرام ہے، جو ‘ایک شام شہیدوں کے نام’ سے 2 نومبر کو منعقد کیا جائے گا۔
طلبہ تنظیموں کا کہنا ہے کہ اگرچہ موسیقی کے فن کا احترام کیا جاتا ہے، لیکن اسے فراموش نہیں کیا جاسکتا کہ 15 دسمبر 2019 کو دہلی پولیس نے جامعہ کیمپس میں گھس کر طلبہ پر حملہ کیا اور املاک کو نقصان پہنچایا تھا۔

اس کے بعد سے طلبہ اور پولیس کے درمیان کشیدگی برقرار ہے۔ تنظیموں کا کہنا ہے کہ دہلی پولیس کو مدعو کرنا ان واقعات سے متاثر ہونے والے بہت سے لوگوں کو نظر انداز کرنا ہے۔
سنسکرت قوالی
یوم تاسیس کی تقریبات کے ایک حصے کے طور پر، یونیورسٹی کے سنسکرت ڈپارٹمنٹ نے 30 اکتوبر کو سنسکرت قوالی پرفارمنس کا اہتمام کیا ہے۔ یہ تقریب یونیورسٹی کے انصاری آڈیٹوریم میں منعقد ہوگی۔ طلبہ تنظیموں نے الزام لگایا ہے کہ یہ کلچرل چوری ہے اور قوالی کی اصل روایت کو برہمنوادی شکل دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

طلبہ تنظیموں نے کہا ہے کہ ‘قوالی ایک روحانی فن ہے، جس کی جڑیں اردو-فارسی کی شعری روایت اور صوفیانہ عقیدت میں پیوست ہیں۔ اسے ‘سنسکرت قوالی’ میں تبدیل کرنا کوئی ثقافتی امتزاج نہیں ہے، بلکہ سوچی سمجھی کوشش ہے، اسے خالص دکھانے اور اسے برہمنوادی شکل دینے کی ۔’
جامعہ کی میراث: 1920 کا سیکولر وژن
جامعہ ملیہ اسلامیہ کی بنیاد 1920 میں تحریک عدم تعاون کے دوران شیخ الہند مولانا محمود حسن، مولانا محمد علی جوہر، حکیم اجمل خان، ڈاکٹر مختار احمد انصاری، عبدالمجید خواجہ، اور ڈاکٹر ذاکر حسین نے رکھی تھی۔ اس کا مقصد نوآبادیاتی اختیارات سے آزاد اور معاشرے کے تمام طبقات کے لیے جامع تعلیم فراہم کرنا تھا ۔
یونیورسٹی کا علامتی نشان اور اس کے قیام کے دستاویز واضح طور پر اس کے سیکولر، قوم پرست اور جامع وژن کی عکاسی کرتے ہیں۔ 1988 میں یہ پارلیامنٹ کے ایک ایکٹ کے تحت مرکزی یونیورسٹی بنائی گئی۔
طلبہ تنظیموں کے مطالبات کیا ہیں؟
بیان جاری کرنے والی تنظیموں نے یونیورسٹی انتظامیہ سے اپیل کی ہےکہ وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے تاریخی مشن، سیکولر اورجامع تعلیم کے ساتھ وفادار رہے۔ انہوں نے کہا، ‘یوم تاسیس کو یونیورسٹی کے تنوع اور سماجی انصاف کے عزم کی عکاسی کرنی چاہیے، اور اسے سیاسی یا نظریاتی ایجنڈوں سے نہیں ملایا جانا چاہیے۔’
انہوں نے وائس چانسلر سےجامع اخلاقیات کو برقرار رکھنے اور ایک تکثیری، جمہوری ہندوستان کے خیال سے جامعہ کے عزم کی توثیق کرنے کی اپیل کی ہے۔
یونیورسٹی کی تیاریاں
ان اعتراضات کے باوجود یونیورسٹی نے چھ روزہ عظیم الشان تقریب کی تیاری کی ہے۔
نیو انڈین ایکسپریس کے مطابق ، یہ سات سالوں میں پہلا تعلیمی میلہ اور اب تک کا سب سے بڑا میلہ ہوگا۔ پہلے جوجو دو روزہ پروگرام ہوا کرتا تھا وہ اب چھ روزہ تعلیمی اور ثقافتی انعقاد میں بدل گیا ہے۔
پروگرام میں لیکچر اور سیمینار کے ساتھ ساتھ قوالیاں، میوزک سیشن، ہر روز شام 5:30 بجے ایک آل انڈیا مشاعرہ، اور اسٹریٹ پلے پرفارمنس شامل ہیں۔ نمائشیں، ذہنی صحت کے کیمپ، خون کے عطیہ کیمپ، کھیلوں کی تقریبات، کھانے کے قومی اسٹال اور انٹرایکٹو سیشن وغیرہ سے کیمپس میں ہفتہ بھر سرگرمیاں جاری رہیں گی ۔
دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر ونے کمار سکسینہ 3 نومبر کو اختتامی تقریب میں مہمان خصوصی ہوں گے، جب ‘جامعہ ایکسیلنس ایوارڈز’ پیش کیے جائیں گے۔