فرانس کے سابق صدر جیک شراک کا انتقال

جیک شراک پہلے ایسے رہنما تھے، جنہوں نے دوسری عالمی جنگ کے دوران یہودی قتل عام میں فرانس کے رول کو قبول کیا تھا اور 2003 میں عراق پر امریکی حملے کی مخالفت کی تھی۔

جیک شراک پہلے ایسے رہنما تھے، جنہوں نے دوسری عالمی جنگ کے دوران یہودی قتل عام میں فرانس کے رول کو قبول کیا تھا اور 2003 میں عراق پر امریکی حملے کی مخالفت کی تھی۔

جیک شراک(فوٹو : رائٹرس)

جیک شراک(فوٹو : رائٹرس)

نئی دہلی: فرانس کے 12 سال تک صدر رہے جیک شراک کا 86 سال کی عمر میں بیتے جمعرات کو موت ہو گئی۔ جیک شراک پہلے ایسے رہنما تھے، جنہوں نے دوسری عالمی جنگ کے دوران یہودی قتل عام میں فرانس کے رول کو قبول کیا تھا اور 2003 میں عراق پر امریکی حملے کی مخالفت کی تھی۔ شراک کے داماد فریڈرک سلات-باروکس نے بتایا کہ شراک نے اپنی فیملی کے درمیان آخری سانس لی۔

انہوں نے شراک کی موت کی وجہ نہیں بتائی ہے لیکن 2007 میں صدر کا عہدہ چھوڑنے کے بعد سے ہی وہ کئی بیماریوں سے گھر گئے تھے۔ وہ یورپ کے ان رہنماؤں میں سے ایک رہے، جنہوں نے لمبی سیاسی زندگی گزاری۔ وہ دو بار 1995 سے 2007 تک فرانس کے صدر رہے تھے۔ دو بار فرانس کے وزیر اعظم بنے اور اس سے پہلے تقریباًدو دہائی تک (18 سال) پیرس کے میئر بھی رہے تھے۔

دی گارجین کی رپورٹ کے مطابق، اگرچہ صدر کے طور پر ان کی مدت کار کو غیر فعال اور سیاسی ٹھہراؤ کے لئے جانا جاتا ہے۔ ساتھ ہی ان کے عہدہ چھوڑنے تک فرانس اتنے ہی قرض، عدم مساوات اور بےروزگاری سے جوجھ رہا تھا، جتنا ان  کے اقتدار سنبھالتے وقت تھا، لیکن ان کے عہدہ چھوڑنے کے وقت ان کی دلکش شخصیت کی وجہ سے ان کو فرانس کے من پسند رہنماؤں میں سے ایک مانا گیا۔

صدر کے طور پر اپنی 12 سال کی مدت کار کے دوران شراک عالمی رہنما رہے لیکن اقتصادی اصلاح کرنے ، پولیس اور اقلیتی کمیونٹی کے نوجوانوں کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے میں ناکام رہے، جس سے 2005 میں فرانس میں فسادات ہوئے۔ انہوں نے اس متھ کو بھی توڑا کہ فرانس کو یہودیوں کے قتل عام اور ان کو بھگانے کی جانکاری نہیں تھی۔

انہوں نے قبول کیا تھا کہ دوسری عالمی جنگ کے دوران تقریباً 76 ہزار یہودیوں کو نازی ڈیتھ کیمپ میں بھیجا گیا تھا۔ انہوں نے اس میں پوری طرح سے فرانس کے رول  کو قبول کیا۔ شراک نے 2003 میں عراق پر امریکہ کی رہنمائی والے حملے کی مخالفت کی تھی۔ اس وجہ سے فرانس کے اپنے اہم ممالک کے ساتھ رشتوں میں کشیدگی آ گئی تھی۔ اس نے اٹلانٹِک اتحاد  کو کمزور کر دیا تھا۔

بہر حال، امریکہ نے عراق پر حملہ کیا، باوجود اس کے شراک کو جنگ ناقدین سے عالمی حمایت ملی۔ اس کے علاوہ شراک نے دیگر ممالک سے رشتے بہتر کرنے کے لئے رہنما کے طور پر کام کیا اور مغربی ایشیا اور افریقی ممالک کے ساتھ بہتر رشتے بنائے۔ وہ 11 ستمبر 2001 کے دہشت گردانہ  حملے کے بعد امریکی صدر جارج ڈبلیو  بش سے ملنے والے پہلے  صدر تھے۔

بہر حال پیرس کا میئر رہنے کے دوران ان پر رقم کے غلط استعمال اور رشوت لینے کے الزام لگے۔ 2007 میں صدر عہدے سے ہٹنے کے بعد ان پر الزام لگایا گیا ۔ ان کو 2011 میں عوام کے پیسے کے غلط استعمال، غداری، مفادات کے ٹکراؤ کا مجرم  پایا گیا اور دو سال کی جیل کی سزا دی گئی۔ ان کو 2005 میں اسٹروک پڑا تھا جس کی  وجہ سے وہ ہفتے بھر ہاسپٹل میں رہے تھے۔ اس کے بعد 2008 میں ان کے دل میں پیس میکر لگایا گیا۔

دریں اثناوزیر اعظم نریندر مودی نے فرانس کے سابق صدر جیک شراک کے انتقال پر غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان ایک سچے عالمی سیاستداں اور دوست کے جانے سے دکھی ہے۔ وزیر اعظم مودی نے ٹوئٹ کیا، ‘ جیک شراک کی موت پر میں اپنے دکھ کا  اظہار کرتا ہوں۔ ہندوستان ایک سچے عالمی سیاستداں کے جانے سے غم زدہ  ہے۔ وہ ہندوستان کے دوست تھے جنہوں نے ہندوستان اور فرانس کے درمیان اسٹریٹجک پارٹنر شپ قائم کرنے اور اس کو تشکیل دینے میں فیصلہ کن کردار نبھایا۔ ‘

ہندوستان اور فرانس کی اسٹریٹجک پارٹنر شپ جنوری 1998 میں ہندوستان میں شراک کے پہلے سفر کے دوران شروع ہوئی  تھی۔ وہ بعد میں ایک بار پھر بطور صدر  2006 میں ہندوستان آئے تھے۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)