اس کے ساتھ ہی دو دیگر رہنماؤں پر بھی اس قانون کے تحت معاملہ درج کیا گیا ہے، جن میں نیشنل کانفرنس کے سنیئر رہنما علی محمد ساگر اور پی ڈی پی کے سرتاج مدنی شامل ہیں۔ گزشتہ سال اگست میں جموں و کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کئے جانے کے بعد سے ہی عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی نظربند ہیں۔
نئی دہلی: جموں و کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی کے خلاف پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) کے تحت معاملہ درج کیا گیا ہے۔ گزشتہ سال اگست میں جموں و کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کئے جانے کے بعد سے ہی یہ دونوں رہنما نظربند ہیں۔اس کے ساتھ ہی دو دیگر رہنماؤں پر بھی پی ایس اے لگایا گیا ہے، جن میں نیشنل کانفرنس (این سی) کے سینئررہنما علی محمد ساگر اور پی ڈی پی کے رہنما سرتاج مدنی شامل ہیں۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، ذرائع کے مطابق نوکرشاہ سے رہنما بنے شاہ فیصل کے بھی پی ایس اے کے تحت نظربند ہونے کے امکان ہیں۔ایک سینئر افسر نے تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ریاست کے دو سابق وزیراعلیٰ کے علاوہ نیشنل کانفرنس کے رہنما علی محمد ساگر اور پی ڈی پی کے رہنما مدنی کے خلاف بھی پی ایس اے کے تحت معاملہ درج کیا گیا ہے۔
Jammu & Kashmir: National Conference’s General Secretary Ali Mohammad Sagar and senior PDP leader Sartaj Madni also detained under Public Safety Act (PSA). Both these leaders are under detention since 5th August. https://t.co/5ag1b10y3g
— ANI (@ANI) February 6, 2020
عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی کو چھ مہینے احتیاطاً حراست میں لئے جانے کی مدت جمعرات کو ختم ہو رہی تھی۔یہ تمام رہنما گزشتہ سال پانچ اگست کے بعد سے احتیاطاً حراست میں رکھے گئے تھے۔ اب ان پر پی ایس اے لگا دیا گیا ہے۔پولیس کے ساتھ پہنچے مجسٹریٹ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کی رہائش گاہ پر جاکر ان کو اس حکم کے بارے میں جانکاری دی اور پی ایس اے کے تحت جاری وارنٹ سونپا۔
معلوم ہو کہ عمر کے والد اور جموں و کشمیر کے وزیراعلیٰ رہ چکے فاروق عبداللہ پہلے سے ہی پی ایس اے کے تحت بند ہیں۔ ان پر 17 ستمبر، 2019 کو ہی پی ایس اے لگا دیا گیا تھا۔اس بیچ پی ایس اے لگنے کے بعد محبوبہ مفتی کے سرکاری ٹوئٹر ہینڈل سے ٹوئٹ بھی کیا گیا۔
Ms Mufti received a PSA order sometime back.Slapping the draconian PSA on 2 ex J&K CMs is expected from an autocratic regime that books 9 year olds for ‘seditious remarks’. Question is how much longer will we act as bystanders as they desecrate what this nation stands for?
— Mehbooba Mufti (@MehboobaMufti) February 6, 2020
ٹوئٹ میں مفتی پر پی ایس اے لگائے جانے کی جانکاری دیتے ہوئے لکھا گیا، ‘ اس تاناشاہی حکومت سے ریاست کے دو سابق وزیراعلیٰ پر پی ایس اے جیسا سخت قانون لگانے کی امید کر سکتے ہیں، جس نے نو سال کے بچے پر بھی ملک مخالف تبصرہ کے لئے مقدمہ کیا ہو۔ ملک کی قدروں کی بے عزتی کی جا رہی ہے، ایسے میں ہم کب تک ناظر بنے رہیںگے۔ ‘
بتا دیں کہ محبوبہ کا ٹوئٹر اکاؤنٹ ان کی بیٹی التجا مفتی سنبھالتی ہیں۔ وہیں کانگریس کے سنیئر رہنما پی چدمبرم نے بھی اس قدم کی تنقید کی ہے۔
उमर अब्दुल्ला, महबूबा मुफ़्ती और अन्य लोगों के खिलाफ पब्लिक सेफ्टी एक्ट के क्रूर आह्वान से हैरान और परेशान हूं।
— P. Chidambaram (@PChidambaram_IN) February 7, 2020
چدمبرم نے ٹوئٹ کر کہا، ‘ عمر عبداللہ، محبوبہ مفتی اور دیگر کے خلاف پبلک سیفٹی ایکٹ(پی ایس اے) کو غلط طریقے سے استعمال کئے جانے سے دکھی ہوں۔ یہ جمہوریت میں سب سے گھٹیا اور گندا قدم ہے۔ ‘ چدمبرم نے کہا، ‘ الزامات کے بغیر حراست میں رکھنا جمہوریت میں سب سے برا المیہ ہے۔ جب غیرمنصفانہ قانون منظور کئے جاتے ہیں یا غیرمنصفانہ قانون نافذ کئے جاتے ہیں، تو لوگوں کے پاس امن سے مخالفت کرنے کے علاوہ اور کیا اختیار ہوتا ہے۔ ‘
سابق وزیر داخلہ نے کہا، ‘ وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ احتجاجی مظاہرہ سے انتشار ہوگا اور پارلیامنٹ اور اسمبلیوں کے ذریعے منظور قوانین پر عمل کرنا ہوگا۔ وہ تاریخ اور مہاتما گاندھی، مارٹن لوتھر کنگ اور نیلسن منڈیلا کی مثالوں کو بھول گئے ہیں۔ پر امن مزاحمت اور عدم تشدد کے ذریعے غیرمنصفانہ قوانین کی مخالفت کی جانی چاہیے۔ وہ ستیہ گرہ ہے۔ ‘
بتا دیں کہ پی ایس اے ان لوگوں پر لگایا جا سکتا ہے، جن کو سکیورٹی اور امن کے لئے خطرہ مانا جاتا ہو۔1978 میں شیخ عبداللہ نے اس قانون کو نافذ کیا تھا۔ 2010 میں اس میں ترمیم کی گئی تھی، جس کے تحت بغیر ٹرائل کے ہی کم سے کم چھ مہینے تک جیل میں رکھا جا سکتا ہے۔ریاستی حکومت چاہے تو اس مدت کو بڑھاکر دو سال تک بھی کیا جا سکتا ہے۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)