اس سے پہلےوزارت دفاع نےپارلیامنٹ میں کہا تھا کہ اس نےاسرائیل واقع این ایس او گروپ کے پیگاسس اسپائی ویئر کو خریدنے کو لےکر کوئی لین دین نہیں کیا ہے۔ این ایس او گروپ پر ہندوستان سمیت کئی ممالک میں صحافی، کارکنوں اوررہنماؤں کے فون پر نظر رکھنے کے لیے پیگاسس اسپائی ویئر کا استعمال کرنے کےالزام لگے ہیں۔
الکٹرانکس اور انفارمیشن ٹکنالوجی کے وزیر مملکت راجیو چندرشیکھر۔ (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)
نئی دہلی: الکٹرانکس اورانفارمیشن ٹکنالوجی کی وزارت نے گزشتہ بدھ کو لوک سبھا کو بتایا کہ اس نے ایسے کسی سافٹ ویئر کو خریدنے کے لیے کوئی بجٹ مختص نہیں کیا ہے، جس کا استعمال‘انفارمیشن ٹکنالوجی ایکٹ کی دفعہ69 کے تحت کسی انفارمیشن کو انٹرسیپٹ، مانیٹر، ڈی کرپٹ کرنے کے لیے کیا جاتا ہو۔’
اس وزارت کے وزیر مملکت راجیو چندرشیکھر نے کانگریس ایم پی کارتی چدمبرم کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے یہ دعوے کیے ہیں۔
وزارت داخلہ کی جانب سے جاری
ایک آرڈر کے مطابق،خفیہ بیورو(آئی بی)، ڈرگس کنٹرول بیورو،انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ(ای ڈی)، سنٹرل بورڈ آف ڈائریکٹ ٹیکسز(سی بی ڈی ٹی)، ڈائریکٹوریٹ آف ریونیو انٹلی جنس (ڈی آر آئی)، سی بی آئی، این آئی اے، کابینہ سکریٹریٹ(را)، ڈائریکٹریٹ آف سگنل انٹلی جنس اور دہلی پولیس کمشنر کے پاس ملک میں چلنے والے سبھی کمپیوٹر کی قانون کے مطابق نگرانی کرنے کا اختیار ہے۔
آئی ٹی وزارت کا یہ جواب وزارت دفاع کے اس جواب کے دو دن بعد آیا ہے، جس میں اس نے کہا تھا کہ وزارت وفاع نے اسرائیل واقع این ایس او گروپ کے پیگاسس اسپائی ویئر کو خریدنے کو لےکر
کوئی لین دین نہیں کیا ہے۔
قابل ذکرہے کہ اسرائیل کی سافٹ ویئر نگرانی کمپنی این ایس اوگروپ پر ہندوستان سمیت کئی ممالک میں لوگوں کے فون پر نظر رکھنے کے لیے پیگاسس اسپائی ویئر کا استعمال کرنے کے الزام لگ رہے ہیں۔
پیگاسس جاسوسی مدعے کو لےکرپارلیامنٹ کے مانسون سیشن میں اپوزیشن لگاتار ہنگامہ کر رہا ہے، جس سے دونوں ایوانوں کی کارر وائی متاثر ہوتی رہی ہے۔اپوزیشن پیگاسس جاسوسی مدعے پر پارلیامنٹ میں بحث کی مانگ کر رہا تھا۔
این ایس او گروپ کا کہنا ہے کہ وہ اپنا اسپائی ویئر صرف ‘سرکاروں’کو ہی فروخت کرتا ہے۔ وہیں مودی سرکار نے پیگاسس خریدنے کو لےکر اب تک نہ تو قبول کیا ہے اور نہ ہی انکار کیا ہے۔ اس معاملے میں کئی پی آئی ایل سپریم کورٹ میں دائر کی گئی ہیں، جن پر شنوائی جاری ہے۔
دی وائر نےقبل میں
اپنی رپورٹس میں بتایا تھا کہ قانوناً نگرانی کے لیے وزارت داخلہ اورصوبے کے داخلہ محکموں کی منظوری لینی پڑتی ہے۔ اگر پیگاسس کا استعمال کرنا ہے تو اس کے لیے ہیکنگ کرنی پڑےگی جو کہ ہندوستانی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔
کارتی چندبرم نے اپنے ٹوئٹر پر لکھا کہ وزیر نے ان کے سوال کے جواب میں کہا ہے کہ آئی ٹی کی وزارت نے انٹرسیپشن کے لیے سافٹ ویئر خریدنے کےمقصد سے کوئی بجٹ مختص نہیں کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ دیگروزارت کی جانب سے نگرانی کے لیے بجٹ کا مختص ہوا ہوگا۔
اتنا ہی نہیں کارتی چدمبرم کو یہ جواب دینے کے کچھ ہی دیر بعد لوک سبھا سکریٹریٹ نے اپنی ویب سائٹ سے اس جواب کو ہی ہٹا دیا ہے۔ کانگریس ایم پی نے اپنے ٹوئٹر پر اس کی جانکاری دی ہے۔
اس کو لےکر لوک سبھا سکریٹریٹ کے ایک افسر نے
دی پرنٹ کو بتایا کہ ویب سائٹ پر ‘کوئی سوال اپ لوڈ نہیں کیا گیا تھا’، کیونکہ پارلیامنٹ کی بیٹھک کے فوراً بعد اسے غیرمعینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا گیا تھا۔
افسرنے کہا، ‘چونکہ ایوان کی بیٹھک کےفوراً بعد اسے ملتوی کر دیا گیا اوروقفہ سوال شروع نہیں ہو سکا، اس لیے ضابطے کے مطابق لسٹ تمام سوالات کو غیرمؤثر مانا جائےگا۔’
یہ پہلا موقع نہیں ہے۔ مودی سرکار پیگاسس مدعے پر ایوان میں پوچھے گئے سوالوں کو منظم طریقے سے اس کی ویب سائٹ سے ہٹا رہی ہے۔ اس معاملے پر وزارت خارجہ سے بھی سوال پوچھا گیا تھا، لیکن انہوں نے اس کا جواب دینے سے ہی انکار کر دیا۔
سرکار نے دعویٰ کیا ہے کہ معاملہ زیر سماعت ہے اور راجیہ سبھا کے ضابطےممبروں کو ایسی جانکاری مانگنے سے روکتے ہیں جس پر عدالت کا فیصلہ آنا باقی ہو۔
بتا دیں کہ
دی وائر اور بین الاقوامی میڈیااداروں نے پیگاسس پروجیکٹ کے تحت یہ انکشاف کیا تھا کہ اسرائیل کی این ایس او گروپ کمپنی کے پیگاسس اسپائی ویئر کے ذریعےرہنما،صحافی ، کارکن، سپریم کورٹ کے عہدیداروں کے فون مبینہ طور پر ہیک کرکے ان کی نگرانی کی گئی یا پھر وہ
ممکنہ نشانے پر تھے۔