جسٹس مرلی دھر کے تبادلے پر وکیلوں کی بین الاقوامی تنظیم  نے تشویش کا اظہار کیا

جسٹس مرلی دھر نے شمال مشرقی دہلی میں فسادات سے پہلے بی جے پی کےکچھ رہنماؤں کی جانب سے مبینہ طور پر ہیٹ اسپیچ کے معاملے میں کیس درج کرنے میں ناکامیاب رہنے کو لےکر دہلی پولیس کی کھینچائی کی تھی۔ اس کے اگلے دن 26 فروری کی رات کو مرکزی حکومت نے ان کا تبادلہ کر دیا تھا۔

جسٹس مرلی دھر نے شمال مشرقی  دہلی میں فسادات  سے پہلے بی جے پی کےکچھ رہنماؤں کی جانب سے  مبینہ  طور پر ہیٹ اسپیچ کے معاملے میں کیس درج کرنے میں ناکامیاب  رہنے کو لےکر دہلی پولیس کی کھینچائی کی تھی۔ اس کے اگلے دن 26 فروری کی رات کو مرکزی حکومت  نے ان کا تبادلہ کر دیا تھا۔

فوٹو: بہ شکریہ فیس بک

فوٹو: بہ شکریہ فیس بک

نئی دہلی: وکیلوں کی ایک بین الاقوامی تنظیم  نے صدر جمہوریہ  رام ناتھ کووند کوخط لکھ کر جسٹس ایس مرلی دھر کا  جلدبازی میں تبادلہ کرنے  کے سرکار کے فیصلے پر تشویش کا اظہارکیا ہے۔جسٹس مرلی دھر کا تبادلہ 26 فروری کی رات کو دہلی ہائی کورٹ سے پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ میں کر دیا گیا تھا۔اس سے ایک دن پہلے انہوں نے شمال مشرقی  دہلی میں فرقہ وارانہ فسادات  سے پہلے بی جے پی کے تین رہنماؤں کی جانب سے  مبینہ طورپرہیٹ اسپیچ دینے کے معاملے میں ایف آئی آر درج کرنے میں ناکامیاب رہنے کو لےکر دہلی پولیس کی کھینچائی کی تھی۔

جسٹس مرلی دھر نے پولیس کے رول کو لے کر بھی کڑی پھٹکار لگائی تھی اور متاثرین  کو سبھی ضروری مدد مہیا کرانے کی ہدایت  دی تھی۔تنظیم کے عہدیداران  کے دستخط شدہ خط میں کہا گیا ہے، ‘دی  انٹرنیشنل بار ایسوسی ایشن  ہیومن رائٹس انسٹی ٹیوٹ (آئی بی اے ایچ آر آئی )نے صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند کوخط جاری کیا ہے اور ان سے اپیل کی ہے کہ جسٹس ایس مرلی دھر کے دہلی ہائی کورٹ سے پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ میں جلدبازی میں کئے گئے تبادلے پر کارروائی کریں۔’

خط  میں کہا گیا ہے، ‘یہ اچانک غیر معمولی  تبادلہ… ایسےوقت میں جب سماجی بدامنی  کی وجہ سے ہندوستان  میں عدلیہ  کی آزادی کے کمتر ہونے کا خطرہ  ہے۔ قانون کے اقتدارکا بنیادی اصول ہے کہ عدلیہ  سرکار کو ذمہ دار ٹھہرائے اور کسی جج کے ذریعے آزادانہ طورپرآواز اٹھانے کو نہیں دبایا جانا چاہیے۔’آئی بی اے ایچ آر آئی وکیلوں کی تنظیم  ہے جو دنیا بھر میں ہیومن رائٹس کو بڑھاوا دینے اور ان کے تحفظ  کے لیے کام کرتی ہے۔

واضح  ہو کہ جسٹس مرلی دھر کئی بڑے اور کڑے فیصلے دینے کے لیے جانے جاتے ہیں۔ ان کے فیصلوں میں سرکار کی کافی تنقید بھی رہتی ہے۔ وہ دہلی ہائی کورٹ کے تیسرے سب سے سینئر جج تھے۔ گزشتہ  12 فروری کو سپریم کورٹ کولیجیم نے جسٹس مرلی دھر کے تبادلے کی سفارش کی تھی۔ اس کی کافی تنقید ہوئی تھے۔

اس کے خلاف دہلی ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے مظاہرہ  بھی کیا تھا اور ایک دن کے لیے کام کاج بند رکھا تھا۔کانگریس نے جسٹس ایس مرلی دھر کے تبادلے کو لے کر الزام لگایا تھا کہ کئی بی جےپی رہنماؤں کو بچانے اور تشدد کی سازش کا پردہ فاش نہیں ہونے دینے کے مقصد سے سرکار نے ان کا تبادلہ کرایا ہے۔

اس کے علاوہ سابق  چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) کے جی بال کرشنن نے کہا تھا کہ سرکار کو دہلی ہائی کورٹ کے جسٹس ایس مرلی دھر کو پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ میں تبادلہ کرنے کا ‘آدھی رات’ کو حکم جاری کرتے ہوئے ‘تھوڑی احتیاط’برتنی  چاہیے تھی۔

(خبررساں  ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)