
پیرس کی مارکیٹ ریسرچ اور کنسلٹنگ فرم اپسوس گروپ کی ایک رپورٹ میں کہا گیاہے کہ ہندوستانیوں میں حقیقی اور جعلی معلومات میں فرق کرنے کی صلاحیت سب سے کمزور ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ہندوستانیوں میں فطری طورخبر کو سچ ماننے کارجحان زیادہ ہے۔

(علامتی تصویر بہ شکریہ: پکسابے)
نئی دہلی: ہندوستان، امریکہ، برطانیہ اور فرانس میں8800 لوگوں پر کی گئی ایک تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ ہندوستانیوں میں فرضی خبروں اور غلط معلومات کے تئیں حساسیت زیادہ ہوتی ہے۔
ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، پیرس کی مارکیٹ ریسرچ اور کنسلٹنگ فرم اپسوس گروپ کے ایک مطالعہ پر مبنی رپورٹ گزشتہ ماہ شائع ہوئی تھی، جس میں اس بات پر توجہ مرکوز کی گئی تھی کہ لوگوں میں اصلی خبروں کوفرضی خبروں سے الگ کرنے کی صلاحیت کس طرح متاثر ہوتی ہے۔
مطالعہ میں 8800 شرکاء کو کچھ اصلی اور جعلی سرخیاں دکھائی گئیں۔ اصلی سرخیاں معتبر خبر رساں اداروں سے تھیں، جبکہ جعلی سرخیاں حقائق کی جانچ کرنے والی سائٹوں سے تھیں۔
ہیڈ لائن کو عام سوشل میڈیا پوسٹ کی طرح بنایاگیا تھا، جس میں ماخذ، لائیک اور کوئی تبصرہ نہیں تھا۔ یہ اس لیے کیا گیا تاکہ شرکاء سرخی کی بنیاد پر خبر کی صداقت کا اندازہ لگا سکیں۔
رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ ہندوستانیوں میں اصلی اور جعلی معلومات میں فرق کرنے کی سب سے کمزور صلاحیت ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ہندوستانیوں میں فطری طور پر خبر کور سچ ماننے کارجحان زیادہ ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکہ اور برطانیہ کے شرکاء سب سے زیادہ ذہین تھے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے، ڈیجیٹل لینڈاسکیپ کے فروغ کی وجہ سےغلط معلومات کے پیمانے اور پیچیدگی میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے ۔صارف کی مصروفیت کو زیادہ سے زیادہ کرنے کے لیے بنائے گئے الگورتھم، نادانستہ طور پر سنسنی خیز یا تفرقہ انگیز مواد کو بڑھاوا دے سکتے ہیں، اگر ان کا ڈیزائن یعنی خبر کے وائرل ہونے کو ترجیح دیتا ہے۔’
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہندوستانیوں میں سرخیوں پر یقین کرنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے، خاص طور پر اگر وہ مثبت جذبات کو جنم دیتے ہیں، لیکن وہ منفی جذبات کے بارے میں شکوک وشبہات کا اظہار کم کرتے ہیں۔
اس میں کہا گیا ہے کہ فیصلہ سازی پر اس کے جذباتی اثرات کی وجہ سے ہندوستان میں لوگ جذباتی طور پرمشتعل اور غلط معلومات کے تئیں زیادہ حساس ہوجاتے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جب ہندوستانیوں کو حقیقی خبر دی جاتی ہے تو وہ اسے سچ تسلیم کرتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ غلط معلومات کی وجہ سے درپیش چیلنجز کے باوجودہندوستان میں لوگوں میں سچائی کو پہچاننے کی مضبوط بنیادی صلاحیت ہے۔
مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوستانیوں میں حقیقی خبروں کی شناخت کی درستگی دوسرے ممالک کے برابر ہے۔
اپسوس انڈیا کے منیجنگ ڈائریکٹر (ریسرچ) وویک گپتا نے کہا کہ مثبت خبروں پر عام طور پر منفی خبروں کے مقابلے میں کم سوال اٹھائے جاتے ہیں۔
ایک اچھی لیکن جھوٹی سرخی، جیسے کہ ‘ پریس فریڈم انڈیکس میں ہندوستان سب سے اوپر’، پر یقین کرنے اور بڑے پیمانے پر شیئر کیے جانے کا امکان زیادہ ہوتا ہے، بھلے ہی یہ سچ نہ ہو۔ ‘تمام مقامی اسٹریٹ وینڈرز پر پابندی لگانے کے لیے حکومت کی نئی پالیسی’جیسے منفی طور پر بنائے گئے جھوٹے بیانیےکو اب بھی بغیر کسی سوال کے قبول کیا جا سکتا ہے، کیونکہ لوگ جو کچھ پڑھتے ہیں اس پر ٹھہر کرسوچنے اور ان کا تنقیدی جائزہ لینے کا امکان کم ہوتا ہے۔
گپتا نے کہا، ‘ منفی خبروں کے معاملے میں برطانیہ سب سے زیادہ سوال اٹھاتا ہے… امریکہ زیادہ تحقیقات کے بغیر منفی خبروں پر یقین کرلیتا ہے۔’