سچر کمیٹی کی رپورٹ آنے کے پندرہ سال بعد کے ‘نیو انڈیا’ میں اقلیتی برادریوں بالخصوص مسلمانوں کے مسائل یا حقوق کے بارے میں بات کرنے کو اکثریت کے مفادات پر ‘حملہ’ سمجھا جاتا ہے۔ خود مسلمانوں کے لیے اب سب سے بڑا مسئلہ ان کی جان و مال کی حفاظت کا بن چکا ہے۔
سچر کمیٹی کی رپورٹ کو ڈیڑھ دہائی سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ سال 2006 میں سچر کمیٹی کی رپورٹ اس وقت کی یو پی اے حکومت نے جاری کی تھی، اس وقت کے ہندوستان اور اب کے ہندوستان میں زمین و آسمان کا فرق آگیا ہے۔
یہ محض وقت گزرنے کی ایک عام سی تبدیلی نہیں ہے۔ اس دوران ہندوستان کی سیاست اور سماج کا سفر بہت ہنگامہ خیز اور افراتفری بھرا رہا ہے۔ اب یہ پہلے جیسا نہیں رہ گیا ہے۔ اس نے اپنی تعریف مختلف طریقے سے کی ہے جسے وہ نیا بھارت یا ‘نیو انڈیا’ کہتے ہیں۔
اس نئے ہندوستان میں اقلیتی برادریوں بالخصوص مسلم کمیونٹی کے مسائل یا حقوق کے بارے میں بات کرنا اکثریتی طبقے کے مفادات پر ‘حملہ’ سمجھا جاتا ہے، جسے وہ اپنی زبان میں ‘اپیزمنٹ’ کہتے ہیں۔ ایسے میں اب اس نئے ہندوستان میں سچر کمیٹی کی رپورٹ کا کوئی وارث ہی نہیں بچا ہے۔
خود مسلم کمیونٹی کے لیے اس وقت سب سے بڑا مسئلہ ان کی جان و مال کی حفاظت کا بن گیا ہے۔ اکثریتی اور شدت پسند ہندوتوا کی سیاست نے مسلمانوں کو سیاسی طور پر غیراہم بنا دیا ہے۔ ہندوستانی جمہوریت کے انتخابی کھیل کو محض 80 بنام 20 فیصد تک محدود کر دیا گیا ہے، جس کا کلیدی راگ ‘مسلم اپیزمنٹ’ اور ‘ہندو ٹارچر’ ہے۔
مسلمان اب ‘ووٹ بینک’ بھی نہیں رہے، یہاں تک کہ ان کو اپنا ووٹ بینک سمجھنے والی نام نہاد سیکولر جماعتیں بھی مسلم کمیونٹی کے مسائل پر خاموشی اختیار کر کے اپنی خیریت مناتی ہیں۔ مجموعی طور پر آج دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہندوستان کی سب سے بڑی اقلیتی برادری الگ تھلگ پڑچکی ہے۔
لیکن ان سب کے باوجود سچر کمیٹی کی رپورٹ ڈیڑھ دہائی قبل چہرے پر لکھی ایک ایسی عبارت ہے جسے چاہ کر بھی فراموش کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی مٹایا جا سکتا ہے۔
یہ آزاد ہندوستان میں نصف صدی سے زیادہ کےعرصے میں مسلم کمیونٹی کی سماجی، اقتصادی اور تعلیمی پسماندگی کا تصدیق شدہ اکاؤنٹ فراہم کرتا ہے، اور یہ ہندوستان کے مسلمانوں کی صورتحال پر لکھی جانے والی عبارتوں کے لیے بنیادی نکتہ اور تمہید کی طرح ہے۔
سچر رپورٹ کی اہمیت
سال 2005 میں اس وقت کے وزیر اعظم منموہن سنگھ نے ملک میں مسلمانوں کی سماجی، اقتصادی اور تعلیمی صورتحال کو سمجھنے کے لیے جسٹس راجندر سچر کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی تھی۔
قابل ذکر ہے کہ 30 نومبر 2006 کو سچر کمیٹی کی طرف سے تیار کی گئی یہ بدنام زمانہ رپورٹ ‘ہندوستان کی مسلم کمیونٹی کی سماجی، اقتصادی اور تعلیمی صورتحال’ لوک سبھا میں پیش کی گئی۔ ممکنہ طور پرآزاد ہندوستان میں شاید یہ پہلا موقع تھا جب ملک کے مسلمانوں کی سماجی اور اقتصادی حالت پر ایک سرکاری کمیٹی کی تیار کردہ رپورٹ پارلیامنٹ میں پیش کی گئی تھی۔
اس کے بعد اب یہ رپورٹ ہندوستان میں مسلم کمیونٹی کی سماجی و اقتصادی حالت کی سب سے مستند دستاویز بن گئی، جس کا تذکرہ ہندوستانی مسلمانوں سے متعلق ہر دستاویز میں حوالہ کے طور پر لازمی طور پر کیا جاتا ہے۔
سچر کمیٹی کی رپورٹ ہندوستان میں مسلم سماج کی پسماندگی کو اجاگر کرنے میں پوری طرح کامیاب رہی ہے۔ کمیٹی کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ مسلمان معاشی اور تعلیمی لحاظ سے کس طرح پسماندہ ہیں، انہیں سرکاری ملازمتوں میں مناسب نمائندگی نہیں ملتی اور انہیں بینک سے قرض حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کئی معاملات میں ان کی حالت ایس سی/ ایس ٹی سے بھی خراب ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 6 سے 14 سال کی عمر کے ایک چوتھائی مسلمان بچے یا تو اسکول نہیں جا پاتے یا بیچ میں ہی پڑھائی چھوڑ دیتے ہیں، میٹرک کی سطح پر مسلمانوں کی تعلیمی کامیابی 26 فیصد کی قومی اوسط کے مقابلے 17 فیصد ہے۔ اور صرف 50 فیصد مسلمان مڈل اسکول پورا کرپاتے ہیں جبکہ قومی سطح پر یہ تعداد 62 ہے۔
اسی طرح شہری علاقوں میں اسکول جانے والے مسلم بچوں کی شرح دلت اور درج فہرست قبائل کے بچوں سے کم پائی گئی، یہاں 60 فیصد مسلم بچے اسکولوں کا منہ نہیں دیکھ پاتے اور معاشی وجوہات سے کمیونٹی کے بچےکوبچپن میں کام یا ہنر سیکھنے میں لگا دیا جاتا ہے۔
اس رپورٹ میں بتایا گیا تھاکہ سرکاری ملازمتوں میں مسلم کمیونٹی کی نمائندگی صرف 4.9 فیصد ہے، اس میں بھی وہ زیادہ تر نچلے عہدوں پر ہیں، اعلیٰ انتظامی خدمات یعنی آئی اے ایس، آئی ایف ایس اور آئی پی ایس میں ان کی شرکت صرف 3.2 فیصد تھی۔
جائیداد اور خدمات تک رسائی کے معاملے میں بھی صورتحال کمزور پائی گئی تھی۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق دیہی علاقوں میں 62.2 فیصد مسلم آبادی کے پاس کوئی زمین نہیں ہے، جبکہ اس کا قومی اوسط 43 فیصد ہے۔
کمیٹی کی طرف سے مسلم کمیونٹی کی حالت کو بہتر بنانے کے لیے کئی تجاویز پیش کی گئی تھیں،مثلاً مسلم اکثریتی علاقوں میں اسکول، آئی ٹی آئی اور پولی ٹیکنک ادارے کھولنا، اسکالرشپ دینا، بینک کی شاخیں کھولنا، قرض کی سہولیات فراہم کرنا، وقف املاک کا بہتر استعمال وغیرہ، ایکوئل آپرچونیٹیز کمیشن (مساوی مواقع کے لیے کمیشن)، نیشنل ڈیٹا بینک اور اسسمنٹ اینڈ مانیٹرنگ اتھارٹی کی تشکیل وغیرہ۔
سچر رپورٹ کے بعد جسٹس رنگناتھ مشرا اور امیتابھ کنڈو کمیٹی کی رپورٹ بھی آئی ہیں جو سچر رپورٹ کے نتائج کی تصدیق کرتی ہے۔
سچر رپورٹ کی اہمیت ہندوستانی مسلمانوں کی حقیقی سماجی و اقتصادی حالت کو ظاہر کرنے کے تناظر میں ہے۔ اس نے اس حقیقت کو قائم کیا کہ ہندوستانی مسلمان بھی دلت اور آدی واسیوں کی طرح تعلیمی اور معاشی طور پر سب سے پسماندہ اور محروم طبقات میں سے ایک ہیں۔
رپورٹ کی سب سے بڑی کامیابی یہ رہی ہے کہ اس نے مسلم کمیونٹی کی توجہ ان کی اپنی پسماندگی کی طرف مبذول کرائی ہے اور ایک طبقہ کے طور پر ان کے اندر اپنے شہری حقوق کے سلسلے میں بیداری میں اضافہ کیا ہے۔ ایک لحاظ سے سچر کمیٹی کی رپورٹ ‘نیو انڈیا’ کے قیام سے پہلے مسلمانوں کے لیے ان کے شہری حقوق کے مطالبات کا ایک بڑا ہتھیار بن چکی تھی۔
آج بھی سچر رپورٹ ہندوستانی مسلمانوں کے حاشیے پر چھوٹ جانے کے بارے میں ایک مستند سرکاری دستاویز ہے۔ جس کی وجہ سے ‘نیو انڈیا’ کے حکمران بھی اسے نظر انداز تو کر سکتے ہیں لیکن ان کے لیے اس سے پیچھا چھڑانا آسان نہیں ہے۔
پندرہ سال بعد کی صورتحال
ہم 2022 میں ہیں، آج سچر رپورٹ کے ڈیڑھ دہائی بعد بھی مسلم کمیونٹی کی حالت میں کوئی خاص فرق نظر نہیں آتاہے۔ 2008 کے بعد سے قومی سطح پر مسلم کمیونٹی کی سماجی، اقتصادی اور تعلیمی حیثیت پر ہونے والی پیش رفت کو جاننے کے لیے کوئی مطالعہ نہیں کیا گیا ہے۔
اس دوران تین ریاستوں مہاراشٹر، مغربی بنگال اور کرناٹک میں مسلم کمیونٹی کی صورتحال کے حوالے سے رپورٹس جاری کی گئی ہیں، جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ سچر کے بعد ان تینوں ریاستوں میں مسلم کمیونٹی کی سماجی، معاشی اور تعلیمی حالت میں کوئی خاص بہتری نہیں آئی ہے۔
سال 2018 میں شائع سابق آئی پی ایس افسر عبدالرحمٰن کی کتاب ‘ڈینیل اینڈ ڈیپریویشن: انڈین مسلم آفٹر دی سچر کمیٹی اینڈ رنگناتھ مشرا کمیشن رپورٹس’ اس بات کو سلسلہ وار طریقے سے پیش کرتی ہے کہ سچر کمیٹی کی رپورٹ کی سفارشات کو لاگو کرنے کے لیے حکومتوں کی جانب سے سنجیدہ کوششیں نہیں کی گئی ہیں۔آج بھی مسلم کمیونٹی خواندگی کی شرح، اسکولی تعلیم کے اوسط سال، گریجویٹس کی فیصد، اعلیٰ انتظامی خدمات میں شرکت وغیرہ کے معاملے میں بہت پیچھے ہے۔
اسی طرح سے کسی بھی دوسرے سماجی گروہ کے مقابلے مسلمانوں کی بے زمینی (لینڈ لیس نیس) کی سطح زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ ملک کے اعلیٰ کارپوریٹس کے بورڈز اور امیر ترین ہندوستانیوں کی فہرست میں مسلمانوں کی موجودگی دلتوں اور آدی واسیوں کی طرح نہ ہونے کے برابر ہے۔
سیاسی نمائندگی کے لحاظ سے 2014 میں ہندوستانی پارلیامنٹ میں مسلم اقلیتوں کی نمائندگی اب تک کی سب سے نچلی سطح پر پہنچ گئی ہے۔
سچر رپورٹ کے جوازاور اقلیت کی تعریف پر سوال
جولائی 2021 میں، ‘سناتن ویدک دھرم’ نامی ایک نامعلوم تنظیم نے سپریم کورٹ میں ایک عرضی دائر کی ہے، جس میں سچر کمیٹی کی رپورٹ کی صداقت پر سوال اٹھاتے ہوئے کمیٹی کی سفارشات پر روک لگانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
عرضی میں کہا گیا ہے کہ سچر کمیٹی کی تشکیل قواعد کے خلاف عمل میں آئی تھی کیونکہ یہ کابینہ کا فیصلہ نہیں تھا اور اس وقت کے وزیر اعظم منموہن سنگھ نے اس کمیٹی کی تشکیل کا فیصلہ کیا تھا۔ اس درخواست میں یہ دلیل بھی دی گئی ہے کہ آئین کے آرٹیکل 14 اور 15 کے مطابق کسی بھی کمیونٹی کے ساتھ الگ سے سلوک نہیں کیاجا سکتا۔
عرضی کے مطابق، پوری مسلم کمیونٹی کو کسی بھی طرح سےتعلیمی اور سماجی سطح پر پسماندہ ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ ہندوستان میں ان کی حالت بہت بہتر ہے۔ فلم انڈسٹری، سرکاری خدمات اور سیاست میں مسلمان کئی اہم عہدوں پر تعینات ہیں، اس لیے وہ کسی بھی طرح کی مراعات یا منافع کے حقدار نہیں ہیں۔
غور طلب ہے کہ ہندوتوا تنظیمیں شروع سے ہی سچر کمیٹی کی کرتی آ رہی ہیں۔ سنگھ کے مفکر اور فی الحال بی جے پی سے راجیہ سبھا کے رکن راکیش سنہا نے سچر رپورٹ کو نشانہ بناتے ہوئے ‘سچر کمیٹی: کانسپریسی ٹو ڈیوائیڈ دی نیشن’ کے عنوان سے ایک کتاب بھی لکھی ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے سچر کمیٹی کی رپورٹ کے آئینی جواز پر بھی سوال اٹھایا تھا۔
موجودہ دور کی حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی نے شروع سے ہی سچر رپورٹ کی مخالفت کی ہے۔ مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان نے تو باقاعدہ اسمبلی میں اس رپورٹ کو فرقہ واریت کو فروغ دینے والی’ رپورٹ قرار دیتے ہوئے اس کی سفارشات کو نافذ کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ گجرات کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے نریندر مودی بھی اس رپورٹ پر اپنا شدید احتجاج درج کراتے رہے ہیں۔
اسی طرح سے ہندوتوا تنظیمیں ملک میں اقلیت کی تعریف کو تبدیل کرنا چاہتی ہیں، اس سلسلے میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی دہلی یونٹ کے رہنما اشونی کمار اپادھیائے کی جانب سے سپریم کورٹ میں ایک عرضی دائر کی گئی تھی جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ جہاں ہندوؤں کی تعداد کم ہے وہاں ہندوؤں کو اقلیتی برادریوں کے طور پر درج کیا جانا چاہیے۔
درخواست میں قومی اقلیتی کمیشن اور اقلیتی تعلیم کے قومی کمیشن جیسے اداروں کی قانونی حیثیت پر بھی سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ بعد میں مرکزی حکومت کے جواب کے بعد سپریم کورٹ نے اس درخواست کو خارج کر دیا۔
قانونی امور کے ماہر فیضان مصطفےٰ نے کہا کہ اس تنازعہ نے واضح کر دیا ہے کہ مسلمانوں کو اقلیت کا درجہ دینا اپیزمنٹ کی سیاست نہیں ہے۔ بی جے پی کا یہ الزام کہ مسلمانوں کو اقلیت کا درجہ دینااپیزمنٹ کی سیاست ہے، اسے بی جے پی حکومت نے ہی مرکز میں حلف نامہ داخل کرکے مسترد کردیا۔ اقلیتی کمیشن اپیزمنٹ کی سیاست کی نمائندگی کرتا ہے، اس الزام کو بھی بی جے پی کے حلف نامہ نے خارج کر دیا۔
یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ایک جمہوری، تکثیری ملک میں اقلیتوں کے حقوق ضروری ہیں، اس لیے ہندوستان کے آئین میں لسانی اور مذہبی بنیادوں پر اقلیتوں کے تحفظ کی بات کی گئی ہے اور اقلیتوں کو کچھ بنیادی حقوق دیے گئے ہیں، جن میں مذہبی آزادی یعنی اپنے مذہب کی پیروی کے ساتھ ساتھ اقلیتوں کو اپنے حساب سے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور چلانے کا حق حاصل ہے۔
حاشیے سے بائیکاٹ کی طرف
پچھلے سات سالوں میں سچر کمیٹی کی سفارشات کو لاگو کرنے کا معاملہ بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ آج ہندوستان میں مسلم کمیونٹی اپنے وجود کی جنگ لڑنے پر مجبور ہے۔ حاشیے سے بائیکاٹ کا یہ سفر نہ صرف سیاسی ہے بلکہ یہ سماجی، معاشی، تعلیمی، ثقافتی، مذہبی اور قانونی سطح پر بھی ہے۔
دراصل، 2014 میں مرکز میں بی جے پی کی جیت کے بعد سے مسلمان سیاسی ‘اچھوت’ بن چکے ہیں اور اب حکمراں پارٹی کے ساتھ ساتھ اپوزیشن پارٹیاں بھی ان کے بارے میں بات نہیں کرنا چاہتی ہیں۔ یہ ایک ایسی تبدیلی ہے جس نے ایک طرح سے پہلےسے ہی سیاسی اور انتظامی نمائندگی کے فقدان کی شکار مسلم کمیونٹی کو تقریباً لاوارث بنادیا ہے۔
سال 2019 میں لوک سبھا انتخابات میں کامیابی کے بعد مرکز کے اقتدار پر دوبارہ قبضہ کرنے والی مودی حکومت نے یکے بعد دیگرے کئی ایسے قانونی اور آئینی اقدامات کیے جو کہ ایک اکثریتی ملک بنانے کی جانب بنیادی قدم ہے۔
اس میں بنیادی طور پر جموں و کشمیر سے دفعہ 370 کا خاتمہ، رام مندر کی تعمیر کا قانونی فیصلہ، شہریت ترمیمی ایکٹ اور یکساں سول کوڈ کی سمت میں تین طلاق قانون اور چائلڈ میرج ایکٹ میں ترمیم کی تجویز جیسے اقدامات شامل ہیں۔
اس کڑی میں بی جے پی مقتدرہ ریاستی حکومتوں نے گائے کے ذبیحہ پر پابندی لگانے اور نام نہاد لو جہاد کو روکنے کے لیے تبدیلی مذہب مخالف قوانین بنائے، جن کے نشانے پر بنیادی طور پر اقلیتی برادری کے لوگ ہیں۔ شہریت ترمیمی بل کے دوران ہونے والے مظاہروں کو دبانے کے لیے تشدد اوریواے پی اے کا قانونی سہارا لیا گیا۔
آج اکثریتی سیاست نے فرقہ وارانہ پولرائزیشن کو تیز کر دیا ہے۔ ‘وہ اور ہم’ کے احساس نے معاشرے کو اس قدر تقسیم کر دیا ہے کہ اب مسلمانوں کو دشمن یا رکاوٹ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
آج ہندوتوا تنظیموں کی طرف سے منعقد ‘دھرم سنسد’ میں مسلمانوں کی اقلیتی حیثیت کو ختم کرنے اور ان کے ‘قتل عام’ کی اپیل کی جانے لگی ہے۔ 1947 اور 2014 کے درمیان کے وقت کو اس طرح بیان کیا جا رہا ہے کہ اس دوران کانگریس حکومتوں کی طرف سے مسلمانوں کی ‘اپیزمنٹ’ اور ہندوؤں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا گیا تھا۔
سماج میں فرقہ وارانہ کشیدگی کی آگ کو لگاتارہوا دیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے سماجی تقسیم مسلسل اور مستقل ہوتی جارہی ہے۔ ایک کے بعد ایک نئے نئے تفرقہ انگیز ایجنڈے سامنے لائے جا رہے ہیں جن کا بظاہر کوئی خاتمہ دکھائی نہیں پڑتا ہے۔
حالیہ دنوں میں حجاب تنازعہ، فلم ‘کشمیر فائلز’ کے بہانے پوری مسلم کمیونٹی کو نشانہ بنانے کی کوشش، مساجد سے لاؤڈ اسپیکر ہٹانے کی مہم اور ہنگامہ کے واقعات سامنے آئے۔ یہاں بلڈوزر کے ذریعے مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہوئے فوری انصاف کیا جا رہا ہے، جو دراصل فرقہ وارانہ ‘انصاف’ ہے۔
خوفناک مستقبل
ہندوستان اپنی آزادی کے 75 ویں سال میں ہے، اس مقام پر مسلم اقلیتی برادری کی مسلسل تذلیل، علیحدگی اور حاشیے سے بائیکاٹ کی طرف بڑھنا ہندوستان کے جمہوری مستقبل کے لیے اچھا اشارہ نہیں ہے۔ اقلیتی برادریوں میں حکومتی مشینری کے تئیں خوف اور عدم اعتماد کا احساس گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ اگر یہ صورتحال جاری رہی تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہےکہ یہ ہندوستان کو کس طرف لے جائے گا۔
سچر کمیٹی کی رپورٹ نے مسلمانوں، ملک، سیاسی قیادت اور سرکاری ایجنسیوں کو شناخت کے ایشو سے آگے ان کے حقیقی مسائل کی طرف بڑھنے کا ایک موقع فراہم کیا تھا۔ بدقسمتی سے اس موقع کو گنوا دیا گیا ہے۔
(جاوید انیس آزاد صحافی اور سماجی کارکن ہیں۔)