غیر سرکاری تنظیم ‘آکسفیم انڈیا’ اور نیوز ویب سائٹ ‘نیوز لانڈری’ کی جانب سے اپریل 2021 سے مارچ 2022 کی مدت کے لیےتیارکی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مرکزی دھارے کے کسی بھی میڈیا گھرانے میں ایس سی–ایس ٹی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد قائدانہ رول میں نہیں تھے۔
نئی دہلی: پرنٹ، ٹیلی ویژن اور ڈیجیٹل پلیٹ فارم سمیت ہندوستانی میڈیا میں قائدانہ رول والے عہدوں میں سے تقریباً 88 فیصدی 2021 -22 میں جنرل کٹیگری کے لوگوں پاس تھے۔ حال ہی میں ایک رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ 2018-19 میں بھی صورتحال ایسی ہی تھی، جو ہندوستانی میڈیا میں ذات پات کی نمائندگی کے معاملے میں کوئی اضافہ نہیں دکھا رہا ہے۔
غیر سرکاری تنظیم ‘آکسفیم انڈیا’ اور نیوز ویب سائٹ ‘نیوز لانڈری’ نے اپریل 2021 سے مارچ 2022 کے درمیان ایک مطالعہ کیا تھا، جس کا عنوان —’ہو ٹیلس آور اسٹوریز میٹرس: رپریزنٹیشن آف مارجنلائزڈ کاسٹ گروپس ان انڈین میڈیا ‘تھا۔
مطالعہ میں مختلف میڈیا اداروں میں الگ الگ ذاتوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی نمائندگی کا تجزیہ کرنے کے لیے ‘بائی لائن کاؤنٹ’ کا طریقہ استعمال کیا گیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دی گئی مدت کے دوران پرنٹ، ٹی وی اور ڈیجیٹل میڈیا آؤٹ لیٹ میں 218 قائدانہ عہدوں کا سروے کیا گیا۔ جن میں سے 191 عہدوں (88 فیصد) پر جنرل کٹیگری کے لوگوں کا قبضہ تھا۔
رپورٹ میں کہا گیا، کسی بھی مرکزی دھارے کے میڈیا ہاؤس میں ایس سی/ایس ٹی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے لوگ قائدانہ رول میں نہیں تھے۔ دو متبادل میڈیا پلیٹ فارم میں قائدانہ رول میں ایس سی /ایس ٹی کے دو لوگ تھے۔
سال 2018-19 میں بھی حالات الگ نہیں تھے۔ نیوز روم میں قائدانہ رول والے 121 عہدوں میں سے 106 (88 فیصدی ) پراشرافیہ کمیونٹی کے صحافیوں کا قبضہ تھا۔ 2019 کا مطالعہ اکتوبر 2018 سے مارچ 2019 کے بیچ اسی طریقہ کار کو استعمال کرتے ہوئے کیا گیا تھا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ تمام طرح کے میڈیا میں اینکروں اور قلمکاروں جیسے عہدوں پر بھی جنرل کیٹیگری کے لوگوں کو بہت زیادہ نمائندگی دی گئی تھی۔
پرنٹ میڈیا
پرنٹ میڈیا کے بارے میں بات کریں تو انگریزی اور ہندی اخبارات میں 60 فیصد سے زیادہ بائی لائن اسٹوری جنرل کٹیگری (اشرافیہ) کے لوگوں نے لکھے تھے۔ 5 فیصد سے بھی کم مضامین ایس سی ایس ٹی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افرادنے لکھے تھے اور 10 فیصد مضامین دیگر پسماندہ طبقات (اوبی سی) سے متعلق تھے۔
تقریباً تمام رسالوں میں آدھے سے زیادہ مضامین ‘اشرافیہ’ کے صحافیوں نے لکھے تھے۔ کسی بھی میگزین میں ایس سی کی نمائندگی 10 فیصد سے زیادہ نہیں تھی اور ایس ٹی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی موجودگی یا تو صفر تھی یا نہ ہونے کے برابر تھی۔
ہندی اخبارات کا بھی یہی حال ہے۔ مطالعہ میں کہا گیا،او بی سی صحافیوں کی نمائندگی بہت کم تھی، اس کے بعد ایس سی اور ایس ٹی صحافی تھے، جو کہ بائی لائن اور حاضری کا صرف 0-6 فیصد تھا۔
ٹیلی ویژن
ٹی وی جرنلزم کے بارے میں بات کریں تو 55.6فیصد انگریزی نیوز اینکرز ‘اشرافیہ’ سے تھے، جبکہ ایس سی اور ایس ٹی کمیونٹی سے کوئی اینکر نہیں تھا۔ انگریزی نیوز چینلوں میں او بی سی کمیونٹی کے دواینکر کی نمائندگی 11.1 فیصد تھی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مطالعہ کیے گئے سات چینلوں میں سے چار میں او بی سی کمیونٹی کا کوئی اینکر نہیں تھا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پروگراموں میں اپنے خیالات کا اظہار کرنے کے لیے بلائے گئے پینلسٹ میں بھی پسماندہ ذاتوں کے لوگوں کی نمائندگی کم ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے، ہندی اور انگریزی کے پرائم ٹائم شو کے تمام پینلسٹ میں سے 60 فیصد سے زیادہ کا تعلق جنرل کٹیگری سے تھا۔ ہندی اور انگریزی میں مباحثوں میں شامل 5 فیصد سے بھی کم پینلسٹ ایس سی/ایس ٹی کمیونٹی سے تھے۔
ڈیجیٹل میڈیا
ڈیجیٹل میڈیا میں، ‘نیوزلانڈری’ انگریزی میں 68.5 فیصدی بائی لائن ‘اشرافیہ’ کے صحافیوں کی شائع ہوئیں، جو کہ سب سے زیادہ تھی۔ اس کے بعد فرسٹ پوسٹ (61 فیصد) اور اسکرول (54 فیصد) کا نمبر تھا ہے۔
دی وائر کے لیےچھپے تمام مضامین میں سے نصف جنرل کٹیگری کے صحافیوں نے لکھے تھے، جبکہ 12.4 فیصد او بی سی کے صحافیوں نے، 3.2 فیصد ایس سی کمیونٹیز اور 0.6 فیصد ایس ٹی کمیونٹی کے صحافیوں نے لکھے تھے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ‘موک نایک’ واحد ڈیجیٹل پلیٹ فارم تھا، جس میں لکھے گئے زیادہ تر مضامین ایس سی کمیونٹی کے صحافیوں کے تھے۔
رپورٹ کے لیے 9 ویب سائٹس کا سروے کیا گیا۔ جن میں ‘ایسٹ موجو’، ‘فرسٹ پوسٹ’، ‘نیوز لانڈری’، ‘اسکرول’، ‘دی وائر’، ‘دی نیوز منٹ’، ‘سوراجیہ’، ‘دی موک نایک’ اور ‘دی کوئنٹ’ شامل ہیں۔
اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔