ایشیا کا نوبیل مانا جانے والا میگسیسے ایوارڈ رویش کمار کو ان کی صحافتی خدمات کے لیے دیا گیا ہے۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ، دنیا صحت اور معاشی بنیادوں پر عدم مساوات کو دیکھتی ہے ، مگر اب وقت آگیا ہے کہ ہم علم کی بنیاد پر بھی عدم مساوات کودیکھیں ۔
نئی دہلی : آج فلپائن کے دارالحکومت منیلا میں سینئر صحافی اوراین ڈی ٹی وی کے منیجنگ ایڈیٹر رویش کمار کو ریمن میگسیسے ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اس موقع پر منتظمین کی جانب سے رویش کمار کی زندگی اور ان کےصحافتی کیریئر کے بارے میں بتایا گیا۔ اس موقع پر رویش کمار نے کہا کہ،ہر جنگ جیتنے کے لئے نہیں لڑی جاتی ہے …کچھ جنگیں صرف اس لیےلڑی جاتی ہیں کہ دنیا کو بتایا جاسکےکہ کوئی ہے جو لڑ رہا ہے ۔
رویش نے مزید کہاکہ ،جب سے ریمن میگسیسےایوارڈ کا اعلان ہوا ہے ، میرے آس پاس کی دنیا بدل گئی ہے۔ جب سے میں منیلا آیا ہوں ، آپ کی مہمان نوازی نے میرا دل جیت لیا ہے۔آپ نے پہلے گھر بلایا ، مہمان سے فیملی کا حصہ بنایا اور تب آج سب ایوارڈ کے لیے جمع ہوئے ہیں ۔ عام طور پر ایوارڈ کے دن دینے والے اور لینے والے ملتے ہیں اور پھر دونوں کبھی نہیں مل پاتے۔آپ کے یہاں ایسا نہیں ہے۔ آپ نے اس احساس سے بھر دیا ہے کہ ضرورکچھ اچھا کیا ہوگا ، تب ہی آپ نے چنا ہے۔ ورنہ ہم سب عام لوگ ہیں۔ آپ کی محبت نے مجھے پہلے سے زیادہ ذمہ دار اور خاکساربنادیا ہے ‘۔
رویش کمار نے کہا کہ، دنیا صحت اور معاشی بنیادوں پر عدم مساوات کو دیکھتی ہے ، مگر اب وقت آگیا ہے کہ ہم علم کی بنیاد پر بھی عدم مساوات کودیکھیں ۔ آج جب اچھی تعلیم صرف بعض شہروں تک ہی محدود ہے تو ہم یہ تصور بھی نہیں کرسکتے کہ شہروں اور دیہاتوں میں اس کے کیا خطرناک نتائج ہورہے ہیں۔ظاہر ہے وہاٹس ایپ یونیورسٹی کا پروپیگنڈہ ہی ان کے لئے علم کا ذریعہ ہے۔ نوجوانوں کو اچھی تعلیم حاصل کرنے نہیں دیا گیا ،اس لیے ہم ان کو پوری طرح سے قصواروارنہیں مان سکتے ۔ اس تناظر میں میڈیا کے بحران کو سمجھنا اور بھی اہم ہوجاتا ہے۔ اگر میڈیا بھی وہاٹس ایپ یونیورسٹی کا کام کرنا شروع کردے تو معاشرے پر اس کا کتنا برا اثر پڑے گا۔اچھی بات ہے کہ ہندوستان کے لوگ سمجھنے لگے ہیں۔ اس لیے اس وقت ، مجھے آنے والی مبارکبادمیں مبارکباد کے علاوہ ، میڈیا کی’سرکشی’ پر بھی خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے۔ اس لئے میں اپنے لئے بہت خوش ہوں ، لیکن جس پیشے کی دنیاسے آتا ہوں اس کی حالت بھی مجھے اداس بھی کرتی ہے۔
ہندوستانی میڈیا بحران میں ہے اور یہ بحران تنظیمی ہے ، اچانک ایسا نہیں ہوا ، یہ رینڈم بھی نہیں ہے۔ صحافی ہونا اب ایک انفرادی کوشش ہوگئی ہے ، کیونکہ نیوز آرگنائزیشن اور ان کے کارپوریٹ ایگزیکٹواب ایسے صحافیوں کو نوکری چھوڑنے پر مجبور کررہے ہیں جو سمجھوتہ نہیں کرتے۔ پھر بھی یہ دیکھنا حوصلہ افزا ہے کہ اور بھی ہیں جو اپنی زندگی اور نوکری کی پروا کیے بغیر صحافت کر رہے ہیں۔ بہت ساری خواتین صحافی جو آزادانہ صحافت سے زندگی بسر کررہی ہیں وہ آواز اٹھا رہی ہیں۔ جب کشمیر میں انٹرنیٹ بند کیا گیا ، پورا میڈیا حکومت کے ساتھ چلا گیا ، لیکن کچھ اور لوگ بھی تھے جنہوں نے سچ دکھانے کی ہمت کی اور ٹرول آرمی کا سامنا کیا۔ لیکن بڑا سوال یہ ہے کہ تنظیموں اور ان کے رہنماؤں سے کب سوال کیے جائیں گے؟
رویش کمار نے کہا کہ ،کیا ہم نیوز رپورٹنگ کا تقدس بحال کرسکتے ہیں۔ مجھے بھروسہ ہے کہ ناظرین رپورٹنگ میں سچائی ، مختلف پلیٹ فارمز اور رمختلف آواز وں کو اہمیت دیں گے۔ جمہوریت اسی وقت پنپ سکتی ہے جب تک کہ خبروں میں سچائی ہو۔ میں ریمن میگسیسے ایوارڈ قبول کرتا ہوں۔ کیونکہ یہ ایوارڈ مجھے نہیں دیا گیا بلکہ ہندی کے ان تمام قارئین اور ناظرین کو دیا گیا، جن کے علاقے علم کی بنیاد پر عدم مساوات زیادہ گہری ہے ، اس کے باوجود اچھی معلومات اور تعلیم کی بھوک ان کے اندر شدید ہے۔ بہت سارے نوجوان صحافی اس کو سنجیدگی سے دیکھ رہے ہیں۔ وہ صحافت کے اس مطلب کو بدل دیں گے جو آج ہوگیا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ وہ لڑائی ہار جائیں ، لیکن لڑنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ ہمیشہ جیتنے کے لئے ہی نہیں یہ بتانے کے لئے بھی لڑا جاتا ہے کہ کوئی تھا جو میدان میں اترا تھا۔