پیگاسس پروجیکٹ: لیک ڈیٹابیس کی تفتیش کے بعد سامنے آیا ہے کہ سرکاری پالیسی کو چیلنج دینے والے دو کرنل، را کے خلاف کیس دائر کرنے والے ایک ریٹائرڈ انٹلیجنس افسر اور بی ایس ایف کے افسران کےنمبر اس فہرست میں ہیں،جن کی پیگاسس اسپائی ویئر کے ذریعے ممکنہ نگرانی کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔
(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/دی وائر)
نئی دہلی:نگرانی سے متعلق لیک ہوئے ڈیٹابیس میں فوج، بی ایس ایف اور ہندوستان کی خفیہ ایجنسی ریسرچ اینڈ اینالسس ونگ (را) کے افسران کے بھی نمبر شامل ہیں۔ ان کی نگرانی کیے جانے کاامکان ہے۔
پیگاسس پروجیکٹ، جس میں دی وائر بھی شامل ہے، کے تحت اس کا انکشاف ہوا ہے۔
نگرانی کی اس ممکنہ فہرست میں سابق بی ایس ایف چیف کے کے شرما، بی ایس ایف کے انسپکٹر جنرل پولیس جگدیش میتھانی، را کے سینئر افسر جتیندر کمار اوجھا (اب ریٹائرڈ)، کرنل مکل دیو کے نمبر شامل ہیں۔
فرانس واقع میڈیا نان پرافٹ فاربڈین اسٹوریز نے سب سے پہلے 50000 سے زیادہ ان نمبروں کی فہرست حاصل کی تھی، جن کی اسرائیل کے این ایس او گروپ کے ذریعےبنے پیگاسس اسپائی ویئر کے ذریعے نگرانی کیے جانے کاامکان ہے۔ اس میں سے کچھ نمبروں کی ایمنسٹی انٹرنیشل نے فارنسک جانچ کی،جس میں یہ پایا گیا کہ ان پر پیگاسس کے ذریعے حملہ کیا گیا تھا۔
فاربڈین اسٹوریز نے اس ‘نگرانی فہرست’ کو دی وائر سمیت دنیا کے 16میڈیا اداروں کے ساتھ ساجھا کیا، جنہوں نے پچھلے ایک ہفتے میں ایک کے بعد ایک بڑے انکشاف کیے ہیں۔ اس پوری رپورٹنگ کو ‘پیگاسس پروجیکٹ’ کا نام دیا گیا ہے۔
ہندوستان میں ممکنہ نگرانی کے دائرے میں رہےصحافیوں، رہنماؤں، وزیروں، سماجی کارکنوں، جانچ ایجنسی کے افسروں، کشمیر کے رہنماؤں وغیرہ کے بعد اب سیکیورٹی ایجنسیوں کے افسروں کے نام بھی سامنے آئے ہیں۔
دستاویزوں سے پتہ چلتا ہے کہ ان لوگوں پر نگرانی کرنے کامنصوبہ ایسےوقت پر بنایا گیا جب وہ کسی حساس کام یا منصوبہ سے وابستہ تھے۔
کے کے شرما اس وقت سرخیوں میں چھا گئے تھے جب 11 فروری 2018 کو انہوں نے بطور بی ایس ایف چیف کلکتہ میں آر ایس ایس سے وابستہ ایک تنظیم کے پروگرام میں شرکت کی تھی۔ اس کولےکر ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی)نے کافی ناراضگی ظاہر کی تھی اور پارٹی کے ایم پی ڈیریک و براین نے ٹوئٹ کرکے کہا تھا کہ وہ اس معاملے کو وزارت داخلہ تک لے جائیں گے۔
اس معاملےکے تقریباً ایک مہینے بعد شرما کے نمبر کو اس فہرست میں ڈال دیا گیا، جن کی ممکنہ نگرانی کامنصوبہ بنایا گیا تھا۔
چونکہ شرما کے فون کا فارنسک ٹیسٹ نہیں کیا گیا ہے، اس لیےواضح طور پریہ بتا پانا ممکن نہیں ہے کہ ان کی واقعی میں نگرانی کی گئی تھی یا نہیں۔ حالانکہ اس فہرست میں ان کے تین نمبروں کا پایا جانا یہ دکھاتا ہے کہ نگرانی کے امکانات سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔
شرما کے ریٹائر ہونے کے بعدالیکشن کمیشن نے لوک سبھا انتخاب کے دوران انہیں مغربی بنگال اور جھارکھنڈ کا سینٹرل پولیس آبزرو بنایا تھا۔ حالانکہ ٹی ایم سی نے آر ایس ایس سے وابستہ تنظیم کے پروگرام میں ان کی شرکت کا حوالہ دیتے ہوئے اس کی سخت مخالفت کی۔
اس کی وجہ سے دو دن بعد کمیشن نے انہیں ہٹاکر ان کی جگہ وویک دوبے نام کے ایک دوسرے ریٹائرڈ آئی پی ایس افسر کی تقرری کر دی۔
اسی طرح نگرانی فہرست میں بی ایس ایف کے انسپکٹر جنرل پولیس آف پولیس جگدیش میتھانی کا بھی نام دیکھنے کو ملتا ہے۔ ان کا نمبر بھی شرما کے وقت ہی اس فہرست میں ڈالا گیا تھا۔
میتھانی اس وقت آسام میں تعینات کیے گئے ہیں اور وہ وزارت داخلہ کے جامع انٹیگریٹڈ بارڈر منیجمنٹ سسٹم (سی آئی بی ایم ایس) پروجیکٹ یا اسمارٹ فینسنگ سے جڑے رہے ہیں۔
اکانومک ٹائمس کی سال 2018 کی رپورٹ کے مطابق سی آئی بی ایم ایس کا خاکہ میتھانی نے ہی تیارکیا تھا۔ شرما اور میتھانی دونوں نے ہی دی وائر کے بھیجے گئے سوالوں کا جواب نہیں دیا۔
اس ممکنہ نگرانی کے نشانے سے خفیہ ایجنسی را بھی اچھوتی نہیں ہے۔ اس میں را کےسابق سینئرافسر جتیندر کمار اوجھا اور ان کی بیوی کے نمبر شامل ہیں۔
سال2013 اور 2015 کے بیچ اوجھا دہلی میں را کی اکادمی میں ہندوستانی جاسوسوں کو ٹریننگ دیتے تھے۔ حالانکہ سال 2018 میں انہیں وقت سے پہلے ہی عہدےسے ہٹا دیا گیا تھا، جسے انہوں نے سینٹرل ایڈمنسٹریٹو ٹربیونل(کیٹ)میں چیلنج دیا۔
یہاں سے انہیں راحت نہیں ملی،جس کے بعد انہوں نے دہلی ہائی کورٹ کا رخ کیا، جہاں فی الحال ان کا معاملہ زیرالتوا ہے۔ فرسٹ پوسٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق اوجھا کو ممکنہ طور پرموجودہ را چیف سامنت گوئل کی وجہ سے ہٹایا گیا تھا۔
انہوں نے دی وائر سے کہا، ‘یہ پوری طرح سے مجرمانہ معاملہ ہے، بالخصوص میری بیوی کے فون کو نگرانی کے دائرے میں لانا۔ مجھے شبہ ہے کہ یہ کام مجرمانہ طور پرافسروں کے اشارے پر مجھ پر نفسیاتی دباؤ لانے کے مقصد سے کیا جا رہا ہے، لیکن میں اپنا کیس لڑتا رہوں گا۔’
ان کے ساتھ ہی فوج کے کم از کم دو افسروں کے نمبراس ممکنہ نگرانی کی فہرست میں شامل ہیں۔ اس میں سے ایک کرنل مکل دیو ہیں،جو کہ اس وقت خبروں میں آ گئے تھے، جب انہوں نے سال 2017 میں سرکار کی جانب سے پرامن علاقوں میں تعینات افسروں کے لیے مفت راشن ختم کرنے کے فیصلے کو لےکرسکریٹری دفاع کو قانونی نوٹس بھیجا تھا۔
وہ اس وقت جودھپور واقع 12 کور میں ڈپٹی جج ایڈووکیٹ جنرل کےعہدے پر تعینات تھے۔ انہوں نے کہا، ‘مجھے یہ جان کر حیرانی ہے کہ ایسا ہو سکتا ہے۔ میری نظر میں اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ انہیں شاید یہ پسند نہیں آیا کہ میں نے لگاتار ہندوستانی فوج کی بھلائی کے لیے آواز اٹھائی۔ اس سرکار میں جو بھی حقیقی خدشات کو اٹھاتا ہے، اسے شبہ کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔’
اس کے علاوہ فوج کے قانونی محکمہ میں تعینات رہے کرنل امت کمار کا بھی نمبر اس فہرست میں درج ہے۔ کمار کو اگست 2018 میں جموں اور کشمیر کےہیڈکوارٹر میں ایک قانونی افسر کےطور پر تعینات کیا گیا تھا۔
نگرانی ڈیٹابیس میں ان کا نمبر آنے سے کچھ مہینے پہلے انہوں نے 356فوجی اہلکاروں کی جانب سے اے ایف ایس پی اے (آفسپا) کو لےکر سپریم کورٹ میں ایک عرضی دائر کی تھی، جس میں انہوں نے دلیل دی تھی کہ ‘انسانی حقوق کی آڑ میں دہشت گرانہ فعل میں شامل لوگوں کو بچانے کا کام نہیں کیا جانا چاہیے۔’
اے ایف ایس پی اے ڈسٹربڈیا شدت پسند متاثرہ علاقوں میں خدمات انجام دینے والے فوجی اہلکاروں کو قانونی چارہ جوئی سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔
کمار نے کہا کہ انہیں پتہ تھا کہ 2020 سے ان پر نظر رکھی جا رہی ہے، لیکن یہ جان کر حیران ہیں کہ یہ سب 2018 میں ہی شروع ہو گیا تھا۔انہوں نے دی وائر کو بتایا،‘میں غدار نہیں ہوں۔ انہیں میرے فون سے کیا ملےگا؟ میرا فون حب الوطنی سے بھرا پڑا ہے۔ اس میں کچھ اور نہیں ہے۔’
انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ سمجھ سکتے ہیں کہ سیکیورٹی ایجنسیاں قومی سلامتی کی وجہوں سے نگرانی کرتی ہیں۔ کمار نے کہا، ‘لیکن پھر بھی انہیں پہلے قانون کے مطابق لازمی اجازت لینی چاہیے۔’ انہوں نے مارچ 2021 میں رضاکارانہ طور پرریٹائرمنٹ لے لیا تھا۔