انڈیا چائلڈ پروٹیکشن فنڈ کی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ سال 2022 میں پاکسو ایکٹ کے تحت صرف 3 فیصد معاملوں میں سزا ہوئی۔ اس تحقیق کے مطابق، ملک میں 1000 سے زیادہ فاسٹ ٹریک عدالتوں میں سے ہر ایک ہر سال اوسطاً صرف 28 مقدمات کو نمٹا رہی ہے، جو کہ 165 کے ہدف سے بہت پیچھے ہے۔
نئی دہلی: ایک نئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ بچوں کے تحفظ سے متعلق جنسی جرائم (پاکسو) ایکٹ کے تحت زیر التوا مقدمات کو ختم کرنے میں ہندوستان کو کم از کم نو سال لگیں گے۔
رپورٹ کے مطابق، انڈیا چائلڈ پروٹیکشن فنڈ (آئی سی پی ایف) کی ایک تحقیق (جسٹس اویٹس: این اینالیسس آف دی ایفینسی آف جسٹس ڈیلیوری میکانزم ان کیسز آف چائلڈ سیکسوئل ابیوز ان انڈیا) میں کہا گیا ہے کہ سال 2022 میں پاکسو ایکٹ کے تحت مقدمات میں صرف 3 فیصدمعاملوں میں سزا ہوئی۔
خواتین اور بچوں کی ترقی کی وزارت نے 2019 میں اعلان کیا تھا کہ حکومت ‘نربھیا فنڈ’ کا استعمال کرتے ہوئے یہ فاسٹ ٹریک عدالتیں بنائے گی۔ ان عدالتوں کا مقصد خصوصی طور پرپاکسو مقدمات کو نمٹانا تھا۔ اس وقت، قانونی اور بچوں کے حقوق کے ماہرین نے خبردار کیا تھا کہ جب تک کہ زیادہ ججوں کی تقرری نہیں کی جاتی اور سرکاری وکیلوں کو ایسے مقدمات سے نمٹنے کے لیے تربیت نہیں دی جاتی اور انہیں حساس نہیں بنایا جاتا، صرف فاسٹ ٹریک عدالتیں بنانا کافی نہیں ہوگا۔
آئی سی پی ایف کی تحقیق کے مطابق ، ملک میں ایسی 1000 سے زیادہ عدالتوں میں سے ہر ایک اوسطاً ہر سال صرف 28 مقدمات نمٹا رہی ہے، جو کہ 165 کے ہدف سے بہت پیچھے ہے۔
دکن ہیرالڈ نے اس تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ مہاراشٹر میں پاکسو کیس میں کسی بچے کو انصاف ملنے میں 2036 تک کا وقت لگ سکتا ہے۔ اس سال جنوری تک ریاست کی فاسٹ ٹریک عدالتوں میں ایسے 33073 مقدمات زیر التوا تھے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اروناچل پردیش اور بہار جیسی ریاستوں میں زیر التوا مقدمات کو ختم کرنے میں 25 سال سے زیادہ کا وقت لگ سکتا ہے۔ جبکہ آندھرا پردیش میں کسی شکایت کنندہ کو انصاف کے لیے 2034 تک انتظار کرنا پڑے گا کیونکہ ریاست میں 8137 مقدمات زیر التوا ہیں۔ اسی طرح راجستھان اور جھارکھنڈ میں بالترتیب 8921 اور 4408 کیسوں کے ساتھ 2033 تک وقت لگے گا۔
مجموعی طور پر، 2022 میں ہر فاسٹ ٹریک اسپیشل کورٹ (ایف ٹی ایس سی) کے ذریعے اوسطاً صرف 28پاکسومعاملے نمٹائے گئے۔ اور جنوری 2023 تک ہندوستان کی فاسٹ ٹریک عدالتوں میں پاکسو کے کل 2.43 لاکھ کیس زیر التوا ہیں۔
اخبار نے کہا کہ ہر کیس کو نمٹانے پر اوسطاً 2.73 لاکھ روپے خرچ ہوئے۔ بتایا گیا ہے کہ کرناٹک (919) اور گوا (62) دو ریاستیں ہیں جن میں سب سے کم پاکسو معاملے زیر التوا ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کوئی شکایت کنندہ 2024 تک ان ریاستوں میں انصاف ملنے کی امید کر سکتا ہے۔