اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش کی گئی قرارداد میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر غزہ میں جنگ بندی کی اپیل کرتے ہوئے بین الاقوامی انسانی قانون کی اہمیت پر زور دیا گیا۔ اس میں یرغمال بنائے گئے تمام شہریوں کی غیر مشروط رہائی اور غزہ کو ضروری سامان کی بلا تعطل فراہمی کی بھی اپیل کی گئی۔ ہندوستان نے اس تجویز پر ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا ایک منظر جس میں ووٹنگ کا نتیجہ بتایا گیا ہے۔ (تصویر: یو این)
نئی دہلی: غزہ پٹی میں اسرائیل کی جانب سے زمینی کارروائیوں میں’ توسیع’ کے اعلان کے ساتھ ہی بھاری فضائی حملوں اور اسرائیلی فورس کے ذریعے مارے جانے والے فلسطینیوں کی تعداد 7000 سے تجاوز کرگئی ہے، اس کے بعد بھی ہندوستان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی طرف سےپیش کی گئی انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کی تجویز سے خود کو دوررکھا اور تشدد کے فوری خاتمے کے لیے بین الاقوامی برادری کی اپیل کی حمایت نہیں کی۔
رپورٹ کے مطابق،تجویز کے
حق میں 120 ووٹ پڑے، جبکہ اسرائیل، امریکہ، ہنگری اور بحرالکاہل کی پانچ جزیرہ نما ریاستوں سمیت صرف 14 ممالک نے اس کے خلاف ووٹنگ کی۔ ہندوستان ان 45 ممالک میں شامل تھا – جن میں سے زیادہ تر مغربی فوجی بلاک سے تھے – جنہوں نے جمعہ کی سہ پہر نیویارک میں یو این جی اے کے ہنگامی اجلاس میں ووٹنگ میں حصہ نہیں لینے کا فیصلہ کیا۔
اردن کی طرف سے مجوزہ قرارداد میں انسانی بنیادوں پر ‘جنگ بندی’ کا مطالبہ کیا گیا اور بین الاقوامی انسانی قانون کی پاسداری کی اہمیت پر زور دیا گیا۔ اس نے تمام شہریوں کی غیر مشروط رہائی اور غزہ کو ضروری سامان کی بلا تعطل فراہمی کی اپیل کی۔ مصر، عمان اور متحدہ عرب امارات جیسے بڑے ممالک سمیت کئی عرب اور اسلامی ممالک نے اس کی حمایت کی۔ روس نے بھی تجویز کی حمایت کی۔
ہندوستان بھی ان ممالک میں شامل تھا جنہوں نے مغربی حمایت یافتہ مسودہ ترمیم کے حق میں ناکام ووٹنگ کی، جس میں واضح طور پر حماس کا نام لے کرمذمت کرنے کی مانگ کی گئی تھی۔
کینیڈا کی جانب سے تجویز کردہ اور امریکہ اور مغربی ممالک کی طرف سے حمایت یافتہ ترمیم میں خاص طور پر حماس اور لوگوں کو یرغمال بنانے کی مذمت کی مانگ کی گئی تھی۔
ترمیم کے حق میں 88 ووٹ ڈالے گئے، 55 مخالفت میں اور 23 غیر حاضر رہے۔ تاہم، اسے اپنایا نہیں گیا کیونکہ اسے ‘حاضر اور ووٹنگ’ کرنے والے ارکان سے مطلوبہ دو تہائی اکثریت حاصل نہیں ہوئی۔ جو ممالک ووٹنگ سے دور رہتے ہیں انہیں
ووٹ نہ کرنے والوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
ہندوستان نے کینیڈین ترمیم کے حق میں ووٹ دیا، جس کی تیونس کے علاوہ تمام عرب ممالک نے مخالفت کی۔
ہندوستان کی جانب سے ‘وضاحت’
مرکزی قرارداد پر اپنے ‘ووٹ کی وضاحت’ میں اقوام متحدہ میں ہندوستان کی نائب مستقل نمائندہ یوجنا پٹیل نے کہا کہ ‘غزہ میں جاری تنازعے میں ہلاکتوں کی تعداد ایک سنگین، سنجیدہ اور مسلسل تشویش کا معاملہ ہے۔ شہری، خاص طور پر خواتین اور بچے اپنی جانوں سے اس کی قیمت ادا کر رہے ہیں۔‘لیکن انہوں نے حقیقت میں یہ نہیں بتایا کہ ہندوستان ووٹنگ میں غیر حاضر کیوں رہا۔
انہوں نے کہا کہ ہندوستان ‘سکیورٹی کی بگڑتی ہوئی صورتحال اور جاری تنازعہ میں شہریوں کی جانوں کےنقصان پر گہری تشویش میں مبتلا ہے’ اور ‘خطے میں دشمنی میں اضافے سے انسانی بحران مزید بڑھ جائے گا’ لیکن انہوں نے اپنی اپیل کو تمام فریقین سے انتہائی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے کے لیے کہنے تک ہی محدود رکھا۔
غزہ کی قرارداد پر یو این جی اے کا تفصیلی ووٹنگ چارٹ
نام لے کر حماس کی مذمت کرنے والی ترمیم کی حمایت کے باوجود ہندوستان کے نمائندوں نے تنظیم کا نام نہیں لیا۔ انہوں نے کہا؛
‘اسرائیل میں 7 اکتوبر کو ہونے والے دہشت گردانہ حملے حیران کن اور قابل مذمت ہیں۔ ہماری ہمدردیاں یرغمال بنائے گئے لوگوں کے ساتھ بھی ہیں۔ ہم ان کی فوری اور غیرمشروط رہائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ دہشت گردی ایک مہلک بیماری ہے اور اس کی کوئی سرحد، قومیت یا نسل نہیں ہوتی۔ دنیا کو کسی صورت دہشت گردی کی کارروائیوں کا دفاع نہیں کرنا چاہیے۔ آئیے اختلافات کو ایک طرف رکھ کر متحد ہو جائیں اور دہشت گردی کے خلاف زیرو ٹالرنس کا نظریہ اپنائیں۔’
ہلاکتوں میں اضافہ، سلامتی کونسل میں تعطل
گزشتہ دو ہفتوں کے دوران امریکہ، چین اور روس نے مغربی ایشیا میں جاری بحران سے نمٹنے کے لیے کسی بھی قرارداد کو منظور کرنے سے روکنے کے لیے اپنے اپنے ویٹو اختیارات کا استعمال کیا ہے۔
گزشتہ
18 اکتوبر کو امریکہ نے سلامتی کونسل میں برازیل اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے پیش کی گئی قرارداد کے مسودے کو ویٹو کر دیا تھا، جس میں ‘انسانی بنیادوں پر جنگ بندی’ کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ ایک روسی مسودہ پہلے ہی قبول کیے جانے کے لیے درکار نو ووٹ حاصل کرنے میں ناکام رہا تھا۔
اسی طرح کا منظر ایک ہفتے بعد 25 اکتوبر کو اس وقت سامنے آیا جب چین اور روس نے امریکی مسودہ قرارداد کو ویٹو کر دیا۔ روس کی جانب سے قرارداد منظور کرانے کی دوسری کوشش بھی ضروری ووٹوں کی کمی کے باعث ناکام ہو گئی۔
مغربی ایشیائی خطے میں بحران اس وقت بڑھ گیا جب حماس نے غزہ سے جنوبی اسرائیل میں دراندازی شروع کی، جس کے نتیجے میں سینکڑوں شہریوں سمیت 1200 سے زائد ہلاکتیں ہوئیں۔ اسرائیلی فوجیوں کی ایک نامعلوم تعداد کو پکڑنے کے علاوہ حماس نے 220 سے زائد اسرائیلی اور غیر ملکی شہریوں کو بھی اغوا کر لیا اور انہیں اپنے ساتھ غزہ واپس لے گئے – جو بین الاقوامی انسانی قانون کی خلاف ورزی ہے۔
فلسطینی وزارت صحت کے مطابق اس کے بعد سے، اسرائیل غزہ میں بڑے پیمانے پر فضائی حملے کر رہا ہے، جس کے نتیجے میں 7326 ہلاکتیں ہوئیں (27 اکتوبر تک)۔ اسرائیل نے خوراک، ایندھن، بجلی، طبی سامان اور پانی کی فراہمی پر بھی ناکہ بندی کر رکھی ہے۔ صرف محدود پیمانے پر خوراک اور طبی امداد غزہ پہنچ رہی ہے۔
بتادیں کہ تشدد پر ہندوستان کا پہلا ردعمل وزیر اعظم نریندر مودی کے ایک ٹوئٹ کی شکل میں آیا تھا، جنہوں نے 7 اکتوبر کو اسرائیل کے ساتھ ‘یکجہتی’ کا اظہار کیا تھا۔ بعد ازاں مودی نے اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو کے ساتھ فون پر بات چیت میں بھی
اس کا اعادہ کیا تھا۔
ایک ہفتے سے زائد عرصے بعد انہوں نے غزہ کے الاہلی بیپٹسٹ ہسپتال میں دھماکے کے بعد فلسطینی صدر
محمود عباس سے بات کی تھی۔ ہندوستان نے فلسطینی کاز اور دو ریاستی حل کے لیے اپنی روایتی حمایت کا اعادہ کیا۔
اس ہفتے مودی نے اردن کے شاہ عبداللہ سے بات چیت کی تھی۔ یہ پہلا موقع تھا جب ہندوستان نے انسانی اور سلامتی کی صورتحال کے ‘جلد حل’ کی ضرورت کا ذکر کیا۔ ہندوستان ان سب سے بڑے ترقی پذیر ممالک میں سے ایک ہے جس نے غیر مستحکم خطے میں ‘جنگ بندی’ یا دشمنی کے خاتمے کی اپیل نہیں کی ہے۔