انڈیا پوسٹ کو 15ہزار کروڑ روپے کا نقصان، بی ایس این ایل اور ایئر انڈیا کو بھی پیچھے چھوڑا

انڈیا پوسٹ نے مالی سال19-2018 میں تنخواہ اور بھتہ پر 16620 کروڑ روپے خرچ کئے۔ اس میں پنشن کا خرچ 9782 کروڑ روپے بھی جوڑ دیں تو کل خرچ 26400 کروڑ روپے ہو جاتا ہے۔

انڈیا پوسٹ نے مالی سال19-2018 میں تنخواہ اور بھتہ پر 16620 کروڑ روپے خرچ کئے۔ اس میں پنشن کا خرچ 9782 کروڑ روپے بھی جوڑ دیں تو کل خرچ 26400 کروڑ روپے ہو جاتا ہے۔

انڈیا پوسٹ (فوٹو: فیس بک)

انڈیا پوسٹ (فوٹو: فیس بک)

نئی دہلی: سرکاری ملکیت والی کمپنی (پی ایس یو) انڈیا پوسٹ نے نقصان کے معاملے میں بی ایس این ایل اور ایئر انڈیا کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔فنانشیل ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق؛ مالی سال 2019 میں کمپنی کے ریونیواور اخراجات کے درمیان فرق 15000 کروڑ روپے کا ہے۔اس طرح انڈیا پوسٹ کا نقصان بی ایس این ایل اور ایئر انڈیا کے نقصان سے زیادہ ہے۔ مالی سال 2018 میں بی ایس این ایل کو 8000 کروڑ روپے اور ایئر انڈیا کو 5340 کروڑ روپے کا نقصان ہوا تھا۔

نقصان میں چل رہی دوسری  کمپنیوں کی طرح انڈیا پوسٹ کے فنانسیز اونچی تنخواہ اور بھتہ کی وجہ سے کافی کم ہو چکی ہے۔ کمپنی کی تنخواہ اور بھتہ کی لاگت کمپنی کی سالانہ آمدنی کے 90 فیصد سے زیادہ ہے۔مرکزی ملازمین‎ کی تنخواہ میں کیے جانے والے اضافے کی وجہ سے انڈیا پوسٹ میں تنخواہ لگاتار بڑھ رہی ہے، جس سے ڈاک سروس سے ہونے والی آمدنی میں بھی لگاتار گراوٹ آ رہی ہے۔

مالی سال 19-2018 (ترمیم شدہ اندازہ) میں انڈیا پوسٹ کی تنخواہ اور بھتہ کی لاگت 16620 کروڑ روپے ہے جبکہ آمدنی 18000 کروڑ روپے رہی۔ اگر اس میں 9782 کروڑ روپے کی پنشن کی لاگت جوڑ دیں تو  گزشتہ  مالی سال میں اکیلے ملازمین پر ہونے والا خرچ ہی 26400 کروڑ روپے ہو جائے‌گا، جو کل آمدنی کے مقابلے  تقریباً 50 فیصد سے زیادہ ہے۔

کمپنی کا اندازہ ہے کہ مالی سال 2020 میں تنخواہ / بھتہ پر خرچ 17451 کروڑ روپے اور پنشن پر خرچ 10271 کروڑ روپے رہے‌گا۔ وہیں، اس دوران آمدنی صرف 19203 کروڑ روپے رہنے کا اندازہ ہے۔ اس سے واضح اشارہ ملتا ہے کہ حالت اور خراب ہوگی۔ذرائع کا کہنا ہے کہ مصنوعات لاگت اور قیمت اور روایتی ڈاک خدمات کےمقابلے میں زیادہ سستے اور تیز اختیار موجود ہونے کی وجہ سے انڈیا پوسٹ کی کارکردگی  بہتر کرنے اور اس کی آمدنی بڑھانے کی کوشش کامیاب نہیں ہو رہی ہے۔

اس کے علاوہ مصنوعات کی قیمت بڑھانے کے علاوہ کمپنی اپنے 4.33 لاکھ اہلکاروں اور 1.56 لاکھ پوسٹ آفس کے نیٹ ورک کے دم پر ای کامرس اور دیگر ویلیو ایڈیڈ سروسیز میں امکانات دیکھنے کی کوشش کر  سکتی ہے۔ایک افسر نے کہا، ‘ ڈاک سروس  جیسی یونیورسل سروس کے لئے نقصان ہوگا کیونکہ ملک میں تمام تجارتی بینکوں کی شاخوں (1.16 لاکھ) کے مقابلے  ڈاک دفتروں کی تعداد زیادہ ہے۔

 حالانکہ مصنوعات خدمات اور اس کی قیمتوں کے درمیان بڑے فرق کو گھٹائے جانے کی ضرورت ہے۔ ‘انڈیا پوسٹ اپنے ہر پوسٹ کارڈ پر 12.15 روپے خرچ کرتی ہے لیکن اس کو صرف 50 پیسے یعنی لاگت کا چار فیصد ہی ملتا ہے۔ اوسطاً پارسل سروس  کی لاگت 89.23 روپے ہے لیکن کمپنی کو اس کا صرف آدھا ہی ملتا ہے۔ بک پوسٹ، اسپیڈ پوسٹ اور رجسٹریشن وغیرہ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔

 Expenditure secretaryکی صدارت میں مالی اخراجات سے متعلق کمیٹی نے حال ہی میں ڈاک محکمہ سے کہا تھا کہ یوزرس سے فیس وصول کرنے  کے لئے کمپنی کو خود مختار ہونا چاہیے کیونکہ مرکز کے بجٹ میں اس طرح کے ریکرنگ سالانہ نقصان شامل نہیں ہوتا۔ایک دوسرے  افسر نے کہا، ‘ لاگت بڑھتی جا رہی ہے لیکن آمدنی گھٹ رہی ہے کیونکہ اس کے اختیار موجود ہے۔ لوگ ڈاک کے بجائے اب ای میل، فون کال وغیرہ کا استعمال کرنے لگے ہیں۔’