پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے اس مہم جو مجلس ثلاثہ نے مودی حکومت کو ایک ایسی پوزیشن میں لا کھڑا کیا ہے جہاں اس کے پاس آپشن انتہائی محدود ہیں۔اس صورتحال میں بات چیت کی بحالی تقریباً ناممکن نظر آرہی ہے کیونکہ جہاں نئی دہلی کے لیے سخت گیر موقف سے پیچھے ہٹنا ممکن نہیں وہاں پاکستان کے لیے کشمیرکے حوالے سے اختیارکردہ موقف سے پیچھے ہٹنا سیاسی اور سفارتی خودکشی سے تعبیر ہوگا۔
دنیا کے دیگر ممالک کی طرح ہندوستان میں قومی سلامتی یا خارجہ پالیسیاں ترتیب دیتے وقت وزیراعظم اور اس کے دفتر میں قومی سلامتی مشیر کے علاوہ وزرائے خارجہ، داخلہ اور دفاع کا عمل دخل رہتا ہے۔مگر کشمیر اور پاکستان کے حوالے سے ہمیشہ ہی حرف آخر وزیر اعظم کا دفتر ہی رہتا آیا ہے، حتیٰ کہ جب لال کرشن اڈوانی یا پی چدمبرم جیسے طاقتور اور قد آور وزرائے داخلہ کی موجودگی میں بھی ان دو امور کو وزیر اعظم ہی براہ راست ڈیل کرتے آئے ہیں ۔
شاید اس کی وجہ یہ رہی ہوگی کہ وزیر اعظم کے پاس چونکہ مکمل خارجی اور داخلی خفیہ اطلاعات اور اس کے علاوہ سفارتی منظر نامہ کی براہ راست جانکاری ہوتی ہے، اس لیے وہ مسائل کو مجموعی نقطہ نظر سے دیکھ کر فیصلہ کرتا ہے۔ مگر 2019 کے بعد خاص طور پر ان ایشوز کو ایک مجلس ثلاثہ،جس میں قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال، وزیر داخلہ امت شاہ اور وزیر خارجہ سبرامنیم جئے شنکر شامل ہیں کے سپرد کر دیا گیا ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی خود ان معاملات میں مداخلت کرنے سے گریز ہی کرتے ہیں۔
گو کہ کاغذی طور پر وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کابینہ میں مودی کے بعد دوسری پوزیشن پر ہیں، مگر حساس معاملوں میں ان کوکوئی نہیں پوچھتا ہے۔ جون2018 کو جب راج ناتھ سنگھ جموں و کشمیر کی اس وقت کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کے ہاتھ مضبوط کرنے پر زور دے رہے تھے، امت شاہ م جو اس وقت حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے صد ر تھے، کی رہائش گاہ کے باہر پارٹی جنرل سکریٹری رام مادھو صحافیوں کو بتا رہے تھے کہ ان کی پارٹی نے محبوبہ مفتی حکومت سے حمایت واپس لےکر گورنر راج لاگو کرنے کی سفارش کی ہے۔
سنگھ کو یہ معلومات ٹی وی چینل سے موصول ہورہی تھیں۔ اس دوران نجی گفتگو میں کئی بار انہوں نے اشار ے دیے کہ کشمیر اور شمال مشرقی صوبوں کے لیے پالیسی ترتیب دیتے ہوئے ان کی رائے کو اہمیت نہیں دی جاتی ہے ۔
ویسے تو قومی سلامتی پالیسیوں میں ایک طرح کا تسلسل ہوتا ہے اور وہ تاریخ کے ساتھ مربوط ہوتی ہیں، مگر ان اداروں کے سربراہان کے رویہ اور ان کی نظریاتی وابستگی بھی ایک بڑا رول ادا کرتی ہے۔ جئے شنکر نے پاکستانی ہم منصب بلاول زرداری کے ساتھ جس طرح کا برتاؤ ساحلی صوبہ گوا میں منعقدٗشنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن یعنی ایس سی اوکے اجلاس کے دران کیا، وہ قومی سلامتی مشیر اجیت ڈوبھال کی ڈاکٹرین سے بالکل مطابقت رکھتا ہے، جس کو فی الحال سرکاری پالیسی کی حیثیت حاصل ہے۔
مجھے یاد ہے کہ دسمبر 2016کو پاکستانی وزیر اعظم کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز کو بھی پنجاب کے سرحدی شہر امرتسر میں اسی کرب سے گزرنا پڑا تھا۔ عزیز افغانستان سے متعلق ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت کرنے کے لیے ہندوستان آئے تھے۔
جس طرح سے اس کانفرنس کے دران میزبان ہندوستان اور افغانستان کے وفد نے ان کے تئیں سرد مہری دکھائی اور ایک طرح سے ان کے ساتھ بن بلائے مہمان جیسا سلوک روا رکھا، ان کی حالت پر رحم آرہا تھا۔ میں اس کانفرنس کو کور کر رہا تھا اور ہمیں پہلے ہی بتایا گیا تھا کہ ان کو نظر انداز کرنا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ وزرات خارجہ کے اعلیٰ افسران نے اسی طرح کا پیغام گو ا میں ایس سی او کانفرنس کور کرنے والے صحافیوں کو بھی دیا تھا۔
ڈوبھال ڈاکٹرین کا اہم ترین جز کسی بھی دباؤ کو خاطر میں لائے بغیر کشمیرپر فورسز کے ذریعے ٹیریٹوریل ڈومیننس حاصل کرواکے، پاکستان اور کشمیری عوام کا مائنڈ سیٹ تبدیل کروانا ہے۔جس سے ایک طرف پاکستان تائب ہوجائے، اور دوسری طرف کشمیر یو ں پر یہ واضح ہو کہ ہندوستان کے بغیر ان کا مستقبل کہیں اور نہیں ہے۔اس کو حاصل کرنے کے لیے پاکستان کی کمزور رگوں یعنی بلوچستان اور گلگت–بلتستان پر ہاتھ ڈال کر، اس کو کشمیر سے باز رکھنا ہے۔
ان کی ڈاکٹرین کا اہم جز مین اسٹریم کشمیر ی پارٹیوں نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) سے متعلق بھی ہے۔ اس کے مطابق یہ پارٹیاں بھی حق خود اختیاری، خود مختاری، اور سیلف رول جیسے نعروں کے ذریعے کشمیر ی ذہنوں کا آلودہ کرتی ہیں، اور حریت پسند ی کو آکسیجن فراہم کرتی رہتی ہیں۔
ڈاکٹرین کے مطابق ان پارٹیوں کو بھی یہ احساس دلانا ہے کہ وہ نئی دہلی کو بلیک میل کرنے او ر سیاسی حل پیش کرکے اب او ر سیاست نہیں کرسکتی ہیں اور ملک کی دیگر سیاسی پارٹیوں کی طرح تعمیر اور ترقی کے ایشوکولے کر ہی اب وہ کشمیر میں حکومت کر سکتی ہیں۔
ڈوبھال ڈاکٹرین کے مطابق کشمیریوں اور پاکستان کو باور کرانے کا موقع آگیا ہے کہ ان کا مطالبہ اور ان کی منزل ناقابل حصول ہے۔ان کے مطابق سابق حکومتوں نے کشمیری رہنماؤں کی چاہے وہ حریت پسند ہوں یا مین اسٹریم ، ابھی تک صرف ناز برداری کی ہے۔ ان کو حقیقت کا ادراک نہیں کروایا ہے۔
اپنے کیریرکے دوران پنجاب میں سکھ انتہا پسندی سے نمٹنے اور اسلام آباد میں خفیہ ایجنسی ‘را‘ کے انڈرکور ایجنٹ کے طور پرکئی سال کام کرنے کی وجہ سے ڈوبھال کا ہدف ہمیشہ سے ہی پاکستان کو نیچا دکھانا رہا ہے۔ہندوستان کے ایک نامور تفتیشی صحافی جوزی جوزف نے اپنی کتاب اے فیسٹ آف ولچرمیں انکشاف کیا ہے کہ جولائی 2005 میں دہلی اور ممبئی پولیس کی ایک مشترکہ ٹیم نے جب ایک بدنام زمانہ گینگسٹر وکی ملہوترا کا پیچھا کرتے ہوئے بالآخر اس کو گھیر لیا تو اس کی کار میں اسلحہ کی کھیپ تو تھی ہی مگر ان کی حیرت کی کوئی حد نہ رہی جب گینگسٹرکے ساتھ کار کی پچھلی سیٹ پر حال ہی میں انٹلی جنس بیورو کے چیف کے عہدے سے ریٹائر ہونے والے اجیت ڈوبھال بھی براجمان تھے۔
یہ واقعہ دبا دیا گیا مگر معلوم ہوا کہ ڈوبھال ریٹائر ہونے کے باوجود چھوٹا راجن گینگ کے ساتھ مل کر پاکستان کے شہر کراچی میں ایک آپریشن پرکام کر رہے تھے۔بتایا جاتا ہے کہ وزیر اعظم مودی کے پاس ڈوبھال اگرکمرے میں موجود ہوں تو کتنی ہی اشد ضرورت کیوں نہ ہوحکم ہے کہ کوئی بھی کمرے میں نہیں آسکتا اور نہ ہی فون کے ذریعے وزیر اعظم کا پرائیوٹ سکریٹری ان کو کسی بھی طرح کی یاد دہانی کراسکتا ہے۔
اس ڈاکٹرئن کی اگلی کوشش مسئلہ کشمیر کو دوطرفہ مذاکرات کے عمل سے خارج کروانے کی ہے۔ افواہیں گشت کررہی ہیں کہ جس طرح 1973ء کے شملہ سمجھوتہ میں آنجہانی وزیراعظم اندراگاندھی نے اس مسئلے کی بین الا قوامی نوعیت کو ہندوستان اور پاکستان کے درمیان دوطرفہ معاملے میں تبدیل کرواکے تاریخ میں اپنا نام درج کروایا تھا، اسی طرح اب اس مسئلہ کو دوطرفہ مذاکرات کے ایجنڈہ سے بھی خارج کروانے کی ہے، تاکہ نریندر مودی بھی اپنا نام تاریخ میں امرکرواسکیں۔
اس مثلت یا مجلس ثلاثہ کے ایک اور رکن وزیر خارجہ جئے شنکر ہیں۔ کتنی ستم ظریفی ہے کہ وہ سابق وزیر اعظم من موہن سنگھ کے چہیتے آفیسر تھے۔وہ ان کو 2013میں سکریٹری خارجہ بنانا چاہتے تھے۔ ہندوستانی فارن آفس میں امریکہ ڈیسک کے سربراہ کے ہوتے ہوئے انہوں نے ہندوستان–امریکہ جوہری معاہدہ کو حتمی شکل دینے اور اس کو امریکی کانگریس سے منظوری دلوانے میں کلیدی رول ادا کیا تھا۔
مگر ان کی فارن سکریٹری کی متوقع تقرری کی کانگریس پارٹی کے اندر سےسخت مخالفت ہوئی، جس کی وجہ سے وزیر اعظم سنگھ کو سرخم کرکے سجاتا سنگھ کو خارجہ سکریٹری بنانا پڑا۔جئے شنکر نے اس کے لیے ابھی تک کانگریس پارٹی یا گاندھی خاندان کو معاف نہیں کیا ہے۔
ایک طرح سے لگتا تھا کہ جئے شنکر کا کیریر اب ختم ہوگیا ہے۔ مگر جنوری 2015 کو جب امریکی صدر بارک اوبامہ ہندوستان کا دورہ ختم کرکے طیارہ میں سوار ہوگئے تو وزیر اعظم نریندر مودی نے سجاتا سنگھ کو معزول کرکے جئت شنکر کو سکریٹری خارجہ بنایا دیا۔ وہ صرف دو دن بعد ریٹائرڈ ہونے والے تھے۔
جئے شنکر اس وقت امریکہ میں ہندوستان کے سفیر تھے اور اوبامہ کے دورہ کے سلسلے میں نئی دہلی آئے ہوئے تھے۔انہیں فی الفور رات کو ہی فارن آفس میں رپورٹ کرنے اور عہدہ سنبھالنے کے لیے کہا گیا۔
جئے شنکر کو خارجہ سکریٹری کے عہدے پر فائز کرنے کی کانگریسی لیڈران نے اس لیے مخالفت کی تھی کہ ان کے مطابق ایک انتہائی امریکہ نواز آفیسر کو اس اہم عہدہ پر فائز کرانے سے ہندوستان کی غیر جانبدارانہ شبیہ متاثر ہوگی۔ وکی لیکس فائلز نے جئے شنکر کی امریکہ کے ساتھ قربت کو طشت از بام کردیا تھا۔
کانگریسی رہنماؤں نے انتباہ دیا تھا کہ جئے شنکر کی تعیناتی سے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات خراب ہونے کا بھی اندیشہ ہے، جو جلد ہی صحیح ثابت ہوا۔ کیونکہ ستمبر 2015میں جب نیپال کی کلیدی سیاسی جماعتوں نے آئین سازی میں ہندوستانی مداخلت پر اعتراض کیا، تو اگلے چھ ماہ تک ان کی ایما پر اس ملک کی معاشی ناکہ بندی کی گئی۔ جس سے ان دونوں ممالک کے تعلقات اس حد تک خراب ہو گئےکہ وزیر اعظم کے دورہ کے باوجود ابھی تک پٹری پر نہیں آر ہے ہیں۔
سال 2004سے 2007تک جئےشنکر فارن آفس میں امریکہ ڈیسک کے انچارج تھے۔ ان کا نام بار بار امریکہ سفارتی کیبلز میں آیا ہے۔ 25اپریل 2005کو دہلی میں چارج ڈی آفییرز رابرٹ بلیک لکھتے ہیں کہ جئے شنکر نے ان کو بتایا ہے کہ حکومت ہند نے اقوام متحدہ کی حقوق انسانی کونسل میں کیوبا کے خلاف ووٹ دیا ہے۔ اسی طرح19 دسمبر 2005 کو ایک دوسری کیبل میں امریکی سفارت خانہ کا کہنا ہے کہ جئے شنکر نے ان کو خارجہ سکریٹری شیام سرن کے دورہ امریکہ کے ایجنڈہ کے بارے میں معلومات دی ہیں۔
امریکی عہدیداروں کے ساتھ ملاقاتوں میں ہندوستانی موقف کی جانکاری خارجہ سکریٹری کے واشنگٹن پہنچنے سے قبل ہی امریکی انتظامیہ کو مل چکی تھی۔ مگر سب سے زیادہ ہوشربا معلومات بیجنگ میں امریکی سفارت خانہ نے واشنگٹن بھیجی۔ اس میں بتایا گیا کہ چین میں ہندوستان کے سفیر جئے شنکر نے چین کے ہمسایہ ممالک کے تئیں جارحارنہ رویہ کو لگام دینے کے لیے امریکہ کی معاونت کرنے کی پیشکش کی ہے۔
یعنی ایک طرح سے وہ نئی دہلی میں حکومت کی رضامندی کے بغیر امریکہ کے ایک معاون کے طور پر کام کر رہے تھے۔ ایک اور کیبل میں اپریل 2005میں رابرٹ بلیک لکھتے ہیں کہ گوانٹنامو بے کے معاملے پر ہندوستان، جنوبی ایشیائی ممالک کاسا تھ نہیں دےگا، جنہوں نے اقوام متحدہ میں ووٹنگ میں حصہ نہ لینے کا مشترکہ فیصلہ کیا تھا۔
اس کے علاوہ جئے شنکر نے ایک نان پیپر امریکی انتظامیہ کو تھما دیا تھا، جس میں تھائی لینڈ کے ایک سیٹلائٹ کی جانکاری تھی، جو ہندوستانی راکٹ کے ذریعے مدار میں جانے والا تھا۔
جئے شنکر ہندوستان کے مشہور اسٹریجک امور کے ماہر آنجہانی آر سبرامنیم کے صاحبزادے ہیں۔ انہوں نے 1977میں فارن آفس جوائن کی۔ معروف دفاعی تجزیہ کار بھارت کرناڈ کے مطابق جئے شنکر کی کابینہ میں شمولیت سے ہندوستان کا امریکی پٹھو ہونے کا آخری پردہ بھی چاک ہو گیا ہے۔ ان کی تعیناتی ہندوستان کی اسٹریجک آٹونامی کے حوالے سے خاصی اہم ہے۔
ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد ہی جئے شنکر نے کارپوریٹ گروپ ٹاٹا کے بیرون ملک مفادات کے ڈویژن کے سرابراہ کا عہدہ سنبھالا۔ اس حوالے سے ہندوستانی فضائیہ کے لیے ایف–16طیاروں کی خریداری کے لیے امریکی فرم لاک ہیڈ مارٹن کے لیے وکالت کا کام کر رہے تھے۔ لاک ہیڈ مارٹن کو کانٹریکٹ ملنے سے ٹاٹا کو ان کی دیکھ ریکھ،پرزے سپلائی کرنے اور ہندوستان میں ان طیاروں کو تیار کرکے کا کام مل جاتا۔
بتایا جاتا ہے کہ 1980میں واشنگٹن میں ہندوستانی سفارت خانہ میں پوسٹنگ کے دوران ہی امریکی انتظامیہ نے ان پر نظر کرم کی بارش شروع کر کے ان کی ایک دوست کے روپ میں شناخت کی تھی، اور بعد میں ان کے کیریر کو آگے بڑھانے میں بلاواسطہ طور پر خاصی مدد کی۔
من موہن سنگھ نے جب ان کو امریکہ ڈیسک کا انچارج مقرر کیا تو جوہر ی معاہدہ کو انجام تک پہنچانے میں امریکہ نے خاصی رعایت سے کام لیا۔ بعد میں بطور امریکہ میں ہندوستانی سفیر کے ہوتے ہوئے انہوں نے مقامی ہندوستانی نژاد افراد کو جمع کرکے نئے وزیر اعظم مودی کا استقبال کرواکے ان کا دل جیت لیا۔
اس مثلث کے اہم ترین رکن وزیر داخلہ امت شاہ ہیں، جو حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے حکمت عملی ساز اور آئندہ وزیر اعظم کے بطور بھی دیکھے جاتے ہیں۔ مجھے یاد ہے، کہ ایک دہائی قبل ہم نیوز رومز میں تفریح کے طور پر امت شاہ (جو ان دنوں جیل میں اور بعد میں تڑی پار کردیے گئے تھے)کے وزیر داخلہ بننے کی پیش گوئی کرکے ہنسی اڑاتے تھے۔ کسے معلوم تھا کہ 2019میں یہ مذاق بالکل حقیقت کا روپ اختیار کرےگا۔
مودی اور امت شاہ کی جوڑی کا رشتہ تین دہائی سے زیادہ پرانا ہے۔ 2001میں مودی کے گجرا ت کے وزیر اعلیٰ بننے کی راہ کو آسان کرنے کے لیے شاہ نے پارٹی میں ان کے مخالفین ہرین پانڈیا اور کیشو بائی پاٹل کو ٹھکانے لگانے میں اہم رول ادا کیا۔ ہرین پانڈیا کو تو قتل کیا گیا۔
گجرات میں شاہ کو وزارت داخلہ کا قلمدان دیا گیا تھا اور ان کا دور وزارت کئی پولیس انکاؤنٹر کے لیے یاد کیا جا تا ہے۔ قومی تفتیسی بیورو نے تو ان کو سہراب الدین اور ان کی اہلیہ کوثر بی کے قتل کیس میں ایک کلیدی ملزم ٹھہرایا تھا۔ اس کے علاوہ 19سالہ عشرت جہاں کے اغوا اور بعد میں قتل کے الزام میں بھی ان کے خلاف تفتیش جاری تھی۔
سال 2013میں ان کی ایک ریکارڈنگ میڈیا میں آئی تھی، جس میں وہ ایک دوشیزہ کا فون ٹیپ کرنے اور اس کی نگرانی کرنے کی ہدایت دے رہے تھے۔ وہ دوشیزہ ان کے باس کو پسند آگئی تھی۔ 2014کے عام انتخابات میں مودی نے شاہ کو سب سے اہم صوبہ اتر پردیش کا انچارج بنایا تھا، جہاں اس نے بی جے پی کوسب سے زیادہ سیٹیں دلا کر پارٹی کے لیے اقتدار کی راہ ہموار کر دی تھی۔ اس کامیابی کے بعد ان کو پارٹی کا صدر بنایا گیا۔
پاکستانی حکمرانوں اور افسروں کی کشمیری رہنماؤں کے ساتھ ملاقاتوں پر پابندی لگانا اور 5اگست 2019کو آئین کی دفعہ 370کے مندرجات کو کالعدم کرانا اور دفعہ 35(اے)کو ختم کرنا، تاکہ غیر ریاستی باشندوں کو کشمیر میں بسایا جا سکے، امت شاہ کے ہی کارنامے مانے جاتے ہیں۔
ان کا پلان کشمیر میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں اب بی جے پی کے امیدواروں کو کامیاب بناکر ایک ہندو وزیر اعلیٰ کو مقرر کرنا ہے۔ امت شاہ کی حکمت عملی کا مقصد ریاست میں مسلمان ووٹوں کو بے اثرکرناہے۔۔ ان کا خیال ہے کہ حلقوں کی نئی حد بندی سے بی جے پی اس خطے کی اسمبلی میں بڑی پارٹی کے طورپر ابھر سکتی ہے اور بعد میں ہم خیال ارکان کی حمایت سے براہ راست حکومت بھی بنا سکتی ہے۔
ان کے وزار ت داخلہ کا قلمدان سنبھالنے کے بعد ہی تو کشمیر کی شناخت اور تشخص خطرے میں پڑ گیا تھا۔ پاکستان کی داخلی صورت حال بھی ان کے عزائم کو حوصلہ دیتی ہے اور ان کو لگتا ہے کہ کشمیر کے سلسلے میں ہندو انتہا پسند وں کے دیرینہ خوابوں کے پورا ہونے کا موزوں وقت آگیا ہے۔
حکومت چلانے کے لیے تدبر، تحمل اور معاملہ فہم ہونے کی ضرورت ہوتی ہے، مہم جوئی فوج اور انٹلی جنس میں تو درست ہے مگر اعلیٰ سیاسی عہدوں میں اس طرح کا مزاج خطرناک ہوتا ہے۔پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے اس مہم جو مجلس ثلاثہ نے مودی حکومت کو ایک ایسی پوزیشن میں لا کھڑا کیا ہے جہاں اس کے پاس آپشن انتہائی محدود ہیں۔ اس صورت حال میں بات چیت کی بحالی تقریباً ناممکن نظر آرہی ہے کیونکہ جہاں نئی دہلی کے لیے سخت گیر موقف سے پیچھے ہٹنا ممکن نہیں وہاں پاکستان کے لیے کشمیرکے حوالے سے اختیارکردہ موقف سے پیچھے ہٹنا سیاسی اور سفارتی خودکشی سے تعبیر ہوگا۔
تعطل اور جمود کی یہ صورت حال انتہائی تشویشناک ہے کیونکہ جب برصغیرکی ان دو جوہری طاقتوں کے درمیان کوئی رابطہ ہی نہ ہوگا تو اس کے نتیجے میں ماحول مزید کشیدہ بن جائے گااور وہ کشیدگی کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوسکتی ہے۔ کہیں یہ مجلس ثلاثہ ہندوستان کو ہی نہیں بلکہ پورے خطے کو بھی گرداب میں پھنسانے کا موجب نہ بن جائے۔