جس طرح ملک میں فرقہ وارانہ عداوتیں بڑھ رہی ہیں، اس سے مسلمانوں کے افسردہ اور اس سے کہیں زیادہ خوف زدہ ہونے کے متعدد اسباب ہیں۔سماج ایک‘بائنری سسٹم’سے چلایا جا رہا ہے۔ اگر آپ اکثریت سے متفق ہیں تو دیش بھکت ہیں، نہیں تو جہادی، اربن نکسل یا غدار، جس کی جگہ جیل میں ہے یا ملک سے باہر۔
مجھے بہت شرمندگی ہوتی ہے جب میرے بچپن کے جگری مسلم دوست بھی مجھ سے یہ کہہ بیٹھتے ہیں کہ ان کے لیے میری محبت اور میرےمعروف نظریےکے باوجود جب فیصلے کی گھڑی آئےگی تو مجھے میرے نام کی وجہ سے بخش دیا جائےگا، لیکن ان کے ساتھ کوئی رحم نہیں کیا جائےگا۔
میں نوبل فاتح جرمن ماہر طبیعیات او ٹو ہان کی طرح بے یارومددگار نہیں محسوس کرنا چاہتا۔ ہان کی قریبی دوست اور تین دہائی سے بھی زیادہ کی ساتھی لزے میئٹنر جنم سے یہودی تھیں۔نازی انتظامیہ کی وجہ سے1938 میں انہیں جرمنی چھوڑ کر نیدرلینڈس کے راستے بھاگنا پڑا۔ تب ان کے پاس صرف دس مارکس تھے۔
ان کی کسی اور طرح سے مدد کر پانے میں نااہل اور مجبور ہان نے انہیں اپنی ماں کی ہیرے کی انگوٹھی دی تھی کہ ضرورت پڑنے پر وہ اس سے بارڈر گارڈزکو رشوت دے سکیں۔میں تواپنی شرمندگی سے ہی ہزار موتیں مر جاؤں گا، اگر مجھے کوئی ویسا خط لکھ دے جیسا میئٹنر نے ہان کو لکھا تھا، ‘تم سب نے نازیوں کے لیے کام کیا… اپنے ضمیر کے لیے تم نے ایک آدھ مظلوم شخص کی مدد ضرور کی، پر لاکھوں لوگ بنا کسی احتجاج کے مارے گئے۔’
نہیں، میں ویسی تہمت نہیں لے سکتا۔ مجھے اپنی اخلاقی ذمہ داری کا مکمل احساس ہے اور مسلسل پاؤں پھیلاتی برائی کے خلاف مجھے ان کروڑوں لوگوں کے لیے آواز اٹھانی ہی ہوگی، جو اس ڈر سے منھ نہیں کھولتے کہ کہیں ان پر ہمیشہ کی طرح‘وکٹم کارڈ’ کھیلنے کا الزام نہ لگا دیا جائے۔
ملک میں جس طرح سے ہردن فرقہ وارانہ عداوتیں بڑھتی ہی جا رہی ہیں، اس سے مسلمانوں کو افسردہ اور اس سے کہیں زیادخوف زدہ ہونے کی کئی اسباب ہیں۔یہ مضمون کسی مذہب، فرقہ، تنظیم، سیاسی پارٹی یا سرکار کے بارے میں نہیں ہے کیونکہ یہ سب عارضی چیزیں ہیں۔ یہ ہماری عوام کے بارے میں ہے جو مستقل چیز ہے۔
مجھے اس بات کا بےحد افسوس ہے کہ سماج کی نبضوں میں جہاں بھائی چارے کو گردش کرنا چاہیے تھا، وہاں اب نفرت دوڑ رہی ہے۔ یہ مضمون میری تشویش ، میرے دکھ کااظہارہے۔
سماجی ،سیاسی اور اقتصادی علیحدگی اور دشمنی میں مسلسل اضافہ
کچھ ہی وقت پہلے ایک جوئیلری بنانے والی کمپنی تنشق پر ان کے ایک ٹی وی اشتہار کو لےکر سوشل میڈیا میں حملہ بول دیا گیا تھا۔ بہت چھوٹی سی چیز تھی پھر بھی اس پر جو ہنگامہ ہوا وہ اس ‘بیگانگی’ کاثبوت ہے، جس میں لوگ مسلمانوں سے کسی طرح کارشتہ رکھنا تو دور، یہ چاہتے ہیں کہ وہ نظروں، دماغ وغیرہ سب سے غائب ہی ہو جائیں۔
نازیوں نے بھی نیوریمبرگ قانون بناکر یہودیوں سے شادیوں پر پابندی عائدکر دی تھیں۔ لیکن اس کا مقصدان کی نام نہاد نسلی طہارت کو بچانا تھا، کیونکہ وہ یہودیوں کو کمتر درجے کا انسان (انٹرمینش)مانتے تھے۔ان کا اعتراض نسل سے تھا مذہب سے نہیں۔ پر ہم نے تبدیلی مذہب کو لے کرجو قانون بنائے ہیں اس میں تو مذہب کو ہی جرم کی وجہ بنا دیا گیا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ مسلمانوں کا نوکریوں میں کم اور جیلوں میں زیادہ پایا جانا، انہیں حاشیے پر لایا جانا یا ان کا سماجی بائیکاٹ وغیرہ پرانی، کتابی باتیں ہو گئی ہیں۔اب تو حالت یہ ہے کہ رہنے یا بزنیس کے لیے کرایہ پر جگہ دینے میں بھی اعتراض کیا جا رہا ہے۔ ان کے پھل سبزی والوں کو کالونیوں میں گھسنے سے منع کیا جا رہا ہے۔ کچھ جگہوں پر دکانداروں کو دھمکایا گیا ہے۔
ان سب کی مقامی وجہیں کچھ بھی رہی ہوں، ان کا دورس نتیجہ مسلمانوں کااقتصادی نقصان ہوگا۔کچھ دنوں پہلے ایک رہنما نے حیدرآباد کے پرانے (مسلم اکثریتی)حصہ پر سرجیکل اسٹرائیک کی بات کی تھی۔ دوسرے نے کہا تھا کہ اسدالدین اویسی کو دیا گیا ووٹ ہندوستان کے خلاف ووٹ ہے۔
اب وہ یہ بتانے کو مجبور تھوڑے ہی ہیں کہ ملک کے قانون کے تحت ہوئے انتخاب میں ملک کے خلاف ووٹ کا کیا مطلب ہے بھلا؟یہ سب زبان کا پھسلنا نہیں ہے، اس سے ان کے لاشعور میں دبی خواہشات کا پتہ چلتا ہے۔
کل ملاکر سماج کو اب ایک‘بائنری سسٹم’سے چلایا جا رہا ہے۔ اگر آپ اکثریت سے متفق ہیں تو آپ دیش بھکت ہیں ورنہ آپ جہادی،اربن نکسل یا آئی ایس آئی ایجنٹ ٹائپ کےغدار ہیں، جس کی جگہ جیل میں ہے یا ملک سے باہر۔
اکثریت کےتشدد کی مناسب سزا نہیں
دنگے اس لیے ہوتے رہتے ہیں کیونکہ دنگائی جانتے ہیں کہ ان کے سزا پانے کاامکان صفر ہے۔دہلی کے سینٹر فار اکوٹی اسٹڈیز کی سُر بھی چوپڑہ اور ساتھیوں نے اپنے مطالعہ میں دکھایا ہے کہ آزادی کے بعد سے کوئی 25628 لوگوں نے اپنی جانیں فرقہ وارانہ فسادات میں گنوائی ہیں، پولیس کا رویہ بےحد مایوس کن رہا ہے۔
ایف آئی آر درج کرنے میں حیلہ حوالہ سے لےکر جان بوجھ کر ایف آئی آر میں گڑبڑ کرنا؛ نہ کے برابر گرفتاریاں اور ریمانڈ لینے سے لےکر جان بوجھ کر گھٹیا جانچ کرنا، ان سب کا نتیجہ ہوتا ہے زیادہ تر ملزمین کا چھوٹ جانا۔پایا گیا ہے کہ فرقہ وارانہ دنگوں کے معاملوں میں کیس بند کر دیے جانے کی شرح بھی دیگر معاملوں سے دس گنا زیادہ ہے۔ اس سے صاف ہوتا ہے کہ پولیس اپنے افسروں کا کیسےغلط استعمال کرتی آئی ہے۔
یاد ہوگا کہ بابری مسجد وانہدام معاملے میں تمام32 املزمین ثبوتوں کے فقدان میں بری ہو گئے۔ یہ مضمون لکھنے تک مجھے ایسی کوئی جانکاری نہیں مل پائی ہے کہ تین مہینے بعد بھی سی بی آئی نے اپیل دائر کی یا نہیں۔ہاشم پورہ کے بدنام زمانہ قتل معاملے، جس میں یوپی پولیس نے ہی 42 مسلمانوں کا قتل کر دیا تھا، کے مجرم ٹرائل کورٹ سے چھوٹ گئے تھے اور دہلی ہائی کورٹ سے سزا ملنے میں31سال لگ گئے۔
اکثریت کےتشدد کا سب سے خراب پہلو یہ ہے کہ متاثرین کو کہا جاتا ہے کہ ‘بھول جاؤ اور آگے بڑھو’یا خود ہی مان لیا جاتا ہے کہ وہ آگے بڑھ گئے ہیں۔ کوئی انصاف کی مانگ کرے تو کہا جاتا ہے کہ اس سے امن و امان میں خلل پڑسکتا ہے۔
لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ انصاف کے بناامن کی بات بے معنی ہے۔ کوئی بھی مدعا تب تک حل نہیں ہوتا، جب تک کہ وہ منصفانہ حل نہیں ہوتا۔
پوری کمیونٹی کےوجود میں ہی جرائم کو تلاش کرنا
کورونا مہاماری کے واقعہ میں تین ہائی کورٹ کو یہ فیصلہ دینا پڑا کہ اس کے تناطرمیں پوری مسلم کمیونٹی کو بدنام کیا جانا ‘غلط اورغیرمنصفانہ’ تھا۔یوپی کے انسداد گئو کشی قانون کے سلسلے میں بھی الہ آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ اس کاغلط استعمال ہو رہا ہے اور بے قصور لوگ جیلوں میں ہیں۔
ہاتھرس معاملے میں جو ریپ کا کیس درج بھی درج نہیں کر رہے تھے، اسی یوپی پولیس نے ابھی یوپی کے تبدیلی مذہب قانون (لو جہاد مخالف قانون کے نام سے معروف)کو مہینہ بھر ہی ہوا کہ دوڑکر 14 کیس درج کر لیے اور 51 لوگوں کو گرفتار بھی کر لیا۔
دھیان رہے کہ بین مذہبی شادیاں تو تنگ کرنے کا صرف ایک بہانہ ہیں۔ کل کو ایک خاص پوشاک پر بھی اعتراض کر سکتے ہیں کہ اس سے دہشت گردوں کو چھپانے میں مدد مل سکتی ہے۔
قانون کے رکھوالوں سے کوئی امید نہیں
مدد کرنا تو دور، یہ ماننے کےخاطر خواہ اسباب ہیں کہ پولیس غیرجانبدارنہیں ہے۔ قانون کا استعمال تنگ کرنے کے پسندیدہ ہتھیار کے طور پرکیا جا رہا ہے۔
بے قصورمسلمانوں کو فرضی مقدموں سے پریشان کرنے اور دہشت گردی سے متعلق کیسوں میں پھنسانے کی لسٹ لمبی ہے۔ چاہے ایک ایسے کامیڈین کا معاملہ ہو، جس نے کوئی توہین آمیز لطیفہ کہا ہی نہیں تھا یا اس غریب جوتے بیچنے والے کا جو ایک کمپنی کے بنائے جوتے بیچ رہا تھا، ان پر کیس کیےجانے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ وہ مسلمان تھے کیا پولیس کو سپریم کورٹ کے ان فیصلوں کا پتہ نہیں تھا جن کے تناظرمیں ان پر کوئی کیس بنتا ہی نہیں تھا؟
مدھیہ پردیش کے مندسور ضلع میں ایک ریلی میں شامل کچھ لوگوں نے دورانا گاؤں میں توڑ پھوڑ اور لوٹ پاٹ کی۔ سو کے قریب پولیس والے کھڑے ہوکر تماشہ دیکھتے رہے اور دنگائیوں پر کسی بھی طرح کےفورس کا استعمال نہیں کیا۔
ایک مسلمان سپاہی کو اپنے ہی گھر گاڑیوں کی توڑ پھوڑ اور اپنے بھائی کی اناج کی دکان کی لوٹ کا منظر وہاٹس ایپ پرموصولہ ویڈیو میں دیکھنے کو مجبورہونا پڑا۔ہمارا سر شرم سے جھک جانا چاہیے کہ آزادی کے 73 سال بعد بھی ہمارے مسلمان شہریوں کو ہماری پولیس پر اتنا بھی بھروسہ نہیں ہے کہ ریلی کے دن اپنی عورتوں کی حفاظت کے لیے انہیں دوسرے گاؤں بھیجنا پڑا تھا۔
ایک‘پولیس اسٹیٹ’ میں سرکاریں شہریوں پر یکساں طور پر پولیس کے کے ذریعے ظلم کرتی ہیں۔ لیکن ہماری حالت یہ ہو گئی ہے کہ پولیس ‘چن کر’خاص کمیونٹی کو تنگ کرتی ہے۔عدالتوں سے انصاف پانا اتنا پریشان کن اور خرچیلا ہے کہ وہ چند لوگوں کو چھوڑ کر باقی سب کی پہنچ کے باہر ہے۔
کیا ہو سکتا ہے ان سب کا مقصد
سطحی طور پر دیکھنے والوں کو لگ سکتا ہے کہ فرقہ وارانہ علیحدگی کو فروغ دینے کاسیاسی مقصد ہوگا۔ پر مجھے ایسا نہیں لگتا۔ملک میں ابھی ہی اتنا پولرائزیشن ہو چکا ہے کہ فرقہ پرست طاقتیں اسی کے بوتے پر سالوں تک انتخاب جیت سکتی ہیں۔ پھر وہ اس پر کیوں مسلسل لگے ہوئے ہیں؟
اس کی ایک ہی وجہ ہو سکتی ہے کہ وہ طاقتیں مسلمانوں کو ایک‘سماجی شکست’قبول کرنے پر مجبور کر دینا چاہتی ہیں۔‘بیگانگی یا علیحدگی’سے شروع کر، انہیں پہلے دوئم درجے کے شہری کی حیثیت دی جائےگی، پھر انتہائی کمتر معاشرےکا اور آخرمیں ان افراد کا جن کی کوئی جگہ ہی نہ ہو۔
اور یہ سب ہوگا قانون کا غلط استعمال کرکے۔ یہ جو تبدیلی مذہب سے متعلق قانون وغیرہ ہیں،یہ اصل میں اس لیب کی طرح ہیں جہاں مذکورہ ‘سماجی فتح’کی تیاری کی جا رہی ہے۔
مستقبل کے آسمان پر منڈراتے سیاہ بادل
مندسور کے تشدد کے دوران کچھ لوگوں نے مقامی مسجد پر چڑھ کر، تھوڑی دیر کو ہی صحیح بھگوا جھنڈۃ پھہرا دیا مانو انہوں نے اس پر فتح حاصل کر لی ہو۔ اس کا ویڈیو بھی دستیاب ہے۔اس وقت ایک شخص نے اپنے ہاتھ یوں اوپر اٹھا رکھے تھے جیسے کہ گجرات فسادات کے وقت کے ایک بدنام زمانہ فوٹو میں ایک شخص نے اٹھا رکھے تھے۔
یہی اندازکئی رہنما بھی اپنی تقاریرکے دوران اپناتے ہیں۔یہ انداز ان کے فتوحات(ٹرایمفلزم)کی علامت ہے، جیسے وہ پچھلے 1300 سالوں کی تاریخی غلطیوں اور شکست کا بدلہ لے رہے ہوں۔میں اپنے سماج کے جوآثار دیکھ رہا ہوں اس سے لگتا ہے کہ بھائی چارے کا خاتمہ ہو چکا ہے۔
میرا ماننا ہے کہ محض بحث کے لیے جو لوگ سچائی کوقبول کرنے سے انکار کر دیں اور دلیل دیں کہ ابھی جو ہو رہا ہے وہ ایک عارضی رکاوٹ(ایبیریشن)ہے، وہ مستقبل میں ایسی حرکتوں کو دیکھنے کومجبور ہوں گے جن سے خودانسانیت بھی شرمسار ہو جائےگی۔
بلڈ کینسر بھی شروعات میں لو- گریڈ فیور کے طور پر ہی ظاہر ہوتا ہے۔کسی سے نفرت کرنا آسان ہے، اس میں کچھ نہیں لگتا؛ مگر اس سے محبت کرنے کے لیے کوشش کرنی پڑتی ہے، کچھ دینا پڑتا ہے، تیاگ کرنا پڑتا ہے۔ اسی لیےنفرت بڑھتی جا رہی ہے۔
آج جو ہو رہا ہے، اس نے نہ صرف ہماری عوام کے اجتماعی لاشعورمیں چھپی حیوانیت کو جگا دیا ہے بلکہ اسے کسی بھی طرح کےجرم کے شعور سے بھی آزاد کر دیا ہے۔اگر ہم اپنے ملک کو اس صورت میں پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہیں جس تصور کے ساتھ اس ملک کا قیام کیا گیا تھا تو ہمیں اس حیوانیت پر روک لگانا ہی ہوگا۔
(مضمون نگار ریٹائرڈ آئی پی ایس افسرہیں اور کیرل کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس اور بی ایس ایف و سی آر پی ایف میں ایڈیشنل ڈائریکٹرجنرل رہے ہیں۔ )