بیشتر ملکوں کو اب یہ باور ہوگیا ہے کہ مودی حکومت کا مقصد دہشت گردی کے تدارک کے بجائے پاکستان کو کٹہرے میں کھڑا کر کے اقتصادی اور سیاسی طور پر لمحاتی فائدہ حاصل کرنا ہے ،اورمیڈیا کے ذریعے اپنے ملک میں واہ واہی لوٹناہے۔
پاکستانی وزیر اعظم عمران خان جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کر رہے تھے، تو میں اس وقت ترکی کے دارلحکومت انقرہ کی ایک سڑک سے گزر رہا تھا۔میں نے دیکھا کہ چائے خانوں میں بڑی تعداد میں لوگ بغور ان کی تقریر سننے میں محو تھے۔ نہ جانے کیسے یہ بات عام ہوئی تھی کہ وہ کوئی تاریخی تقریر کرنے والے ہیں۔ کئی ترک چینل نہ صرف تقریر براہ راست نشر کر رہے تھے، بلکہ اس کا ترک ترجمہ بھی ناظرین تک پہنچا رہے تھے۔ اسلاموفوبیا اور توہین رسالت پر جب عمران خان دلائل پیش کر رہے تھے، تو انقرہ جیسے شہر میں جو استنبول اور اناطولیہ کے دیگر علاقوں کے برعکس کمال ازم اور انتہا پسندانہ سیکولرازم کے رنگ میں رچا ہو ا ہے، میں کیفے میں ان کی تقریر دیکھنے اور سننے والے افراد تالیوں سے اس کی ستائش کر رہے تھے۔ عالم اسلام کی تنظیم آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن یعنی او آئی سی پر اس کی تاسیس سے ہی ایک طرح سے سعودی عرب اور پاکستان کی ایک طرح سے اجارہ داری رہی ہے۔
جس طرح اقوام متحدہ کے بجٹ کے ایک بڑے حصہ کو امریکہ تعاون دے کر سپر پاور کی حیثیت جتلاتا ہے، اسی طرح سعودی عرب بھی خاصی حد تک سکریٹریٹ وغیرہ کا بجٹ فنڈ کرکے اس تنظیم میں امریکہ جیسا رول ادا کرتا آیا ہے۔ پاکستان ایک طرح سے رابطہ کار اور فکری رہنمائی فراہم کرتا تھا۔ چونکہ پاکستان کا وزیر خارجہ یا اس کے افسران اچھی بامحاورہ انگریزی جاننے اور بولنے والے ہوتے تھے، کانفرنس کی قرار دادیں اور دیگر کارروائی کے متن کو ترتیب دینا ان کی ذمہ داری ہوتی تھی۔ مگر اب پچھلی ایک دہائی سے لگ رہا تھا کہ عالم اسلام کی لیڈرشب بتدریج سعودی عرب اور پاکستان کے ہاتھوں سے نکل کر ترکی اور ایران کے پاس آرہی ہے۔ موجودہ تناظر میں اگر جائزہ لیا جائے تو ترکی، ملیشیا اور پاکستان عالم اسلام کے نقیب بن کر ابھر رہے ہیں۔ چونکہ ان ممالک کے سربراہان نے مغرب اور اس کی جمہوریت کو قریب سے دیکھا ہے، اس لئے شاید وہ مدلل انداز میں مغرب کے ساتھ مکالمہ کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔
امید تھی کہ ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کی تقریر بھی خاصی زوردار ہوگی۔ اس عالمی فورم کا استعمال کرتے ہوئے وہ دنیا کو بتا دیں گے کہ ریاست جموں و کشمیر کو تحلیل کرنا اور وہاں بندشیں عائد کرنا آخر کیوں ضروری تھا؟یوں تو ہر عالمی فورم میں ہندوستانی مندوب کسی بھی مشترکہ اعلامیہ میں دہشت گردی اور اس میں پاکستان کا نام جوڑنے پر بضد ہوتے ہیں، مودی کی تقریر اس کے برعکس تھی۔ ہندی میں تقریر کرتے ہوئے بھی لگتا تھا کہ وہ اپنے روایتی جارحانہ اور تیز و طرار گفتار کے موڈ میں نہیں تھے۔ ان کی باڈی لنگویج سے خود اعتمادی بھی جھلک نہیں رہی تھی۔ شاید تقریر سے قبل نیو یارک میں مختلف سربراہان مملکت کے ساتھ ان کی ہونے والی ملاقاتوں کا یہ اثر تھا یا کچھ اور، اس کا تجزیہ کرنے اور اس کی تہہ تک جانے کی ضرورت ہے۔ ایک عرصہ قبل مغربی ملک کے ایک سفارت کار نے مجھے بتایا تھاکہ ہندوستان تو ہر میٹنگ میں چاہے دو طرفہ ہو یا کثیر الجہتی یا کسی بھی موضوع پر ہو چاہے ماحولیات یا اقتصادیا ت پر ہو، مشترکہ اعلامیہ میں پاکستان اور ہشت گردی کاذکر کروانے پر بضد ہوتا ہے۔
اس کا کہنا تھا کہ اب بتدریج مندوبین ہندوستانی ہم منصبوں کو بتاتے ہیں کہ جب دہشت گردی کایا پاکستان کا ذکراعلامیہ میں آگیا تو اس کے سبب و جڑ پر بھی اب بات ہو، تاکہ اس کا تدارک کیا جاسکے۔مگر سبب سے نپٹنے کا نام لیتے ہی ہندوستانی مندوب فوراً ہاتھ کھینچ لیتے ہیں۔ بیشتر ملکوں کو اب یہ باور ہوگیا ہے کہ مودی حکومت کا مقصد دہشت گردی کے تدارک کے بجائے پاکستان کو کٹہرے میں کھڑا کر کے اقتصادی اور سیاسی طور پر اس کو عدم استحکام کا شکار کرکے لمحاتی فائدہ حاصل کرکے،میڈیا کے ذریعے اپنے ملک میں واہ واہی لوٹنا تک ہی محدود ہوتا ہے۔ سفارت کار نے بتایا کہ جب ا ن کو بتایا جاتا ہے کہ پاکستان کے عدم استحکام سے تو خطہ کے بھی متاثر ہونے کا اندیشہ ہے اور دنیا اس کی متحمل نہیں ہوسکتی ہے تو وہ بغلیں جھانکنے لگ جاتے ہیں۔ 2016میں جب ہندوستان میں گووا کے مقام پر برکس یعنی برازیل، روس، انڈیا، چین اورجنوبی افریقہ کے سربراہان مملکت کی میٹنگ ہو رہی تھی۔
اس کے سائڈ لائن میں کئی اور بھی پروگرام بھی ترتیب دئے گئے تھے۔ برکس میڈیا فورم کا بھی ایک اجلاس طے تھا، جس میں ان پانچ ممالک کے مقتدر صحافی و ایڈیٹر حضرات شرکت کر رہے تھے۔ میں بھی اس فورم میں ہندوستانی ایڈیٹروں کے وفد کے ساتھ شامل تھا۔ مجھے یاد ہے کہ ایک چینی مندوب نے تجویزدی کہ برکس تنظیم کو ان پانچ ممالک میں ان کی قابلیت، صلاحیت و استعداد کومدنظر رکھتے ہوئے ریسرچ سینٹرز قائم کرنے چاہیے، جیسے برازیل میں ماحولیات اور کھیلوں سے متعلق، چین میں انفراسٹرکچر وغیرہ، روس میں سائنس اور جنوبی افریقہ میں کلچر وغیرہ کی مناسبت سے اعلیٰ ریسرچ سینٹریز قائم ہوں، جن کی تحقیق کا دیگر برکس ممالک فائدہ اٹھائیں۔ اس معقول تجویز کو سبھی نے پسند کیا۔ مگر اس چینی مندوب نے مزید کہا کہ پچھلے دو دنوں سے اس نے نوٹس کیا ہے کہ ہندوستانی وفد کے پاس دہشت گردی کے علاوہ اور کوئی ایشو نہیں ہے، اس لئے دہشت گردی سے متعلق سینٹر ہندوستان میں قائم کیا جائے۔ ظاہر ہے کہ ہندوستانی وفد نے اس پر خاصہ احتجاج کیا اور پروگرام کے منتظم نے میٹنگ کو برخاست کرنے اور لنچ کا اعلان کردیا۔
ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی اور پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان (السٹریشن: دی وائر)
خیر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں سربراہان مملکت کی تقریروں کا دور ختم ہوگیا۔ یہ اجلاس دسمبر کے اواخر تک کرسمس کی چھٹیوں تک چلے گا۔ ان جنرل اسمبلی کی چھ کمیٹیوں میں مختلف امور پر بحث و مباحثہ ہوں گے، اس میں تیسری اور چوتھی کمیٹیاں جو سماجی، کلچرل، دیگر انسانی حقوق، سیاسی و نوآبادکاری کے خاتمہ جیسے ایشوز پر توجہ مرکوز کرتی ہیں، خاصی اہم ہیں۔ اگلے چند ماہ میں یہاں پاکستانی اورہندوستانی سفارت کاروں کے درمیان ان کمیٹیوں میں خاصی معرکہ آرائی ہوگی۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی ہر سال تقریباً 350کے قریب قرار دادیں پاس کرتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چوتھی کمیٹی میں ہر سال اتفاق رائے سے حق خود ارادیت یعنی Right to Self Determination اور نوآدیاتی نظام کے خاتمہ پر بھی ایک قرار داد منظور ہوتی ہے۔ ابھی تک اس قرار داد کوہندوستان کی حمایت حاصل رہی ہے، کیونکہ اس میں کسی خطہ کا نام درج نہیں ہوتا ہے۔ بلکہ یہ حق خود ارادیت کے پرنسپل اور اس کی افادیت کا اعادہ کرتی ہے۔
دیکھنا ہے کہ کیا پاکستان اس بار اس میں ترمیم پیش کرکے جموں و کشمیر کو شامل کرنے کی کوشش کرے گا؟ اسی طرح تیسری کمیٹی جو سماجی، انسانی اور کلچرل حقوق کا احاطہ کرتی ہے، اس میں کئی تنظیمیں ہندوتو اور فاشزم کے بڑھتے واقعات کو اجاگر کرنے کی تیاریا کر رہی ہیں، اور اس پر کوئی سخت قرار داد بھی پاس کروائی جاسکتی ہے۔ مغربی ممالک میں حکومتوں سے پرے سول سوسائٹیز گروپ نیز خواتین اور بچوں کے لیے کام کرنے والے ادارے رائے عامہ پر اچھا خاصا اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ تجارتی مفادات کے باوجود کوئی بھی حکومت ان کی رائے کو نظر انداز نہیں کر سکتی ہے۔عمران خان نے جس طرح ہندوستان میں بڑھتے ہوئے فاشزم اور راشٹریہ سیویم سنگھ یعنی آر ایس ایس کو جس طرح نشانہ بنایا، اس نے مغربی ممالک کو سوچنے پر مجبور تو کر دیا ہے، مگر اس کو فالو اپ کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ بد قسمتی سے مودی حکومت مسلمانوں کی ایک قدیم تنظیم جمعیتہ العلماء کے ذمہ داران کو استعمال کرکے فاشزم اور آر ایس ایس کے خلاف بڑھتے رجحان کو روکنے کی کوشش کر رہی ہے۔ دانستہ یا نادانستہ پاکستان کی مخالفت میں اندھی یہ جمعیت بھی بھارت کی سکیورٹی ایجنسیوں کی ایما پراستعمال ہو رہی ہے۔
مغربی ممالک میں ہندوستان میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو بھی اپروچ کرکے بتانے کی ضرورت ہے کہ جس فاشزم کو یورپ نے 1945میں شکست دی تھی و ہ اب ہندوستان میں نہ صرف سرکاری سرپرستی میں پنپ رہا ہے، بلکہ خود سرکار میں ہے۔ آر ایس ایس کو عملاً بیشتر فنڈنگ مغربی اور خلیجی ممالک سے ہوتی ہے۔ بابری مسجد کی شہات کے حوالے سے ہندوستان کی ٹیکس و سکیورٹی اداروں کی ہی تحقیق نے انکشاف کیا تھا، کہ اس کی فنڈنگ خلیجی ممالک سے ہوئی تھی۔ ہندوستان میں اقلیتی فرقہ کے لیے زمیں کتنی تنگ ہو رہی ہے، یہ ایک پیغام مجھے دہلی سے ایک جاننے والے نے بھیجا، کہ کس طرح ایک سائیکل رکشہ والے نے ان کو بٹھانے سے منع کیا؛
میرے شوہر جمعہ کی نماز کی لیے سریتا وہار (جنوبی دہلی) کی مسجد میں جاتے ہیں اور وہاں دو گھنٹے گزارنا پسند کرتے ہیں۔عموماً بیٹا ڈرائیور بھیج دیتا ہے لیکن کل ڈرائیور نہیں تھا تو میں انھیں لینے گئی۔وہاں ایک ہی رکشہ والا تھا،گلے میں گیروا پٹہ میں ڈالے۔میں نے پوچھا جسولہ چلوگے۔وہ بولا۔نہیں۔ میں نے پوچھا کیوں نہیں؟۔ وہ بولا۔میں تم لوگوں کو اپنے رکشہ میں نہیں اٹھاتا۔اتنے میں ایک موٹر سے چلنے والا رکشہ آیا۔ میں نے اس سے بات کی۔وہ راضی ہوگیااورہم بیٹھ گئے۔ پہلے رکشہ والےنے دوسرے کو بلا کر کچھ کہا۔واپس آکر وہ بولا آپ لوگ اتر جاؤ مجھے ادھر نہیں جانا۔آپ کوئی اور کشہ لے لو۔ہم پندرہ منٹ دھوپ میں کھڑے رہے،پھر ایک ملا جی رکشہ والا آیا اور ہم گھر آئے۔وہ دونوں رکشہ والے خالی کھڑے رہے لیکن ہمیں نہیں اٹھا یا۔
مجھے یاد ہے کہ اتر پردیش صوبہ کے انتخابات کی کوریج کے دوران میں ایک کالج کے اسٹاف روم میں اساتذہ کے خیالات نوٹ کر رہا تھا، کہ ایک پروفیسر صاحب، جو ذرا دیر سے ہماری گفتگو میں شریک ہوئے تھے، جارحانہ انداز میں وزیر اعظم مودی اور حکمراں بی جے پی کی پالیسیوں کو کوس رہے تھے۔ بعد میں وہ مجھے چھوڑنے کے لیے باہرتک آئے۔ کالج گراؤنڈ میں میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا، مودی نے ایک کام تو اچھا کیا، جس کے لیے اس کی تائید ضروری ہے۔ میں نے جب اس کی وضاحت جاننی چاہی کیونکہ اندر اسٹاف روم میں یہ حضرت مودی کی طرف سے نوٹ بندی اور دیگر پالیسیوں کی سخت نکتہ چینی کررہے تھے، تو دور ایک مدرسہ اور مسجد کے مینار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ مودی نے ان مسلمانوں کی عقل ٹھکانے لگائی ہے اور انہیں کسی حد تک کنٹرول میں رکھا ہے۔ہندوستان کے اکثریتی طبقہ کو یہ باور کرایا گیا ہے کہ مسلمانوں نے یا تو ملکی وسائل پر قبضہ کیا ہوا ہے یا ان کے ذریعے ادا کئے گئے ٹیکسوں پر ہی وہ زندہ ہیں۔یہ مذہبی منافرت کا دوسرا مرحلہ ہے، جو فسطائیت کے زمرے میں آتا ہے۔
اسی طرح کا پرپیگنڈہ یورپ میں دوسری عالمی جنگ سے قبل یہودیوں کے خلاف عام تھا۔ہندوستان میں مذہبی منافرت ابھارنے کا کام اب منطقی انجام تک پہنچ چکا ہے۔