حیدرآباد میں خاتون ڈاکٹر کے گینگ ریپ اور قتل کے ملزمین کو پولیس انکاؤنٹر میں مار دیے جانے کے واقعے پر کارکنوں نے کہا کہ یہ انکاؤنٹر عورتوں کے حقوق کے تحفظ میں پولیس کی ناکامی سے لوگوں کا دھیان بھٹکانے کے لیےکیا گیا ہے۔
نئی دہلی: حیدرآباد میں ایک خاتون ڈاکٹر کے گینگ ریپ اور پھر اس کے قتل کے چاروں ملزمین کے پولیس انکاؤنٹر میں مارے جانے پر ہیومن رائٹس کے لیے کام کرنے والے کارکنوں نے سوال اٹھائے ہیں۔ کئی کارکنوں نے جمعہ کو کہا کہ پولیس کسی بھی حالت میں پیٹ پیٹ کر قتل کرنے والی بھیڑ کی طرح سلوک نہیں کر سکتی۔کارکنوں نے کہا کہ یہ انکاؤنٹر عورتوں کے حقوق کی حفاظت کرنے میں پولیس کی ناکامی سے لوگوں کا دھیان بھٹکانے کے لیے کیا گیا ہے۔
آل انڈیا پروگریسو وومینس ایسوسی ایشن (اے آئی پی ڈبلیو اے) کی سکریٹری کویتا کرشنن نے کہا، ‘یہ انصاف نہیں ہے بلکہ پولیس، عدلیہ اور سرکاروں سے جوابدہی اورعورتوں کے لیے انصاف اور ان کے وقار کے تحفظ کی مانگ کرنے والوں کو چپ کرنے کی ‘سازش’ ہے۔’کرشنن نے کہا، ‘عورتو ں کے حقوق کی حفاظت کرنے میں سرکار کی ناکامی کے بارے میں ہمارے سوالوں کا جواب دینے اور اپنے کام کے لیے جوابدہ بننے کے بجائے تلنگانہ کے وزیر اعلیٰ اور ان کی پولیس نے پیٹ پیٹ کر قتل کرنے والی بھیڑ کے رہنماؤں کی طرح کام کیا ہے۔’
AIPWA statement on Hyderabad Fake Encounter:
No Custodial Killing In Our Namehttps://t.co/OzAv8PZMrv— Kavita Krishnan (@kavita_krishnan) December 6, 2019
انہوں نے کہا کہ یہ واقعہ جرم کے خلاف پوری سیاسی اور پولیس سسٹم کی نااہلی اورناکامی کو قبول کرتا ہے۔ انہوں نے تلنگانہ کے وزیر اعلیٰ کے چندرشیکھر راؤ پر پورے معاملے سے دھیان بھٹکانے کی کوشش کا الزام لگایا۔ کرشنن نے کہا، ‘ہم پولیس اور سرکار سے سخت سوال کر رہے ہیں۔ ان سوالوں کاجواب دینے سے بچنے کے لیے یہ کارروائی یہ بتانے کی کوشش ہے کہ انصاف دے دیا گیا ہے۔’انہوں نے کہا کہ اس انکاؤنٹر میں شامل پولیس اہلکاروں کو گرفتار کیا جانا چاہیے اور ان کے خلاف کارروائی کی جانی چاہیے۔
فیڈریشن آف انڈین وومین (این ایف آئی ڈبلیو ) کی جنرل سکریٹری عینی راجہ نے کہا، ‘ملک میں سبھی قانون موجود ہونے کے باوجود سرکاریں انہیں نافذ کرنے میں ناکام ہو رہی ہیں۔ یقینی طورپریہ معاملے سے دھیان بھٹکانے کی کوشش ہے۔ اس معاملے میں اعلیٰ سطحی جانچ کی ضرورت ہے۔’سپریم کورٹ کی سینئر وکیل اور سماجی کارکن ورندا گروور نے اس معاملے کو پوری طرح ناقابل قبول قرار دیا۔ انہوں نے اس معاملے میں ایک آزادانہ عدلیہ جانچ کی مانگ کی ہے۔ ایک فیس بک پوسٹ میں گروور نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ‘ٹرگر ٹریک ان جسٹس’ کو نامنظور کریں۔
انہوں نے خبردار کیا کہ ، ‘تو اب سرکار عورتوں کو ایک آزاد شہری کی زندگی دینے کی یقین دہانی کے نام پر اس طرح کی لامحدودایک طرفہ تشدد کرے گی۔’سپریم کورٹ کی سینئر وکیل نے کہا کہ سپریم کورٹ کی ہدایات ہیں کہ انکاؤنٹر کے ہر معاملے میں پولیس کے خلاف ایف آئی آر درج اور جانچ ہونی چاہیے۔ انہوں نے اس انکاؤنٹر کی آزادانہ جانچ کی مانگ کی ہے۔گروور نے یہ بھی کہا کہ اس طرح کے قتل معاملے عوام کا دھیان بٹاتی ہیں اور پولیس اور سرکار کو کسی بھی طرح کی جوابدہی سے بچاتی ہیں۔
‘انہد’(ایکٹ ناؤ فار ہارمنی اینڈ ڈیموکریسی) کی بانی رکن شبنم ہاشمی نے بھی اس بات پر اتفاق کیا کہ یہ لوگوں کا دھیان کھینچنے کی سرکار کی کوشش ہو سکتی ہے۔ایک دوسری سینئر وکیل ریبیکا میمن جان نے ٹوئٹ کر کہا، ‘عورتوں کے نام پر پولیس انکاؤنٹر نہیں ہونا چاہیئے۔’
چاروں ملزمین کے پولیس انکاؤنٹر میں مارے جانے کے بعد ملک کے الگ الگ حصوں میں جشن منائے جانے پر سوال اٹھاتے ہوئے ریبیکا نے کہا، ‘بھیڑ کے ذریعے کئے گئےانصاف کا ہم جشن کیسے منا سکتے ہے؟ پولیس فورس جس پر کوئی بھروسہ نہیں کرتا، اس نے چار نہتے لوگوں کو مار دیا، کیوں؟ کیونکہ وہ کوئی اہمیت نہیں رکھتے تھے۔ کیا ہمارے پاس کبھی ایسا کوئی ثبوت ہوگا جو بتا سکے کہ انہوں نے (پولیس) جرم کیا ہے؟ کیا کوئی عدالت انہیں سزا دےگی؟
NHRC has asked its DG (Investigation) to immediately send a team for a fact finding on the spot investigation into the matter. The team of the Investigation Division of the Commission headed by an SSP, is expected to leave immediately and submit their report, at the earliest. https://t.co/s23llzMOE1
— ANI (@ANI) December 6, 2019
غور طلب ہے کہ نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن (این ایچ آر سی)نے معاملے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے پولیس انکاؤنٹر کے جانچ کا حکم دیا ہے۔بتا دیں کہ گزشتہ 27 نومبر کی رات میں حیدرآباد شہر کے باہری علاقے میں سرکاری اسپتال میں کام کرنے والی 25 سالہ خاتون ڈاکٹر سے 4 نوجوانوں نے ریپ کر کےاس کا قتل کر دیا تھا۔چاروں نوجوان لاری مزدور ہیں۔اس جرم کے سلسلے میں چاروں ملزم نوجوانوں کو 29 نومبر کو گرفتار کیا گیا تھا۔ اگلے دن 30 نومبر کو ان سبھی کو 14 دن کی عدالتی حراست میں بھیج دیا گیا تھا۔
خاتون ڈاکٹر کے لاپتہ ہونے کی ایف آئی آر درج کرنے میں لاپرواہی برتنے کے معاملے میں 3 پولیس اہلکاروں کو برخاست بھی کیا جا چکا ہے۔ 27 نومبر کی رات خاتون ڈاکٹر لاپتہ ہو گئی تھیں اور اگلی صبح ان کی جلی ہوئی لاش حیدرآباد کے شادنگر میں ایک زیر تعمیر فلائی اوور کے نیچے ملی تھی۔الزام ہے کہ 27 نومبر کی شام چاروں ملزمین نے جان بوجھ کر خاتون ڈاکٹر کی اسکوٹی پنکچر کی تھی اور پھر مدد کے بہانے ان کے ساتھ ریپ کیا اور قتل کر دیا۔پھر لاش کو جلا دیا۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)