حبیب تنویر اور مالک رام کی کنوینر شپ کے زمانے میں کئی بار اردو کی کسی کتاب کو انعام کے لائق نہیں سمجھا گیا ۔اس زمانے میں بھی یہ سوالات اٹھے کہ یہ کیسی بد نصیب زبان ہے کہ تین برس کے دورانیے میں ایک بھی ایسی کتاب شائع نہ ہوسکی جسے ساہتیہ اکادمی قابل توجہ سمجھتی ۔سچا علمی حلقہ اسی زمانے میں یہ بات سمجھنے لگا تھا کہ کسی مصلحت ،سازش یا حسد میں کچھ لوگوں کو انعام کا مستحق نہیں ماننے کے لیے یہ روایت قائم کی گئی تھی۔
ہزار تنازعات اور اختلافات کے باوجود ساہتیہ اکادمی انعامات کی اہمیت اب بھی باقی ہے اور جب جب کسی اہل مصنف اور کسی غیر معمولی کتاب کو یہ انعام ملتا ہے تو اس بات کی خوشی ہوتی ہے کہ اب بھی مکمل طور پر اندھیرا نہیں چھایا ہوا ہے اور اہالیان اکادمی اپنے فیصلوں کو اعتبار بخشنے کے لیے تھوڑے تھوڑے وقفے سے اہم مصنفین اور قابل ذکر کتابوں کو منتخب کر ہی لیتے ہیں ۔
ممتاز مصنف حسین الحق کا ناول’ اماوس میں خواب‘کو جب ساہتیہ اکادمی کے انعام کے لے منتخب کیا گیا تو اردو کے علمی حلقے سے بہر طوراطمینان کا اظہار کیا گیا اور ہر حلقے نے یہ تسلیم کیا کہ حق دار کو حق حاصل ہوا ۔
ایک طبقہ ایسے افراد کا بھی ہے جسے یہ دیر سے کیا گیافیصلہ معلوم ہوتا ہے کیوں کہ حسین الحق کی نسل کے فکشن لکھنے والوں میں عبدالصمد کو تو یہ عزت تیس برس پہلے مل گئی ۔سید محمد اشرف سے لے کر رحمان عباس تک لکھنے والوں کی ایک بھری پری فہرست ہے جنہوں نے حسین الحق کے بعد ہی اس میدان میں قدم رکھا مگر اکادمی نے انہیں پہلے قبول کیا ۔
یہی بات قابل اطمینا ن ہے کہ جوگیندر پال ،مجتبیٰ حسین ،شکیل الرحمان،قاضی عبدالستار،مظفرحنفی ،شفیع جاوید ،اقبال مجید جیسے بہت سارے مصنفین اس انعام کا انتظار کرتے ہوئے نامرادانہ طور پر ابھی حال کے دنوں میں ہم سے رخصت ہوئے ہیں ۔
ساہتیہ اکادمی کا قیام ہندستان کی آزادی کے بعد جواہر لعل نہرو ،رادھا کرشنن اور پہلے وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد کی کوششوں سے ہوا تھا ۔نئے جمہوریہ کی ادبی دانش کا اس ادارے کواظہاریہ بننا تھا مگر سیاست وسماج کی ہمہ رنگ گراوٹ کے اثرات اس عظیم ادارے پر بھی پڑے جہاں زبان،تہذیب اور ثقافت کی رنگا رنگی کو ملک کا شناخت نامہ بننے کا خواب دیکھا گیا تھا مگراس ادارے پر کئی طرح کے گہن چھانے لگے ۔
اردوکی حد تک غور کریں تو حبیب تنویر اور مالک رام کی کنوینر شپ کے زمانے میں کئی بار اردو کی کسی کتاب کو انعام کے لائق نہیں سمجھا گیا ۔اس زمانے میں بھی یہ سوالات اٹھے کہ یہ کیسی بد نصیب زبان ہے کہ تین برس کے دورانیے میں ایک بھی ایسی کتاب شائع نہ ہوسکی جسے ساہتیہ اکادمی قابل توجہ سمجھتی ۔
سچا علمی حلقہ اسی زمانے میں یہ بات سمجھنے لگا تھا کہ کسی مصلحت ،سازش یا حسد میں کچھ لوگوں کو انعام کا مستحق نہیں ماننے کے لیے یہ روایت قائم کی گئی تھی۔صرف یاد دہانی کے لیے یہ بات ذہن میں رہے کہ اس دوران قاضی عبد الودود،کلیم الدین احمد ،امتیاز علی عرشی ،ساحر لدھیانوی ،کرشن چندر ،عصمت چغتائی ،علی سردار جعفری ،غیاث احمد گدی ،اختراورینوی ،سہیل عظیم آبا دی جیسے مصنفین کی ایک بھری پری فہرست ہو سکتی ہے جن کی کتابیں اس دوران شائع ہوئیں اور شعروادب میں جنہیں سکہ رائج الوقت سمجھا گیا مگر ساہتیہ اکادمی نے انھیں نہیں نوازا۔
اس کے بعد ساہتیہ اکادمی میں پروفیسر گوپی چند نارنگ پانچ پانچ برس کی مدت کل دس برسوں تک اردو کمیٹی کے کنوینر رہے ۔اس کے بعدپانچ برس نائب صدر اور پانچ برس اس عظیم ادارے کی صدارت کا بھی انہیں موقع نصیب ہوا ۔
گزشتہ تیس برسوں میں گوپی چند نارنگ کی پسند کا ہی شخص اردو کی کمیٹی کا کنوینر ہی نہیں عام ممبر بنتا رہا جس کے نتیجے میں پچھلے تیس برسوں میں کسی ایک ایسے شخص کو بھی ساہتیہ اکادمی انعام پیش نہیں گیا جو ادب و تنقید کے کسی بھی پلیٹ فارم پر جز وقتی یا کل وقتی طور پر ان کا مدح خواں نہیں رہا ہو ۔ایسے میں ان لوگوں کے بارے میں تو نتیجہ پہلے سے ہی ظاہر ہے کہ جنہوں نے ادبی یا شخصی معاملے میں نارنگ صاحب کی جزوی یا کلی طور پر مخالفت کی ہو ۔ظاہر ہے کہ سب کے سب راندۂ درگاہ قرار دیے گئے ۔
حسین الحق کو انعام دیے جانے کا فیصلہ حقیقت میں ان کی نصف صدی کی تصنیف وتالیف کے شعبے میں ریاضت کا اعتراف نامہ ہے ۔حسین الحق یوں تو ’شب خون‘میں اچھی خاصی مقدار میں شائع ہوئے اور سریندر پرکاش، بلراج مین را اور غیاث احمد گدی کی نسل کے بعد آنے والے ایسے صاحب قلم تھے جنہیں کسی خاص ادبی حلقے کااسیر نہیں مانا جا سکتا ۔
یہ بھی ایک سچائی ہے کہ وہ اپنی تصنیفی زندگی میں مرحوم شمس الرحمان فاروقی کے زیادہ قریب نظر آئے مگر ان حلقہ بندیوں میں شامل ہو کر اپنی ادبی شناخت کے وہ کبھی قائل نہیں رہے ۔شاید اسی لیے اس اعتراف کے لیے اچھا خاصا انتظار کرنا پڑا ورنہ ان کے ناول’فرات‘اور ان کے افسانوی مجموعے ’نیو کی اینٹ‘ کو بہ آسا نی اس ایوارڈ کے لے چنا جاسکتا تھا ۔
حسین الحق شوکت حیات اور اپنے دوسرے دوستوں کی طرح اس بے رخی سے بد دل نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے مسلسل لکھتے رہنے اور اس کی بنیا د پر قارئین کے ذہنوں پر دستکیں دینے کے کام میں کبھی کوتاہی نہیں کی ۔سال دو سال میں ان کا کوئی نہ کوئی افسانہ شائع ہوجا تا جس سے ان کی ادبی مشق، افسانوی مہارت اورصف اول میں شامل ہونے کا دعوی ٰ بتدریج قائم ہوتا رہا ۔
جب تخلیقی وقفے بڑھے تو انہوں نے مضمون نویسی کو بھی اپنے ادبی کا موں کا حصہ بنایا ۔ادھر ایک دہائی سے تو وہ باضابطہ طور پر نظمیں ،غزلیں شائع کرانے لگے تھے جس سے یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ ان کے یہاں علمی طورپر ایک زرخیزی ہمیشہ قائم رہی ۔
حسین الحق نے عمر کے بہتر برس گزار لیے ۔چار دہائیاں انہوں نے درس وتدریس کے شعبے میں بھی خرچ کیں ۔دس برس کی عمر سے کہانیا ں لکھنے لگے تھے ۔بچوں کے رسائل میں بھی ان کی تحریریں شائع ہونے لگیں ۔کبھی صوفی بلیاوی اور کبھی حسین الحق صوفی کے نام سے بھی لکھتے تھے ۔
سہسرام میں لڑکپن کے دور میں شفق اور حسین الحق ادب کی دنیا میں قسمت آزمائی کرنا شروع کرتے ہیں ۔اس وقت وہاں سلطان اختر شاعر کے طور پر ابھر چکے ہیں ۔رفتہ رفتہ جدید منظر نامے پر ان کی پہچان قائم ہورہی تھی ۔سلطان اختر کے آس پاس نئے ذہن کے لکھنے والوں کا جو حلقہ جمع ہوا،اس میں حسین الحق اور شفق نے بہت جلدقومی سطح پر اپنی پہچان قائم کی۔
حسین الحق ایک صوفیانہ گھرانے میں پیدا ہوئے ۔اردو،فارسی زبان اور مذہبی اصطلا حوں پر انہوں نے اپنی فکشن کی بنیاد قائم کی ۔وہ خود اپنی خانقاہ کے صاحب سجادہ ہیں اور مختلف مواقع پر مجلسوں میں سید شاہ حسین الحق شہودی چشتی کے مکمل نام سے بھی سامنے آتے رہے ۔تصوف کے حوالے سے ان کے متعدد مضامین سامنے آئے ۔
اردو ادب کی تاریخ کے حوالے سے وہ صوفیانہ امور کی تلاش وتحقیق میں بھی منہمک رہے ہیں ۔مگر یہ حقیقت ہے کہ وہ اردو میں افسانہ نگار اور ناول نگار کے طور پہچانے گئے اور یہی ان کی امتیازی شان بھی ہے ۔
ایک زمانے میں وارث علوی نے عبد الصمد اور رضوان احمد کی افسانوی زبان پر بڑے عبرت آمیز اعتراضات کیے تھے،اور بہار کے نئے لکھنے والوں کی زبان دانی پر سو سوال قائم کئے تھے ۔اس دور میں شوکت حیات اور حسین الحق نے اپنی تخلیقات سے یہ جواب دیا کہ ان کی یہ زبان نہ صرف معیا ری ہے بلکہ فکشن کی با اعتبا ر آواز بننے کی سا ری استعدا د اس میں موجود ہے ۔
حسین الحق نے اردو کے بڑے نثر نگاروں کی روایت کو بغور سمجھا تھا اور ان لوگوں کے زیر سایہ اپنی زبان کی تعمیر وتشکیل کی تھی ۔ان کے لیے یہ فائدے کی بات تھی کہ وطن بھوجپوری زبان سے متعلق تھا اور زندگی کی آخری چار دہائیاں مگہی زبان کے حلقے میں گزریں ۔یہ گوتم بدھ کی ریاضت کی جگہ بھی تھی ۔یہی نہیں بہار کا وہ علا قہ زمین کے بے ترتیب بٹوارے اور بے انصافیوں کے نتیجے میں پیدا ہوئے نکسل وادی پُر تشدد تحریکوں کا بھی مرکز تھا ۔
حسین الحق نے پچھلی اور تازہ ہر روایت سے فیض اٹھایا ۔صوفیوں سے سیکھا اور رشی منیوں کو بھی بغور ملاحظہ کرنے سے بھی گریز کا راستہ نہیں اختیار کیا ۔سیاسی اور سماجی تبدیلوں پر بھی نگاہ رہی ،مگر عام انسانی زندگیوں کے داخلی کرب کو اسی باریکی سے سمجھنے کے لیے کوشاں رہے ۔
ضمیرالدین احمد کے’ سوکھے ساون‘ کو تو لوگ یا د رکھتے ہیں مگر حسین الحق کی کہانیوں میں’ ناگہانی‘اور’ ان حد‘ کو شاید لوگوں نے اس توجہ سے نہیں پڑھا ۔بابری مسجد پر تو بہت ساری کہا نیا ں لکھی گئیں مگر حسین الحق کی’ نیو کی اینٹ‘ واقعتاً ایک مختلف کہانی قرار دی گئی ۔
حسین الحق کے ناول ’فرات ‘پر مختلف نقادوں کی تحریروں کو شہاب ظفر اعظمی نے یکجا کر دیا تھا ۔ڈاکٹر عبدالرحیم کی ایک مختصرسی کتاب حسین الحق کی افسانہ نگاری پر شائع ہوئی ۔بعض اہم نقادوں نے حسین الحق کے کاموں کا تنقیدی جائزہ لیا ہے مگر نصف صدی سے زیاد ہ پھیلے ان کے کاموں کا احتساب جس اہتمام سے ہونا چاہیے ،وہ اب تک ممکن نہ ہوا ۔گزشتہ برس انہیں غالب ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا ۔ابھی ابھی ساہتیہ اکادمی انعام سے ٹھیک پہلے انہیں شمیم نکہت فکشن ایوارڈ سے نوازے جانے کا اعلان بھی سامنے آیا ہے۔
گزشتہ ایک برس سے جب پوری دنیا وبائی کرب میں مبتلا رہی ،حسین الحق بھی صحت کی متعدد معذرتوں میں الجھے رہے ۔کبھی کیمو تھیریپی سے کامیاب گزرنے کی اطلاع آئی ،کبھی دعاؤں کی درخواست عوامی سطح پر کی گئی ،کبھی ان کی بتدریج درستی صحت کی اطلاع سے از حد مسرت بھی ہوئی ۔دوروز پہلے انہوں نے فیس بک پر اپنی ایک غم گین سی نظم’ وادی اجل کے راستے میں‘ پیش کی ۔ایسے مرحلے میں ساہتیہ اکادمی کا یہ انعام چارہ ساز بن جائے اور حسین الحق بیماریوں سے نکل کرہشاش بشاش ہمارے سامنے آجائیں تو اس سے اچھا اور کیا ہو؟
ہم انہیں بیش قیمت ایوارڈ کے لیے مبارک باد دیتے ہیں اور بارگاہ ایزدی میں سر بسجود ہیں کہ انہیں صحت کاملہ نصیب ہو ۔ان کے باقی ماندہ کام منظر عام پر آئیں۔خاص طور سے شیر شاہ کی زندگی پر ان کا فکشن مکمل طور پرعوام کے سامنے آئے ۔حسین الحق کے ساتھ ہی حافظ کرناٹکی کو ادب اطفال کا اور عزیزی ثاقب فریدی کو ساہتیہ اکادمی کا یوا پرسکار ملا ہے۔ انہیں بھی اس موقعے سے مبارک باد۔
مضمون نگار پٹنہ کے کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس میں صدر شعبہ اردو ہیں۔