
لاسلو کراسناہورکائی کے تخلیقی عمل کا ایک حوالہ اگر ان کے ناول ہیں تو دوسرا سینما ہے۔ دراصل لاسلو اور بیلاٹار کی فلمیں تخلیقی طور پر کسی فلمساز اور ناول نگار کی ہم آہنگی اور باہمی تعاون کی بہترین مثال ہیں۔

لاسلو کراسناہورکائی وسطی یورپ کی ادبی روایت کے علمبردار ہیں۔ تصویر بہ شکریہ:Lenke Szilagyi Via politicaprosa.com
ایک
کئی سال پہلے موسم سرما میں لاسلو کراسنا ہورکائی دہلی تشریف لائے تھے۔ میں ان دنوں چھتیس گڑھ میں مقیم تھا۔ مجھے اپنے دوست راہل سونی سے پتہ چلا کہ وہ ادبی تنظیم ’ آلموسٹ آئی لینڈ‘کی دعوت پر دہلی آ رہے ہیں۔بہرحال، کوئی تو بہانہ بنا کر میں نے ٹرین پکڑی اور 20 دسمبر 2013 کی صبح دہلی آگیا۔
ساڑھے دس بجے ان کا ’ مصنف سے ملاقات‘ کا پروگرام تھا۔ سردی کی اُس صبح انڈیا انٹرنیشنل سینٹر کے کانفرنس روم میں بہ مشکل دس-پندرہ لوگ رہے ہوں گے، جو سفید بالوں والے مصنف کی خاموشی میں شریک ہونے آئے تھے۔ اتنا بڑا مصنف ہندوستان میں تھا، لیکن نہ تو کوئی ’ پروموشنل پروگرام ‘تھا اور نہ ہی انہوں نے کسی کو انٹرویو دیا۔ میں خاموشی سے اپنی ڈائری میں نوٹ لیتا رہا۔ میرے پاس پلیٹ فارم دستیاب تھا، دی انڈین ایکسپریس، جہاں میں ان دنوں کام کرتا تھا، لیکن میں نے کچھ بھی شائع نہیں کیا۔ میں نے سوچا کہ ایک ایسے مصنف کی مقدس تنہائی میں کیوں دخل اندازی کی جائے جو ‘صوفیانہ ہونے کو سب سے بڑا اعزاز’ سمجھتا ہو۔ جب انہیں 2015 میں مین بکر انٹرنیشنل ایوارڈ ملا تو مجھے ان کے بارے میں لکھنے کی ایک ‘وجہ’ ملی، اور تب کہیں جاکرمیں نے ان پر ایک مضمون قلمبند کیا ۔
جب وہ دہلی آئے تھے،تو اس وقت تک شاید انہیں کوئی بڑا اعزاز نہیں ملا تھا۔ لیکن انہیں سن رہے ہم سب جانتے تھے کہ ہم ایک بڑے تخلیق کار کے حضور ہیں۔
وہ سمٹے اورسکڑےہوئے تھے، انتہائی آہستہ روی اور دھیمی آواز میں بول رہے تھے۔ لگتا تھا ان کے لفظ ہمارے پاس آنے سے بھی گریز کر رہے تھے۔ ہم خود ایک صبر آزما سفر طے کرتے ہوئے ان کے جملوں تک رسائی حاصل کر رہے تھے۔ لاسلو اکثر کچھ بھول جاتے تھے، خاموش ہو جاتے تھے — دیوار یا خلا میں گھورنے لگتے تھے۔ ساتھ بیٹھی اپنی بیوی ڈورا کی طرف متوجہ ہوتے اورانہیں معصومیت سے دیکھنے لگتے تھے۔ ڈورا انہیں وہ کھویا ہوا لفظ سونپ دیتی اور سلسلہ پھر سے شروع ہوجاتا تھا۔
وہ دیر تک ادب اور اپنی تخلیقات کے بارے میں بولتے رہے۔ کسی نے شاید پوچھا تھا کہ سفر کے دوران جب کوئی خیال یاامیج ذہن میں پیدا ہوتاہےتو اس کے نوٹ کس طرح لیتے ہیں ۔ ان کا جواب تھا، ‘میں اپنے اندر لکھتا چلاجاتا ہوں۔ پندرہ اے فور صفحے کے قریب مواد اپنے اندر جذب کر لیتا ہوں۔’
ناول ان کے اندر پہلے ہی لکھا جا چکا تھا،ڈیسک پر وہ اسے صرف قلمبندکرتے تھے۔
انہوں نے ارتکاز کی ایک اور مثال دی تھی۔لاسلوان دنوں کالج میں تھے۔ ان کے ادب کے استاذ ایک کتاب لے کر آتے اور ہنگری زبان میں اس کے اقتباسات سنانا شروع کر دیتے۔ وہ پینتالیس منٹ تک اس کی قرأت کرتے اور کلاس ختم ہونے پرچپ چاپ چلےجاتے۔ لاسلو کو کبھی نظر آجاتا کہ کتاب کے سرورق پرلکھا تھایولیسس، اور اس کے مصنف کوئی جوائس تھے۔ کئی سال بعد لاسلو کو پتہ چلا کہ تب تک اس کتاب کا ہنگری زبان میں ترجمہ نہیں ہوا تھا۔ ان کے استاذ اس پیچیدہ اور ناہموار ناول کو پڑھتے اور ترجمہ کرتے تھے۔ کئی سال بعد جب میں نے فرانسیسی فلسفی نکولس میلبرانچے کا قول پڑھا کہ ‘ارتکاز وہ عبادت ہے جو روح کو آسانی سے دستیاب رہتی ہے’، تومجھے لاسلو اور ان کے استاذ یاد آئے تھے۔

لاسلو کراسناہورکائی کا تخلیقی عمل مطمئن کرتا ہے… زندگی کتنی ہی حقیر اور اذیت ناک کیوں نہ ہو، ایک باوقار انجام کا امکان اب بھی باقی ہے۔ (تصویر بہ شکریہ: متعلقہ پبلی کیشن)
دو
لاسلو کراسناہورکائی جس ملک کے مصنف ہیں، وہ ہنگری وسطی یورپ کا حصہ ہے۔ چیک ریپبلک، سلوواک ریپبلک، پولینڈ اور ہنگری نے مل کر ایک یونین بھی بنا لی ہے—ویشگراڈفور۔ یہ یونین ان چار وسطی یورپی ممالک کے مشترکہ مفادات کے لیے کام کرتی ہے اور امیرمغربی یورپی ممالک کے برعکس اپنی خودمختاری کا دعویٰ کرتی ہے۔
تاہم، ان ممالک کی داخلی سیاست گزشتہ برسوں میں بدلتی چلی گئی ہے۔
خود ہنگری کے حکمران اس وقت روس اور ولادیمیر پتن کے قریب نظر آتے ہیں۔ اس کے باوجود، ان ممالک کے کچھ دانشور ایک مشترکہ وسطی یورپی حساسیت کی تجویز پیش کرتے ہیں۔ چیک مصنف میلان کنڈیرا بھلے ہی فرانس میں آباد ہو گئے، لیکن ان کا دل وسطی یورپ میں، پراگ میں ہی ٹھہرارہا۔ لاسلو کراسناہورکائی جس مصنف کے سب سے بڑے شیدائی ہیں ، وہ ہیں پراگ کے فرانز کافکا۔ وسطی یورپ کا یہ شہری اپنی ثقافت کو مشرقی سپر پاور روس اور فرانس اور امریکہ جیسی مغربی طاقت، دونوں سے بچانا چاہتا ہے۔جس برائی کے سائے سے لاسلو کی کہانیاں ہمیں آگاہ کرتی ہیں، اس کا ایک بیج یہاں ہے۔
تین
جب سے لاسلو کراسناہورکائی نے ادب کا نوبل انعام جیتا ہے، ان کے ناولوں کا بہت چرچا ہے۔ کسی گہری سانس کی طرح ورق در ورق لامحدود آسمان پر معلق طویل جملے، درجنوں صفحات پر مشتمل جملے؛ سیاہ منظر نامے کی تصویر کشی کرنے والے عجیب و غریب استعارے،مثلاً دی میلنکلی آف ریزسٹنس (مزاحمت کی اداسی)کی سرکس کمپنی جو بھوسے سے بھری ایک عظیم الشان وہیل کی نمائش کے لیے آئی ہے؛ آنے والی تباہی کاخدشہ پیدا کر رہا ہواؤں میں منڈراتا اخلاقی بحران ۔
یورپی ناول لامتناہی جملوں کی گہری روایت رکھتا ہے۔ آپ اس کو رموز اوقاف کےقواعدکی نفی مان سکتے ہیں، لیکن آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ مصنف کوما یا فجائیہ نشان کوناکافی اور غیرمتعلق تصور کرتا ہے۔ وہ کسی مجاز وقفے کی تلاش میں سرگرداں ہے۔
چار
اگر لاسلو کے تخلیقی عمل کا ایک حوالہ ان کے ناول ہیں تو دوسرا سینماہے،جس پر نسبتاً کم بات ہوئی ہے۔ اس دسمبر تک میں نے ان کے صرف دو ناول پڑھے تھے—سیٹن ٹینگو اور دی میلنکلی آف ریزسٹنس ۔ میں واقعتاً ان ناولوں کی طرف ان فلموں کے ذریعے آیا تھا جو بیلاٹار نے ان ناولوں پر بنائی تھی —سیٹن ٹینگو اور ورکمیسٹرہارمونیز ۔

یہ فلمیں ناول نگار اور فلمساز کی تخلیقی ہم آہنگی کی بہترین مثالیں ہیں۔
لاسلو نے نہ صرف یہ فلمیں لکھی تھیں، بلکہ وہ ان کے پروڈکشن میں بھی پوری طرح سے شریک تھے، اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ یہ فلمیں ان کے ناول کے نقطہ نظر کی ترجمانی کریں۔بیلاٹاراورلاسلونے مل کر متعدد دوسری لازوال فلمیں بنائی بھی تھیں—سب کی سب بلیک اینڈ وہائٹ۔
ان دنوں مجھ پربھی فلم بنانے کا جنون سوار تھا۔ چھتیس گڑھ میں رہتے ہوئے میں نے دو فلموں کی اسکرپٹ لکھی تھی اور اب کرداروں کی تلاش میں تھا۔ میرا ان دنوں کاایک بہت ہی پیارا دوست تشار واگھیلا کچھ شارٹ فلمیں بنا چکا تھا۔ ہم دونوں اپنے آپ کو ایک بڑے فلک کی فلم میں غرق کر دینا چاہتے تھے ۔ سارنگڑھ کے شاہی خاندان کے ایک فرد ڈاکٹر پرویش مشرا ہمارے شریک سفر بن رہے تھے۔ انہوں نے اپنا سارنگڑھ کامحل ہمارے حوالے کر دیا تھا۔ میری ایک مکمل اسکرپٹ جنگل کے درمیان ٹھہری اس ریاست پر مرکوز تھی۔ اس کہانی میں اپنی ٹوٹتی بکھرتی ریاست کا گواہ بنتا ایک بزرگ راجا تھا، دارالحکومت چھوڑ کر جنگل آیا ایک نوجوان مصنف اورمحل پر منڈلاتا نکسلیوں کا سایہ ۔ ہم نے اس محل میں تھوڑی بہت شوٹنگ بھی کی تھی۔
میں ان دنوں سوچتا تھا کہ لاسلو کراسناہورکائی اوربیلاٹارکا کام کسی فلمساز اور ناول نگار کی تخلیقی ہم آہنگی کی اعلیٰ ترین مثال ہے —آج تک اس رائے پر قائم ہوں۔ ایسی اور بھی مثالیں ہیں۔ مثلاً، پیٹر ہینڈکے نے وِم وینڈرز کے ساتھ ان کی شاید سب سے عظیم فلم وِنگز آف ڈیزائرکا اسکرین پلے لکھا ہے، بعض دوسری فلموں میں بھی دونوں نے ایک ساتھ کام کیا ہے۔ لیکن لاسلو کراسناہورکائی اور بیلاٹار طویل عرصے تک، متعدد فلموں میں ساتھ رہے ہیں، کچھ اس طرح کہ آپ انہیں دونوں فنکاروں کا مشترکہ تخلیقی کارنامہ سمجھ سکتے ہیں۔
دی ٹیورن ہارس کے پہلے منظر میں ایک قدآورگھوڑا چلا جا رہا ہے… ہانپتے ہوئے ،بپھرتے ہوئے۔بہت دیر تک کیمرہ گھوڑے پر ٹھہرا رہتاہے، اور پھر ایک بوڑھا سوار نمودار ہوتا ہے۔ اور اب فریم میں بوڑھا اور تانگے کو کھینچنے والا اس کا گھوڑا ۔ پوری فلم اس غریب بوڑھے، اس کی بیٹی اورلاغر ہوتے گھوڑے کے گرد گھومتی ہے۔ اس غریب خاندان کی زندگی کی ایک ایک تفصیل، اُبلے ہوئے آلوکے سہارےگزرتے دن۔فلم میں تقریباً کوئی مکالمہ نہیں ہے—صرف اسکرپٹ، کیمرہ اور اداکاری۔

دی ٹیورن ہارس وسطی یورپ کےچھوٹے سے گاؤں میں رہنے والے ایک غریب خاندان کی کہانی ہے۔
ورکمسٹر ہارمونیزکا افتتاحی منظرسنیما کے سب سےنتیجہ خیز ابتدائی مناظر میں شمار ہونے لائق ہے۔ ایک بے نام سی اداسی کے ساتھ چلتا جا رہا نوجوان وسطی یورپ کے کسی شہر میں داخل ہوتا ہے۔شراب خانہ بند ہونے کا وقت ہے۔ مالک بوڑھے اور دھت شرابیوں باہر دھکیل رہا ہے کہ ایک بوڑھا اس نوجوان سے کچھ درخواست کرتا ہے۔ اس کے بعد وہ نوجوان سولر اور لونر ایکلپس کو اسٹیج کرتا ہے۔ بزرگ شرابی سورج، زمین اور چاند کا کردار ادا کرتے ہیں۔ کرداروں کے ذریعے چاند اور سورج گرہن کی تصویر کشی تخلیقی نقطہ نظر کی انتہا ہے۔
ان دونوں کی عظیم تخلیق ہے—سات گھنٹے کا سیٹن ٹینگو ۔ میں نے گزشتہ سالوں میں کئی دوستوں کو اپنے گھر مدعو کرکے یہ فلم دکھائی ہے۔ دو بار تو اس کی ‘پرائیویٹ اسکریننگ’ یورپ میں کی ہے۔ اس کی کہانی انتہائی سادہ ہے۔ ایک چھوٹے سے شہر کے لوگ ہر طرح کی بے حیائی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ اس گھٹن اور تعفن کو برداشت کرنے سے قاصر ایک لڑکی اپنے آپ کو اور اپنی بلی کو مار ڈالتی ہے۔ سنیما کے پردے پر ایک بچے کی خودکشی کے چند مناظر فوراً ذہن میں آتے ہیں — رابرٹ بریسوں کی موچیٹ ، بہمن گھوبدی کی ٹرٹلز کین فلائی اور سیٹن ٹینگو ۔ ان تمام فلموں میں آپ ایک بچی کی خشک آنکھوں میں پورے معاشرے کی اخلاقی زوال کی داستان پڑھ سکتے ہیں۔
یہ لڑکی پہلے اپنی پیاری بلی کو بے دردی سے مارتی ہے، پھر اسے زہر دے دیتی ہے۔وہ مری ہوئی بلی کو اپنی گود میں اٹھائے دیر تک گاؤں کی پگڈنڈی پر برسات میں چلتی جاتی ہے- تقریباً پانچ منٹ تک کیمرہ اس پر ٹکا رہتا ہے۔ اس کے بھیگتے-بپھرتےچہرے پر ویرانی ہے، بیزاری ہے،المناکی ہے۔ وہ چلتی جا رہی ہے۔ ناظر سہما ہوا اپنے آپ سے پوچھتا ہے— کیا وہ گاؤں چھوڑ کر جا رہی ہے؟ یا اپنے خاندان سے، اپنے پڑوسیوں سے بدلہ لینے جا رہی ہے، جنہوں نے اسے ایسی اندھیری سڑک پر چھوڑ دیا ہے، جہاں ہمدردی اور محبت جیسی انسانی قدریں ناپید ہو چکی ہیں؟ آپ کو نہیں معلوم کہ وہ وہی زہر کھانے والی ہے جو اس نے اپنی بلی کو دیا تھا۔
سیٹن ٹینگو اور دی ٹیورن ہارس میں تقریباً پندرہ سال کا فاصلہ ہے۔ سیٹن ٹینگو کی بچی کا کردار ایریکا بوک نے ادا کیا ہے، وہی آگے چل کر دی ٹیورن ہارس کی نوجوان عورت بنتی ہے ، اپنے کمزور، معذور بوڑھے باپ کو موت طرف بڑھنے میں مدد کرتی ہوئی۔
لاسلو کراسناہورکائی کاتخلیقی عمل اسی طرح کے خاتمے پر یقین رکھتا ہے۔ زندگی کتنی ہی حقیر اور اذیت ناک کیوں نہ ہو، ایک باوقار انجام کا امکان اب بھی باقی ہے۔آپ کو زندگی بھر ایک لمحے کے لیے بھی توقف کا موقع نہ ملا ہو، تو آپ آخر کار ایک مہذب فل اسٹاپ (ختمہ)کا انتخاب کر سکتے ہیں۔