کووڈ کے تعلق سے مودی حکومت کی بدانتظامی نے معیشت کی کمر توڑ دی

کووڈ وبائی امراض کے اثرات ہندوستانی معیشت پر بھی واضح طور پر نظر آتے ہیں۔ جہاں ایک طرف بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے، وہیں دوسری طرف شہروں میں مختلف کاموں میں لگے مزدور زرعی شعبے سے منسلک ہونے پر مجبور ہوئے ہیں۔

کووڈ وبائی امراض کے اثرات ہندوستانی معیشت پر بھی واضح طور پر نظر آتے ہیں۔ جہاں ایک طرف بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے، وہیں دوسری طرف شہروں میں مختلف کاموں میں لگے مزدور زرعی شعبے سے منسلک ہونے پر مجبور ہوئے ہیں۔

(علامتی تصویر بہ شکریہ: فلکر)

(علامتی تصویر بہ شکریہ: فلکر)

ہندوستانی شہری اب بھی کووڈ وبائی امراض کے اثرات کے ساتھ زندگی بسر کر رہے ہیں۔ یہاں ہم صرف دو پہلو پر غور کرتے ہیں: حکومت کی بدانتظامی، معیشت اور نوکریوں پر کچھ اثرات۔

تین سال پہلے، 15 اپریل، 2021 کو، کووِڈ پر حکومت ہند کی کابینہ کی تین مہینوں میں پہلی بار میٹنگ ہوئی تھی۔ (پچھلی بیٹھک 11 جنوری کو ہوئی تھی)۔معاملے 216000 سے زیادہ  تھے اور اموات 1100 سے تجاوز کر گئی تھیں۔ اس کے دو دن بعد 17 اپریل کو وزیر اعظم نے آسنسول میں لاکھوں لوگوں کے ساتھ اپنی سب سے بڑی ریلی کی۔

اس دن کے کووڈ کے یومیہ معاملے 260000 تھے اور اموات 1500 تھیں۔ اس وقت تک، وزیر اعظم ممکنہ طور پر کووڈ کے اضافے سے بے خبر تھے، حالانکہ حکومت کو خصوصی طور پر آنے والی دوسری لہر کے بارے میں متنبہ کیا گیا تھا۔

اس شام بنگال سے واپسی اور شاید ٹی وی پر دہلی کے اسپتالوں میں تباہی کی تصویریں دیکھنے کے بعد ہی اگلے دن 18 اپریل کو انہوں نے کمبھ کی مزید سرگرمیاں رد کر دیں۔ یومیہ کیس اب 275000 پر تھے، لیکن وزیر اعظم کو مالدہ، مرشد آباد، بیر بھوم اور کولکاتہ میں اپنی ریلیاں رد کرنے میں اس کے بعد بھی مزید چار دن لگے۔

انہوں نے کہا کہ ریلیاں ‘ورچوئل’ ہوں گی (حقیقت میں، اسکرین پر صرف اسپیکر ہی نظر آئے گا؛ بھیڑبھی جمع ہوگی)۔ اب تک، روزانہ 2200 اموات کے ساتھ معاملے 332000 تھے۔ جس دن وزیراعظم نے اپنی ریلیاں رد کیں، اسی دن الیکشن کمیشن نے تمام پارٹیوں کی ریلیوں پر پابندی عائد کر دی۔

اس دوسری لہر میں کوئی اور نہیں بلکہ وزیراعظم کا دفتر کووِڈ کی حکمت عملی بنا رہا تھا۔ مارچ اور اپریل 2021 میں دوسری لہر میں اضافہ کے باعث مرکزی کابینہ نے وبائی مرض سے متعلق کسی بھی  مسئلے پر بات نہیں کی۔ تاہم،  اس کی پانچ بار بیٹھک ہوئی تھی۔

اس سے پہلے اس وقت تک کا سب سے حیران کن فیصلہ 25 مارچ 2020 کو چار گھنٹے کے نوٹس کے ساتھ قومی لاک ڈاؤن کا نفاذ تھا، جو دنیا کا سخت ترین لاک ڈاؤن تھا۔ لاک ڈاؤن کی سختی کے لحاظ سے ہندوستان عالمی لیگ ٹیبل میں سرفہرست تھا   (عالمی آکسفورڈ یونیورسٹی میٹرک کے مطابق)۔

چین نے بھی لاک ڈاؤن نافذ کیا، لیکن صرف صوبہ ہوبی کے دارالحکومت ووہان میں (جہاں وبائی بیماری شروع ہوئی)، اس لیے ووہان سے باقی چین کے لیے کوئی پرواز/ٹرین نہیں چل سکی، لیکن چین نے کام جاری رکھا۔ جنوبی افریقہ نے قومی لاک ڈاؤن نافذ کیا، لیکن 4 دن (گھنٹے نہیں) کے نوٹس پر، حالانکہ جنوبی افریقہ میں ہندوستان کی آبادی کا بیسواں حصہ ہے۔

ہندوستان میں اس لاک ڈاؤن کے نتائج تباہ کن تھے؛ لاکھوں لوگ شمالی اور مشرقی ہندوستان میں اپنے گاؤں کی جانب چلے اور کئی راستے میں ہی ہلاک ہوگئے۔ انسانی تباہی کے علاوہ معیشت اور نوکریوں کا خاتمہ ناگزیر تھا؛ مالی سال 20-21 میں ہندوستان کی معیشت عالمی معیشت سے تقریباً دو گنا سکڑ گئی (3.1فیصد)، جبکہ چین کی معیشت میں اضافہ ہوا۔

اس کے بعد 11 مئی 2021 کو بھی کابینہ کی میٹنگ ہوئی تھی، جس میں اتراکھنڈ میں روپ—وے پروجیکٹ جیسی چیزوں کو منظوری دی گئی۔ 18 مئی 2021 کو مرکزی وزیر نتن گڈکری نے مزید کمپنیوں کو ویکسین بنانے کے لیے لائسنس جاری کرنے کو کہا۔ یہ بالکل وہی تھا جو منموہن سنگھ نے ایک ماہ قبل حکومت کو تجویز کیا تھا (جس کا اس وقت کے وزیر صحت ہرش وردھن نے گستاخانہ جواب دیا تھا)۔

پھر دوسری لہر کے دوران فروری سے 25 اپریل 2021 تک پی ایم نے عوامی طور پر 92 حاضری درج کروائی۔ وزیر اعظم 25 اپریل سے کمبھ اور ان کی بنگال ریلیوں کو رد کرنے کے بعد غائب ہو گئے۔ جب لوگوں کو حکومت کی سب سے زیادہ ضرورت تھی، وہ 20 دن تک عوامی طور پر نظر نہیں آئے۔

سال 2020 میں دو بار – اپریل اور نومبر میں، حکومت کو خبردار کیا گیا تھا کہ آکسیجن کی کمی ہو رہی ہے۔ایک میٹنگ کے منٹس میں واضح الفاظ میں کہا گیا: ‘ہندوستان کو آنے والے دنوں میں آکسیجن سپلائی کی کمی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔’

اگر وبائی مرض سے نمٹنے کے لیے کوئی حکمت عملی تھی تو وہ براہ راست پی ایم او سے آئی تھی۔ جیسا کہ انڈین ایکسپریس کی ہیڈ لائن میں کہا گیا ہے، ‘وبا پر قابو پانے میں کابینہ کا کوئی رول نہیں تھا، پی ایم او فیصلہ لیتا ہے’۔ اس کا خمیازہ ملک کے ہیلتھ کیئر سسٹم کو بھگتنا پڑا، جو ہمیشہ سے نازک تھا اور وبائی مرض سے پہلے بھی غریبوں کی پہنچ سے دور ہی  تھا۔

دوسری لہر سے دو مہینے پہلے21 فروری 2021 کو بی جے پی نے ایک قرارداد پاس کی۔ لکھا گیا؛ ‘یہ فخر کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی قابل، حساس، پرعزم اور دور بیں قیادت میں ہندوستان نے نہ صرف کووڈ کو شکست دی، بلکہ اپنے تمام شہریوں میں ‘آتم نربھر بھارت’ کی تعمیر کے لیے اعتماد بھی پیدا کیا۔ پارٹی کووڈ کے خلاف لڑائی میں ہندوستان کو ایک قابل فخر اور فاتح قوم کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لیے اپنی قیادت کی تعریف کرتی ہے۔’

اس کے بعد دوسری لہر آئی (ڈیلٹا) آئی ۔ 1 مارچ 2021 سے 30 اپریل 2021 کے درمیان آٹھ ہفتوں میں ہندوستان میں یومیہ معاملے 11000 سے 40 گنا  بڑھ کر 400000 سے زیادہ ہو گئے۔ دنیا کا کوئی بھی ہیلتھ کیئر سسٹم مریضوں کی اس قسم کی آمد کو نہیں سنبھال سکتا۔ شہریوں کی حفاظت کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ایسی اشیاء کو ذخیرہ کیا جائے جن کی فوری ضرورت نہیں ہوتی لیکن لہر کی شدت کی توقع میں بنائی اور خریدی جاتی ہیں۔ ہندوستان نے ایسا نہیں کیا۔

اپریل 2020 میں حکومت نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ 50000 ‘میک ان انڈیا’ وینٹی لیٹرز خریدے گی، لیکن اس بات کا تعین کرنے کے بعد کہ وبائی مرض کی پہلی لہر ختم ہو گئی ہے، بالآخر ان میں سے صرف 35000 ہی خریدے گئے۔ ماروتی جیسے کارپوریٹ نے کہا کہ انہوں نے وینٹی لیٹر بنائے ہیں، لیکن حکومت نے انہیں خریدنے کا فیصلہ نہیں کیا۔

تاہم، واحد اچھی خبر یہ تھی کہ اپریل 2021 میں ویکسین دستیاب ہوگئیں۔ ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ ٹیکہ کاری کے باوجود 45 لاکھ اضافی اموات ہوئیں۔

دریں اثنا، ملکی معیشت جو پہلے سے ہی 2017 سے 2020 کے آغاز تک نو سہ ماہیوں کے لیے سست روی کا شکار تھی، رک گئی۔ بے روزگاری، جو پہلے ہی 45 سال کی بلند ترین سطح پر تھی، اور بدتر ہوگئی۔ 2020 کی پہلی لہر کی وجہ سے زراعت میں 3.5 کروڑ نئے مزدور شامل ہوئے۔ دوسری لہر اور تیسری لہر (2022) میں اور زیادہ، جس کی وجہ سے بالآخر صرف 3 سالوں میں 6 کروڑ (60 ملین) مزدور زراعت سے منسلک ہونے پر مجبور ہوئے۔ تاریخ میں پہلے کبھی اتنی اندرونی ہجرت نہیں ہوئی تھی۔ اس لیے تنخواہوں میں گراوٹ درج کی گئی ہے۔

(سنتوش مہروترا آزاد ماہر معاشیات ہیں؛ آکار پٹیل ایمنسٹی انٹرنیشنل سے وابستہ ہیں۔)