سماجی عدم مساوات کے باعث ہیٹ ویو  کے اثرات بھی یکساں نہیں ہوتے

شدید گرمی کمزور طبقے کو غیر مساوی طور پر متاثر کرتی ہے۔ غریب محنت کشوں کو تو سکون کا لمحہ میسر ہے نہ طبی سہولیات۔ کنسٹرکشن اور ایگریکلچر ورکز تو لمبے وقت تک کھلے آسمان کے نیچے براہ راست شدید درجہ حرارت کا سامنا کرتے ہیں، ایسے میں شدید گرمی ان کے لیے جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے۔

شدید گرمی کمزور طبقے کو غیر مساوی طور پر متاثر کرتی ہے۔ غریب محنت کشوں کو تو سکون کا لمحہ میسر ہے نہ طبی سہولیات۔ کنسٹرکشن اور ایگریکلچر ورکز تو لمبے وقت تک کھلے آسمان کے نیچے براہ راست شدید درجہ حرارت کا سامنا کرتے ہیں، ایسے میں شدید گرمی ان کے لیے جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے۔

(تصویر: اتل اشوک ہووالے/ دی وائر)

(تصویر: اتل اشوک ہووالے/ دی وائر)

نئی دہلی: برصغیر شدید گرمی کی چپیٹ میں ہے ، دہلی کا درجہ حرارت مئی کے اواخر  میں 53 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا اور ناگپور میں تو  یہ 56 ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز کر گیا۔ اب جان لیوا گرمی شاید شہریوں کا مقدر بن گئی ہے۔

اس وقت لوک سبھا انتخابات چل رہے تھے اور  شدید گرمی کے باعث کئی انتخابی عملےکی موت ہوگئی اور کئی بیمار بھی ہو گئے۔

قدرتی آفات کی طرح شمالی ہندوستان میں اس مہلک گرمی نے مختلف طبقات پر الگ الگ طرح سے  اثرات مرتب کیے، جس نے ان کے درمیان گہرے سماجی و اقتصادی خلیج کو کہیں زیادہ خوفناک انداز میں اجاگر کیا۔ چنانچہ ان سماجی و اقتصادی طبقے پر گرمی کے اثرات کا تفصیلی جائزہ لیا جانا چاہیے۔

کسی فردپر ان آفات کےاثرات کا تعین کافی  حد تک اس کی اقتصادی حالت سے ہوتا ہے۔ ہم نے اپنے پچھلے مضمون میں دہلی کی بگڑتی ہوئی ہوا کےکم آمدنی والے ورکرزمثلاً ایمیزون اور سوئگی کے ڈیلیوری ورکرز پر مرتب ہونے والے سنگین اثرات کےبارے میں بات کی تھی ۔

یہاں ہم اس بات کا جائزہ لینا چاہتے ہیں کہ کس طرح شدید گرمی غیر مساوی طور پر کمزورطبقے کو متاثر کرتی ہے، کیوں موسمیاتی تبدیلی کے واقعات کے دوران اس طبقے میں بیماری اور اموات کی شرح  زیادہ ہوتی ہیں۔

پی ایل او ایس  کلائمیٹ (2022) کا مطالعہ کہتا ہے کہ شدید گرمی ہندوستان کی ترقی کی راہ میں حائل ہے۔ مطالعے میں موسمیاتی حساسیت سے متعلق  انڈیکس سی وی آئی کی مدد سے اس پہلو کا  تجزیہ کیا گیا ہے۔

مہلک ہیٹ ویو کے پائیدار ترقی کے اہداف (ایس ڈی جی ایس) پر  اثرات کا تجزیہ کیا گیا۔ یہ تحقیق موجودہ حساسیت کے جائزوں میں کوتاہیوں کو نمایاں کرتی ہے اور موسمیاتی موافقت کی حکمت عملیوں میں ہیٹ ویو کے ڈیٹا کو ضم کرنے کی ضرورت پر زور دیتی ہے۔

ہندوستان میں ان —آرگنائزڈ سیکٹر میں غریب مزدوروں کی صورت حال،  واقعی سنگین ہے۔ ہندوستان کے تقریباً 85فیصد ورکرز ان —آرگنائزڈ سیکٹر  میں کام کرتے ہیں ، جنہیں فارمل لیبر پروٹیکشن، طبی سہولیات اور سماجی تحفظ کے فوائد دستیاب نہیں ہیں۔ یہ ورکرز اکثر مناسب حفاظتی اقدامات کے بغیر کام کرنے کے انتہائی مشکل حالات کا سامنا کرتے ہیں ، جس کی وجہ سے ان کے لیے گرمی سے متعلق صحت کے مسائل کے خدشات بڑھ جاتے ہیں۔

غریب مزدور کو آرام یا سکون کا لمحہ میسر ہوتا ہے اور نہ ہی طبی سہولیات۔ کنسٹرکشن  اورایگریکلچر ورکرز جیسے گروپ، جن کے کام میں وسیع پیمانے پر بیرونی مشقت اور شدید  درجہ حرارت کے درمیان طویل وقت تک رہنا شامل ہے، ان کے لیے یہ گرمی اور بھی زیادہ جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ کسی بھی طرح کی راحت کی کوشش  یا آرام طلبی  ان کی روزی روٹی چھین سکتی ہے۔ یہ مزدور، جو بنیادی طور پر سماج کے حاشیے سے تعلق رکھتے ہیں، حفاظتی اقدامات اور آرام کے لیے کوئی مناسب وقفہ  نہ ہونے کی وجہ سے گرمی کے تناؤ اور متعلقہ صحت کے مسائل کے بڑے خطرے کا سامنا کرتے ہیں۔

ہیلتھ کیئر تک رسائی میں عدم مساوات بھی شدید گرمی کے اثرات میں تفاوت کو  بڑھاتی ہے اور طویل مدتی صحت کی عدم مساوات میں حصہ ڈالتی ہے، جس کے باعث لمبے وقت میں اس حاشیائی سماج کی آمدنی پیدا کرنے کی صلاحیتوں پر منفی اثر پڑتا ہے۔

‘ہیلتھ کیئر ایکسس اینڈ ہیٹ ویو ریجیلینس: اے سوشیو –اکنامک انالسس’ (ہیلتھ اکنامکس ریویو، 2021) کے عنوان سے شائع ہونے والے مضمون میں کمزور آبادی کے تحفظ میں ہیلتھ کیئر  کے بنیادی ڈھانچے کی اہمیت پر زور دیا  گیا ہے۔ تحقیق میں پایا گیا  کہ ہیٹ ویو اور ہیلتھ کیئر  تک رسائی کی کمی سے حاشیائی سماج  پر صحت کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کے مطابق، ان—آرگنائزڈ سیکٹر میں سماجی تحفظ اور کام پرحقوق کا فقدان ان مسائل کو مزید بڑھا دیتا ہے، جس  کے باعث ان کمزوریوں کو جامع پالیسی اقدامات کے ذریعے دور کرنا انتہائی ضروری ہو جاتا ہے۔

اقتصادی لحاظ سے کمزور طبقات پر موسمیاتی ہنگامی واقعات، بالخصوص ہیٹ ویو  کے اثرات محنت کش طبقے کے لوگوں کے رہن سہن  کے حالات اور بستیوں میں سہولیات کی کمی کی وجہ سے اوربڑھ جاتے ہیں۔ ان لوگوں کے گھر اکثر مناسب انسولیشن یا کولنگ سسٹم کے بغیر ہوتے ہیں، جو مکینوں کو شدید گرمی سے بچانے میں ناکام رہتے ہیں۔ یہ مسئلہ اربن ہیٹ آئی لینڈ افیکٹ سے مزید پیچیدہ ہو جاتا ہے۔  جہاں گنجان آباد شہری علاقے، خاص طور پر غریب محلے، دیہی ماحول سے زیادہ درجہ حرارت کا تجربہ کرتے ہیں۔

غور طلب  ہے کہ گرمی کےقہر میں شدت   اور شہر میں پانی اور بجلی کی قلت کادورانیہ  ایک ہی  ہے اور ایسے میں متمول طبقے میں بجلی اور پانی کی طلب بہت بڑھ جاتی ہے جس کی وجہ سے قلت پیدا ہوتی ہے۔ سماجی ڈھانچے ایسے ہیں کہ ان کی کٹوتی شہر کے ان حصوں میں زیادہ ہوتی ہے جہاں یہ محروم طبقے رہتے ہیں، دوسرے لفظوں میں جن  لوگوں میں  اس موسم کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت کم ہے انہیں ہی ان سے اور زیادہ  محروم کر دیا جا تا ہے۔

کام کرنے اور رہنے کے حالات کے علاوہ شدید گرمی کے منفی اثرات طلباء کی پڑھائی پر بھی گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں، خاص طور پر سرکاری اداروں میں پڑھنے والے طلباء اس سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں ۔ یہ اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں اکثر ضروری انفراسٹرکچر کی کمی کا شکار رہتے ہیں اور اس وجہ سے شدید گرمی میں سیکھنے کا سازگار ماحول فراہم نہیں کر پاتے۔

گزشتہ ہفتے بہار کے اسکولوں اور دہلی یونیورسٹی کے امتحانات کے دوران طلباء کی خراب حالت اور بگڑتی صحت کی کئی خبریں اور پریشان کن ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئے تھے۔

امتحان کے دوران یہ مسئلہ مزید بڑھ جاتا ہے۔ یہ غریب پس منظر کے طلباء کے لیے پریشانی میں مزید اضافہ کرتا ہے، جو تعلیمی اور سماجی و اقتصادی عدم مساوات کے سائیکل کو جاری رکھتا ہے۔

جیسے جیسے درجہ حرارت میں اضافہ ہوتا ہے، ضلع انتظامیہ اور ہندوستانی محکمہ موسمیات (آئی ایم ڈی) شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیےالرٹ جاری کرتے ہیں ۔ تاہم، یہ انتباہات بھی ان عدم مساوات کی عکاسی کرتے ہیں جو ہمارے ساتھ موجود ہیں؛  مثال کے طور پر، زیادہ تر عام ہدایات لوگوں کو بتاتی ہیں کہ دوپہر 12:00 بجے سے 3:00 بجے تک دھوپ سے گریز کریں، ہلکے رنگ کے، ڈھیلے اور سوتی کپڑے پہنیں، باقاعدگی سے پانی پئیں اور گھریلو مشروبات کےساتھ  ہائیڈریٹ رہیں، طبیعت کی  ناسازی پر فوری طور پر ڈاکٹر سے رابطہ کریں اورپردے اور شٹر کا استعمال کرکے گھر کو ٹھنڈا رکھیں۔

ان میں سے تقریباً کوئی بھی اقدام غریب محنت کش طبقے کے لوگ آسانی سے اپنا نہیں سکتے۔

ان ہدایات میں مشقت کے کام سے گریز کرنے ، دوپہر کو کھانا پکانے سے گریز کرنے وغیرہ کا مشورہ بھی دیا گیا ہے۔ اگرچہ یہ تجاویز مفید  ہیں، لیکن میٹروپولیٹن علاقوں میں مختلف سماجی و اقتصادی گروہوں کو درپیش حقائق کو حل کرنے کے لیے ان کو موافق اور سازگار بنانے کی ضرورت ہے۔

پالیسیوں اور مداخلتوں کو ان رکاوٹوں پر غور کرنا چاہیے اور مزید قابل رسائی، جامع حل فراہم کرنا چاہیے۔ اس میں پٹری  پر دکان لگانے والوں کے لیے سایہ دار علاقے بنانا، کچی آبادیوں میں پانی کی فراہمی کو یقینی بنانا، ہیلتھ کیئر تک رسائی کو بہتر بنانا، اور گرمی کو برداشت کرنے والے مکانات کی تعمیر میں تعاون کرنا  شامل ہو سکتے ہیں۔

اس کے ساتھ ہی شدید درجہ حرارت والے ماحول میں کام کرنے والے مزدوروں  کے لیےکام کرنے کے محفوظ حالات، لازمی آرام کے وقفے، اور حفاظتی آلات تک رسائی کو یقینی بنانا۔ موبائل ہیلتھ کلینک اور غریب ترین کارکنوں کے لیے صحت کی دیکھ بھال کے اخراجات کو سبسڈی دینا، اس کے ساتھ ہی ، خاص طور پر اقلیتی علاقوں میں گرمی کی لہروں کے دوران فوری مدد فراہم کرنے کے لیے ہنگامی ردعمل کے نظام کو مضبوط کرنا شامل ہونا چاہیے۔

مختلف سماجی طبقوں  پر شدید گرمی کے امتیازی اثرات کو سمجھنا مساوی اور جامع آب و ہوا کی پالیسیاں بنانے کے لیے اہم ہے۔ موسمیاتی تبدیلی پر مساوی کارروائی کے توسط سے حاشیائی سماج پر مرتب ہونے والے منفی اثرات کو نمایاں طور پر کم کیا جا سکتا ہے۔ سب سے کمزور لوگوں کی ضروریات کو ترجیح دے کر، جس میں غیر رسمی طور پر ملازمت کرنےوالے لوگ شامل  ہیں، ہم ایک زیادہ منصفانہ اور لچکدار معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں جو بدلتے ہوئے آب و ہوا سے پیدا ہونے والے مسائل کا بہتر طور پر مقابلہ کرنے کے قابل ہو۔

(وجیندر سنگھ چوہان اور شیریں اختر ذاکرحسین دہلی کالج، دہلی یونیورسٹی میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔)